نریندر مودی کی لاہور یاترا

کابل میں یہ سب کچھ کہنے کے بعد نریندرمودی کو لاہور آ کر مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔


Asghar Abdullah December 31, 2015
[email protected]

KARACHI: نریندرمودی لاہور یاترا کے بعد واپس دہلی پہنچ چکے ہیں ، مگر پاکستان کے میڈیا کے لیے کافی دنوں کے 'خوردونوش' کا سامان کر گئے ہیں، بلکہ ابھی تو بات شروع ہوئی ہے۔ 25 دسمبر کے روز جب پوری پاکستانی قوم باباے قوم محمد علی جناح کی سالگرہ منا رہی تھی، بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے اس ٹویٹ نے کہ 'میں آج سہ پہر کو لاہور میں، جہاں میں دہلی واپس جاتے ہوئے رکوں گا، وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کروں گا ' ہر خاص وعام کی توجہ کا رخ یکلخت نوازشریف کی سالگرہ کی طرف موڑ دیا کہ ان کی سالگرہ بھی 25 دسمبر کو تھی۔ نریندرمودی نے لاہور سے واپس دہلی پہنچنے پرجو پہلا ٹویٹ کیا، وہ کچھ یوں تھا کہ ' آج وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات ہوئی اور میں نے ان کی سالگرہ پر انکو مبارکباد دی۔'

نریندرمودی کی آمد کا یہ پہلو بھی کافی دلچسپ تھا کہ بقول سرکاری ترجمان کے ، ان کی آمد اتنی 'اچانک' تھی کہ اس تاریخی موقع پرمشیر براے خارجہ سرتاج عزیز اور مشیر براے قومی سلامتی امور جنرل نصیر خان جنجوعہ کی موجودگی یقینی نہیں بنائی جا سکی، بلکہ وزیراعظم کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیر اکمل عزیز بھی اس تاریخی عصرانے میں شرکت سے محروم رہ گئے۔ اگر حکومت کے اس بیانیے کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ تو بھی دوپہر ڈیڑھ بجے کے لگ بھگ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے توسط سے نریندرمودی کی لاہور آمدکی اطلاع پاکستان اور بھارت میں سب کو پہنچ چکی تھی۔ حکومت کو اس کی اطلاع یقیناً اس سے پہلے ہوچکی تھی۔ اب اگرحکومت کی واقعتاً چاہتی توخارجہ اور قومی سلامتی کے مشیروں کی اس موقع پر موجودگی کو یقینی بنانا کچھ ایسا مشکل نہیں تھا۔ پھر نوازشریف اور نریندرمودی کے درمیان یہ کوئی پہلی ' اچانک ملاقات' نہیں تھی۔

قبل ازیں رواں سال جولائی میں روس میں سمٹ کے دوران بھی اس طرح کی 'اچانک ملاقات' ہو چکی تھی، جس کے بعد باقاعدہ مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ملاقات کتنی 'اچانک ' تھی۔ گزشتہ ماہ پیرس میں سمٹ کے دوران بھی دونوں وزراے اعظم 'اچانک' سب سے الگ ہو کر جا بیٹھے تھے اور کافی دیر تک رازونیاز کرتے رہے تھے۔ حالیہ ' اچانک ملاقات' میں اسے بھی' اتفاق' ہی سمجھنا چاہیے کہ نوازشریف کو ان کی سالگرہ پر wish کرنے کے لیے نریندرمودی تو موجود تھے ہی، سنجن جندال بھی اپنی بیگم سمیت موجود تھے۔ یاد رہے کہ سنجن جندال بھارت میں اسٹیل کے بہت بڑے سرمایہ کار ہیں۔ جے ایس ڈبلیو گروپ کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ چند سال پہلے اسٹیل اتھارٹی آف انڈیا کی سربراہی میں قائم بھارتی کمپنیوں کے جس افغان آئرن اینڈ اسٹیل نامی کنسورشیم نے افغانستان کے صوبے بامیان میں خام لوہے نکالنے کی کام یاب بولی لگائی تھی، اس میں جے ایس ڈبلیو گروپ کے شیئرز سب سے زیادہ ہیں۔

نریندرمودی کی آمد کتنی اچانک تھی،کتنی اچانک نہیں تھی، اس بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ نریندرمودی پاکستان کو 'پیغام' کیا دے کر گئے ہیں۔ جو تفصیلات ابھی تک سامنے آئی ہیں، ان میں تو اس طرح کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی۔ ان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ نریندرمودی جمعہ کی سہ پہر اچانک لاہور پہنچتے ہیں، ائرپورٹ پر نوازشریف انکو خوش آمدید کہتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر وہ رائے ونڈ جاتے ہیں، ان کے خاندان اور ان کے رشتے داروں سے ملتے ہیں، پھر ان کی والدہ کے پاس جاتے ہیں، انکو پرنام کرتے ہیں اور ان کا آشیرواد لیتے ہیں، پانی کا ایک گلاس اور بغیر چینی کے چائے کا ایک کپ پیتے ہیں، ایک سبزی والا سموسہ اور انڈے والے دو پکوڑے کھاتے ہیں، نوازشریف کو سالگرہ اور نواسی کی شادی کی مبارکباد دیتے ہیں اور تحائف پیش کرتے ہیں، اور شام کو واپس چلے جاتے ہیں۔

لاہور میں اپنے قیام کے دوران کوئی ایک لفظ بھی نریندر مودی کے منہ سے ایسا نہیں نکلتا ،جس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہو کہ ان میںکوئی سیاسی بدلاو آیا ہے۔ واپس دہلی پہنچ کر بھی وہ نوازشریف اور ان کے خاندان کے والہانہ جذبات کی تعریف تو کرتے ہیں، لیکن پاکستان کے بارے میں کسی خوش گمانی کا اظہار نہیں کرتے۔ اس طرح وہ یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ ان کی لاہوریاترا پاکستان کے لیے نہیں، نوازشریف کے لیے تھی۔ ستم ملاحظہ کیجیے کہ25 دسمبر سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی سالگرہ بھی تھی۔ نریندرمودی اتنے متعصب ثابت ہوئے کہ نوازشریف سے اٹل بہاری واجپائی کی سالگرہ کی مبارکباد تو وصول کی بلکہ یہ بھی کہا کہ واپس پہنچتے ہی اٹل بہاری واجپائی کے پاس جائیں گے اور انکو نوازشریف کی طرف سے سالگرہ کی مبارکباد دیں گے، لیکن جواب میں جھوٹے منہ بھی بانی پاکستان کی سالگرہ کی مبارکباد نہیں دی۔

لیکن ذرا غورکریں تو لاہور میں نریندر مودی کی آمد کا معمہ حل ہو جاتا ہے۔ بھارتی وزیراعٖظم، پاکستان کو جو پیغام دینا چاہتے تھے، یہ پیغام وہ اس روز صبح کابل میں افغان پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں دے کر آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا، جن لوگوں کو یہ پسند نہیں ہے کہ بھارت ، افغانستان میں موجود ہو، وہ آ کے دیکھ لیںکہ بھارت افغانستان میں موجود بھی ہے اور اپنا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ ان کا یہ پیغام یقیناً پاکستان اورپاکستان کی فوج کے لیے تھا۔ اس طرح یہ کہہ کر بھی انھوں نے پاکستان پر ہی انگلی اٹھائی تھی کہ جب تک افغانستان کے ہمسایہ میں دہشت گردی کی نرسریاں ختم نہیں ہوں گی، افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا ہے۔

کابل میں یہ سب کچھ کہنے کے بعد نریندرمودی کو لاہور آ کر مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ افغان پارلیمنٹ سے ان کے خطاب کا سرسری سا مطالعہ بھی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ان کا مخاطب درپردہ پاکستان تھا۔ انتہا یہ ہے کہ نریندرمودی نے اے این پی کے جدامجد خان عبدالغفار خان عرف باچا خان ( سرحدی گاندھی ) کی سیاسی جدوجہد کا کر یڈٹ بھی خیبر پختون خوا (پاکستان) کے بجائے کابل (افغانستان) کو دیا، درآں حالیکہ خان عبدالغفار خان کی جو بھی سیاسی جدوجہد تھی ، وہ خیبر پختون خوا میں رہ کر کی گئی تھی۔ جمعہ کو صبح کو کابل میں پاکستان کے خلاف اس طرح کی گفتگو کرنے کے بعد، سہ پہر کو نریندر مودی لاہور پہنچے تھے ۔

یادش بخیر، نریندر مودی نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اپنی تقریب ِ حلف برداری میں سارک کے تمام رکن ملکوں کو مدعو کیا تھا ، پاکستان ، بنگلہ دیش ، بھوٹان ، مالدیپ ، نیپال، سری لنکااور افغانستان۔ یہ ایک عمومی دعوت تھی، نوازشریف نریندر مودی کی تقریب ِ حلف برداری میں شریک ہوئے تھے۔ ان کا کا یہ فیصلہ سوچا سمجھا تھا اور پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں ان کے 'مخصوص تصورات' کا آئینہ دار تھا۔ وہ یہاںتک فرماچکے ہیں کہ 11 مئی 2013ء کو ان کو قوم نے جو مینڈیٹ دیا تھا ، وہ بھارت سے دوستی کرنے کا مینڈیٹ بھی تھا ۔ بحث طلب امر صرف یہ تھا کہ نوازشریف کی دہلی یاترا کا نتیجہ کیا برآمد ہوا، اور سچ یہی تھا کہ ان کی دہلی یاترا کا جو بھی سیاسی اورغیر سیاسی فائدہ ہوا، نریندرمودی کو ہوا۔

نریندر مودی نے یہ ثابت کیا کہ وہ ایک شاطر سیاست دان ہی نہیں، ایک پختہ کار حکمران بھی ہیں۔ بطور ِ وزیراعظم ، انھوں نے پہلے روز ہی بھارتی عوام کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ دیکھو، وہی پاکستانی وزیراعظم جومنموہن سنگھ کو 'دیہاتی بڑھیا ' کہہ کر اس کا مذاق اُڑا رہا تھا، رسمی دعوت پر ہی مبارک باد دینے کے لیے آ پہنچا ہے۔ حلف برداری کی تقریب کے بعد سارک ممالک کے سربراہوںکے مشترکہ گروپ فوٹو میں نوازشریف، نریندرمودی کے دائیں طرف تیسرے نمبر پر نظر آرہے تھے۔ کھانے کی میز پر بھی یہی نظارہ تھا۔ یہ غیر اہم یا اتفاقی امور نہیں تھے۔ امور سفارت کاری سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اس طرح کی چیزیں پہلے سے طے شدہ ہوتی ہیں اور ان میں بھی پیغام ملفوف ہوتا ہے۔ دوسرے روز نواز شریف اور مودی کی ملاقات ہوئی تو نریندرمودی نے آداب میزبانی کی پرواہ کیے بغیر کہہ دیا کہ بمبئی بم دھماکوں کے مجرم، جو ان کے مطابق پاکستانی تھے، ان کی بھارت کو حوالگی کے بغیر دوطرفہ مذاکرات میں کوئی حقیقی پیش نہیںہو سکتی ہے۔

دنیا میں جب بھی اور جہاں بھی دوملکوں کے سربراہ اکٹھے ہوتے ہیں تو باضابطہ ایجنڈا نہ ہونے کے باوجود ان کی ملاقات کو 'تقریب بہرملاقات' نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن نریندرمودی کے ساتھ نوازشریف کی جتنی بھی' اچانک ملاقاتیں' ہوئی ہیں، ان میںسے پاکستان کے نقطہ ء نظر کے مطابق 'تقریب بہر ملاقات' کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوا۔ نوازشریف کی یہ دیرینہ خواہش البتہ ضرور پوری ہوگئی ہے کہ پردھان منتری نریندرمودی ان کے دولت کدے پر قدم رنجہ فرمائیں ۔ شاعر نے کہا تھا ،

وہ آئے گھر میں ہمارے، خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم انکو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