ذکر کچھ داتا کی نگری کا
جرم کا نشانہ بننے والا جب فریاد کے لیے تھانے جاتا ہے تو اس کا وہاں کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے تو لاہور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا دارالخلافہ ہے۔
کراچی کو اگر شہر قائد ہونے کا اعزاز حاصل ہے تو لاہور کو شہر اقبال ہونے پر فخر ہے۔کراچی اگر عبداﷲ شاہ غازیؒ کا نگر ہے تو لاہور داتا صاحب کی نگری ہے۔ دونوںہی شہر اپنی اپنی اہمیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امن عامہ کے اعتبار سے دونوں ہی شہروں کے حالات قطعی غیر تسلی بخش ہیں۔ کراچی قاتلوں کی جنّت ہے تو لاہور ڈکیتوں کی آماج گاہ ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی حکمرانی کے بڑے چرچے ہوا کرتے تھے، مگر آج کے میاں شہباز شریف لاہور شہر کے حالات کے آگے عملاً بے بس نظر آتے ہیں۔ اوروں کی بات چھوڑیے، اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے کے مصداق خود ان کے داماد صاحب پر یہ الزام آگیا کہ انھوں نے ایک بیکری کے ملازم کو بری طرح زدو کوب کیا ہے یا کرایا ہے۔
مگر یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی کیونکہ مثل مشہور ہے کہ ''سیّاں بھئے کوتوال، ڈر کاہے کا'' مگر اسے حالات کا جبر کہیں یا مصلحت کا تقاضا کہ میاں شہباز کو اپنے نام کی لاج رکھنے کی خاطر اپنے پسر نسبتی کے سر سے دستِ شفقت اٹھاتے ہوئے انھیں قانون کے حوالے کرنا پڑا۔ بہرحال یہ اقدام کرکے انھوں نے ایک اچھی روایت قائم کی ہے جس کی باقی تمام لوگوں کو آیندہ پیروی کرنی چاہیے۔ ویسے ان کی گلوکاری بھی نہایت قابلِ ستایش ہے۔ داتا کی نگری میں ڈاکوئوں اور لٹیروں نے اندھیر نگری مچائی ہوئی ہے۔
ابھی چند روز قبل کا واقعہ ہے کہ ڈاکو ایک منی چینجر سے ایک کروڑ 30 لاکھ روپے لوٹ کر لے گئے۔ ڈکیتی کا یہ واقعہ دن دہاڑے ہوا۔ بے شرم ڈاکوئوں نے عظیم گلوکار غلام علی تک کو نہیں بخشا اور وہ ان سے 80 لاکھ روپے کی خطیر رقم لوٹ کر لے گئے جو اس فنکار کی خون پسینے کی کمائی تھی۔ عالم یہ ہے کہ ڈاکو بے خوف و خطر لاہور میں کھلے بندوں دندناتے پھررہے ہیں اور شہر کی پولیس محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ڈکیتی کی جن وارداتوں کا تذکرہ ہم نے ابھی ابھی آپ سے کیا ہے، انھیں محض نمونہ سمجھیے۔ زندہ دلانِ لاہور حیران و پریشان ہیں کہ کیا کریں کیونکہ کھلم کھلا لوٹ مار کا سلسلہ اب ان کے گھر کی دہلیز تک آپہنچا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ڈکیتی کی کوئی واردات نہ ہوتی ہو۔
ابھی گزشتہ دنوں منعقدہ ایک تقریب میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے دکھے دل سے اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ لاہور کی پولیس جرائم کی روک تھام میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے، حالانکہ حکومت نے اس پر بے تحاشا پیسہ بھی خرچ کیا ہوا ہے۔ یہ بات واقعی نہایت افسوس ناک ہے کہ پولیس پر پانی کی طرح پیسہ بہانے کے باوجود پولیس اسٹیشن کے کلچر میں رتّی برابر تبدیلی نہیں آئی ہے۔ میاں شہباز شریف کے سابق وزارت اعلیٰ کے دور اور موجودہ وزارت اعلیٰ کے دور میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
جرم کا نشانہ بننے والا جب فریاد کے لیے تھانے جاتا ہے تو اس کا وہاں کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ پولیس کی بے حسی اور سخت نااہلی کے باعث چوروں اور ڈاکوئوں کے حوصلے روز بروز بلند سے بلند تر ہورہے ہیں۔ چوریوں اور ڈکیتیوں کی وارداتوں میں بے تحاشا اضافے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ رپورٹ درج کرانے والے کی تھانے کے چکر لگا لگا کر جوتیاں گِھس جاتی ہیں اور تفتیش و گرفتاری میں بہت سا قیمتی وقت ضایع ہوجاتا ہے۔ پولیس والوں کی مٹھی گرم کرنے کا دائمی اور ناقابلِ حل مسئلہ اس کے علاوہ ہے۔ پولیس کا تفتیشی نظام اسی پرانی ڈگر پر چل رہا ہے۔ اس پس منظر میں ہمیں میاں شہباز شریف کی اس خواہش پہ ہنسی آتی ہے کہ وہ لاہور کو پیرس بنانا چاہتے ہیں۔
شریف برادران سے ملنے کا اتفاق ہمیں آج تک نہیں ہوا۔ بس ان کے متعلق اچھے برے قصّے ہم نے محض لوگوں کی زبانی سنے ہیں۔ ان میں ان کے قصیدہ گو بھی شامل ہیں اور ان کے ہجو گو بھی۔ دونوں طرف سے جو کچھ بھی کہا جاتا ہے اس میں حقیقت کا رنگ کم اور مبالغہ آرائی کا رنگ بہت زیادہ اور گہرا ہوتا ہے۔ درباری سیاست میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے اور تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے۔ اس میں سخن فہمی کا حصّہ کم اور غالب کی طرف داری کا حصّہ کچھ زیادہ، بلکہ ضرورت سے بھی زیادہ ہی ہوتا ہے۔ میاں شہباز شریف اگرچہ ہیں تو پورے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ، مگر ان کی نظر کرم کا اصل مرکز لاہور ہی رہا ہے۔
وہ صوبے کے زیادہ تر وسائل اس کے دارالخلافے پر ہی نچھاور کررہے ہیں۔ مگر شاید یہ ایک فطری امر ہے جس کی تاریخ میں بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ امیر تیمور نے بھی اپنے مال غنیمت کا بیشتر حصّہ سمرقند پر ہی خرچ کیا تھا۔ اس لیے اس میں حیرت اور شکایت کی کوئی بات نہیں ہے کہ چھوٹے میاں صاحب نے سستی روٹی اسکیم کا 45 فیصد لاہور پر ہی خرچ کیا تھا۔ نئے نئے پلوں اور نئی نئی شاہراہوں کی تعمیر بھی اگر زیادہ تر لاہور ہی میں ہورہی ہے تو اس میں بھی گلے شکوے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ میٹرو بس سروس بھی اگر لاہور ہی میں چلائی جارہی ہے میاں شہباز شریف کے راج میں پنجاب کے دیگر علاقوں کے لوگوں کو سردمہری کی جو شکایت ہے وہ یقیناً بجا ہے اور ان کا یہ شکوہ بالکل جائز ہے کہ:
دل توڑنے والے دیکھ کے چل
ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں
لاہور اور رائے ونڈ کے علاوہ پنجاب کے دیگر 36 اضلاع میں بھی تو آخر ویسے ہی انسان بستے ہیں۔ میاں صاحب! ان بے چاروں کا آخر کیا قصور ہے؟ کیا آپ ان کے وزیراعلیٰ نہیں ہیں؟ کیا ان کا یہ کہنا درست نہیں کہ:
