نوراول کی بہاریں
ماہ ربیع الاول کو اپنی خوش قسمتی پر فخروناز ہے کیونکہ نور اول سے اس کی نسبت خاص ہے۔
ISLAMABAD:
ربیع الاول وہ مقدس مہینہ ہے جس میں بطن آمنہ سے نور اول کا آخر ظہور ہوا، جس نے غبار راہ کو فروغ وادیٔ سینا بخشا، وہ روح قدس عالم قدس سے جلوہ افروز ہوئی جس سے عالم امکان کا ذرہ ذرہ جگمگااٹھا۔ اس سید المرسلین، خاتم النبیین، رحمت للعالین کا ورود ہوا جس پر رب العالمین اور اس کے ملائکہ درود بھیجتے ہیں اور جس کی آمد نے لا الٰہ الا اﷲ کی سروری کا وہ رنگ جمایا کہ شیطان مردود اور اس کے انسانی روپ یعنی فرعون ونمرود کی روئے زمین پر بسنے والوں پر حکمرانی کے دن ہوا ہو گئے۔
ماہ ربیع الاول کو اپنی خوش قسمتی پر فخروناز ہے کیونکہ نور اول سے اس کی نسبت خاص ہے۔ آپؐ کی ولادت باسعادت اس ماہ میں ہوئی، نبوت کے لطیف اشارے بروایت بیہقی، سچے اور اچھے خوابوں کی صورت میں اس ماہ سے شروع ہوئے، آخرت میں حق شفاعت کا اعزاز تخفیف نماز کی قبولیت کی صورت میں اور اپنے رب سے شرفِ ملاقات کا اعزاز، بروایت ابن سعد، بیہقی، امام زہری، امام نووی اور ابن حزم، اس ماہ میں حاصل ہوا۔ ہجرت کے سفر کا آغاز اس ماہ میں ہوا اور رخصت اپنے رب کی طرف اس ماہ میں ہوئے، اس طرح آپؐ کا عالم قدس سے عالم امکان میں آنے تک اور عالم امکان سے عالم قدس میں واپس جانے تک درمیانی وقفہ حیات کے تمام اہم واقعات اسی ماہ مقدس کے نوشتہ تقدیر ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امت محمدیؐ اس ماہ مبارک کی آمد پر بیکراں خوشی اور مسرت کا اظہار کرتی ہے کیوں کہ اس ماہ کا اس ذاتِ اطہر سے رشتہ خاص ہے، جو انھیں دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر عزیز ہے۔ جس کے نام مبارک کی حرمت پر کٹ مرنا اور جس کی سنت کی اطاعت کرنا ان کا شیوۂ زندگی ہے جس کی شفاعت کی بدولت ہی اﷲ تعالیٰ کی عدالت، اس کی مغفرت اور رحمت کی وسعتوں میں پنہاں ہو کر ان کے حق میں جنت کی نوید مسرت ہو گی ۔
جس ذات سے محبت کا صلہ جنت ہو اور جس کی شفاعت کا نتیجہ ان کے حق میں اﷲ کی مغفرت اور رحمت ہو تو پھر کیوں نہ اس ماہ مبارک کی پر سعید گھڑیوں میں ان کی زبانیں آپؐ کی مدح و ثناء میں زمزمہ سنج ہوجائیں۔آپؐ کی ولادت با سعادت کے ماہ مبارک میں عالم اسلام میں عشق مصطفی کی لہر کا دوڑ جانا فطری امر ہے ہر مسلمان اپنے اپنے انداز اور علاقائی رسم و رواج کے مطابق اپنے دل بیقرار کے قرار اکے لیے اور روح زنگ آلودہ کو صاف کرنے کا انتظام کرتا ہے۔ ہر مسلمان اپنی اپن سوچ کے مطابق لذتِ روح اور اپنی اپنی استطاعت کیمطابق لذت درد دل کا سامان کرتا ہے۔
یہ امت کا فرض ہے اور آپؐ کا حق ہے کہ آپؐ کی ذاتِ پاک پر غیر مشکوک اور غیر متزلزل سچا اور پکا یقین رکھا جائے۔ ایسا یقین کہ یہ نام مبارک ذہن کا سکون، دل کی دھڑکن اور آنکھوں کا اطمینان بن جائے، ذہنی اور قلبی طور پر آپؐ کی ذاتِ طیبہ کو علمی اور عملی طور پر آپؐ کی تعلیمات کو سب سے بہتر اور سب کی رہبر تسلیم کی جائے، وہ فکر ونظر جو آپؐ کی تعلیمات کی منکر نظر آئے اس کو حقارت کی نظر سے دیکھا ہی نہ جائے بلکہ حتی المقدور اس کی قولی، عملی اور قلبی موثر قوت کے ساتھ مخالفت اور مزاحمت کر کے بے اثر بنا دیا جائے۔
آپؐ کی تعلیمات پر من جانب اﷲ ہونے پر یقین اور ان کی غیر مشروط اطاعت امت پر فرض ہے کیوں کہ آپؐ ناطق قرآن تھے، آپؐ کی زبان وحی کی ترجمان تھی، اس طرح آپؐ کی اطاعت حقیقت میں اﷲ کی ہی کی اطاعت ہے، اﷲ کی معرفت کا راستہ اور اس کی جنت کا صحیح پتہ صرف آپؐ کو معلوم ہے۔
اطاعت رسولؐ کی روح یہ ہے کہ جن ہاتھوں کو آپؐ نے اوامرکہا ہے ان سے رغبت اور محبت پیدا کی جائے اور ان راہوں پر محنت کی جائے اور جن باتوں کو نواہی قرار دیا ہے ان سے نفرت اور ہجرت اختیار کی جائے اور ان راہوں کو منہدم کر دیا جائے۔ آپ کی ذات کو اخلاص و محبت اور عقیدت و احترام کے سرشار جذبے کے ساتھ مطاع اور متبوع جاننا اور ماننا ہی ایمان کی معراج ہے۔
مسلمان کے یقین کے لیے سب سے معتبر اور مستند شہادت اﷲ تعالیٰ کی شہادت ہے قرآن شاہد ہے کہ اﷲ اور اس کے فرشتے آپ کی محبت کا دم بھرتے ہیں اس ذات پاک پر درود و سلام بھیجتے ہیں ارشاد ہوتا ہے ''اﷲ اور اس کے فرشتے پیغمبرؐ پر درود بھیجتے ہیں مومنو! تم بھی نبیؐ پر درود و سلام بھیجا کرو'' (سورۃ الاحزاب آیت56)
معراج کے موقعے پر اپنے رب کے رو برو، دو بدو گفتگو فرماتے ہوئے جب آپؐ نے فرمایا رب، سب مالی، قولی اور بدنی عبادتیں تیرے لیے تو رب نے کہا:
السلام علیک ایھاالنبی و رحمۃ اﷲ و برکاتہ
تشہد کی اہمیت یا دوسرے الفاظ میں اﷲ کی نظر میں عظمت رسالتؐ کا احترام کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے وہ نماز اﷲ کو قبول نہیں، اگر کوئی دانستہ تشہد نماز میں نہ پڑھے۔ نماز رب سے سلسلہ تکلم اور شرف ملاقات ہے ملاقات سے واپسی پر پہلے مسلمان نبیؐ معظم پر درود بھیجتا ہے اور پھر دنیا میں لوٹتا ہے، اس طرح معلوم ہوا کہ آپؐ سے محبت جزو ایمان کا تقاضا ہے کہ آپؐ کی خاطر ہر چیز گھر بار سامان معاش، اہل و عیال، عزیز و اقارب حتیٰ کہ والدین جیسی متاعِ عظیم کو چھوڑ دیا جائے۔
ہر محبت پر آپؐ کی محبت غالب ہو جائے، یہ آپؐ ہی کی ذات سے محبت کا اثر تھا کہ حضرت علیؓ کی نگاہ عشق و مستی نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر بلا چوں و چراں خوش دلی کے ساتھ ہجرت مدینہ کے موقعے پر دشمنوں کے نرغے میں آپؐ کے بستر پر لیٹ گئے حضرت ابو بکر صدیق ؓ اہل و عیال چھوڑ کر آپؐ کے رفیق سفر بن گئے۔
حضرت زید بن حارثؓ نے آپؐ کی غلامی کو آزادی پر ترجیح دی اور والدین کو چھوڑ دیا، حضرت بلال حبشیؓ آگ کی طرح جلتے ہوئے ریت کے توے پر اور حضرت خبابؓ دہکتے ہوئے انگاروں پر لیٹ گئے، ادھر مالی ایثار کے لیے آپؐ نے پکارا ادھر دیوانہ وار شمع رسالتؐ کے پروانے ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں کہتے ہوئے دوڑ پڑے۔ یہ چند آپؐ کی محبت میں ڈوبی ہوئی شہادتیں ہیں اور ہمارے لیے مثالیں ہیں۔ آپؐ کی محبت میں آگ کے دریا سے گزرنا پڑ ے تو خوشی سے گزر جانا اہل و عیال، مال و اسباب سے ہاتھ دھونا پڑے اور خاک وخون میں تڑپنا پڑے تو نہ گھبرانا یہ ہے آپؐ کی محبت کا معیار۔آپؐ نے اسی معیار محبت کو یوں بیان فرمایا:
''تم میں سے اس وقت تک کوئی آدمی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کو ماں باپ، اولاد اور دوسرے تمام لوگوں اور چیزوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔''
ان حقوق النبیؐ کا تعلق صرف آپؐ کی حیات طیبہ سے ہی نہیں تھا بلکہ آج بھی آپؐ کی سنت آپؐ کی قائم مقام ہے آپؐ کی سنت سے محبت کرنا اس کو زندہ اور پایندہ رکھنا اس کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کا انتظام و اہتمام کرنا آپؐ کے ذکر کو بلند کرنا یہ سب باتیں آپؐ کی ذات سے ہی محبت کے مترادف ہے آپؐ کی ذات سے محبت اور آپؐ کی سنت کی اطاعت ہی حقیقی سعادت اور جنت کی ضمانت ہے۔
نگاہ عشق و مستی میں جب تک آپؐ ہی اول آپؐ ہی آخر نہ بن جائیں محبت کا حق ادا نہیں ہوتا۔جو یہ کہتاہے کہ زبان سے کہہ بھی دیا محمد رسول اﷲ تو کیا حاصل، غلط ہے اس نام مبارک میں وہ برکت و رحمت اور روحانی تاثیر ہے کہ کہنے دینے سے بھی کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوتا ہے لیکن سب کچھ اسی وقت ہی حاصل ہوتا ہے جب اطاعت رسولؐ کو سرمایہ حیات سمجھ لیا جائے حق بات تو یہ ہے کہ جسے آپؐ مل گئے آپؐ کی شفاعت مل گئی اسے خدا مل گیا اور آپؐ، آپؐ کی شفاعت اور اﷲ کی رحمت ملنے کا پتہ آپؐ کی ذات سے محبت اور آپؐ کی سنت کی اطاعت ہے۔