امن کی راہ میں حائل رکاوٹیں
اسلام آباد میں ہونے والی پانچویں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس استنبول امن پراسس کا حصہ تھی
اسلام آباد میں ہونے والی پانچویں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس استنبول امن پراسس کا حصہ تھی جو علاقائی تعاون اور رابطوں کے لیے موثر پلیٹ فارم ہے اور اس کا مقصد خطے میں طویل المدتی امن کا قیام ہے جب کہ اس سے رکن ممالک کو افغانستان میں امن و استحکام کے لیے نتیجہ خیز سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع ملتا ہے۔ پاکستان افغانستان میں استحکام اور پائیدار امن کا خواہاں ہے کیونکہ افغانستان میں عدم استحکام پاکستان کے مفاد میں نہیں۔
2011ء میں کانفرنس کے قیام کے بعد اس کے اہداف کے حصول کے لیے پاکستان اپنا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان، بھارت اور افغانستان کے علاوہ چین، روس، ایران، ترکی، متحدہ عرب امارات، تاجکستان، ازبکستان، کرغزستان سمیت 27 ممالک شامل ہیں۔ کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج پاکستان آئی تو انھوں نے کہا کہ وہ بھارت سے امن کا پیغام لے کر آئی ہے اور خوشی ہو گی کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات آگے بڑھیں۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی کانفرنس میں شمولیت سے پاک بھارت تعلقات میں سرد مہری کو ختم کرنے سے نتھی کر دیا گیا اور سیاسی مبصرین نے اس کی آمد کو دونوں ملکوں کے لیے نیک شگون قرار دیا۔ بلاشبہ اگر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج محبت کا پیغام لائی تھیں تو یہ خطے میں امن و خوشحالی کے لیے نیک فال ہو گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 68 سال سے سرحد پار سے پاکستان کو دشمنی اور جارحیت کے سوا کچھ نہیں ملا۔ تقریباً ڈیڑھ سال قبل وزیر اعظم نواز شریف نے نو منتخب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں خصوصی طور شرکت کی۔
نواز شریف کو دہلی دیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ وہ خیر سگالی کا جذبہ پیدا کرنے اور سرد مہری ختم کرنے کی خاطر مودی کی دعوت پر اس تقریب میں شریک ہوئے تھے، جب کہ مودی، وزیر اعظم نواز شریف کی دعوت پر پاکستان تو کیا آتے، الٹا بھارت کی طرف سے پاکستان کے سرحدی علاقوں پر شدید فائرنگ شرع کر دی گئی۔
چند ماہ قبل روس کے شہر اوفا میں شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس کے موقعے پر دونوں وزرائے اعظم کی ایک بار پھر ملاقات ہوئی ۔ اس موقعے پر باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دونوں ملکوں کے سلامتی مشیروں کے مذاکرات پر اتفاق ہوا، لیکن اس تعاون کا حشر بھی ماضی سے مختلف نہ تھا۔ پروگرام کے مطابق سرتاج عزیز کی دہلی روانگی سے چند گھنٹے قبل یکطرفہ طور پر مجوزہ مذاکرات منسوخ کر دیے گئے۔ اس سلسلے میں جو عذر پیش کیا گیا وہ خوئے بدرا بہانۂ بسیار کا آئینہ دار تھا۔ نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے حریت رہنماؤں سے ملاقات کی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔
گزشتہ ماہ پیرس میں بھی پاکستان اور بھارت کے رہنماؤں میں ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کا نتیجہ تھی کہ مودی عالمی برادری میں تنہا دکھائی دینے لگے تھے اور پیرس ملاقات کے ہی نتیجے میں بھارتی وزیر خارجہ پاکستان آئیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ محبت کا پیغام لائی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے کبھی بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ تقسیم ہند کے فارمولے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلم اکثریتی ریاست کشمیر پر قبضہ بھی کیا اور ان ریاستوں پر بھی قبضہ کر لیا جنہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں۔ پاکستان کو دو لخت کیا۔
را کے ایجنٹوں کے ذریعے کراچی اور بلوچستان میں تخریب کاری کی گئی۔ دریائی پانی کی تقسیم کے معاہدے سندھ طاس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی اور پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ناکام بنانے کے لیے بین الاقوامی سرحد پر جارحیت کی۔ بھارت نے افغانستان کی حکومت کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔
اس پس منظر کے باوجود پاکستان نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا شاندار استقبال کیا۔ انھوں نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کی اور بعد ازاں وزیر اعظم نواز شریف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے بھی ملاقاتیں کیں۔ جس میں دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات کے فروغ پر زور دیا گیا اور تمام مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کے عمل کا جائزہ لیا گیا۔ سرتاج عزیز سے ملاقات کے دوران بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ بھارت کو اٹاری براستہ افغانستان سینٹرل ایشیا تک تجارتی راہداری کی رسائی دی جائے۔
دراصل بھارت نے ہمیشہ اپنے مفاد کی سیاست کی ہے خطے کے مفاد کو کبھی پیش نظر نہیں رکھا۔ اب بھی بھارت تجارتی راہداری کی خواہش میں اپنے مفادات کو ترجیح دے رہا ہے، جب کہ پاکستان اور بھارت کے مابین دیرینہ تنازعات جیسے کشمیر و سیاچن اور پانی پر کبھی بات نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک خطے کے ممالک مل جل کر باہمی تنازعات کا حل نہیں نکالتے اس وقت تک جنوبی ایشیا میں امن کا خواب پورا نہیں ہو گا۔
اپنے دورے کے دوران بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے وزیر اعظم ہاؤس میں مسلم لیگ ن کی رہنما اور وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف سے ملاقات بھی کی۔ ملاقات کے دوران گرمجوشی اور خوشگوار جملوں کا تبادلہ بھی کیا گیا اور دیگر امور پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔ اس موقعے پر سشما سو راج نے بتایا کہ اس کے والدین کا تعلق لاہور کے علاقے دھرمپورہ سے تھا۔ پچھلی بار جب وہ پاکستان آئی تو وہ دھرمپورہ بھی گئیں اور انھوں نے اپنے والدین کی یادیں تازہ کی تھیں۔ اس موقعے پر مریم نواز شریف نے کہا کہ دونوں ملکوں کے عوام دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔ اس دورے سے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب آنے میں مدد ملے گی اور دونوں ملکوں کو تصفیہ طلب مسائل کا مل جل کر حل تلاش کرنا ہو گا۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے وزیر اعظم نواز شریف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقات کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا پیغام بھی پہنچایا۔ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اسلام آباد میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں اپنے ملک کے وفد کی قیادت کی۔
اعلامیے میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں نے باہمی جامع مذاکرات کا ازسرنو آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں پاکستان اور بھارت کے خارجہ امور کے سیکریٹریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے شیڈول اور طریقہ کار کا تعین کریں۔ ان مذاکرات میں امن و سلامتی کے معاملات، پاک بھارت اعتماد سازی کے اقدامات، مسئلہ کشمیر، سیاچن، سرکریک، وولر براج، تربل نیویگیشن پراجیکٹ پر بھی بات چیت ہو گی۔ انسداد دہشتگردی، نارکوٹکس کنٹرول کے امور، جامع مذاکرات کا حصہ ہونگے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے بھارت کو ممبئی ٹرائل کو جلد منطقی انجام تک پہنچانے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے۔ ملاقات میں دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کیا گیا۔ قومی سلامتی کے مشیر انسداد دہشت گردی سے متعلق امور پر رابطے میں رہیں گے۔ دونوں ممالک اقتصادی و تجارتی تعاون پر بھی جامع مذاکرات پر بات چیت کریں گے۔
اعلامیے کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان عوامی رابطوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ بلاشبہ یہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں اہم پیشرفت ہے اور دونوں ملکوں کے لیے بڑا بریک تھرو ہے۔ مگر ماضی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بھارت بار بار مذاکرات کی کوششوں کو تہہ وبالا کرتا رہا ہے اور اچھے پڑوسیوں جیسے تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس خطے کے ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں نے آخر کیا قصور کیا ہے کہ انھیں زندگی کی نعمتوں سے محروم رکھا جائے، اگر حق و انصاف کی راہ اختیار کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات حل نہ ہوں۔ اگر مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہو جائے، بھارت دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی سرپرستی چھوڑ دے اور جیو اور جینے دو کی پالیسی اختیار کرے تو امن کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں۔