34 ممالک کا اتحاد اور پارلیمنٹ

مالی، چاڈ، نائیجر اور صومالیہ ایسے ملک ہیں جن کے لیے دیوالیہ کا لفظ بہت چھوٹا ہے


علی احمد ڈھلوں December 30, 2015

مالی، چاڈ، نائیجر اور صومالیہ ایسے ملک ہیں جن کے لیے دیوالیہ کا لفظ بہت چھوٹا ہے۔ یہ تیسری نہیں بلکہ چوتھی دنیا کے ممالک ہیں جہاں بھوک، بد امنی اور لاقانونیت عام ہے۔ کرپشن تو ان کی جڑوں تک میں سماء چکی ہے۔ ادارے تباہ حال ہیں، عوام بھوکے ننگے ہیں اورہر طرف قحط کا عالم ہے۔

میں نے ان ملکوں کا ذکر اس لیے کیا کہ ہمارے ایک دوست اور محسن ملک سعودی عرب نے گزشتہ دنوں 34 ملکوں کا ایک اتحاد قائم کیا، اس اتحاد میں شمولیت کے لیے کئی ممالک سے پوچھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی ، پاکستان جو ان ممالک سے بیسیوں گنا بہتر ہے سے بھی رائے تک نہیں لی گئی کہ کیا وہ 34ممالک کی Islamic Miltary Alliance کا حصہ بننا چاہتا ہے؟ یعنی ہمارے دوست نے ہمیں اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ ہمارے حکمرانوں کی حقیر سی رائے ہی لے لی جائے حالانکہ وہ کبھی ''ناں'' کر ہی نہیں سکتے تھے۔ اس اچانک اعلان نے حکمرانوں کو حیران اور پریشان کر دیا۔

میری سمجھ سے یہ باہر ہے کہ میں اسے سعودی عرب کی ''ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی'' (Over Confidence) سمجھوں یا یہ کہ پاکستان جیسے ہیوی ویٹ فوجی صلاحیت رکھنے والے ملک کی تحقیر اور جگ ہنسائی ۔

ریاض حکومت اس سے قبل بھی ایسا ہی کر چکی ہے، جب سعودی حکام نے اعلان کیا تھا کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیوں میں پاکستان اتحادی ملک ہے، حالانکہ بعد میں پاکستانی حکومت اور پارلیمان نے یمن میں جاری فوجی کارروائیوں میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا۔

اور یہاں حال یہ ہے کہ سعودی حکومت نے ''جوش دوستی'' میں پاکستان کے نام کا اعلان کر دیا اور یہاں کے حکمران اور ادارے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ اور گومگوں کی کیفیت کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے یہ کنفرم کیا کہ پاکستان بھی ''واقعی'' اس اتحاد کا حصہ ہے۔

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پہلی بار سعودی عرب نے ایک اتحاد کا اعلان کیا تو حکومت معاملہ پارلیمنٹ میں لے گئی اور پارلیمان کی قوت استعمال کرتے ہوئے اس اتحاد میں شمولیت سے انکار کرکے سعودی عرب کو ناراض کردیا۔ اب حالیہ دنوں میں پاکستان کی اہم ترین شخصیات نے سعودی عرب کے دورے کیے ۔

سابق صدر زرداری نے بھی سعودی عرب یاترا کی ہے اور خفیہ معلومات یہ ہیں کہ چونکہ پی پی پی اس اتحاد کی متوقع طور پر مخالفت کر سکتی تھی اسی لیے زرداری اور رحمان ملک کو سعودی قیادت نے مہمان نوازی کر کے رام کر لیا ہے۔۔۔ زرداری تو پہلے ہی ڈاکٹر عاصم کی صورت میں اس حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے زیر اعتاب آچکے ہیں اور خاصے دباؤ میں بھی ہیں اورمیری اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر عاصم سب کچھ اعتراف کر چکے ہیں لیکن اسے منظر عام پر صرف اسی لیے نہیں لایا جا رہا کہ بعض معاملات میں اندرون خانہ سودے بازی کی جارہی ہے ۔

یہ ماننا پڑے گا کہ زرداری مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔ ویسے میری سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آرہی کہ کرپشن تو واقعی اس معاشرے کا ناسور بن کر رہ گیا ہے لیکن کیا پاکستان میں سندھ کے سوا کہیں اور کرپشن نہیں ہو رہی؟ دہشت گردوں کے سہولت کار اگر تلاش کرنے ہیں تو کیا دوسرے صوبوں میں ایسے سہولت کار نہیں ملیں گے؟

حقیقت میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو پی پی پی سے خطرہ ہے کہ وہ اس اتحاد کے حوالے سے دوبارہ پارلیمنٹ میں جانے کے لیے نہ کہہ دے، آپ پیپلز پارٹی کے لب و لہجے کا اندازہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر کی گئی پی پی رہنماؤں کی تقریروں سے بھی لگا سکتے ہیں کہ حالات کس قدر پیچیدہ ہو چکے ہیں اور ایسے میں اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں ڈسکس کرنا واقعتاً حکومت کے لیے مسئلہ پیدا کر سکتا تھااور ہر چیز پارلیمنٹ کو بتانی پڑے گی کہ کس وقت، کہاں اور کتنی فوج بھیجی جائے گی، اس کا مقصد کیا ہو گا، کتنی دیر کے لیے ہوگی۔

بندہ ان حکمرانوں سے پوچھے کہ پارلیمنٹ جسے وہ مقدس گائے کہتے ہوئے نہیں تھکتے وہ کس مرض کی دوا ہے، اور پارلیمنٹ کس لیے ہوتی ہے؟ یہ کوئی معمولی بات تو نہیں ہے کہ اتنا بڑا ایشو پارلیمنٹ میںنہ لایا جائے۔ پارلیمنٹ میں یہ بھی زیر بحث لایا جانا چاہیے کہ جو معاوضہ اس اتحاد کی صورت میں پاکستان کو حاصل ہو گا کیا وہ چند مخصوص لوگوں کی جیبوں میں تو نہیں چلا جا ئے گا۔

جس طرح روس مخالف جنگ اور طالبان مخالف جنگ میں مخصوص لوگوں نے خوب ہاتھ رنگے اور وہ آج پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اور رہی بات پی ٹی آئی کی تو لگتا ہے اسے اس حوالے سے شاید سمجھ بوجھ ہی نہیں اسی لیے وہ چپ سادھے اپنے دھاندلی کے مسئلوں میں اُلجھی نظر آتی ہے۔یہاں یہ بھی سوال اُٹھتا ہے کہ اگر حکومت اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں لے کر آتی ہے تو وہاں ہر فرقہ اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیںجو اس اتحاد میں شمولیت کی بھرپور مخالفت کریں گے۔

کیوں کہ دوسری طرف ایران، شام اور روس کا اتحاد ہے۔ یوں کہیے کہ پاکستان ایک بار پھر روس ایران اتحاد کے مخالف سمت کھڑا نظر آرہا ہے۔ یا یہ کہا جائے کہ پاکستان نے سعودی ایران کشمکش میں سعودی عرب کی حمایت کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ تعاون کس حد تک جاری رہے گا ابتدائی دنوں میں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ البتہ حکومت پاکستان کا مکمل وزن سعودی عرب کے پلڑے میں ہے اور اب پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی نہیں رہے گی ۔ اب دیکھنا ہے کہ ایران کا ردعمل کیا ہوگا۔ بظاہر اس 34ممالک کے ''گٹھ جوڑ'' کے مقاصد یہ بتائے گئے ہیں کہ پاکستان اور دوسرے رکن ممالک دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنائیں گے تاکہ مغربی ایشیاء میں اس ناسور کا خاتمہ کیا جائے۔

یہ اتحاد ایک طرف تو آپس میں دہشت گردوں سے متعلق خفیہ معلومات کا تبادلہ کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ اگر ضرورت پڑی، تو اپنے زمینی دستے بھی تعینات کرے گا۔ بلاشبہ دہشت گردی اور شدت پسندی میں ملوث عناصر کی بیخ کنی کے لیے اسلامی ممالک کو اتحاد کی ضرورت ہے لیکن کسی بھی ملک کا نام شامل کرنے سے پہلے مشاورت ضروری تھی، نیز اسلامی ممالک کے مابین تنازعات بھی اس اتحاد کی افادیت کو متاثر کرسکتے ہیں۔

پاکستان پہلے ہی مختلف النوع خارجی و داخلی مسائل کا شکار ہے، اسلامی ممالک کا اتحاد خوش آیند ضرور ہے لیکن یہ امر ممکن بنانے کی ضرورت ہے کہ اتحاد کسی دوسرے مسلم ملک کے لیے ضرور رساں ثابت نہ ہو۔ فرقہ وارانہ تقسیم ہوئی تو اس اتحاد کے عالمی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ داخلی طور پر بھی یہ اختلاف اور انتشار کا باعث بنے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں