چہ میگوئیاں
یہ معاہدہ آصف زرداری کے دور میں ہوا تھا اور ایران نے اپنے حصے کا کام مکمل کرلیا ہے
MIRPUR:
بعض غیر ملکی دورے ایسے موقعے پر ہوتے ہیں جس کو لوگ آسانی سے سمجھ جاتے ہیں کہ ان دوروں کے مقاصد کیا ہیں لیکن اگر تناظر بہ یک وقت کئی ہوں معاملات الجھے ہوئے ہوں تو ان کا تجزیہ آسان نہیں ہوتا۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کے معاہدے کی تنسیخ نہیں ہوئی اور اب ترکمانستان سے پائپ لائن آنے کو ہے کیونکہ یہ بھارت کے مفاد میں ہے اور اس کے افغانستان سے گزرنے میں افغانستان کا بھی مفاد وابستہ ہے اور ایران اس وقت خاموش ہے۔
یہ معاہدہ آصف زرداری کے دور میں ہوا تھا اور ایران نے اپنے حصے کا کام مکمل کرلیا ہے جب کہ چین، روس اور ایران عالمی افق پر یکجا ہیں اور اگر افغانستان کے حالات درست سمت نہیں جاتے تو پھر راہداری کے معاملے کھٹائی میں پڑسکتے ہیں۔ابھی افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے قرب وجوار میں جو جنگ چل رہی ہے، اس پر بعض ممالک کا خیال ہے کہ یہاں داعش کا اثرورسوخ موجود ہے۔
صورت حال پیچیدہ تر ہے خود افغانستان کے صدر اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ ایک صفحے پر نہیں۔ پاکستان میں ضرب عضب پر سندھ حکومت اور مرکزی حکومت میں چپقلش زور و شور سے چل رہی ہے۔ اس تمام صورتحال کو ہر زاویے سے دیکھنا آسان نہ تھا۔ لہٰذا میں نے مختلف الخیال حلقوں سے گفتگو کی۔ جن کو چار حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔
ایک حصہ تو یہ سمجھتا ہے کہ مودی کا دورہ پاکستان ایک عام دوستانہ دورہ ہے کیونکہ بھارتی میڈیا وزیر اعظم نواز شریف کو بھارت دوست شخصیت مانتا ہے اور نواز شریف بھارت میں مقبول رہنما ہیں اور بھارت میں عام تاثر یہ ہے کہ نواز شریف ہر قیمت پر خطے میں امن چاہتے ہیں اور یہاں بھی بعض دانشوروں کا بھی یہی خیال ہے کہ نواز شریف امن پالیسیوں پر یقین رکھتے ہیں، جب کہ دوسرا طبقہ یہ ہے کہ مودی بھارتی کاروباری ٹائیکون کے نمایندے ہیں اور نواز شریف پاکستانی کاروباری ہیں اور پاکستانی کاروباریوں کے نمایندوں کے ساتھی کے ساتھ ساتھ سعودی قدامت پرستوں کے نمایندے ہیں جب کہ نواز شریف پاکستانی کاروباری کے علاوہ مذہبی انتہا پسندوں کے نمایندے ہیں یعنی نریندر مودی اور نواز شریف میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں اپنے اپنے ملکوں کی مذہبی قدامت پسند اور تجارتی حلقوں کے نمایندے ہیں۔
بظاہر ایک دوسرے کے خلاف عمل اور اندر سے اتحاد۔ جوں ہی ضرب عضب شروع ہوئی سیالکوٹ سیکٹر اور واہگہ کے علاقوں میں گولہ باری اور جب وقت گزرا تو یہ بند ہوگئیں۔ تیسرا طبقہ لوگوں کا یہ کہنا ہے اور جو ہر عمل کو امریکا سے مربوط کردیتا ہے ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر سمندر کی تہہ میں دو مچھلیاں لڑرہی ہوں تو سمجھ لو یہ امریکا کی سازش ہے۔ اسی طبقے کا خیال ہے کہ نریندر مودی کی 25 دسمبر کو آمد امریکا کی چال ہے اور نریندر مودی امریکا کے کہنے پر غیر رسمی دورے پر پاکستان آکرخصوصاً جاتی امرا رائے ونڈ میں نواز شریف کے گھر جاکر ذاتی تعلقات کو مزید مضبوط کیا اور وزارت خارجہ کے قلم دان کو بالائے طاق رکھ دیا۔
اس طرح انھوں نے یہ ثابت کیا کہ خطے کا امن نواز مودی تعلقات کی زنجیرکی مضبوطی پر منحصر ہیں، کیونکہ موجودہ سیٹ اپ زرداری سے شروع ہوتا ہے جو این آر او کا تسلسل ہے۔
اس میں دائیں اور بائیں بازو کا کوئی دخل نہیں صرف اور صرف زرکے حصول کو اولیت ہے۔ اس کے ثبوت کے لیے وہ وفاق اور سندھ کے اختلاف کو پیش کرتے ہیں۔ جس میں سندھ کی حکومت وفاق کو حملہ آور قرار دیتی ہے۔ اس مسئلے کے حل کرنے میں وفاقی اسمبلی یا سندھ کی صوبائی اسمبلی ناکام رہی۔ یہ تھا صائب الرائے کا تیسرا گروپ۔ اب رہ گیا چوتھا گروپ جو خود کو بائیں بازو کا نمایندہ دانشوروں کا گروپ ہے جو گورباچوف کا ناقد اور پوتن کا طرف دار ہے اس کا کہنا ہے کہ عالمی پیمانے پر پٹرول کے نرخ میں اضافہ ہونے کو ہے۔ کیونکہ ترکی میں داعش کے علاقوں سے ہزاروں پٹرول ٹینکر تیل لے کر جاتے تھے اور وہاں سے یہ مغرب جاتے تھے۔
اس لیے دنیا میں پٹرول کے نرخ زمین پر آگئے تھے لیکن پوتن نے ہر روز 800 یا 1000 ٹینکروں کو بمباری کرکے ختم کرنا شروع کیا ہے اور 34 ملکوں کا اسلامی مزاحمتی اجلاس میں بھارت براہ راست ساتھی نہیں ہے مگر اندرونی طور پر وہ ملا ہوا ہے۔ کیونکہ بھارتیوں کی بڑی تعداد سعودی عرب اور امارات اور مسلم ممالک میں ملازمتیں کر رہے ہیں۔ لہٰذا زرمبادلہ کی ترسیل کا معاملہ اور بھارتی مفادات پر گفتگو بھی ایک حصہ تھا گو کہ روس نے 4 ایٹمی پاور پلانٹ بھارت میں لگانے کا معاہدہ کیا ہے اور اگر مشرق وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کے شعلے بھڑکے تو بھارت کا کیا کردار ہوگا یہ مسئلہ بھی زیر غور تھا، اگر آپ غور کریں تو احساس ہوگا کہ صورتحال کس قدر خطرناک ہے۔
اب القاعدہ داعش میں تبدیل ہوچکی ہے کیونکہ حوثی کے مد مقابل جہاں اسلامی اتحاد ہے وہاں داعش بھی حوثیوں کے مدمقابل کھڑا ہے۔ اس سے صورتحال کی پیچیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ خیال بائیں بازو کے نکتہ دانوں کا ہے بقول اس گروپ کے فوج نے کرپشن معاملات کو اٹھا رکھا ہے جس کی وجہ سے ملک مقروض ہوئے آئی ایم ایف کے کہنے پر املا لکھ رہا ہے اور ٹیکس کا طوفان ہے ملکی خزانہ ہر سال دباؤ کا شکار ہوتا جا رہا ہے اگر ملکی لیڈروں کے لوٹے ہوئے زر کو واپس لایا جاسکے تو ملکی معیشت کو استحکام ملے گا اور عام آدمی کی زندگی میں مشکلات کم ہوں گی۔ معاشی دہشت گردی بھی فوج کا ایک ایجنڈا ہے ۔
جس کی وجہ سے فوج کے سربراہ کو عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی اور امن و امان میں بہتری آئی مگر مرکزی حکومت اور فوج کے تعلقات کو یہ چوتھا گروپ کشمکش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اور سندھ کی حکومت اسی لیے وفاق کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ یہ گوناگوں مشکلات اور عالمی اور ملکی حالات کی بنا پر ملکی عوام مودی کی آمد کو خیرسگالی کا عمل تو قرار دیتے ہیں مگر ہر مکتبہ فکر اپنی رائے رکھتا ہے لہٰذا کوئی حتمی رائے سامنے نہیں آئی۔ لوگ کنفیوژن کا شکار ہیں مختلف حلقوں میں چہ میگوئیاں جاری ہیں۔