جمہوری نظام کی کامیابی کا راستہ
ہمارے سیاست داں دن رات جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں مگر عملاً ان کا جمہوریت سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔
ہمارے سیاست داں دن رات جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں مگر عملاً ان کا جمہوریت سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان میں سے کسی کا مزاج بھی جمہوری نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی اپنی اپنی جماعتوں کا چلن بھی جمہوریت سے عاری ہے۔ تلخ مگر سچی اور کھری بات یہ ہے کہ آمریتوں کے گملوں میں پروان چڑھنے والے پودوں پر جمہوریت کے پھول بھلا کیونکر کھل سکتے ہیں۔ ان پھولوں کی خاصیت کاغذی پھولوں جیسی ہے اور بقول شاعر:
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
ہمارے یہاں آج تک جو جمہوریت رائج ہے وہ درحقیقت جمہوریت کے نام پر رچایا جانے والا ناٹک ہے۔ وطن عزیز کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ پہلے یہاں جاگیردار طبقہ مسند اقتدار پر قابض رہا اور اس کے بعد اس پر ساہوکاروں اور صنعتکاروں نے قبضہ کرلیا جن کا کمال یہ ہے کہ:
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
ہمارے رہنما باتیں تو عوام کی فلاح و بہبود کی کرتے ہیں اور اپنے اپنے منشوروں میں تذکرے بھی عوام کی بھلائی کے ہی کرتے ہیں لیکن ان کی اصل منزل حصول اقتدار ہی ہے۔ عوامی مسائل کا ذکر اور عوامی نعروں کا وجود محض ایک فریب ہے۔ یہ وہ جال ہے جسے بچھا کر ملک کے بھولے بھالے عوام کو دام میں پھنسایا جاتا ہے۔ ہمارے لیڈران کرام پر اکبر الہ آبادی کا یہ شعر حرف بہ حرف صادق آتا ہے:
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
ہمارے سیاسی قائدین کی غالب اکثریت بہروپیوں کی سی ہے جو جہاں جاتے ہیں وہاں کے لوگوں کے دل جیتنے کے لیے وہاں کا لباس زیب تن کرلیتے ہیں۔ مثلاً خیبرپختونخوا جانے کی ضرورت پیش آئی تو سر پر کلغی اور کلاہ سجالی، سندھ جانا پڑا تو سندھی ٹوپی اور اجرک کا سہارا لے لیا، بلوچستان کا دورہ ہوا تو بلوچی ٹوپی سر پر پہن لی اور پنجاب جانا پڑا تو وضع قطع پنجابی ثقافت کے مطابق اختیار کرلی۔ گویا گنگا گئے تو گنگا داس اور جمنا گئے تو جمنا داس بن گئے۔ بس برسوں سے یہی ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں اور عوام الناس کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن چونکہ اب سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے کرہ ارض کی طنابیں کھینچ کر دنیا کو سمیٹ کر گلوبل ولیج میں تبدیل کردیا ہے تو حالات سے مجبور ہوکر ہمارے لیڈران کرام نے بھی اپنے پینترے بدلنے شروع کردیے ہیں۔ بقول شاعر:
نئے جال لائے پرانے شکاری
وطن عزیز کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نام نہاد جمہوریت کی بندوق سادہ لوح عوام کے کندھوں پر رکھ کر چلائی جا رہی ہے۔ حاکمیت کا مالک عوام کو کہا جاتا ہے لیکن عملاً ان کے ساتھ رعیت اور غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس میں سابق حکمراں بھی شامل ہیں اور موجودہ حکمراں بھی۔ جمہوریت کے نام پر Musical Chairs کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور حکمرانی کی باریاں لگائی جا رہی ہیں۔ ریاستی ادارے محض کہنے کی حد تک عوام کے سامنے جواب دہ ہیں جب کہ عملاً ان کی حیثیت ان کی کٹھ پتلیوں جیسی ہے جن کی ڈوریاں حکمرانوں اور ان کے حواریوں اور حاشیہ برداروں کے ہاتھوں میں ہیں۔ بے چارے غریب عوام کی حیثیت تو اس سیڑھی کی سی ہے جسے استعمال کرکے ہمارے حکمراں مسند اقتدار تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان سے آج تک ایک مخصوص طبقہ ہی کرسی اقتدار پر قابض ہے۔ اس مملکت خداداد کی تاریخ پر صرف ایک سرسری سی نظر ڈالنے سے ہی یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں سیاست کی اصل حیثیت ایک منفعت بخش کاروبار کی ہے جس میں دولت مند لوگ باقاعدہ سرمایہ کاری کرتے ہیں اور خاطر خواہ منافع کماتے ہیں۔ ان حالات میں عام آدمی کے لیے سیاسی نظام میں داخل ہونے کی ذرا سی بھی گنجائش موجود نہیں ہے۔ بے چارہ عام آدمی تو الیکشن میں کھڑے ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔الیکشن میں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔
لاہور میں این اے 122 کے الیکشن میں دونوں جانب سے بے تحاشا اخراجات کیے گئے۔ اسی طرح لودھراں کے الیکشن میں بھی پیسے کا بے دریغ استعمال ہوا۔ یہ تو دو قومی اسمبلی کے اہم حلقوں کا معاملہ ہے۔ یہاں چونکہ بڑے لوگوں کی لڑائی تھی اس لیے رقم بھی بڑی خرچ ہوئی لیکن قومی اسمبلی کے الیکشن میں ایک امیدوار کم از کم تین چار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں بھی کروڑوں خرچ ہوتے ہیں۔ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں بھی بہت زیادہ اخراجات دیکھنے میں آئے ہیں۔ ایسی صورت میں ایک عام آدمی الیکشن میں کیسے حصہ لے سکتا ہے۔ وہ تو کسی یونین کونسل کے چیئرمین کا الیکشن بھی نہیں لڑ سکتا۔ یہ الیکشن لڑنا بھی درمیانے درجے کے سرمایہ دار کا کام ہے۔ الیکشن میں کامیاب ہونے والوں کی فہرست ہی دیکھ لیں پتہ چل جائے گا کہ چیئرمین جیتنے والوں کی مالیت حیثیت کیا ہے۔
موروثی کاروبار کی طرح سیاست بھی اب ملک کے چند خوش قسمت خاندانوں کے گھر کی لونڈی بن چکی ہے۔ سچ پوچھیے تو وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے ملک کی اصل حاکمیت سیاسی اجارہ دار خاندانوں بشمول جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور بیورو کریسی کے پاس ہے جن کی گرفت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی رہی ہے۔ رہی بات سیاسی جماعتوں کے اختلافات کی تو ان کی اصلیت نورا کشتی سے زیادہ نہیں ہے جس کا مقصد معصوم عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔
غربت، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ میرٹ کی پامالی، اقربا پروری، سفارش کلچر اور بے تحاشہ کرپشن نے ہمارے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔جب بھی کسی بڑی مچھلی پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو ہمارے حکمراں جمہوریت کو لاحق خطرے کی دہائی دینے لگتے ہیں۔ غیر ملکی مالیاتی اداروں سے دھڑا دھڑ قرضوں پر قرضے حاصل کیے جا رہے ہیں جوکہ عوام کی موجودہ اور آیندہ نسلوں پر بہت بڑا بوجھ ہیں لیکن کڑی شرطوں پر لیے جانے والے ان قرضوں کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیے جانے کے بجائے یا تو مال غنیمت کی طرح اپنی اپنی جیبوں میں بھرا جا رہا ہے یا نمائشی منصوبوں پر خرچ کیا جا رہا ہے۔
ہماری سیاسی جماعتیں بہ ظاہر نوجوان قیادت کو آگے لانے کی باتیں تو بہت کرتی ہیں لیکن ان کا طرز عمل اس کے بالکل برعکس ہے جس کا اندازہ حالیہ بلدیاتی انتخابات سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے جن میں تاجروں اور پراپرٹی ڈیلروں کو پارٹی ٹکٹ دے کر کامیاب کرایا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک اس ملک کی قیادت خواص کے بجائے عوام سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ہاتھ میں نہیں آئے گی تب تک اس ملک کی قسمت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ یہی وہ نوجوان ہیں جن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
لہٰذا عوامی طبقے سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت اور لائق نوجوانوں کو شریک اقتدار کیا جائے اور انھیں مشیروں اور معاونین میں شامل کیا جائے۔ یقین کیجیے کہ ہمارے نوجوانوں میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں اور وہ خدمت وطن کے جذبے سے بہت زیادہ سرشار ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انھیں قیادت کے زیادہ سے زیادہ مواقع بھی فراہم کیے جائیں کیونکہ ہمارے ملک کا مستقبل ہماری نوجوان نسل سے ہی وابستہ ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا میڈیا بڑا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ وطن عزیز میں جمہوری نظام کی کامیابی کا بس یہی ایک راستہ ہے۔