سال 2015ء پاکستان کے لیے کیسا رہا

سال 2015میں پاکستان کی علاقائی اورعالمی اہمیت میں اضافہ ہوا اورملک کے اندرونی سیاسی حالات میں بھی ہلچل دیکھنےمیں آئی۔


اے بی رؤف December 31, 2015
ہر سال کی طرح اِس سال بھی پاکستان کو مسائل کا سامنا رہا مگر بحیثیت مجموعی بات کی جائے تو 2015ء گزرے ہوئے کچھ سالوں میں بہتر شمار ہوگا۔ فوٹو: فائل

ہر سال ایک نیا سال ۔۔۔۔۔ یہ دسمبر بھی کتنا ظالم ہے۔ سخت سردی درختوں کی لمبی قطاریں اور خزاں کے مارے زرد پتے پاؤں کے نیچے سر سراتے، یخ بستہ ہوا کے جھونکے، کانوں کو سردی کا احساس دلاتے بالکونی میں بیٹھ کر گرم چائے کے مزے۔ یہ سب دسمبر کی باتیں ہیں۔ اب کی بار کا دسمبر اتنا ٹھنڈا نہیں رہا جتنا اب سے کچھ سال پہلے تھا۔ انسانی ترقی کی بدولت ہونے والی موسم کی تبدیلیوں نے پاکستان کو بھی متاثر کیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔

یہ ماہ و سال گذرتے جا رہے ہیں۔ گذرا ہوا سال پاکستان کے لئے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں پاکستان کی علاقائی اور عالمی اہمیت میں اضافہ ہوا وہیں ملک کے اندرونی سیاسی حالات میں بھی ہلچل دیکھنے میں آئی۔ لیکن عام آدمی کے لئے مہنگائی جوں کی توں رہی بجلی اور گیس کے بحران بھی حل نہ ہو پائے۔ حکومتی دعوے اور منصوبے جاری و ساری ہیں۔ قائد اعظم سولر پارک اور نندی پور جیسے منصوبے تکمیل کو پہنچے تو ضرور مگر خاطر خواہ نتائج نہ دے سکے۔ جس کے وعدے مسلم لیگ (ن) نے الیکشن 2013ء کی مہم میں کئے تھے۔ اس سال کی بڑی خبر چین کی طرف سے پاکستان میں کی جانے والے 52 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔ جس کا اعلان چین کے صدر شی پنگ نے اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر کیا۔ پاکستان کی سرزمین پر یہ سرمایہ کاری سے گوادر بندرگاہ کو مغربی اور مشرقی راستوں کے ذریعے مغربی چین کے حصے سے ملایا جائے گا۔ جہاں کاشغر واقع ہے۔

اس طرح پاکستان سے چین سینڑل ایشیاء، سعودی عرب، امارات، ایران، افغانستان، روس، مشرقی یورپ اور ہندوستان تک توانائی کے منصوبے شامل ہیں۔ سڑکوں کے جال ریلوے لائنیں چین اور سینٹرل ایشیا کی طرف سفر کریں گی۔ ان منصوبوں کے مکمل ثمرات آئندہ سالوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ آنے والے دنوں میں گوادر بندرگاہ تجارتی سرگرمیوں کا علاقائی مرکز ہوگی۔ گیس کے بحران کو حل کرنے کے لئے پاکستان نے قطر کے ساتھ 15 سال کے لئے ایل این جی کی درآمد کا معاہدہ کیا ہے جس کی مالیت 16 ارب ڈالر ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان میں جاری گیس کے بحران کو حل کرنے میں مدد دے گا۔ اس طرح 13 دسمبر کو ترکمانستان میں تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کردیا گیا۔ جس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ یہ گیس پائپ لائن پچھلے کچھ سالوں سے تعطل کا شکار تھی۔ گیس پائپ لائن سے علاقائی امن اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا۔ گیس پائپ کی کامیابی افغانستان میں جاری امن عمل سے مشروط ہوگی۔ جیسا سب کچھ سوچا جارہا ہے اگر یہ ممکن ہوگیا تو سینٹرل ایشیاء کے بے پناہ قدرتی وسائل کی بیرون ممالک ترسیل شروع ہوجائے گی۔

اِس بات سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا امن ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہے۔ افغان طالبان پر مناسب اثر و رسوخ کی وجہ سے پاکستان افغان مفاہمتی عمل کا لازمی جزو ہے۔ اس سال ہونے والے چار فریقی مذاکرات ملا عمر کی وفات کی خبر کے بعد سے اب تک ملتوی ہیں۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی اِس امن عمل کو جاری رکھنے کے لئے افغانستان کے متعدد دورے کئے لیکن ہمیشہ کی طرح سرد گرم تعلقات رہے کی ریت اب بھی برقرار ہے۔

پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات 2015ء میں بھی چپلقش کا شکار رہے۔ ہندوستان نے 124 بار لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی۔ بھارت میں برسرِ اقتدار جماعت بھارتی جنتا پارٹی نے اِس بار صرف مسلم دشمنی کا ثبوت نہیں دیا بلکہ تمام ہی اقلیتوں کے لیے اپنے وطن میں رہنا مشکل سے مشکل تر بنادیا ہے۔ جس کے نتیجے میں بھارت پر ناصرف بین الاقوامی بلکہ اندر سے بھی رد عمل آنا شروع ہوا اور ادیبوں، فنکاروں اور دیگر اہم شخصیات کی جانب سے حکومت کی طرف سے ملنے والے اعزازت واپس کرنا اِسی سلسلے کی کڑی ہے۔

نریندر مودی صاحب سے نوازشریف صاحب کی پیرس میں جاری ماحولیاتی کانفرنس میں دو منٹ کی ملاقات ہوئی۔ یہ بات چیت صیغہ راز ہی رہی۔ جس کے بعد بینکاک میں قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات ہوئی۔ پھر سال کا اختتام اِس بات پر ہوا کہ 25 دسمبر بروز جمعہ نریندر مودی نے کابل سے واپسی پر لاہور میں 2 گھنٹے کا قیام کیا اور نواز شریف صاحب کو ان کی سالگرہ اور نواسی کی شادی کی مبارکباد بھی دی۔ جاتی امراء میں ہونے والی اس نمائشی ملاقات کو عالمی سطح پر بھی پذیرائی ملی۔ غالباً مختصر ترین دورہ پاکستان کا مقصد بھی یہی تھا۔ دونوں رہنماوں کے درمیان اب تک پانچ ملاقاتیں ہوچکی ہیں مگر تجارتی سطح پر اب تک تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تازہ ترین خبر یہ ہے اس دسمبر کے مہینے میں بھارت کی طرف سے وادی نیلم میں باڑ لگانے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ اب ایک طرف ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ے تو دوسری جانب سرحد پر حملوں اور باڑ لگانے کا معاملہ بھی چل رہا ہے۔ اِس 2015ء کا اختتام تو اِس سوال کے جواب میں گزر گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہونگے یا نہیں لیکن اگلے برس کے لیے اچھی اُمیدیں ضرور رکھتے ہیں۔

اس سال کی اہم ترین پیشرفت میں پاکستان اور روس کے تعلقات میں دفاعی معاہدوں کا ہونا شامل ہے۔ پاکستان اب جے ایف 17 تھنڈر کے انجن براہ راست روس سے خریدے گا اور ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر بھی روس پاکستان کو فروخت کرے گا۔ روس نے پاکستان میں جاری توانائی منصوبوں پر بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ پھر اکتوبر کے مہینے میں وزیر اعظم پاکستان نے امریکہ کا دورہ کیا۔ جہاں زیادہ تر بات پاکستان کے افغانستان میں کردار اور طالبان گروہوں کے خلاف کارروائی تک محدود رہی۔ یہ چارہ روزہ دورہ تھا۔ دفاعی تعاون اور تجارتی اہداف پر بات چیت ہوئی ساتھ ساتھ پاکستان میں خواتین کی فلاح کے لئے ایک منصوبہ شروع کیا گیا، جس کا انچارج وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نوا زکو بنایا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے سال 2015ء میں بیرون ممالک کے متعدد دورے کئے جو لگ بھگ 50 دنوں پر مشتمل ہیں۔

اب آتے ہیں ملک کی اندرونی صورت حال پر۔ پچھلی چار دہائیوں سے پاکستان افغانستان میں جاری جنگ کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی نے ملک کو شدید مالی اور جانی نقصان پہنچایا۔ کیسی کیسی نابغہ روزگار شخصیات اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار زرِمبادلہ کے ذخائر 21 ارب کے تجاوز کرگئے۔ پاکستان کے بیرونی قرضے 19299 ارب روپے سے تجاوز کرگئے۔ موجودہ حکومت میں 3800 ارب روپے کے قرضے حاصل کئے گئے۔ پٹرول کی قیمتوں میں 6 سال بعد ریکارڈ کمی دیکھنے میں آئی۔ بجلی اور گیس کی کمی سے صنعتوں کی پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ پاکستان اس سال کاٹن درآمد کر رہا ہے۔ خود کشیوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مہنگائی کی شرح بڑھنے کا سالانہ تناسب %4.6 رہا مگر سال کے درمیانی حصے میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا۔

دہشت گردی کے خلاف سال 2014ء سے جاری آپریشن ''ضرب عضب'' رواں سال بھی زور وشور سے جاری رہا۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق دسمبر 2015ء تک 3400 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ پورے ملک میں سہولت کاروں سمیت 21193 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ 183 انتہائی مطلوب دہشت گرد مارے گئے۔ 488 آرمی آفیسرز نے ملک کی وحدت کی حفاظت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اس طرح کراچی میں جاری رینجرز آپریشن میں 4074 دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو گرفتار کیا گیا۔ 887 دہشت گردوں 268 ٹارگٹ کلرز 97 بھتہ خور اور 49 اغواء کاروں کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔ دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے میں 12 رینجر اہلکار شہید ہوئے۔ 152 دہشت گرد رینجرز کے ساتھ مقابلوں میں مارے گئے۔ رینجرز اختیارات کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور وفاق کے درمیان ٹھن گئی جس کو وفاق نے از خود رینجرز کے اختیارات کو بحال کردیا۔ اصل مسئلہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور سابقہ دور حکومت میں کرپشن کی ہوشربا داستانیں ہیں۔

نیشنل ایکشن پلان کے تحت بلوچستان میں بگرتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت میں سینکڑوں باغیوں نے ہتھیار ڈالنے کے ساتھ ساتھ برہمداغ بگٹی، شازین بگٹی، حربیار مری سے مذاکرات کا آغاز کیا گیا۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق 9 ہزار افراد کو نقص امن کی بنیاد پرگرفتار کیا گیا۔ صوبائی محکمہ داخلہ کے مطابق گزشتہ دو سال کی نسبت بلوچستان کی صورتحال میں 70 فیصد تک بہتری نظر آئی۔

سال 2015ء میں مختلف شعبہ ہائے زندگی نابغہ روزگار شخصیات نے جہاں فانی کو خیرباد کہا ان میں سماجی کارکن سبین محمود، جنرل (ر) حمید گل، جناب جسٹس جاوید اقبال، جناب مخدوم امین فہیم، معروف شاعر جمیل الدین عالی، پاکستان کی پہلی شہید خاتون پائلٹ مریم مختار اور پاکستان ٹی وی کے بانیوں میں شمار ہونے والے اسلم اظہر انتقال کرگئے۔

مجموعی طور پر بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے یہ سال بہتر ثابت ہوا۔ دنیا بھر کے ممالک میں پاکستان میں جاری فوجی آپریشن ''ضرب عضب'' کی کارکردگی کو سراہا۔ چین اور پاکستان میں نئی جہت کا آغاز ہوا۔ پاکستان نے شنگھائی کارپوریشن کا باقاعدہ ممبر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ روس کے ساتھ تاریخی دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ یہ معاہدے آنے والے دنوں میں روس اور پاکستان کے درمیان عرصہ دراز سے جاری سرد مہری کو ختم کردیں گے۔ تاپی منصوبے کے ذریعے وسطی ایشیا کے ساتھ باقاعدہ تعلقات کے آغاز میں 2015ء اہم رہا۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں حالیہ نرمی بھی اسی سال کے اختتام پر وقوع پذیر ہوئی۔ افغان مفاہمتی عمل میں چار فریقی مذاکرات میں امریکہ پاکستان، چین اور افغانستان شامل ہوں گے۔ پاکستان اس کا بنیادی مرکز ہوگا۔

آرمی چیف نے متعدد ممالک کے دورے کرکے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کا موقف بھرپور طریقے سے پیش کیا۔ اگرچہ امریکہ سے سول نیو کلیئر معاملے پر تو کوئی پیش رفت نہیں ہوئی لیکن امریکہ نے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائیلوں کی کمی پر زور دیا۔ پاکستان نے یورپین آرگنائزیشن فار نیوکلیئر ریسرچ کے ادارے کا ایسوسی ایٹ ممبر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ پاکستان کے جوہری پروگرام پر یورپ کی طرف سے اعتماد کا اظہار ہے۔ یہ 2015 ہی ہے جس میں پاکستان نے لاطینی امریکہ کے ممالک کے ساتھ تعلقات کا آغاز کیا۔ برازیل نے آرمی چیف کو اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا۔

اگرچہ پاکستان میں آپریشن تو جاری ہیں مگر اُس کے باوجود 100 سے زائد بم حملوں میں 500 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔ لیکن ماضی کی نسبت اِن حملوں میں واضح طور پر کمی آئی ہے اور اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد زور و شور سے جاری ہے۔ عوام کا فوج پر اعتماد میں اضافہ ہوا۔ رینجرز آپریشن کی بدولت کراچی میں امن کی صورت حال بہتر رہی۔ عید کے موقع پر صرف کراچی میں 70 ارب روپے کی ریکارڈ تجارت ہوئی۔

ماضی کی نسبت 2015ء میں بھی تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کی سیاسی چپقلش عروج پر رہی۔

کھیلوں کے حوالے سے یہ سال کچھ اچھا نہیں رہا۔ پہلے سعید اجمل پر پابندی لگی تو سال کے آخر میں یاسر شاہ کا ڈوپ ٹیسٹ مثبت آگیا۔ پاکستان کو ون ڈے رینکنگ میں تنزلی کا سامنا کرنا پڑا۔ عامر کی شمولیت پر ٹیم میں اختلافات منظر عام پر آئے۔ لیکن کرکٹ کے حوالے سے ایک یشرفت بہت مثبت طور پر دیکھی جارہی ہے اور وہ ہے پاکستان سپر لیگ کا اعلان اور صرف اعلان ہی نہیں بلکہ تمام تیاریاں بھی مکمل ہے۔ لیگ کا انعقاد اگلے برس فروری میں متحدہ عرب امارات کے میدان میں ہوگا۔

اِس برس پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کو بحال کرنے کے لئے جو کوششیں کی گئیں اس کے نتیجے میں زمبابوے کی ٹیم کا دورہ پاکستان ہے جو اُس نے 19 مئی سے 31 مئی تک پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستانی عوام نے مہمان ٹیم کو بھرپور پذیرائی دی لیکن اِس دورہ کے باوجود لگ ایسا رہا ہے کہ ابھی پاکستان کو بین الاقوامی کھیلوں کی بحالی کے لئے مزید انتظار کرنا پڑے گا۔

سال 2015ء میں پاکستان کی فلم انڈسٹری کے حوالے سے تاریخی سال رہا۔ بڑے بجٹ کی بہت ساری فلمیں کامیابی سے ریلیز ہوئیں۔ جن میں بن روئے، رانگ نمبر، جلیبی، کراچی سے لاہور، جوانی پھر نہیں آنی، منٹو، دیکھ مگر پیار سے، شامل ہیں۔ اگر بحیثیت مجموعی بات کی جائے تو 2015ء گزرے ہوئے کچھ سالوں میں بہتر شمار ہوگا۔

[poll id="856"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں