درآمدی کاروں کے آٹو سیکٹر پر اثرات ڈیلرز کا موقف سننے کا مطالبہ

فیکٹری فٹڈسی این جی پابندی،2 ماڈلز متروک کرنے سے اسمبلرزکی فروخت گری


Business Reporter October 30, 2012
اسمبلرز کی لوکلائزیشن کوششوں کاجائزہ لیکر درآمدی پالیسی پرفیصلہ کیا جائے، ایچ ایم شہزاد فوٹو: فائل

READING, UK: آل پاکستان آٹو موبائل ڈیلرز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ فیکٹری فٹڈ سی این جی پر پابندی اور چھوٹی کاروں کے دو ماڈلز متروک کرنے سے لوکل اسمبلر کاروں کی فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے جسے استعمال شدہ کاروں کی درآمدات کا نتیجہ قرار دینا غلط ہے۔

وفاقی وزارت خزانہ کو گزشتہ ہفتے ارسال کردہ ایک خط میں ایسوسی ایشن نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے استعمال شدہ کاروں کی درآمد اور آٹو انڈسٹری پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کیلیے کمیٹی کے قیام کی اطلاعات پر سفارشات میں موٹر ڈیلرز کا موقف شامل کرنے کی اپیل کی ہے۔ ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد کے مطابق ایسوسی ایشن نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ استعمال شدہ کاروں کی درآمدی پالیسی کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ لوکل اسمبلرز کے منافع جات، فروخت اور ڈیوڈنڈ کے ساتھ گزشتہ 30سال کے دوران لوکلائزیشن کیلیے کی جانے والی کوششوں کے جائزے کے بعد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 5لاکھ کاروں کی طلب ہے جس میں سے 1.5 لاکھ کاریں مقامی اسمبلرز پوری کررہے ہیں۔

گزشتہ سال 57 ہزار کاریں درآمد کیے جانے کے باوجود 3لاکھ کے قریب کاروں کی طلب ملک میں چل رہی پرانی کاروں کے ذریعے پوری کی جارہی ہے جن میں 35سال تک پرانی کاریں بھی شامل ہیں، یہ کاریں ایک جانب زیادہ ایندھن استعمال کرنے کی وجہ سے ماحول اور معیشت پر بوجھ ہیں بلکہ مہنگی مینٹی نینس کی وجہ سے صارفین کیلیے بھی پریشانی کا سبب بنی ہوئی ہیں، مقامی اسمبلرز کے پاس 3لاکھ کاروں کی مارکیٹ موجود ہے لیکن قیمت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے مقامی سطح پر تیار کردہ کاریں عوام کی پہنچ سے دور جاچکی ہیں۔ ایسوسی ایشن نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ پرانی کاروں کی درآمدی پالیسی مزید نرم کرتے ہوئے 10سال تک پرانی کاریں کمرشل بنیادوں پر درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔

تاکہ ملک میں چل رہی تمام پرانی کاروں کو 10 سال پرانی کاروں سے تبدیل کرکے معیشت کو ایندھن اور ماحول کو آلودگی سے پہنچنے والے نقصان سے بچاتے ہوئے صارفین کو معیاری کاریں فراہم کی جاسکیں۔ ایسوسی ایشن کے مطابق 1994سے 2004 تک استعمال شدہ کاروں کی درآمد نہ ہونے کے برابر تھی، اس عرصے میں لوکلائزیشن پر توجہ دیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مارکیٹ شیئر حاصل کیا جاسکتا تھا تاہم 2003-04سے استعمال شدہ کاروں کی درآمد شروع ہونے کے بعد صارفین کو عالمی معیار کی کاریں مناسب قیمت پر دستیاب ہورہی ہیں۔

سال 2003-04میں 1643کاریں، سال 2004-05میں 6700کاریں، سال 2005-06کے دوران 45500کاریں، سال 2006-07کے دوران 31000کاریں، سال 2007-08کے دوران 19200کاریں، سال 2008-09کے دوران 8700کاریں، سال 2009-10کے دوران 13000ہزار کاریں، سال 2010-11کے دوران 16800کاریں اور سال 2011-12کے دوران 57ہزار استعمال شدہ کاریں درآمد کی گئیں جس کی درآمد کے لیے پاکستان سے ایک ڈالر بھی باہر نہیں گیا بلکہ کاروں کی درآمد سے ہر سال حکومت کو بھاری آمدنی حاصل ہوئی، گزشتہ سال 33ارب روپے کے محصولات ادا کیے گئے جبکہ مقامی اسمبلرز عوام کی جیب سے نکلنے والا ٹیکس حکومت کو ادا کرکے بھاری مالیت کے محصولات کی ادئیگی کا دعویٰ کررہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں