بلوچستان میں چہروں کی تبدیلی

مسلم لیگ (ن) کے صوبائی قیادت کی جانب سے بغاوت کی دھمکی نے وزیراعظم نواز شریف کو مری معاہدے پر عمل کرنے پر مجبور کردیا۔

نواب ثناء اللہ زہری کا وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنا چہروں کی تبدیلی کا وہ تسلسل ہے جسے صوبے کے عوام کئی عرصے سے دیکھتے آئے ہیں۔ فوٹو :فائل

لاہور:
بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی اور ڈاکٹر مالک بلوچ کی جگہ نواب ثناء اللہ زہری کا وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنا چہروں کی تبدیلی کا وہ تسلسل ہے جسے صوبے کے عوام کئی عرصے سے دیکھتے آئے ہیں اس لئے اس تبدیلی کو مخصوص سیاسی حلقوں کے سوا عوامی سطح پر کوئی خاص توجہ نہ مل سکی۔

کیونکہ صوبے کے حالات میں نمودار ہونے والی بہتری کے آثار تیزی سے جاری ان کارروائیوں کی نذر ہوگئے ہیں جس کے تحت سیکیورٹی فورسز کی جانب سے آواران، تربت، خضدار، سبی، بولان ، دالبندین، خاران، بیسیمہ، پنجگور، گوادر، مستونگ، قلات اور لسبیلہ کے اضلاع کی مختلف علاقوں میں متعدد مبینہ مزاحمت کار قتل و گرفتار کئے گئے اور انٹیلی جنس کی بنیاد پر کی جانے والی تلاشی کے ان کارروائیوں کے دوران مکران ڈویژن کے کچھ علاقوں میں گھروں کو بھی جلایا گیا۔ جس کا اثر عام افراد کی زندگی پر پڑتا ہے۔ جبکہ ان کارروائیوں کے ردعمل میں علیحدگی پسند بلوچ تنظیموں کی جانب سے شٹر ڈاؤن ہڑتالوں کی دی جانے والی کالیں بھی ہیں۔ جن کے خلاف اب سیکیورٹی فورسز کھل کر میدان میں آگئیں اور اس سلسلے میں باقاعدہ اخبارات میں ان کی جانب سے بیان جاری کئے گئے جس میں علیحدگی پسندوں کی ہڑتالیں ناکام بنانے اور عوام سے دکانیں بند نہ رکھنے کی اپیل کی گئی۔ اس صورتحال میں صوبے کے تاجر بھی صحافیوں کی طرح سیکیورٹی اداروں اور علیحدگی پسندوں کے درمیان سینڈوچ بن گئے، اس لئے صوبے کے حالات کو عام لوگوں کے لئے سازگار نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بلوچستان میں اب بھی کسی نہ کسی سطح پر سیکیورٹی ایجنسیوں اور مسلح علیحدگی پسندوں میں کشمکش جاری ہے۔

مئی 2013ء میں الیکشن مہم کے دوران نو منتخب وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے قافلے پر خضدار کے علاقے زہری میں ریموٹ کنٹرول بم حملے میں ان کا بیٹا سکندر زہری، بھائی مہراللہ زہری اور بھتیجے میر زیب زہری سمیت متعدد افراد جان سے گئے جس کی ذمہ داری 2002ء کو بننے والی بلوچستان کی علیحدگی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔ جس کے متعلق نواب ثناء اللہ زہری کا ہی دعوی ہے کہ اس تنظیم کو مرحوم نواب خیر بخش مری کے لندن میں مقیم صاحبزادے نوابزادہ حیربیار مری چلا رہے ہیں۔ اس واقعے کے بعد نواب ثناء اللہ زہری نے بظاہر جذبات میں آکر بلوچستان کے نمایاں قوم پرست رہنماء نواب خیر بخش مری و ان کے صاحبزادے حیربیار مری، سردار عطاء اللہ مینگل و اس کے صاحبزادوں اختر مینگل و جاوید مینگل اور مکران میں مزاحمتی کارروائیوں کے سرگرم علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔ لیکن بعد میں نواب ثناء اللہ زہری نے یہ کہہ کر وہ ایف آئی آر خود ہی واپس لے لی کہ ان کی جانب سے قبائلی سطح پر کی جانے والی تحقیقات میں ایسی کوئی بات سامنے نہ آسکی۔