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی
لاہور سے ہی ایک ناخوش گوار خبر یہ سننے کو ملی کہ بھارت میں اپنی گلوکاری کا لوہا منوانے والی سارہ رضا خان کا کچھ قیمتی سامان لاہور ایئر پورٹ پر چوری ہوگیا جس میں ان کے قیمتی کپڑے اور زیورات بھی شامل تھے۔ متذکرہ بالا دونوں خبروں میں ایک فرق قطعی نمایاں ہے اور وہ یہ کہ سارہ رضا خان نے میرا کی طرح درگزر سے کام لینے کے بجائے چوری کے اس واقعے پر اچھا خاصا واویلا مچادیا اور ان کا یہ اقدام اس لیے بجا تھا کہ یہ ان کی حق حلال کی کمائی تھی۔
لاہور سے موصولہ ناخوشگوار خبروں کے بعد انتہائی خوش گوار واقعہ وہاں الحمرا ادبی کانفرنس کا انعقاد ہے، جسے اگر تازہ ہوا کا جھونکا کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ اس میں مقامی اور غیر مقامی اہلِ قلم اور دانش وروں کی شرکت نے عرصۂ دراز سے چھائے ہوئے جمود کو توڑ کر ایک صحت مند فضا پیدا کردی۔ عطاء الحق قاسمی نے اس کانفرنس کا مسلسل تیسری بار انعقاد کرکے گویا اپنی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی۔ عطاء الحق قاسمی سے ہمارا غائبانہ تعارف ہے، البتہ ان کے فکاہیہ شاعر بھائی ضیاء الحق قاسمی (مرحوم) سے کراچی میں ہماری بڑی یاد اﷲ ہوا کرتی تھی۔
عطاء الحق قاسمی نے تسلسل کے ساتھ ان کانفرنسوں کا انعقاد کرکے اس حقیقت پر مہرِ ثبوت ثبت کردی کہ وہ نہ صرف ایک بلند پایہ شاعر و نثر نگار اور اعلیٰ درجہ کے ڈراما نویس ہیں بلکہ بڑے زبردست منتظم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنی سفارت کاری کا لوہا بھی منوا چکے ہیں۔ اہلِ قلم کی گراں قدر خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازنا اس کانفرنس کی نمایاں خصوصیت تھی۔ پاکستان بھر کے نمایندہ شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں پر مشتمل یہ خوبصورت اجتماع درحقیقت ایک رنگا رنگ ادبی و ثقافتی میلہ تھا۔ مادّہ پرستی کے اس دور میں اس قسم کی تقریبات کا انعقاد گھٹن آمیز فضا میں آکسیجن کی فراہمی کے مترادف ہے۔
بلاشبہ دورِ حاضر میں ادب اور موسیقی سمیت تمام فنون لطیفہ کتھارسس کا موثر ترین ذریعہ ہیں۔ ہمارے موجودہ معاشرتی حالات کا شدید ترین تقاضا یہ ہے کہ صحت مند سرگرمیوںکو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے تاکہ تشدد، عصبیت اور نفرت کا خاتمہ کرکے انسانی بھائی چارے کو پروان چڑھایا جائے۔ الحمدﷲ یہی فریضہ عروس البلاد کراچی میں انجام دینے میں آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی نہایت تندہی کے ساتھ انجام دینے میں مصروفِ عمل ہے، جس کے علم برداروں میں اس کے صدر احمد شاہ اور نائب صدر محمود احمد خان روز و شب سرگرم ہیں۔ کالم کے اختتام پر لاہور کے حوالے سے تاریخی پاک ٹی ہائوس کی بحالی سے متعلق زبردست گرما گرم خبر۔ مگر اس خوش گوار خبر نے زیلنز کافی ہائوس اور کیفے جارج کے حوالے سے کراچی کے ادب دوستوں کے مندمل زخم ہرے کردیے ہیں جہاں بھی شہر بھر کے ادیبوں اور شاعروں کی پررونق بیٹھکیں ہوا کرتی تھیں۔