نریندر مودی کا اچانک دورہ یا چھاپہ
نریندر مودی ابھی اپنے اچانک دورۂ پاکستان میں لاہور پہنچے بھی نہیں تھے
نریندر مودی ابھی اپنے اچانک دورۂ پاکستان میں لاہور پہنچے بھی نہیں تھے کہ بھارتی سیاسی پارٹیوں نے ان کے اس اچانک دورے پر تبصراتی ٹوئیٹ کرنا شروع کر دیے تھے۔ کانگریس کے ترجمان شکیل احمد اور شوسینا کے سربراہ اودے ٹھاکرے نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا تھا کہ ہم مودی کے اچانک دورے کو اس وقت کامیاب مانیں گے اگر وہ پاکستان سے داؤد ابراہیم کو اپنے ساتھ واپس لے آئیں۔
اس بات کو سامنے رکھ کر کچھ لوگ مودی کے اچانک دورے کو اچانک چھاپہ قرار دیتے ہوئے خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کا اچانک دورہ اور خاص طور پر میاں نواز شریف کے گھر آنا کہیں کسی بھارتی خفیہ ایجنسی کی اطلاع پر داؤد ابراہیم کی تلاش کا حصہ تو نہیں تھا؟ اتفاق سے اسی شہر لاہور میں بھارت کو موسٹ وانٹڈ حافظ سعید بھی رہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ مودی ان کی بھی ٹوہ لینے لاہور آئے ہوں مگر مودی جی اور بھارتی سیاسی پارٹیوں کو کون سمجھائے کہ نہ تو داؤد ابراہیم پاکستان میں رہتا ہے اور نہ ہی حافظ سعید ممبئی حملوں میں ملوث ہیں وہ تو صرف کشمیریوں کی آزادی کے علمبردار ہیں اور بھارت انھیں اسی جرم کی سزا ممبئی حملوں میں زبردستی گھسیٹ کر دینا چاہتا ہے۔
بھارت میں اس وقت داؤد ابراہیم کا معاملہ ضرور سرگرم ہے مگر بھارتی اپوزیشن اور خود بی جے پی کی اتحادی جماعتوں کا مودی کے اچانک دورۂ پاکستان سے اسے منسلک کرنے کا مقصد مودی کے مسلسل سیر سپاٹوں کو نشانہ بنانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تمام ہی بھارتی مودی کے دنیا کی سیر کرنے کے شوق سے تنگ آ چکے ہیں۔ مودی جی نے جب سے دہلی کا تخت سنبھالا ہے وہ دہلی میں کم اور دوسرے ملکوں میں زیادہ وقت گزار رہے ہیں۔ وہ جنوبی ایشیا کے سارے ہی ملکوں کا دورہ کر چکے ہیں بس صرف ایک پاکستان رہ گیا تھا سو اب اپنے اچانک ڈرامائی دورے کے ذریعے وہ بھی خواہش پوری کر لی ہے۔ مگر بھارتی عوام ان سے دست سوال ہیں کہ کیا انھوں نے انھیں دنیا کے سیر سپاٹے کے لیے ایک چائے والے سے بھارت کے وزیر اعظم کے عظیم عہدے تک پہنچا دیا تھا؟
یہ حقیقت ہے کہ مودی نے اپنے انتخابی جلسوں میں اپنے زوردار بھاشنوں کے ذریعے پورے بھارت میں تہلکہ مچا دیا تھا وہ ہر جلسے میں پاکستان کو برا اور بھلا اور اپنے جیتنے کے نتیجے میں بھارت میں دودھ کی نہریں بہانے کا دعویٰ کر رہے تھے مگر یہاں تو الٹا سوکھا پڑ گیا ہے۔ اترپردیش کے عوام اناج کے دانے کے لیے ترس رہے ہیں۔ ملک میں غربت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری رک گئی ہے، کانگریس کے دور میں جو پیسہ باہر سے آیا تھا وہ اب آہستہ آہستہ واپس جا رہا ہے۔ ہزاروں فیکٹریاں بند ہو گئی ہیں اس لیے کہ ایک تو خام مال مہنگا ہو گیا ہے بجلی کی آنکھ مچولی نے تنگ کر دیا ہے پھر امن و امان کی صورت حال دن بہ دن ابتر ہو رہی ہے۔ شو سینا اور آر ایس ایس کے غنڈے کھلے عام دہشت گردی کر رہے ہیں۔ اقلیتوں کا بھارت میں رہنا اجیرن بنا دیا گیا ہے۔
عدم برداشت کی انتہا کی وجہ سے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا ہے۔ وہ اپنے سرکاری ایوارڈز واپس حکومت کے منہ پر مار رہے ہیں۔ شوسینا نے ممبئی میں حکومت کے اندر حکومت قائم کر لی ہے۔ وہاں صرف مراٹھوں کو رہنے کی اجازت ہے یوپی اور دیگر صوبوں کے لوگوں کو وہاں سے نکل جانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ گائے کے گوشت کے بہانے مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔ مسلمان فلمی ستاروں کو زبردستی تنگ کر کے انھیں پاکستان جانے پر مجبورکیا جا رہا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مودی کر بھی کیا سکتے ہیں وہ تو خود آر ایس ایس کے رحم و کرم پر ہیں وہ جب چاہے انھیں وزارت عظمیٰ سے نکال باہر کر سکتی ہے۔
اب سوال یہ بھی ہے کہ گاندھی اور نہرو کا سیکولرزم کہاں گیا؟ حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم اور ان کے رفقا کو بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ آج جو بھارت میں ہو رہا ہے ان کی دوررس نگاہوں نے اس کا ادراک 68 برس قبل ہی کر لیا تھا کہ سیکولر بھارت کا نعرہ محض دکھاوا ہے آگے جا کر بھارت ہندو راج میں تبدیل ہو کر رہے گا اور وہ ہو گیا۔ اب اگر مسلمان سیکولر بھارت کے دھوکے میں آ کر پاکستان کا مطالبہ ترک کر دیتے تو آج برصغیر کے سارے ہی مسلمان غلاموں کی سی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ مانا کہ اگر سب اکٹھے ہوتے تو اب آبادی کے بڑھنے کے بعد مسلمان ہندوستان کی کل آبادی کا 35 فی صد ہو جاتے مگر پھر بھی 65 فی صد ہندو ان پر حاوی ہوتے۔
اب جہاں تک مودی کے پاکستان کے اچانک دورے کا معاملہ ہے تو یہ ان کا ضرور ایک مستحسن قدم ہے مگر اس کا بھی جواب انھیں آر ایس ایس کو ضرور دینا ہو گا کیونکہ آر ایس ایس انھیں پاکستان دشمنی کے دائرے میں رکھنا چاہتی ہے۔ آر ایس ایس نے انھیں دہلی اور بہار کے انتخابات کو پاکستان دشمنی پر لڑنے کی ہدایت کی تھی۔
مودی اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ہر انتخابی جلسے میں پاکستان پر لعن طعن کرتے رہے۔ امیت شا نے تو یہاں تک کہا تھا ''اگر بی جے پی ہار گئی تو پاکستان میں پٹاخے پھوٹیں گے'' مگر ہوا یہ کہ آر ایس ایس کی پاکستان دشمنی کو دہلی اور بہار کے لوگوں نے مسترد کر دیا چنانچہ مودی سرکار نے بہار کے الیکشن کی ہار سے ہی یہ اندازہ کر لیا تھا کہ بھارتی عوام پاکستان دشمنی کو ناپسند کرتے ہیں اس کے علاوہ بھارتی تاجر اور صنعتکار بھی بھارت کی پاکستان دشمن پالیسی سے تنگ آ چکے ہیں وہ تو شروع سے ہی پاکستان سے رشتے سدھارنے کے حق میں ہیں تا کہ ان کی تجارت کا دائرہ افغانستان سے لے کر وسطی ایشیائی ممالک تک پھیل سکے مگر اس کے لیے پاکستان سے راہداری کی سہولت حاصل کرنا ناگزیر ہے کیونکہ بھارت سے مغرب کی سمت جانے والے راستے کی چابی پاکستان کے پاس ہے۔
مودی جی چند دن پہلے تک پاکستان کو رات دن برا بھلا کہہ رہے تھے اور اب آر ایس ایس کی پاکستان دشمنی کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان سے دوستی بڑھانے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔ پہلے بھی میں اپنے ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ بھارت افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ اس کے تاجر اور صنعتکار بھی وہاں بھاری انوسٹمنٹ کر چکے ہیں۔ اب اس سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کے لیے انھیں افغانستان تک رسائی کے لیے سستے راستے کی تلاش ہے۔
مودی جی چونکہ خود بھی ایک بزنس مین ہیں چنانچہ وہ بھارتی تاجروں اور صنعتکاروں کا ساتھ دے رہے ہیں وہ دوسروں کے فائدے میں اپنا فائدہ دیکھ کرپاکستان سے دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش میں جٹ گئے ہیں ہو سکتا ہے کہ اس اچانک دورے کے بعد وہ مزید پاکستان کے دورے کریں۔ وہ ان دوروں کے ذریعے پاکستانی قیادت کے دل موم کرنے کی پوری کوشش کریں گے اور پاکستان کو بغیر کچھ دیے اپنا الّو سیدھا کرنا چاہیں گے مگر ہماری قیادت کے لیے یہ وقت بڑا اہم ہے۔ اسے مودی کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اپنے قومی مفادات کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیریوں کے مسئلے کو حل کرایا جائے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکمرانوں کو اب شدید احساس ہو چلا ہے کہ کشمیر پر ان کے قبضے نے ان کے لیے کئی مصیبتیں کھڑی کر دی ہیں اور بھارت کو پاکستان سے دشمنی بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔ حالانکہ انھوں نے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں، مشرقی بازو کو بھی توڑ دیا اور پاکستان میں دہشت گردی کا جال بچھا کر بھی دیکھ لیا مگر پاکستان مسئلہ کشمیر سے دست بردار نہ ہوا۔ مسئلہ کشمیر آج بھی عالمی ایجنڈے پر نہ صرف موجود ہے بلکہ خطرناک فلیش پوائنٹ بنا ہوا ہے پھر ایٹمی پاکستان سے اب آگے جنگ کرنا بھارت کے لیے اپنے ترقی یافتہ شہروں کو ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں تبدیل کرنے کے مترادف ہو گا۔
مزید برآں کشمیریوں کو سات لاکھ فوج کے ظلم و ستم کے ذریعے بھی ان کے آزادی کے جذبے کو سرد نہ کیا جا سکا یہ حقیقت ہے کہ اگر بھارت شروع میں ہی مسئلہ کشمیر کو حل کر لیتا تو وہ آج مغرب کی سمت جانے والے سنہری راستے سے محروم نہ ہوتا کہ یہ راستہ اس کی تجارت کے پھیلاؤ اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناگزیر ہے چنانچہ لگتا ہے کہ اب مودی سرکار مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے لیکن اب پاکستانی قیادت کا امتحان شروع ہو چکا ہے کہ وہ اس موقعے سے کیسے فائدہ اٹھاتی ہے۔