وقت دور نہیں ہے
سنا ہے کہ کسی زمانے میں ایک بادشاہ ہوتا تھا۔ وہ اپنے تمام فیصلے خوابوں کی بنیاد پر کیا کرتا تھا۔
سنا ہے کہ کسی زمانے میں ایک بادشاہ ہوتا تھا۔ وہ اپنے تمام فیصلے خوابوں کی بنیاد پر کیا کرتا تھا۔ رات اسے جو خواب آ جائے، صبح کا پہلا فیصلہ وہ ہی ہوتا تھا۔ چاہے بڑے سے بڑے قومی مسئلے ہوں یا پھر عام رعایا کہ چھوٹے مسئلے۔ ہمارے یہاں بھی موڈ پر اب ملکوں کے فیصلے ہونگے۔ ہمارے حکمرانوں کو ایک دن خیال آئے گا کہ سمندر میں راستہ بنانا چاہیے تو وہ وہاں بھی موٹروے بنانے لگ جائیں گے۔
مودی کو اچانک خیال آیا کہ نواز شریف کے کان میں کچھ کہنا چاہیے۔ مودی نے سب کے سامنے ہاتھ پکڑا اور ایک کونے میں بیٹھ کر محترم وزیراعظم کے کان میں پھونک مارنے لگے۔ ہمارے وزیراعظم کو اچانک خیال آیا کہ مجھے مودی کی بات مان لینی چاہیے۔ اور ہم نے فوراً ہی سر جھکادیا۔ مودی کو اچانک خیال آیا کہ سشما بھارت میں رہ کر بور ہو گئی ہو گی، یہاں اس پر الٹے سیدھے الزام بھی لگ رہے ہیں تو سشما کو چاہیے کہ تھوڑی آؤٹنگ کر کے آ جائے۔
مودی نے اپنا اچانک خیال کابینہ کو بتایا اور سشما نے فوراً اپنا سوٹ کیس پیک کرنا شروع کر دیا۔ اور یاد سے اس میں ہرے رنگ کی ساڑھی بھی رکھ لی۔ ہماری کیا بات ہے، ہم تو اچانک آنے والے ہر تیر کو گلے سے لگاتے ہیں۔ ہم سشما کو گھر بھی لائے، کھانا بھی کھلایا اور بتایا کہ فکر مت کرو، تمھاری بیٹی کی شادی ہو گی تو اچانک ہمارے یہاں سے کوئی آ بھی جائے گا۔
میرا خیال ہے کہ قائداعظم اور مہاتما گاندھی کی بھی ساری ملاقاتیں اچانک ہی ہونی چاہیے تھیں، ورنہ اتنے سارے مسئلے نہیں ہوتے۔ ان دونوں لیڈران کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ میڈیا سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ چھپ کر اچانک ملنے کی روایت ڈالی جائے۔ شاید اس وقت میڈیا کا اتنا اثر نہیں ہو گا، یا پھر اس وقت کی برطانوی حکومت کی آنکھیں نہیں تھیں۔
گاندھی نے تقسیم کے فارمولے کے لیے کیوں اچانک قائداعظم سے ملاقات نہیں کی تھی اور جولائی 1944ء کو قائداعظم کو کیوں خط لکھا تھا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں، جب آپ چاہیں، اور مجھے معلوم ہے کہ آپ مجھے مایوس نہیں کریں گے۔ قائداعظم جو اس وقت کشمیر میں تھے، انھوں نے کیوں وہ خط پھاڑ کر جیب میں نہیں رکھ لیا اور کہا کہ اچانک ملیں گے۔ انھوں نے کیوں پھر جناح ہاؤس ممبئی میں گاندھی سے سب کے سامنے ملاقات کی، اور ایک بار نہیں کئی ملاقاتیں کیں۔
پورے ہندوستان کی نگاہیں ان ملاقاتوں پر تھی، اور سب سے زیادہ کمپنی بہادر کی آنکھیں اس پر لگی ہوئی تھیں۔ انھوں نے کیوں نظریں بچا کر ملاقاتیں نہیں کیں۔ شاید انھیں معلوم نہیں ہو گا کہ اچانک ڈپلومیسی کیا ہوتی ہے۔ قائداعظم اور گاندھی ایک ہی گاڑی میں بیٹھ کر آئے تھے۔ یہ سب اچانک نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اخبار والے تصایر بنا رہے ہیں، سب دیکھ رہے ہیں۔
کیا مودی کو معلوم نہیں تھا کہ جب وہ نواز شریف سے ایک صوفے میں بیٹھ کر بات کر رہے ہیں تو میڈیا کی آنکھیں بند ہیں۔ سب لوگوں نے اپنے کیمرے چھپا لیے ہیں۔ یا یہ سب دکھانا تھا۔ جب یہ بات چیت دکھانی تھی تو پھر اچانک کا ڈرامہ کیوں؟ کیا مودی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ فون کر کے جب پاکستان آئیں گے تو میڈیا نہیں ہو گا۔
پھر آخر یہ سب کس سے چھپا کر دکھانا تھا۔ یا پھر کس کو بتانا تھا کہ ہم تم سے چھپ کر سب کچھ کر رہے ہیں۔ یا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سیاسی حکومتیں تو ملنا چاہ رہی ہیں لیکن کسی سے ان کو ڈر ہے۔ تو آخر کن کے لیے یہ اچانک کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ کیا ریاست کے تمام ستون وہی دیکھ رہے ہیں جو ہمیں دکھایا جا رہا ہے۔
ہم لاکھ چھپانا چاہیں لیکن کچھ تو دال میں کالا ہے۔ مودی پاکستان کی فضاؤں سے ہوتے ہوئے افغانستان جاتے ہیں۔ وہاں وہ پاکستان کے لیے کچھ اچھے الفاظ استعمال نہیں کرتے لیکن انھیں وہیں اچانک خیال آتا ہے کہ جس سرحد پر سے گزر رہا ہوں، وہاں چائے پیتا ہوا چلا جاؤں۔ کیا ان کے کان میں کسی نے کہا تھا کہ ایسا کر لو اچانک۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ جو شخص، جس کی جماعت آپ کی مخالفت کرتی ہو، وہ ایک دم آپ کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر لاہور میں گھوم رہا ہو۔ عالمی سطح پر کچھ تو ایسا ہے جسے چھپایا جا رہا ہے۔
1965ء کی جنگ میں دونوں طرف سے گولے برسائے جا رہے تھے، کچھ دنوں پہلے ہماری سرحدوں پر جھڑپیں جاری تھیں۔ دونوں جانب سے خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے جا رہے تھے مگر 65ء میں اچانک جنگ بندی نہیں ہوئی تھی۔ ایسا نہیں ہوا تھا کہ اچانک لال بہادر شاستری تاشقند پہنچ گئے ہوں اور ایوب خان وہاں پر شکار کے لیے پہنچے ہوں۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ 4 جنوری 1966ء کا معاہدہ اچانک لکھ دیا گیا ہو۔ کوئی یاد رکھے یا نہ رکھے، لیکن اس وقت کے سوویت سربراہ کا اہم کردار تھا۔ اتنی اہم جنگ کے دوران دونوں جانب کے رہنماؤں کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ باہر کے لوگوں کی مدد کے بجائے خود اچانک مل لیتے ہیں اور سارے معاملات حل کر لیتے ہیں۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان جب کبھی بھی کوئی معاملہ ہوا ہے تو بیچ میں ضرور کوئی کودا ہے۔ یا ایسا ضرور ہوتا ہے جو دونوں کو ایک جگہ پر بٹھاتا ہے۔
آئیے آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں۔ اس وقت ہمارے سیاست دان کافی سمجھدار ہو گئے ہیں، کوئی کان میں کچھ کہہ کر چلا جائے تو فوراً چلانا شروع نہیں کر دیتے ہیں۔ بینظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت چل رہا تھا۔ ہر طرف یہ باتیں تھیں کہ بینظیر نے اپنا جھکاؤ انڈیا کی طرف کیا ہوا ہے۔ ایسے میں اپوزیشن ان پر شدید جملے کس رہی تھی۔ یہ بات ہے 23 اگست 1994ء کی۔ نواز شریف صاحب آزاد کشمیر کے علاقے نیلا بٹ میں خطاب کر رہے تھے۔
جوش جذبات میں انھوں نے کہا کہ میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ پاکستان کے پاس ایٹمی بم موجود ہے۔ انھوں نے بھارت کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ بھارت ہم پر حملہ کرنے سے باز رہے، ورنہ اسے ایٹم بم کا سامنا کرنا پڑے گا۔ واضح رہے یہ بات 94ء کی ہے اور اس طرح کا ایک اشتہار اخبار میں ایک سال پہلے بھی لگا تھا۔
فوراً ہی انڈیا کی طرف سے بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دوسری طرف سے امریکا کو تو موقع چاہیے تھا، جس میں ایک سابق سربراہ یہ کہہ رہا تھا کہ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار ہے۔ امریکا نے ان دنوں پاکستان کو واچ لسٹ میں رکھا ہوا تھا۔ ان کی جانب سے بیان آ گیا کہ نواز شریف کے اعتراف کے بعد ہم پاکستان پر مزید نگاہ رکھیں گے۔
دفتر خارجہ کو جس طرح مودی کی آمد کا نہیں معلوم تھا، اسی طرح انھیں اس زمانے میں ایٹم بم کا بھی نہیں معلوم تھا، انھوں نے کہہ دیا کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم موجود نہیں ہے اور نواز شریف کا بیان سیاسی ہے۔
نواز شریف پر اس زمانے میں تنقید شروع ہوئی کہ انھوں نے یہ بیان خاص طور پر کس کے کہنے پر دیا ہے۔ جس کے جواب میں انھوں نے اگلے دن کہا کہ میں نے یہ بیان کسی کے اشارے پر نہیں دیا بلکہ خوب سوچ سمجھ کر دیا ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک اہم موڑ پر نواز شریف نے یہ بیان جوش میں دے دیا تھا اور اچانک ان کی زبان سے یہ نکل گیا تھا، اور کیا پیپلز پارٹی کو نہیں معلوم تھا کہ اس بیان سے کیا نقصان ہو گا۔ تیار رہیے کہ جب آپ اچانک بہت کچھ کر رہے ہوتے ہیں تو دوسرا بھی اچانک بہت کچھ کرنے کی تیاری میں ہوتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کس کو زیادہ چونکا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور وہ وقت زیادہ دور بھی نہیں ہے۔