حکمراں بے قصور ہیں…
ٹارگٹ کلنگ سے مریے، روڈ ایکسیڈنٹ میں یا وی آئی پی پروٹوکول کے نتیجے میں، آخر ان میڈیا والوں کو کیا ہو گیا ہے
ہرذی حس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، دیر یا بدیر۔
تو پھر یہ واویلا کیسا...!
ٹارگٹ کلنگ سے مریے، روڈ ایکسیڈنٹ میں یا وی آئی پی پروٹوکول کے نتیجے میں، آخر ان میڈیا والوں کو کیا ہو گیا ہے؟ کیوں رائی کا پہاڑ بناتے ہیں، سنسنی پھیلاتے ہیں، کرپٹ لوگوں کی فہرست گنواتے ہیں، غیر ملکی بینکوں میں ان کی رقومات اور جائیداد کی کہانی سناتے ہیں، ان پر اغوا برائے تاوان کے الزامات لگاتے ہیں، یہ سب تو الزامات ہیں سنگین الزامات، سچ تو یہ ہے کہ سارے وزیر، سارے ایم این اے، ایم پی اے، تمام بیوروکریٹ، بشمول وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ سب معصوم ہیں اتنے ہی معصوم جتنا ایک نومولود، اگر یہ جرائم میں ملوث ہیں تو ان کو اس جانب ملتفت کون کرواتا ہے چور کو اگر چوری کا موقع دیا جائے تو وہ کوئی احمق ہے کہ موقعے سے فائدہ نہیں اٹھائے گا۔
ہاں اگر خزانے پر عوامی سانپ لہرانے لگیں تو شاید ان کی جرأت نہ ہو مگر مشکل تو یہ ہے کہ ہمارے عوام خود ہی اپنی ہی آستین کا سانپ ہیں، جنھوں نے ایوان بالا کے لیے لوٹ مار کے تمام راستے کھول دیے ہیں۔ اس لیے جب سینئر اینکرپرسن موٹے موٹے فائل لے کر ناظرین کو ان کے ثبوت دکھاتے ہیں تو کم از کم ہم پر توکوئی اثر نہیں ہوتا، کوئی حیرت نہیں ہوتی، اس لیے کہ ان ثبوتوں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا نہ وہ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکتے ہیں نہ چولھے سے نکل کر بھاڑ میں گھستے ہیں بلکہ معزز عدالتوں سے گواہ نہ ملنے کے باعث بری ہو جاتے ہیں۔ اتنے الزامات کے باوجود ہتک عزت کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ اس ملک کو تباہ کرنے میں بیوروکریسی کا بڑا ہاتھ ہے۔
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔
مگر لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت پورے ملک میں کرپشن کے بادل امڈ امڈ کر آ رہے ہیں، جس پتھر کو اٹھائیے اس کے نیچے سے بدعنوانی، بے ایمانی کے کیڑے کلبلاتے نکلیں گے میرے وطن کی مٹی جو سونے سے کم نہیں کسی کینہ پرور کے دل کی طرح سیاہی مائل ہوتی جا رہی ہے۔ اس ہنستے گاتے گنگناتے، روشن ملک کو گہن کس نے لگا دیا؟ الزامات پھر حکومت کے سر جائیں گے کبھی جمہوریت، کبھی آمریت کے نام پر نوحے پڑھے جائیں گے۔
یہی کہا جائے گا کہ عوام ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے، پانی کی کمی نے آنکھوں میں پانی بھر دیا ہے، بجلی کے فقدان نے گھروں کو اندھیر کر دیا ہے، گندگی اور غلاظت نے اسپتال بھر دیے ہیں ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کے بدترین نظام نے زندگی مفلوج کر دی ہے، اب ملک میں یا تو غریب ہے یا امیر، رہا متوسط طبقہ تو وہ اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ تو پھر آخر ان تمام حالات کا ذمے دار کون ہے؟ یہ سوال متواتر فضا میں گردش کر رہا ہے جب کہ اس کا جواب نہایت سہل ہے۔
''عوام اور صرف عوام''
کیونکہ یہ بات اٹل ہے سچ ہے سو فیصد سچ کہ جیسی قوم ویسے حکمران، تو اصل قصور سب عوام کا ہے جو بے حس بھی ہیں کم فہم بھی جنھیں لوٹ مار کرنے والوں سے پیار ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو الیکشن میں ووٹ کے ڈبے خالی ہوتے مگر ایسا نہیں ہوتا، وہ اپنی لوگوں کو پھر منتخب کرتے ہیں جنھوں نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا صرف اپنوں کو نوازا مگر قوم کو کبھی اپنا نہیں سمجھا، پاکستان کی نازک صورتحال کی ذمے داری صرف عوام پر ہے اس لیے حکمرانوں کو کچھ نہ کہیے، تنقید کرنا چھوڑ دیجیے، بڑے بڑے ٹاک شوز میں معزز حضرات کو بلا کر ناظرین کا وقت ضایع مت کیجیے انٹرویوز کے سلسلے ختم کر دیجیے، کہ یہ کسی مسئلے کا حل نہیں سوائے اس کے کہ شہرت کے خواہشمندوں کی تمنائیں پوری ہو جاتی ہیں، فوٹو سیشن ہوتے ہیں۔
اب دیکھیے نا حکومت سندھ سب کچھ بھول کر صرف ڈاکٹر عاصم کے ایشو پر جذباتی ہو رہی ہے سڑکوں پر ہزاروں بھوکے پیاسے لوگ دم توڑ رہے ہیں ، جن کے پاس نہ گھر ہے نہ روٹی، کہیں کوئی وڈیرہ اپنے نوکر کے ہاتھ پاؤں کاٹ رہا ہے، کہیں کوئی بے قصور تیزاب کے کنوئیں میں پھینکا جا رہا ہے اگر یہ رینجرز نہ ہو تو شاید اتنا بھی سکون نہ ہو مگر سوال پھر یہی پیدا ہوتا ہے کہ ان کا دائرہ پورے ملک میں کیوں نہیں پھیلتا، کیا چور، لٹیرے، دہشت گرد صرف سندھ میں ہیں؟ آمریت کو برا بھلا کہنے والوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اگر رینجرز کراچی میں آپریشن کر کے ہزاروں لوگوں کونہ پکڑتے تو کیا ہوتا؟
اگر ملک کی باگ ڈور فوج سنبھالے تو حکمرانوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں اور وہ تنقید کا نشانہ بنتی ہے کہ واقعی جمہوریت پھر جمہوریت ہے مگر یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں جمہور کی آواز دبا دی جاتی ہے تو پھر کیوں نہ اس ملک میں انقلاب آئے، جہاں ہر کرپٹ شخص کو چن چن کر تختہ دار پر چڑھایا جائے اور کوئی مسیحا ایسا آئے جو میرے وطن میں واقعی اس خواب کو پورا کر سکے جو بانی پاکستان نے دیکھا تھا جو منافرت، منافقت، عصبیت کا قلع قمع کر سکے اور یہ پاک سرزمین مہاجر، پٹھان، سندھی، بلوچی سے ہٹ کر صرف پاکستانی کہلا سکے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہو گا کیونکہ 2018ء میں ہونے والے الیکشن میں پھر یہی امیدوار ہوں گے اور پھر یہی عوام، اور عوام کے ووٹ بھی ان کی طرح ہوں گے جن کو سنہری خواب دکھا کر اقتدار کا تاج پہنا دیا جائے گا گویا یہ ملک یوں ہی رہے گا اور سارے پرندے اپنی اپنی بولیاں بول کر اڑ جائیں گے۔
مگر مشکل تو یہ ہے کہ یہ پرندے اپنی اپنی بولیاں بول کر اڑتے تو ہیں مگر پھر واپس اسی ڈالی پر بیٹھ جاتے ہیں اسی شاخ پر جہاں آشیانہ بنے گا تو یقینا ناپائیدار ہو گا اب لوگوں کا خدا بشمول حکمراں اور عوام پیسہ ہے جس کے لیے دنیا کی عزیز سے عزیز چیز بھی قربان کر دی جاتی ہے۔
تو صاحبو! اس ملک کی حالت اس وقت تک نہیں بدلے گی جب تک اس قوم کی سوچ تبدیل نہیں ہو گی کیونکہ ایک بدعنوان، بے ایمان شخص دوسرے کرپٹ انسان کو کبھی برا نہیں سمجھتا، کیونکہ ہمنوا اور ہم پیالہ بننے کے لیے صرف مشترک خیالات کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ الحمد اللہ ہمارے ہاں عام ہیں۔