ضرب عضب دہشت گردوں کے لیے ضرب غضب
شمالی وزیرستان صرف دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہی نہیں وہاں ان کے اقتصادی مرکز بھی تھے۔
ISLAMABAD:
پاکستانی فوج نے جون 2014 کو وزیرستان میں جو آپریشن شروع کیا، اُسے ضرب عضب کا نام دیا گیاتھا، جو تاحال جاری ہے۔ عضب کا مطلب ہے کاٹنا، تلوار سے کاٹنا۔ عضب حضرت محمـــد صلی اللــہ علـــیہ آلہٖ وسلم کی تلوار کا نام بھی ہے، جو آپ نے غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں استعمال کی تھی۔
اکتوبر 2015 میں پاک فوج نے شمالی وزیرستان کے80 فی صد علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جو بلا شبہ ایک اہم خبر تھی۔ اس خبر کی سچائی اس امر سے بھی عیاں ہوئی کہ ملک میں دہشت گردی کے بڑے بڑے حملوں میں عمومی طور پرنمایاں کمیواقع ہوئی ہے لیکن آپریشن کے باوجود متعدد علاقے ابھی تک مکمل طور پر عسکری تنظیموں سے پاک نہیں ہوئے۔
ایک سال قبل جب یہ آپریشن شروع ہوا تھا تو اُس وقت شمالی وزیرستان میں حکومت کی عمل داری کا کوئی تصور نہیں بھی کر سکتا تھا کیوں کہ ان علاقوں میں ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں نے اپنی گرفت مضبوط کر رکھی تھی اور ان علاقوں کے لوگ اِن کے یرغمال تھے۔دہشت گردوں کی عمل داری اور مقامی لوگوں کی جان خلاصی کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ سال 2015 میں پاک فوج کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کام یابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
پاک افغان سرحد پر واقع بعض علاقوں میں پاک فوج کی کاروائیاں تاحال جاری ہیں، ان علاقوں سے دہشت گردوں کے صفائے کے بعد ملک سو فی صد محفوظ ہو جائے گا۔
آپریشن ضرب عضب جب شروع ہوا تھا تو اس میں بہت تیزی نظر آئی تھی، پھر جب اس آپریشن کا دائرہ کار وسیع ہوا تو کاروائیوں میں مزید تیزی نظر آ گئی لیکن اب اس میں پہلے جیسی تیزی نہیں رہی۔ ہو سکتا ہے یہ کوئی جنگی حکمت عملی ہو، اس لیے آپریشن ضرب عضب کوناکام نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ اسی آپریشن کے باعث جنگجوؤں کے جتھے بکھرے ہیں اوران کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
آپریشن کی وجہ سے ابھی تک تمام بے گھر افراداپنے گھروں کو واپس نہیں جاسکے کیوں کہ وہاں اب بھی آپریشن جاری ہے اس لیے اس آپریشن کو فی الوقت مکمل آپریشن نہیں کہا جاسکتا۔شاید اسی لیے تجزیہ نگاروں کی رائے منقسم ہے۔
آپریشن ضرب عضب کا ایک سال مکمل ہونے پر پاکستانی فوج کی جانب سے جواعدادو شمار جاری کیے گئے، اُن کے مطابق ایک سال میںمختلف کارروائیوں کے دوران2763 دہشت گردوں ہلاک ہوئے اور پاک فوج کے347 افسر اور جوان شہید ہوئے۔ فوج نے 9000 خفیہ اطلاعات پر کارروائیاں کیں اور شہری علاقوں میں موجود218 دہشت گردوں کو نابود کیا، شمالی وزیرستان میں کارروائیوں کے دوران مختلف نوعیت کے 18087 ہتھیار اور 253 ٹن دھماکا خیز مواد برآمد کیا۔
دفاعی امور کے ماہر بریگیڈیر (ر) محمد سعد کا کہنا ہے کہ ایک سال پہلے تک ملک میں افراتفری اور بڑے بڑے حملوںکی جو فضا تھی، وہ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے کافی حد تک ختم ہوچکی ہے، گو کہ ہم اسے مکمل کام یابی نہیں کہ سکتے، یہ وقتی طورپر دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہے، جو لوگ پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔
ان کے پاس ابھی تک یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ بڑی کاروائیاں کریں اور وہ یہ پیغام بھی دے رہے ہیں کہ وہ کاروائیاں کریں گے۔ آپریشن ضرب عضب کی کام یابی کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ جلد از جلد فوجی کاروائی مکمل ہو اور وہاں بنیادی ڈھانچا کھڑا کرکے اختیارات سول انتظامیہ کے سپرد کیے جائیں تاکہ بحالی کے منصوبوں کا آغاز کیا جاسکے۔
شدت پسندی پر تحقیق کرنے والے ایک دوسرے تجزیہ نگار ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ آپریشن ضرب عضب اس حد تک کام یاب ہے کہ تحریک طالبان بکھر چکی ہے اور ان کا کمانڈ اور کنٹرول سسٹم بھی غیر موثر ہے لیکن جب تک بے گھر افراد کی اپنے گھروں کو واپسی نہیں ہوتی، اُس وقت تک کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی۔ اب تو یہ لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پہلے میران شاہ اور میرعلی کے متاثرین کی واپسی ممکن بنائی جائے کیوں کہ یہ ہی وہ لوگ ہیں، جو سب سے پہلے بے گھر ہوئے اور ان کا نقصان بھی زیادہ ہوا۔
آپریشن ضرب عضب کا ایک اور پہلو سے بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے کہ آرمی چیف نے جو کہا تھا، اُس کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اگست2015 میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا تھا کہ آپریشن ضرب عضب آخری مراحلے میں ہے، چھپے ہوئے دہشت گردوں کو بہت جلد ختم کر دیا جائے گا، کمانڈرز اس بات کو یقینی بنائیں کہ دہشت گردوں کا ان کے مددگاروں سے رابطہ نہ ہو پائے اور نہ ہی وہ بیرونی امداد لے سکیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں اگلے مورچوں کا دورہ کرتے ہوئے انہوں یہ بھی کہا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشنز کا تفصیلی جائزہ لیا جاچکا ہے۔
آرمی چیف نے دہشت گردی کے خلاف جاری کاروائیوں میں پیش رفت کو سراہا تھا اور انتہائی مشکل اور دشوار گزار علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کام یاب آپریشن پر پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کو خراج تحسین پیش کیا۔ جنرل راحیل شریف نے وادیٔ شوال سمیت دیگر حصوں میں متوقع آپریشنز سے متعلق امور کا بھی جائزہ لیا اورانہوں نے کمانڈروں کو ہدایت کی تھی کہ دہشت گردوں کا ان کے دوستوں سے رابطہ مکمل طور پر ختم کیا جائے اور یقینی بنایا جائے کہ دہشت گردوں کو بیرونی امداد نہ ملنے پائے۔
آرمی چیف نے کہا تھا کہ دہشت گردوں کو ملک میں اب کوئی جگہ نہیں ملے گی، ملک کے یہ دشمن اور ان کے سہولت کار اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ آرمی چیف نے کہا تھا کہ پاک فوج کے افسران اور جوانوں نے بڑی قربانیاں دے کر آپریشن ضرب عضب میں کامیابیاں حاصل کی ہیں، جنہیں پوری قوم قدر کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ اس کے بعد ستمبر2015 آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو کیوںکہنا پڑا کہ دہشت گردی سے پاک پاکستان کے حصول تک آپریشن ضرب عضب جاری رہے گا۔
یہ بات راحیل شریف نے اٹک میں بہادر رینج کے دورے پر کہی تھی، جہاں پاک فوج کی اسپیشل فورسز اور چینی فوج کے درمیان مشترکہ مشقوں 'واریئر تھری' کی اختتامی تقریب ہورہی تھی۔ اس اختتامی تقریب میں چینی فوج کا سینیئر وفد، جنرل لی فائی کی قیادت میں شریک ہوا تھا۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاک فوج کو کام یابیاں تو ملی ہیں مگر جامع کام یابیاں حاصل نہیں ہوئیں۔ اس کے باوجود دنیا کے دفاعی ماہرین اس آپریشن کی تعریف کررہے ہیں مثلاً، ڈنمارک کے وائس چیف آف ڈیفنس لیفٹیننٹ جنرل پیرلڈوگ سن نے اکتوبر میں ہی آپریشن ضرب عضب کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس آپریشن کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔
پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خطرے سے پائدار بنیادوں پر نمٹنے کے لیے مشترکہ سول و فوجی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستانی افواج، استحکام کا ایک اہم ستون ہیِں۔
اسی طرح افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے معاون نمائندہ خصوصی جوناتھن کارپینٹر نے اکتوبر 2015 میں کہا تھا کہ ضرب عضب سے وزیرستان اور خیبر ایجنسی محفوظ علاقے بن گئے ہیں، پاکستان کو اتحادی سپورٹ فنڈ کی ادائی جاری رہے گی۔ امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں جوناتھن کارپینٹر نے دہشت گردی کے خلاف جاری پاکستان کی کاروائی کو سراہا تھا۔
اْنھوں نے کہا تھا کہ پاک فوج نے شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں بہت اہم کام کیا جو خوش آئیند ہے کہ اِن علاقوں میں استحکام آیا ہے اور یہ طویل مدت کے لیے محفوظ علاقہ بن گیا ہے۔ قومی ایکشن پلان کی حکمت عملی پر عمل درآمد اور پیش رفت میں امریکا کو نہ صرف خاص دل چسپی ہے بل کہ امریکا پاکستان کی مدد بھی کرنا چاہتا ہے۔ ایک سوال پر جوناتھن کارپینٹر نے کہا تھاکہ رواں مالی سال کے دوران کولیشن فنڈ کی ادائگیاں جاری ہیں۔ لیکن نومبر میں پاکستان کے وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے نہ جانے یہ کیوںکہا کہ ''آپریشن ضرب عضب پر پیسہ خرچ ہورہا ہے، پاکستان کے دوست ممالک وعدے کرتے ہیں لیکن دیتے کچھ نہیں'' اس بیان نے بہت سے شکوک وشبہات پیدا کر دیے تھے۔ اس سے ایک تاثر یہ ابھرا کہ پاکستان یہ جنگ پیسوں کی خاطر لڑ رہا ہے۔
یہ آپریشن کب تک جاری رہے گا؟
ایک امریکی افسر کے ایک حالیہ بیان کے مطابق شمالی وزیرستان میں شروع ہونے والے آپریشن سے میراں شاہ اور میر علی میں موجود عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں مکمل طور پر ختم ہوچکی ہیں اورآپریشن کے بعد خودکش حملوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں کمی آئی ہے جب کہ ایک سینیئر امریکی اہل کارکی رائے یہ ہے کہ صرف فوجی آپریشن سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا بل کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اُن شکایات اور محرکات کو بھی ختم کرے، جن کی وجہ سے سویلین لوگ، دہشت گردوں کے ساتھ مل جاتے ہیں۔
امریکی افسر نے واشنگٹن پوسٹ سے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ شمالی وزیرستان کی محفوظ پناہ گاہیں، ہمارے لیے، افغانستان اور پاکستان کے لیے بڑے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا تھا کہ آپریشن کی وجہ سے کچھ عسکریت پسند پاکستان کے اردگرد اور اندر منتشر ہوچکے ہیں اور وہ پاکستان، افغانستان اور امریکا کے خلاف اپنے نئے اور خفیہ ٹھکانوں میں نئی کاروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، مسلسل کوششوں سے ہی، ان کو دوبارہ کارروائیاں کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔
اس بات کو تقویت یوں ملتی ہے کہ عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان صرف دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہی نہیں ، وہاں ان کے اقتصادی مرکز بھی تھے، یہ مرکز دہشت گردوں کی سرگرمیوں کے لیے مالی وسائل فراہم کرتے تھے۔ اس مال و دولت کی فراوانی کے باعث وہاں ہزاروں ٹن بارود جمع تھا اور ہے اگر اس بارود کو اس علاقے میں اڑا دیا جائے توعلاقے کی ساری تعمیرات زمین بوس ہونے کا خطرہ ہے اور اگر وہاں سے منتقل کرنے کی کوشش کی جائے تو منتقلی کا کام سرانجام دینے والوں کی زندگیاں داؤ پر لگ جائیںگی۔
اس کے علاوہ میران شاہ میں فورسز کی زمینی کارروائی کے دوران گھروں سے عربی ، ازبک ، ترکمان اور چینی وغیرہ سے ملتی جلتی زبانوں میں تحریری مواد بھی برآمد ہوا اور کئی دیگر شواہد ایسے ملے جو اس حقیقت کی نشان دہی کررہے ہیں کہ بڑی تعداد میں غیر ملکی جنگجوؤں نے ان علاقوں کے مکینوں اور مقامی باشندوں کے ساتھ رابطے اور رشتے داریاں قائم کر لی تھیں۔
15 ارب روپے کی لاگت سے شروع کیے جانے والے آپریشن ضرب عضب کا واحد مقصد شمالی وزیرستان میں ہر طرح کے عسکریت پسندوں کا صفایا کرنا تھا، گو کہ اس میں سال 2015 میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن ابھی مزید کامیابیوں کی ضرورت باقی ہے، شاید اسی لیے آرمی چیف نے کہا تھا کہ آپریشن دہشت گردوں کے خاتمے تک جاری رہے گا۔
پاکستانی فوج نے جون 2014 کو وزیرستان میں جو آپریشن شروع کیا، اُسے ضرب عضب کا نام دیا گیاتھا، جو تاحال جاری ہے۔ عضب کا مطلب ہے کاٹنا، تلوار سے کاٹنا۔ عضب حضرت محمـــد صلی اللــہ علـــیہ آلہٖ وسلم کی تلوار کا نام بھی ہے، جو آپ نے غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں استعمال کی تھی۔
اکتوبر 2015 میں پاک فوج نے شمالی وزیرستان کے80 فی صد علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جو بلا شبہ ایک اہم خبر تھی۔ اس خبر کی سچائی اس امر سے بھی عیاں ہوئی کہ ملک میں دہشت گردی کے بڑے بڑے حملوں میں عمومی طور پرنمایاں کمیواقع ہوئی ہے لیکن آپریشن کے باوجود متعدد علاقے ابھی تک مکمل طور پر عسکری تنظیموں سے پاک نہیں ہوئے۔
ایک سال قبل جب یہ آپریشن شروع ہوا تھا تو اُس وقت شمالی وزیرستان میں حکومت کی عمل داری کا کوئی تصور نہیں بھی کر سکتا تھا کیوں کہ ان علاقوں میں ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں نے اپنی گرفت مضبوط کر رکھی تھی اور ان علاقوں کے لوگ اِن کے یرغمال تھے۔دہشت گردوں کی عمل داری اور مقامی لوگوں کی جان خلاصی کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ سال 2015 میں پاک فوج کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کام یابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
پاک افغان سرحد پر واقع بعض علاقوں میں پاک فوج کی کاروائیاں تاحال جاری ہیں، ان علاقوں سے دہشت گردوں کے صفائے کے بعد ملک سو فی صد محفوظ ہو جائے گا۔
آپریشن ضرب عضب جب شروع ہوا تھا تو اس میں بہت تیزی نظر آئی تھی، پھر جب اس آپریشن کا دائرہ کار وسیع ہوا تو کاروائیوں میں مزید تیزی نظر آ گئی لیکن اب اس میں پہلے جیسی تیزی نہیں رہی۔ ہو سکتا ہے یہ کوئی جنگی حکمت عملی ہو، اس لیے آپریشن ضرب عضب کوناکام نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ اسی آپریشن کے باعث جنگجوؤں کے جتھے بکھرے ہیں اوران کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
آپریشن کی وجہ سے ابھی تک تمام بے گھر افراداپنے گھروں کو واپس نہیں جاسکے کیوں کہ وہاں اب بھی آپریشن جاری ہے اس لیے اس آپریشن کو فی الوقت مکمل آپریشن نہیں کہا جاسکتا۔شاید اسی لیے تجزیہ نگاروں کی رائے منقسم ہے۔
آپریشن ضرب عضب کا ایک سال مکمل ہونے پر پاکستانی فوج کی جانب سے جواعدادو شمار جاری کیے گئے، اُن کے مطابق ایک سال میںمختلف کارروائیوں کے دوران2763 دہشت گردوں ہلاک ہوئے اور پاک فوج کے347 افسر اور جوان شہید ہوئے۔ فوج نے 9000 خفیہ اطلاعات پر کارروائیاں کیں اور شہری علاقوں میں موجود218 دہشت گردوں کو نابود کیا، شمالی وزیرستان میں کارروائیوں کے دوران مختلف نوعیت کے 18087 ہتھیار اور 253 ٹن دھماکا خیز مواد برآمد کیا۔
دفاعی امور کے ماہر بریگیڈیر (ر) محمد سعد کا کہنا ہے کہ ایک سال پہلے تک ملک میں افراتفری اور بڑے بڑے حملوںکی جو فضا تھی، وہ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے کافی حد تک ختم ہوچکی ہے، گو کہ ہم اسے مکمل کام یابی نہیں کہ سکتے، یہ وقتی طورپر دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہے، جو لوگ پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔
ان کے پاس ابھی تک یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ بڑی کاروائیاں کریں اور وہ یہ پیغام بھی دے رہے ہیں کہ وہ کاروائیاں کریں گے۔ آپریشن ضرب عضب کی کام یابی کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ جلد از جلد فوجی کاروائی مکمل ہو اور وہاں بنیادی ڈھانچا کھڑا کرکے اختیارات سول انتظامیہ کے سپرد کیے جائیں تاکہ بحالی کے منصوبوں کا آغاز کیا جاسکے۔
شدت پسندی پر تحقیق کرنے والے ایک دوسرے تجزیہ نگار ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ آپریشن ضرب عضب اس حد تک کام یاب ہے کہ تحریک طالبان بکھر چکی ہے اور ان کا کمانڈ اور کنٹرول سسٹم بھی غیر موثر ہے لیکن جب تک بے گھر افراد کی اپنے گھروں کو واپسی نہیں ہوتی، اُس وقت تک کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی۔ اب تو یہ لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پہلے میران شاہ اور میرعلی کے متاثرین کی واپسی ممکن بنائی جائے کیوں کہ یہ ہی وہ لوگ ہیں، جو سب سے پہلے بے گھر ہوئے اور ان کا نقصان بھی زیادہ ہوا۔
آپریشن ضرب عضب کا ایک اور پہلو سے بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے کہ آرمی چیف نے جو کہا تھا، اُس کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اگست2015 میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا تھا کہ آپریشن ضرب عضب آخری مراحلے میں ہے، چھپے ہوئے دہشت گردوں کو بہت جلد ختم کر دیا جائے گا، کمانڈرز اس بات کو یقینی بنائیں کہ دہشت گردوں کا ان کے مددگاروں سے رابطہ نہ ہو پائے اور نہ ہی وہ بیرونی امداد لے سکیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں اگلے مورچوں کا دورہ کرتے ہوئے انہوں یہ بھی کہا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشنز کا تفصیلی جائزہ لیا جاچکا ہے۔
آرمی چیف نے دہشت گردی کے خلاف جاری کاروائیوں میں پیش رفت کو سراہا تھا اور انتہائی مشکل اور دشوار گزار علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کام یاب آپریشن پر پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کو خراج تحسین پیش کیا۔ جنرل راحیل شریف نے وادیٔ شوال سمیت دیگر حصوں میں متوقع آپریشنز سے متعلق امور کا بھی جائزہ لیا اورانہوں نے کمانڈروں کو ہدایت کی تھی کہ دہشت گردوں کا ان کے دوستوں سے رابطہ مکمل طور پر ختم کیا جائے اور یقینی بنایا جائے کہ دہشت گردوں کو بیرونی امداد نہ ملنے پائے۔
آرمی چیف نے کہا تھا کہ دہشت گردوں کو ملک میں اب کوئی جگہ نہیں ملے گی، ملک کے یہ دشمن اور ان کے سہولت کار اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ آرمی چیف نے کہا تھا کہ پاک فوج کے افسران اور جوانوں نے بڑی قربانیاں دے کر آپریشن ضرب عضب میں کامیابیاں حاصل کی ہیں، جنہیں پوری قوم قدر کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ اس کے بعد ستمبر2015 آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو کیوںکہنا پڑا کہ دہشت گردی سے پاک پاکستان کے حصول تک آپریشن ضرب عضب جاری رہے گا۔
یہ بات راحیل شریف نے اٹک میں بہادر رینج کے دورے پر کہی تھی، جہاں پاک فوج کی اسپیشل فورسز اور چینی فوج کے درمیان مشترکہ مشقوں 'واریئر تھری' کی اختتامی تقریب ہورہی تھی۔ اس اختتامی تقریب میں چینی فوج کا سینیئر وفد، جنرل لی فائی کی قیادت میں شریک ہوا تھا۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاک فوج کو کام یابیاں تو ملی ہیں مگر جامع کام یابیاں حاصل نہیں ہوئیں۔ اس کے باوجود دنیا کے دفاعی ماہرین اس آپریشن کی تعریف کررہے ہیں مثلاً، ڈنمارک کے وائس چیف آف ڈیفنس لیفٹیننٹ جنرل پیرلڈوگ سن نے اکتوبر میں ہی آپریشن ضرب عضب کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس آپریشن کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔
پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خطرے سے پائدار بنیادوں پر نمٹنے کے لیے مشترکہ سول و فوجی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستانی افواج، استحکام کا ایک اہم ستون ہیِں۔
اسی طرح افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے معاون نمائندہ خصوصی جوناتھن کارپینٹر نے اکتوبر 2015 میں کہا تھا کہ ضرب عضب سے وزیرستان اور خیبر ایجنسی محفوظ علاقے بن گئے ہیں، پاکستان کو اتحادی سپورٹ فنڈ کی ادائی جاری رہے گی۔ امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں جوناتھن کارپینٹر نے دہشت گردی کے خلاف جاری پاکستان کی کاروائی کو سراہا تھا۔
اْنھوں نے کہا تھا کہ پاک فوج نے شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں بہت اہم کام کیا جو خوش آئیند ہے کہ اِن علاقوں میں استحکام آیا ہے اور یہ طویل مدت کے لیے محفوظ علاقہ بن گیا ہے۔ قومی ایکشن پلان کی حکمت عملی پر عمل درآمد اور پیش رفت میں امریکا کو نہ صرف خاص دل چسپی ہے بل کہ امریکا پاکستان کی مدد بھی کرنا چاہتا ہے۔ ایک سوال پر جوناتھن کارپینٹر نے کہا تھاکہ رواں مالی سال کے دوران کولیشن فنڈ کی ادائگیاں جاری ہیں۔ لیکن نومبر میں پاکستان کے وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے نہ جانے یہ کیوںکہا کہ ''آپریشن ضرب عضب پر پیسہ خرچ ہورہا ہے، پاکستان کے دوست ممالک وعدے کرتے ہیں لیکن دیتے کچھ نہیں'' اس بیان نے بہت سے شکوک وشبہات پیدا کر دیے تھے۔ اس سے ایک تاثر یہ ابھرا کہ پاکستان یہ جنگ پیسوں کی خاطر لڑ رہا ہے۔
یہ آپریشن کب تک جاری رہے گا؟
ایک امریکی افسر کے ایک حالیہ بیان کے مطابق شمالی وزیرستان میں شروع ہونے والے آپریشن سے میراں شاہ اور میر علی میں موجود عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں مکمل طور پر ختم ہوچکی ہیں اورآپریشن کے بعد خودکش حملوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں کمی آئی ہے جب کہ ایک سینیئر امریکی اہل کارکی رائے یہ ہے کہ صرف فوجی آپریشن سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا بل کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اُن شکایات اور محرکات کو بھی ختم کرے، جن کی وجہ سے سویلین لوگ، دہشت گردوں کے ساتھ مل جاتے ہیں۔
امریکی افسر نے واشنگٹن پوسٹ سے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ شمالی وزیرستان کی محفوظ پناہ گاہیں، ہمارے لیے، افغانستان اور پاکستان کے لیے بڑے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا تھا کہ آپریشن کی وجہ سے کچھ عسکریت پسند پاکستان کے اردگرد اور اندر منتشر ہوچکے ہیں اور وہ پاکستان، افغانستان اور امریکا کے خلاف اپنے نئے اور خفیہ ٹھکانوں میں نئی کاروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، مسلسل کوششوں سے ہی، ان کو دوبارہ کارروائیاں کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔
اس بات کو تقویت یوں ملتی ہے کہ عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان صرف دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہی نہیں ، وہاں ان کے اقتصادی مرکز بھی تھے، یہ مرکز دہشت گردوں کی سرگرمیوں کے لیے مالی وسائل فراہم کرتے تھے۔ اس مال و دولت کی فراوانی کے باعث وہاں ہزاروں ٹن بارود جمع تھا اور ہے اگر اس بارود کو اس علاقے میں اڑا دیا جائے توعلاقے کی ساری تعمیرات زمین بوس ہونے کا خطرہ ہے اور اگر وہاں سے منتقل کرنے کی کوشش کی جائے تو منتقلی کا کام سرانجام دینے والوں کی زندگیاں داؤ پر لگ جائیںگی۔
اس کے علاوہ میران شاہ میں فورسز کی زمینی کارروائی کے دوران گھروں سے عربی ، ازبک ، ترکمان اور چینی وغیرہ سے ملتی جلتی زبانوں میں تحریری مواد بھی برآمد ہوا اور کئی دیگر شواہد ایسے ملے جو اس حقیقت کی نشان دہی کررہے ہیں کہ بڑی تعداد میں غیر ملکی جنگجوؤں نے ان علاقوں کے مکینوں اور مقامی باشندوں کے ساتھ رابطے اور رشتے داریاں قائم کر لی تھیں۔
15 ارب روپے کی لاگت سے شروع کیے جانے والے آپریشن ضرب عضب کا واحد مقصد شمالی وزیرستان میں ہر طرح کے عسکریت پسندوں کا صفایا کرنا تھا، گو کہ اس میں سال 2015 میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن ابھی مزید کامیابیوں کی ضرورت باقی ہے، شاید اسی لیے آرمی چیف نے کہا تھا کہ آپریشن دہشت گردوں کے خاتمے تک جاری رہے گا۔