نوشہرہ میں درگاہ پر دھماکا

کاکا صاحب کا مزار خیبر پختونخوا کی مشہور اور قدیم زیارتوں میں سے ایک ہے۔


Editorial October 29, 2012
کاکا صاحب کا مزار خیبر پختونخوا کی مشہور اور قدیم زیارتوں میں سے ایک ہے۔ فوٹو ایکسپریس

لاہور: خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ میں عیدالاضحی کے دوسرے دن صوفی معروف بزرگ سید کستیر گل المعروف کاکا صاحب کے مزار کو دہشت گردوں نے دھماکا خیز مواد سے نشانہ بنایا گیا' جس میں کم سے کم چار افراد جاں بحق اور دو درجن کے قریب زخمی ہوگئے۔

یہ زیارت نوشہرہ سے پندرہ کلو میٹر دور ہے اور اِن دنوں وہاں عید میلہ جاری تھا۔اطلاعات کے مطابق عید میلے میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ایک بم دھماکا تھا جسے ایک سائیکل میں نصب کیا گیا تھا اور اسے ٹائمر کے ذریعے اڑایا گیا۔بے گناہ اور معصوم انسانوں کو اس طرح قتل کرنا ، دنیا کے کسی مذہب اور قانون میں جائز نہیں ہے۔دہشت گردوں نے عید کے ایام میں بھی بے رحمی کے رویے کو ترک نہیں کیا۔ اِس زیارت پر گزشتہ سال بھی بم دھماکا کیا گیا تھا۔ اس وقت اس کی ذمے داری طالبان نے قبول کی تھی۔اس بار فی الحال کسی نے اس دھماکے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔

کاکا صاحب کا مزار خیبر پختونخوا کی مشہور اور قدیم زیارتوں میں سے ایک ہے۔ بعض مؤرخین تو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ مغل بادشاہ اکبر کاکا صاحب سے ملاقات کے لیے آیا کرتے تھے اور انھوں نے وہاں سرائے بھی بنوائی تھی۔ خیبر پختونخوا میں اس سے پہلے بھی مشہور صوفی شعراء اور بزرگ شخصیات کے مزاروں کو بم دھماکوں سے اڑایا گیا گیا ہے ۔رحمٰن بابا، امیر حمزہ خان شنواری، پیر بابا اور اجمل خٹک کے مزاروں پر دھماکا خیز مواد کے ساتھ حملے کیے گئے ہیں۔دہشت گردی کی ان وارداتوں میں بڑی تعداد میں لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔لاہور میں داتا دربار اور کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر بھی دہشت گردوں نے دھماکے کیے' جنوبی پنجاب میں درگاہوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

صوفیا کرام کے مزاروں اور درگاہوں کو نشانہ بنانے والوں کا بنیادی مقصد ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینا ہے' دہشت گرد خاصے عرصے سے پاکستان کے عوام کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرکے خانہ جنگی کرانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔پاکستان کے عوام نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھا ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے نوشہرہ میں مزار پر دھماکے کی سخت مذمت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ شدت پسند معصوم لوگوں کو نشانہ بنا کر اپنا اصل چہرہ دکھا رہے ہیں۔

دہشت گردوں کے عزائم ، ترجیحات اور منصوبے اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔یہ لوگ مذہب کی آڑ میں سیاسی ایجنڈے کو لے کر ریاست کے ساتھ برسرپیکار ہیں اور ا ن کا مقصد ریاست پر بندوق کے زور پر قبضہ کرنا ہے۔پاکستان اور دہشت گردوں کے درمیان یہ لڑائی کئی برس سے چل رہی ہے ۔حالیہ دنوں میں شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کی خبریں آنے کے بعد ملک میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پشاور اور قبائلی علاقوں میں ہونے والے حالیہ بم دھماکوں اور حملوں سے عسکریت پسند یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کا نیٹ ورک فعال ہے۔اس قسم کی وارداتوں سے وہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کے عوام کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں۔ پشاور شہر میں دو تین ہفتوں کے دوران دو دھماکے ہوچکے ہیں۔

ایک دھماکا پشاور کے علاقے متنی میں جب کہ دوسرا یونیورسٹی ٹاون میں ہوا تھا۔ ادھر قبائلی علاقوں میں بھی شرپسند سر اٹھانے کو کوشش کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جنوبی وزیرستان میں ایک فوجی چوکی پر حملے کی کوشش کی گئی تھی حالانکہ اس ایجنسی میں سیکیورٹی فورسز کا مکمل کنٹرول ہے ۔ حالیہ دنوں میں باجوڑ ایجنسی کی تحصیل سلارزئی میں بھی شدت پسندوں نے سیکیورٹی فورسز پر متعدد حملے کیے ہیں جس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کی ۔ان جھڑپوں میں ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔

ادھر پشاور سے ملحقہ خیبر ایجنسی میں شدت پسندوں کے خلاف سیکیور ٹی فورسز اور ایف سی اہلکاروں کی کارروائی مسلسل جاری ہے۔ادھر لوئر اورکزئی ایجنسی کے علاقے شیخان میں شدت پسندوں نے ایف سی کے ایک اہلکار کو قتل کردیا۔اس تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ دہشت گرد یا عسکریت پسند ریاستی اداروں کے لیے مسلسل مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سیٹلٹڈ ایریاز اور اس کے شہروں کے ساتھ قبائلی علاقے شروع ہوجاتے ہیں۔اس لیے پولیس کے لیے یہ انتہائی مشکل ہے کہ وہ پشاور ، بنوں ، کوہاٹ اور ٹانک میں مکمل امن قائم کرسکیں، ان شہروں کی کاروباری سرگرمیاں بھی اسی لیے متاثر ہوتی ہیں کہ ان کے ساتھ قبائلی علاقے موجود ہیں۔ دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر ان علاقوں میں آسانی سے فرار ہوجاتے ہیں اور وہاں پولیس کچھ نہیں کرسکتی۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں دہشت گرد موجود نہیں ہیں۔

کراچی کی صورتحال سب کے سامنے ہے ۔ پنجاب میں ان کا ایک مضبوط نیٹ ورک موجود ہے۔بلوچستان میں یہ لوگ دوسرے گروہوں کے ساتھ تعلق جوڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردوں نے اپنی کارروائیوں سے اس ملک اور قوم کو جو نقصان پہنچایا ہے' وہ سب کے سامنے ہے' دہشت گردوں نے فرقہ واریت کا ہتھیار استعمال کر کے عوام کو باہم دست و گریباں کرنے کی کوشش کی' انھوں نے مساجد' امام بارگاہوں اور اولیاء اللہ کی درگاہوں کو خون سے سرخ کیا' اس کے ساتھ ساتھ کاروباری مراکز میں خود کش دھماکے کیے' جن میں اب تک ہزاروںبے گناہ مسلمان جاں بحق ہو چکے ہیں۔

یہی نہیں دہشت گردوں نے حساس اداروں کے دفاتر کو نشانہ بنایا' پولیس اسٹیشن پر حملے کیے' ان وارداتوں نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا یا' 2008ء میں دہشت گردوں نے سوات کو یرغمال بنا لیا تھا' جنوبی وزیرستان پر بیت اللہ محسود چھایا ہوا تھا' اس صورتحال نے عالمی سطح پر پاکستان کو ایک ایسے ملک میں تبدیل کر دیا' جہاں دہشت گرد ریاست کو چیلنج کررہے تھے' اس صورت میں پاک فوج کو آپریشن کر کے ان علاقوں کو دہشت گردوں سے آزاد کرانا پڑا' اب سوات میں ملالہ کے واقعے کے بعد ایک بار پھر دہشت گرد سر اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان کی حکومت کا عزم صدر زرداری کے بیان سے واضح ہو جاتا ہے' اب یہ بات سب پر عیاں ہے کہ دہشت گردوں کے معاملے پر عوام کے منتخب نمایندہ اور قوم کے موقف اور نظریے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی اس حوالے سے کلیئر ہیں' قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی جاری ہے۔ ان حالات میں دہشت گرد ملک میں وارداتیں کرکے ایسا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ابھی تک اس پوزیشن میں ہیں کہ آزادانہ کارروائیاں کر سکتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ دہشت گرد بتدریج کمزور ہو رہے ہیں' ان کے مراکز تباہ ہو رہے ہیں اور وہ ادھر ادھر چھپ چھپا کر خود کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ حکومت کی موثر منصوبہ بندی سے عیدالاضحی پر ملک پر سکون رہا' نوشہرہ میں جو سانحہ رونما ہوا' اسے دہشت گردوں کی انتہائی پست ذہنیت قرار دیا جا سکتا ہے' ورنہ عوام کے ردعمل اور حکومت کے عزم سے ان پر یہ حقیقت واضح ہے کہ وہ زیادہ دیر تک اپنی مذموم اور ملک دشمن سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے' حکومت کو اس حوالے سے اپنی سخت پالیسی جاری رکھنی چاہیے تاکہ دہشت گردوں کے ٹھکانے مکمل طور پر ختم ہو سکیں اور ملک و قوم سکھ کا سانس لے سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں