مردان سانحہ انسانیت سوز کارروائی
نادرا سانحہ جو ایک سیکیورٹی گارڈ کی آن ڈیوٹی دلیری کے باعث عظیم المیہ بننے سے بچ گیا ایک ویک اپ کال ہے
KARACHI:
مردان کے شہری علاقہ دسہرہ چوک میں واقع نادرا آفس پر خود کش دھماکے میں26 شہری شہید اور 48 سے زائد شدید زخمی ہو گئے تاہم احساس فرض سے سرشار نادرا آفس کے جرات مند سیکیورٹی گارڈ پرویز خان نے بمبار کو روکا اور خود بھی جام شہادت نوش کر گیا، اطلاع کے مطابق اگر وہ خود کش بمبار کو نہ روکتا تو ہلاکتیں بہت زیادہ ہو سکتی تھیں۔
اس خونیں واردات کے بعد اس واشگاف اور عالمگیر حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم بحیثیت قوم دہشت و وحشت کے جان لیوا عہد میں سانس لے رہے ہیں جہاں طالبان، القاعدہ، اور اب ممکنہ طور پر داعش کی خوں ریز وارداتوں میں ملوث مہیب غیر ریاستی عناصر ملکی سالمیت ،شہریوں کے صبر اور سیکیورٹی فورسز کے عزم و استقلال کو مسلسل چیلنج کر رہے ہیں۔ ملک حالت جنگ میں ہے، ادھر مستونگ کے علاقے اسپلنجی میں ایف سی کے واٹر ٹینک کے قریب ریموٹ کنٹرول اور چمالنگ میں بارودی سرنگ دھماکوں میں ایف سی اہلکار اور ایک شہری شہید ہو گئے جب کہ 2ایف سی اہلکاروں سمیت 4 افراد زخمی ہوگئے۔
ادھر وادی تیراہ میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر سیکیورٹی فورسز کی بمباری کے نتیجے میں 4 دہشتگرد ہلاک اور 6 زخمی ہو گئے، کارروائی میں دہشتگردوں کے 2 ٹھکانے بھی تباہ ہوئے، دریں اثنا لشکر جھنگوی کے ایک ترجمان نے خبردار کیا ہے کہ کوئٹہ و مچھ جیل کے ذمے داران اور عموماً پاکستان کے تمام جیل ذمے داران مجاہدین کے خلاف پرتشدد کارروائیاں اورا نہیں تنگ کرنے کا سلسلہ فی الفور بند کر دیں، بصورت دیگر ذمے داران کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ اس شدت سے شروع کیا جائے گا کہ جسے روکنا ناممکن ہو گا۔ لہٰذا اس قسم کے انتباہ کے پیش نظر ارباب اختیار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے نادرا دفتر پر حملہ اس پہلو پر سنجیدگی سے غور و فکر کا متقاضی ہے کہ ریاستی تنصیبات، سرکاری محکموں، سیکیورٹی مراکز اور شہری و دیہی زندگی کو لاحق خطرات داخلی ہیں۔
یہ اندر کا دشمن ہے جو بیگناہ پاکستانیوں کے خون ناحق سے نہ صرف اپنی عاقبت خراب کر رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں اسلام کے امن پسندانہ روادارنہ تشخص اور آفاقی تعلیمات کی دھجیاں اڑا رہا ہے، سیکیورٹی حکام اور سیاسی اشرافیہ کو داخلی سلامتی کے لیے مستقل الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ نادرا سانحہ جو ایک سیکیورٹی گارڈ کی آن ڈیوٹی دلیری کے باعث عظیم المیہ بننے سے بچ گیا ایک ویک اپ کال ہے کہ دہشتگردی سے نمٹنا قومی فریضہ ہے جب کہ جارحانہ حکمت عملی اور فول پروف اقدامات کو یقینی بنائے بغیر ملک دشمنوں کا راستہ روکنا آسان نہ ہو گا، مشکل اور صبر آزما ٹاسک یہ ہے کہ دشمن صاف چھپتا بھی نہیں سامنے آتا بھی نہیں جیسی مثال بن گیا ہے، اس کی پر فریب اور الم ناک کارروائیوں کی ہولناک باریکیوں سے کماحقہ واقفیت کی ہمہ وقت ضرورت ہے۔
مردان میں ان قوتوں کا وجود بڑا سوالیہ نشان ہے، اگرچہ کالعدم تحریک طالبان (جماعت الحرار) نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے، تاہم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ مردان میں بے گناہ لوگوں کی شہادت پر ہمیں افسوس ہے۔ تاہم اس مخمصہ میں پڑے بغیر دہشتگروں کا آخری دم تک تعاقب شد و مد سے جاری رکھا جائے، انٹیلی جنس نیٹ ورک مزید مضبوط ہونا شرط ہے، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی، وفاقی وزیر داخلہ نے دھماکے میں شہید سیکیورٹی گارڈ کے اہل خانہ کے لیے30 لاکھ روپے اور ایک فرد کو ملازمت دینے کا اعلان بھی کیا۔ لیکن اصل چیلنج واردات میں ملوث افراد کی گرفتاری اور انھیں عبرت ناک سزا دلوانا ہے، ابھی بھی واردات سے پہلے دہشتگردوں کو دبوچنے کا جارحانہ میکنزم تیار کرنے کا وقت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مردان پولیس نے نادرا دفتر پر حملے کا خدشہ ظاہر کیا تھا، جب ایسی بروقت اطلاع ملی تھی تو ادارہ جاتی سطح پر سیکیورٹی اقدامات ناگزیر تھے۔
ایک اور اہم مسئلہ فاٹا میں اصلاحات کا بھی ہے جسے دہشتگردی کی نہ ختم ہونے والی لہر میں گلے میں غیر معمولی اہمیت حاصل کی ہے، ماہرین نے فاٹا کے بارے میں صائب تجاویز دی ہیں جن میں اسمبلیوں میں فاٹا سے نمایندگی بڑھانے، ریفرنڈم کا انعقاد، فاٹا کی پختونخوا میں شمولیت، یا اسے صوبہ بنانے سمیت ایف سی آر کے خاتمے، آئی ڈی پیز کے مسئلہ کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے، آرٹیکل 247 میں ترمیم کے نکات شامل ہیں، منگل کو فاٹا اصلاحات کے حوالہ سے سینیٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کا اہم اجلاس میاں رضا ربانی کی زیر صدارت ہوا۔ شرکا نے کہا کہ مضبوط اور مستحکم پاکستان بنانے کے لیے قبائلیوں کو پاکستانی بنانا ہو گا، آئی ڈی پیز کے لیے ایک الگ وزارت قائم ہو، آرٹیکل 246 کے تحت فاٹا کو مالاکنڈ کی طرح پاٹا کا درجہ دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے تناظر میں فاٹا کی تاریخی زمینی اور قبائلی صورتحال میں ناگزیر تبدیلی ملکی سیاست کا ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے، فاٹا فیصلہ کن اقدامات کا منتظر ہے۔ کیونکہ انتہا پسندی جہاں سے ابھری ہے وہیں اسے دفن کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
مردان کے شہری علاقہ دسہرہ چوک میں واقع نادرا آفس پر خود کش دھماکے میں26 شہری شہید اور 48 سے زائد شدید زخمی ہو گئے تاہم احساس فرض سے سرشار نادرا آفس کے جرات مند سیکیورٹی گارڈ پرویز خان نے بمبار کو روکا اور خود بھی جام شہادت نوش کر گیا، اطلاع کے مطابق اگر وہ خود کش بمبار کو نہ روکتا تو ہلاکتیں بہت زیادہ ہو سکتی تھیں۔
اس خونیں واردات کے بعد اس واشگاف اور عالمگیر حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم بحیثیت قوم دہشت و وحشت کے جان لیوا عہد میں سانس لے رہے ہیں جہاں طالبان، القاعدہ، اور اب ممکنہ طور پر داعش کی خوں ریز وارداتوں میں ملوث مہیب غیر ریاستی عناصر ملکی سالمیت ،شہریوں کے صبر اور سیکیورٹی فورسز کے عزم و استقلال کو مسلسل چیلنج کر رہے ہیں۔ ملک حالت جنگ میں ہے، ادھر مستونگ کے علاقے اسپلنجی میں ایف سی کے واٹر ٹینک کے قریب ریموٹ کنٹرول اور چمالنگ میں بارودی سرنگ دھماکوں میں ایف سی اہلکار اور ایک شہری شہید ہو گئے جب کہ 2ایف سی اہلکاروں سمیت 4 افراد زخمی ہوگئے۔
ادھر وادی تیراہ میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر سیکیورٹی فورسز کی بمباری کے نتیجے میں 4 دہشتگرد ہلاک اور 6 زخمی ہو گئے، کارروائی میں دہشتگردوں کے 2 ٹھکانے بھی تباہ ہوئے، دریں اثنا لشکر جھنگوی کے ایک ترجمان نے خبردار کیا ہے کہ کوئٹہ و مچھ جیل کے ذمے داران اور عموماً پاکستان کے تمام جیل ذمے داران مجاہدین کے خلاف پرتشدد کارروائیاں اورا نہیں تنگ کرنے کا سلسلہ فی الفور بند کر دیں، بصورت دیگر ذمے داران کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ اس شدت سے شروع کیا جائے گا کہ جسے روکنا ناممکن ہو گا۔ لہٰذا اس قسم کے انتباہ کے پیش نظر ارباب اختیار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے نادرا دفتر پر حملہ اس پہلو پر سنجیدگی سے غور و فکر کا متقاضی ہے کہ ریاستی تنصیبات، سرکاری محکموں، سیکیورٹی مراکز اور شہری و دیہی زندگی کو لاحق خطرات داخلی ہیں۔
یہ اندر کا دشمن ہے جو بیگناہ پاکستانیوں کے خون ناحق سے نہ صرف اپنی عاقبت خراب کر رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں اسلام کے امن پسندانہ روادارنہ تشخص اور آفاقی تعلیمات کی دھجیاں اڑا رہا ہے، سیکیورٹی حکام اور سیاسی اشرافیہ کو داخلی سلامتی کے لیے مستقل الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ نادرا سانحہ جو ایک سیکیورٹی گارڈ کی آن ڈیوٹی دلیری کے باعث عظیم المیہ بننے سے بچ گیا ایک ویک اپ کال ہے کہ دہشتگردی سے نمٹنا قومی فریضہ ہے جب کہ جارحانہ حکمت عملی اور فول پروف اقدامات کو یقینی بنائے بغیر ملک دشمنوں کا راستہ روکنا آسان نہ ہو گا، مشکل اور صبر آزما ٹاسک یہ ہے کہ دشمن صاف چھپتا بھی نہیں سامنے آتا بھی نہیں جیسی مثال بن گیا ہے، اس کی پر فریب اور الم ناک کارروائیوں کی ہولناک باریکیوں سے کماحقہ واقفیت کی ہمہ وقت ضرورت ہے۔
مردان میں ان قوتوں کا وجود بڑا سوالیہ نشان ہے، اگرچہ کالعدم تحریک طالبان (جماعت الحرار) نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے، تاہم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ مردان میں بے گناہ لوگوں کی شہادت پر ہمیں افسوس ہے۔ تاہم اس مخمصہ میں پڑے بغیر دہشتگروں کا آخری دم تک تعاقب شد و مد سے جاری رکھا جائے، انٹیلی جنس نیٹ ورک مزید مضبوط ہونا شرط ہے، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی، وفاقی وزیر داخلہ نے دھماکے میں شہید سیکیورٹی گارڈ کے اہل خانہ کے لیے30 لاکھ روپے اور ایک فرد کو ملازمت دینے کا اعلان بھی کیا۔ لیکن اصل چیلنج واردات میں ملوث افراد کی گرفتاری اور انھیں عبرت ناک سزا دلوانا ہے، ابھی بھی واردات سے پہلے دہشتگردوں کو دبوچنے کا جارحانہ میکنزم تیار کرنے کا وقت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مردان پولیس نے نادرا دفتر پر حملے کا خدشہ ظاہر کیا تھا، جب ایسی بروقت اطلاع ملی تھی تو ادارہ جاتی سطح پر سیکیورٹی اقدامات ناگزیر تھے۔
ایک اور اہم مسئلہ فاٹا میں اصلاحات کا بھی ہے جسے دہشتگردی کی نہ ختم ہونے والی لہر میں گلے میں غیر معمولی اہمیت حاصل کی ہے، ماہرین نے فاٹا کے بارے میں صائب تجاویز دی ہیں جن میں اسمبلیوں میں فاٹا سے نمایندگی بڑھانے، ریفرنڈم کا انعقاد، فاٹا کی پختونخوا میں شمولیت، یا اسے صوبہ بنانے سمیت ایف سی آر کے خاتمے، آئی ڈی پیز کے مسئلہ کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے، آرٹیکل 247 میں ترمیم کے نکات شامل ہیں، منگل کو فاٹا اصلاحات کے حوالہ سے سینیٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کا اہم اجلاس میاں رضا ربانی کی زیر صدارت ہوا۔ شرکا نے کہا کہ مضبوط اور مستحکم پاکستان بنانے کے لیے قبائلیوں کو پاکستانی بنانا ہو گا، آئی ڈی پیز کے لیے ایک الگ وزارت قائم ہو، آرٹیکل 246 کے تحت فاٹا کو مالاکنڈ کی طرح پاٹا کا درجہ دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے تناظر میں فاٹا کی تاریخی زمینی اور قبائلی صورتحال میں ناگزیر تبدیلی ملکی سیاست کا ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے، فاٹا فیصلہ کن اقدامات کا منتظر ہے۔ کیونکہ انتہا پسندی جہاں سے ابھری ہے وہیں اسے دفن کرنے کی سخت ضرورت ہے۔