2015ء کے خاتمے پر حکومت سندھ کو آخری یاد دہانی

محترم وزیراعلیٰ صاحب یقین کیجئے ذرا اچھا نہیں لگتا کہ اساتذہ اور طلبا ہاتھوں میں بینرز اٹھائے ’شیم شیم‘ کےنعرے لگائیں۔

وزیراعلی صاحب ذرا سی سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ نئے سال کی آمد ہے، دنیا گذشتہ برس کی گئی غلطیوں کی درستگی بہتر اور نہ دہرانے کا عہد کر رہی ہے، خدارا آپ بھی ایسا کرلیجیے تو بڑی نوازش ہوگی۔

سال 2015ء کا اختتام آپہنچا، پوری دنیا گزشتہ برس کے دوران بیت جانے والے اچھے، بُرے، تلخ، غمگین، مسکراتے لمحوں کو یاد کر رہی ہے۔ یقینی طور تلخ یادوں کا کوئی نہ کوئی مداوا ہوتا ہے جو ان دُکھ کے لمحات کی تکلیف سے راحت کا سبب بنتا ہے۔

29 اپریل 2015ء کا دن مجھ سمیت ڈاکٹر یاسر رضوی (پروفیسر وحید الرحمان) کے بیشمار طلباء، احباب اور ساتھیوں کو سوگوار کرگیا، یہ وہ دن تھا جب نامعلوم افراد کی جانب سے نہ جانے کس بنا پر اُن کو مزید جینے کی مہلت نہ دی گئی۔

کسی طور ذہن یہ قبول کرنے کو راضی نہیں تھا کہ وہ شخص جو قہقہے بکھیرتا ہے، خود سے آگے بڑھ کر ذمہ داریاں نبھاتا ہے، طلباء میں مقبول ترین استاد، ایک ناصح، دوست، خیر خواہ، محبت اور اخلاق میں بھی مثالی، دوستوں کی دست گیری کرنے والا علم شناسا شخص انسانوں کی درندگی کا نشانہ بن گیا۔ دن دھاڑے جامعہ کراچی جاتے ہوئے قاتلوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا۔ لیکن کیوں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آج 8 ماہ گذرنے کے بعد بھی نہیں معلوم ہوسکا۔

یہ کوئی نیا سانحہ تو نہ تھا اس سے قبل بھی کئی اساتذہ ان قاتلوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل اوج ہوں، پروفیسر سبطِ جعفر یا جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی وائس پرنسل ڈیبرا لوبو۔ جس طرح اس سے قبل ہونے والے واقعات میں وعدے، دلاسے اور دعوے ہوئے، بالکل ایسا ہی اس قتل کی تحقیقات کے ساتھ بھی سلوک ہوا۔ قاتل گرفتار کرنے کے دعوے اور پھر اُسی قاتل کو بے گناہ قرار دے کر کیس کو اے کلاس کردینا حکومت کی سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

کمال بات تو یہ ہے کہ پروفیسر وحید الرحمٰن کے قتل کے الزام میں گرفتار سمیع الزماں کو 14 جون کو گرفتار کر کے 14 روز کے لیے پولیس کی تحویل میں دیا گیا تھا جس کے لئے پولیس کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ گرفتار کیا گیا ملزم جامعہ کراچی کا ملازم ہے اور ابتداء میں اس نے قتل میں اپنے ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے، تفتیشی افسر نے عدالت سے ملزم کو پولیس کی تحویل میں دینے کی درخواست کی تھی۔ جب کہ 17 اگست کو خبر پڑھی کہ
''پروفیسر وحید الرحمان قتل کیس میں گرفتار ملزم سمیع الرحمان کو عدم شواہد اور ثبوت کے باعث بری کر دیا ہے''۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملزم سے دوران تفتیش کسی قسم کے شواہد اور ثبوت نہیں ملے، لہٰذا ملزم کو ضابطہ فوجداری ایکٹ کی دفعہ 497 اے کلاس کے تحت ذریعے رہا کردیا گیا ہے۔ دوسری جانب عدالت نے تفتیشی افسر کی اے کلاس کی رپورٹ منظور بھی کرلی ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سمیع الزمان بے قصور ہے تو اب کم از کم یہ تو بتایا جائے کہ اگر قاتل وہ نہیں تو پھر کون ہے؟ اور اس کی گرفتاری کے لئے کیا کیا عملی اقدامات کئے گئے؟ یا اللہ توکل ہے معاملہ۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس تمام تر صورت حال کو دیکھتے ہوئے یقین ہوچلا کہ پاکستان کے معاملے میں یہ صرف لفاظی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ یہاں انصاف ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔


اب ذرا ایک نظر حکومت ِسندھ کی بے حسی اور لا پرواہی پر بھی ڈالئے، قاتلوں کی گرفتاری کے ساتھ محترم سائیں سرکار نے ایک دعویٰ میڈیا کی موجودگی میں کیا تھا، وہ تھا ڈاکٹر وحید الرحمن یاسر رضوی کے قتل کے مداوے اور اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ان کے اہل خانہ کی امداد کا۔ جو آج کئی ماہ گذرنے کے بعد بھی محض دعویٰ ہی ہے۔ یقین کیجئے ایک خُود دار اُستاد کے قتل کے بعد اس کے واجبات اور حکومتی امداد کی یاد دہانی کراتے وقت قلبی کیفیت کیا ہوتی ہے اِس کا بیان بھی ناممکن ہے۔ کہ وہ تو علم پرور تھا، روحانی باپ کا رتبہ رکھنے والا، اپنے طلباء میں بلا تفریق علم کے موتی لٹانے والا، اس کے بچے بھی حصول علم کے لئے درسگاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان کی تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن شاید حکومت سندھ نے آنکھیں چرالی ہیں یا ضعیف العمری کے باعث وزیر اعلیٰ صاحب فراموش کر بیٹھے ہیں۔

تو ایک بار اور ان کو جگانے کیلئے دو روز قبل بھی ڈاکٹر وحید الرحمن یاسر رضوی کے ساتھی اساتذہ، طلباء اور صحافت سے وابستہ ان کے دوستوں نے کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرہ بھی کیا اور حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر قتل کی تحقیقات اور وزیر اعلیٰ نے وعدے (رقم کی ادائیگی) کو پورا نہیں کیا تو دوبارہ بھی احتجاج کیا جائے گا۔

محترم وزیراعلیٰ سندھ صاحب یقین کیجئے ذرا اچھا نہیں لگتا کہ اساتذہ اور طلباء ہاتھوں میں بینرز اٹھائے ''شیم شیم'' کے نعرے لگائیں۔ بار بار احتجاج کی کال دیں۔ ذرا سی سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ نئے سال کی آمد ہے، دنیا گذشتہ برس کی گئی غلطیوں کی درستگی بہتر اور نہ دہرانے کا عہد کر رہی ہے تو آپ بھی ذرا وقت نکال کر سوچئے کہ آپ کے ووٹرز آپ کو اس منصب تک پہنچانے والے آپ سے نالاں تو نہیں؟ اگر ہیں تو کس صورت میں ازالہ ممکن ہے؟

میں آج بھی اس امید اور گمان کے ساتھ یہ سب تحریر کر رہی ہوں کہ شاید کوئی ایک شخص بھی ان الفاظ کو پڑھے، سمجھے اور حکومتی نمائندوں کی توجہ دلا سکے کہ یہ محض خالی جگہ پر کرنے کیلئے لکھا گیا مواد نہیں بلکہ یہ متقاضی ہے کہ اس میں موجود سوالات کا تشفی سے بھرپور جواب دیا جائے اور دعویٰ کو عمل کے ذریعے ثابت کیا جائے۔

[poll id="854"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story