پی آئی اے نجکاریآئی ایم ایف ڈیڈلائن پوری نہ ہونے کاامکان

پی آئی اے کی نجکاری کیلیےپیشگی شرط کے طور پرٹرانزیکشن اسٹرکچرکی منظوری کیلیے نجکاری کمیشن کے بورڈکی میٹنگ موخرکردی ہے

پی آئی اے کی نجکاری کیلیےپیشگی شرط کے طور پرٹرانزیکشن اسٹرکچرکی منظوری کیلیے نجکاری کمیشن کے بورڈکی میٹنگ موخرکردی ہے:فوٹو: فائل

پاکستان 2015ء کے اختتام تک پی آئی اے کی نجکاری کیلیے سرمایہ کاروںکودعوت نہ دیکرآئی ایم ایف کی ایک اورڈیڈ لائن پوری نہ کرنے کے قریب ہے جس کی وجہ سے خسارے میں چلنے والے ادارے بیچنے کے عزم پرنئے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔

وزارت خزانہ اورنجکاری کے اعلیٰ حکام کے مطابق حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کیلیے پیشگی شرط کے طور پرٹرانزیکشن اسٹرکچرکی منظوری کیلیے نجکاری کمیشن کے بورڈکی میٹنگ موخرکردی ہے۔یہ فیصلہ نئے سیاسی تنازع سے بچنے کیلیے اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف اور حکومتی دستاویزات کے مطابق6 ارب 20کروڑ ڈالرکے قرضہ پروگرام کے تحت حکومت نے دسمبرکے آخر تک اسٹرٹیجک پرائیویٹ سیکٹرشراکت داری کیلیے اظہار دلچسپی کی درخواستیں طلب کرنا تھیں۔ حکومت پی آئی اے کی نجکاری کیلیے دسمبر2014 تک کی ڈیڈلائن پوری نہیںکرسکی تھی اس لیے آئی ایم ایف یہ تاریخ بڑھا کرجون 2016ء کر چکا ہے۔


پی آئی اے نجکاری سے متعلق حکومتی پالیسی میں تبدیلی کی صورت میں آئی ایم ایف کا ردعمل پاکستان کے دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروںکے ساتھ تعلقات کیلیے اہم ہوگا۔اگر حکومت نے اس ماہ کے آخر تک سرمایہ کاروںکودعوت دینے کیلیے اشتہار جاری نہ کیا توپھر اسے آئی ایم ایف سے رعایت کیلیے رجوع کرنا پڑے گا تاہم آئی ایم ایف کی شرائط سے بڑھ کر یہ بھی سامنے آئے گاکہ حکومت نقصان میں چلنے والی اداروںکی نجکاری میں سنجیدہ ہے یا نجکاری کی مخالفت طاقتوںکے سامنے جھک گئی ہے ۔اس معاملے پرنجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر سے رابطہ کی کوشش کی گئی تاہم وہ ردعمل کیلیے دستیاب نہیں ہوسکے۔ اس سے قبل حکومت نے پی آئی اے نجکاری کی بڑھتی ہوئی مخالفت کے پیش نظر ٹرانزیکشن سٹرکچرکی منظوری موخرکی تھی۔

نجکاری پرکابینہ کمیٹی کے سامنے پیش کرنے سے قبل ٹرانزیکشن اسٹرکچر کی نجکاری کمیشن کے بورڈ میں منظوری لی جانا تھی ۔اس حوالے سے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ نجکاری کمیشن کے بورڈکا اجلاس نہیں بلایا گیا ۔ انھوں نے بتایا کمیشن نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے اب یہ پالیسی سازوں پر منحصر ہے کہ وہ نجکاری کاعمل کیسے آگے بڑھتے ہیں ۔ قبل ازیں حکومت نے ایئرلائن کے کاروبار میں نجی شعبہ کی شراکت کیلیے ٹرانزیکشن سٹرکچرپرکام کرنے کیلیے ایک مالیاتی مشیرکا تقررکیا تھا۔حکومت کوپی آئی اے ایکٹ 1956ء کی شکل میںایک قانونی رکاوٹ تھی جس کی وجہ سے حصص کسی دوسری پارٹی کو منتقل نہیںکیے جا سکتے تھے۔

یہ رکاوٹ دورکرنے کیلیے حکومت نے پارلیمنٹ میں نیا بل لا کر پی آئی اے ایکٹ 1956 ء منسوخ کرنے کے بجائے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا جس پرکافی شورشراباہوا۔پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے سوموارکو سینیٹ میںایک قراردارجمع کرائی ہے جس میں ایوان بالا سے استدعاکی گئی ہے کہ پی آئی اے آرڈیننس مستردکردے ۔حزت اختلاف کی جماعتوں کے51 سینیٹرز نے اس قرارداد پر دستخط کئے ہیں ۔حکومت کانجکاری پروگرام اب تک نفع کمانے والے اداروںکے شیئرز بیچنے تک محدود رہا ہے تاہم پی آئی اے کا ماہانہ خسارہ ایک ارب 20کروڑ ہے ۔رواں ماہ حکومت نے اس بیمار ادارے کیلئے9 ارب 40کروڑکابیل آؤٹ پیکیج منظورکیا ہے ۔اندرونی ذرائع بتاتے ہیںکہ حکومت پی آئی اے کی نجکاری کامعاملہ درست طریقے سے آگے نہیں بڑھا سکی اورسخت سیاسی فیصلے کرنے سے کترا رہی ہے ۔
Load Next Story