11 مئی 2013 کے انتخابات کے بعد جب بلوچستان کی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو صوبائی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر کی حیثیت سے نواب ثناء اللہ زہری ہی وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار تصور کئے جانے لگے۔ لیکن 2 جون کو سیاحتی مقام مری میں ہونے والے معاہدے کے تحت صوبائی اسمبلی کی 65 میں صرف 8 نشستیں حاصل کرنے والی قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو ڈھائی سال کے لئے وزیر اعلیٰ بلوچستان منتخب کیا گیا جنہوں نے بعد ازاں پشتونخوامیپ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے مخلوط حکومت بنائی۔ صوبے کے اکثر سیاسی حلقوں نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے اس فیصلے کو صوبے کے حالات سے ہم آہنگ قرار دیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب نواب ثناء اللہ زہری کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی اور انہوں نے اپنے خاندان کے افراد کے قتل کی ایف آئی آر صوبے کے اہم قوم پرست رہنماؤں کے خلاف درج کی تھی۔ تو اگر وہ وزیراعلی بن جاتے توکشیدگی کی فضاء پیدا ہوسکتی اور یہ کشیدگی خون خرابے میں بدل سکتی تھی۔

دوسری جانب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ بلوچستان نامزد کرنا بھی مذکورہ کشیدہ صورتحال میں کمی کا سبب بنی کیونکہ انہوں نے اپنے دور میں نواب ثناء اللہ زہری کی مرضی کے خلاف بہت سے فیصلے کئے جس کی شکایت وہ اکثر کرتے رہے اور اس بات کو لے کر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی نے نہ صرف کئی دنوں تک بلوچستان اسمبلی کی کارروائیوں سے بائیکاٹ کیا بلکہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف تک یہ شکایت بھی پہنچائی گئی کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ن لیگ کے وزراء کو نظر انداز کرکے انہیں بے اختیار بنا رہے ہیں۔ لیکن نواز شریف کی جانب سے کوئی قابل ذکر ردعمل سامنے نہیں آیا۔

مری معاہدے کے بعد فوری طور پر تو اس کی تشہیر نہیں کی گئی لیکن رواں سال ڈاکٹر مالک بلوچ سے نالاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین صوبائی اسمبلی کسی طرح یہ معاہدہ منظر عام پر لائے جس پرصوبے کے کچھ سیاسی حلقوں نے تنقید کے تیر بھی چلائے اور اسے اسلام آباد کی جانب سے صوبے کی قسمت کا فیصلہ قرار دے کر بلوچستان کے سیاسی قیادت کی توہین کہا گیا۔ مری معاہدے کے تحت وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ کی مدت 4 دسمبر کو ختم ہونی تھی لیکن مقررہ وقت پر پاکستان مسلم لیگ (ن) قیادت کی جانب سے کوئی فیصلہ نہ کرنے پر ان چہ میگوئیوں کو تقویت ملنے لگی جس کے تحت کہا گیا کہ شاید ڈاکٹر مالک بلوچ کو توسیع ملے گی اور اس بات کی توثیق نہ صرف بی بی سی جیسے معتبر ادارے نے اپنے تجزیاتی رپورٹ میں بھی کی بلکہ 7 دسمبر کو صوبے کی ایک موقر روزنامے نے تو مری معاہدے کی معطلی اور میاں نواز شریف کی جانب سے ڈاکٹر مالک بلوچ کو بطور وزیر اعلیٰ برقرار رکھنے کے فیصلے کا دعوی کرتے ہوئے اس خبر کو اپنی سپر لیڈ اسٹوری کے طور پر شائع کیا۔

جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ صوبے میں امن و مان کی صورتحال بہتر بنانے اور مفاہمت کی فضاء تشکیل دے کرجلا وطن بلوچ رہنماؤں خان قلات اور براہمدغ بگٹی کو مذاکرات پر راضی کرنے کے سبب فوجی اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹر مالک بلوچ سے مطمئن ہے۔ اس لئے صوبے میں فعال کردار ادا کرنے والے سابق کورکمانڈر اور موجودہ قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ ڈاکٹر مالک بلوچ کو بطور وزیر اعلیٰ برقرار رکھنے کی کوششوں میں پیش پیش ہیں۔ جس کے لئے ناصر جنجوعہ کے کورکمانڈر کی عہدے سے ریٹائرمنٹ کے وقت اس تقریر کا بھی حوالہ دیا گیا۔ جس کے تحت 10 منٹ تک وہ صرف ڈاکٹر مالک بلوچ کی صلاحیتوں اور کاکردگی کی تعریف کرتے رہے۔ لیکن غیر متوقع طور پر10 دسمبر کو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اسلام آباد میں صوبے کے متعلق ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد مری معاہدے پر عمل کرتے ہوئے نواب ثناء اللہ زہری کو وزیر اعلیٰ بلوچستان نامزد کر دیا۔ جنہوں نے 24 دسمبر کو اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھالیا جس سے ایک روز قبل ڈاکٹر مالک بلوچ مستعفی ہوگئے۔


دوسری جانب مری معاہدے پر عمل نہ کرنے کی صورت میں بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے صوبائی قیادت کی جانب سے بغاوت کرنے اور ڈاکٹر مالک بلوچ کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت اعلیٰ سے محروم کرنے کے اشارے بھی ملے تھے جبکہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے مشیروں اور قریبی ساتھیوں نے یہ بھی گوش گذار کیا تھا کہ اگر مری معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا صوبہ بلوچستان میں پارٹی کا صفایا بھی ہوسکتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں چہروں کی تبدیلی صوبے کے حالات پر کس قدر اثر انداز ہوگی؟ بہت سے سیاسی حلقے ابھی تک اس قسم کی تبدیلیوں کو سطحی سمجھتے ہیں جن کا خیال ہے کہ صوبے کی قسمت کا فیصلہ اب بھی اسٹیبلشمنٹ طے کرتی ہے۔ جس کے حق میں وہ الیکشن میں ہونے والی سلیکشن کے مبینہ تیز رفتار عمل کی مثال بھی دیتے ہیں جس کے تحت جیت کا اعلان ہونے کے باوجود بہت سے امیدواروں کو ہار کا راستہ دکھایا جاتا ہے اور ہارنے والوں کو جیت کا سہرا باندھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان سے گذرنے والی حالیہ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور، گوادر پراجیکٹ اور صوبے کے معدنی وسائل نے اس کی سیاسی و اقتصادی اہمیت میں اضافہ کردیا ہے اس لئے اسٹیبلشمنٹ کا صوبے کے معاملات میں عمل دخل بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں صوبے کی سیاسی حکومتیں محض انتظامی امور تک محدود ہوکر اہم فیصلے کرنے سے محروم رہ جائیں گیں۔

جس کی مثال ڈاکٹر مالک بلوچ کا دور بھی تھا جس میں وہ صوبے کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے چاغی میں چینی کمپنی کے زیر انتظام چلنے والے سونے اور کاپر پیدا کرنے والے منصوبے سیندک پراجیکٹ سے صوبے کو کوئی خاص فائدہ نہ ملنے کی شکایت کھلےعام کرتے رہے۔ لہذا ایسے حالات میں حکومتی سطح پر ہونے والی تبدیلی محض چہروں کی تبدیلی ثابت ہوگی جس سے صوبے کے عوام کی زندگیوں پر کسی بھی قسم کے دیرپا اثرات کی توقع محض وقت کا زیاں سمجھا جائے گا اور یہی صورتحال پارلیمانی سیاست سے لوگوں کی اکثریت کا اعتماد کو ختم کرکے انہیں ان علیحدگی پسندوں کی باتوں پر غور کرنے کے لئے مجبورکرے گی۔ جو پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ کہہ کر صوبے کے مسائل کا حل مسلح مزاحمت کو قرار دیتے ہیں۔

اس لئے اب فیصلہ حکمران طبقہ کو ہی کرنا ہے کہ وہ بلوچستان کو معاشی و سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے دیکھتے رہیں گے یا سیاسی کھڑکی کھولنے کی کوشش بھی کریں گے۔

[poll id="849"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story