عالمی معیشت اور جنگ

دو اقتصادی عفریتوں میں گھرے محنت کش، اپنا طبقاتی شعور بیدار کریں

دو اقتصادی عفریتوں میں گھرے محنت کش، اپنا طبقاتی شعور بیدار کریں ۔ فوٹو : فائل

دنیا سولہویں صدی سے ایک مستقیم خط پر دواں رہی ہے لیکن یہ صدی اسے اب ایک ایسے مقام پر لے آئی ہے، جہاں سے رستہ مڑتا ہے۔ متعدد قابل ذکر مفکرین کے علاوہ برٹرینڈرسل نے بھی بیسویں صدی کے غالباً نصف اول ہی میں پیش گوئی کر دی تھی کہ اب ترازو کا مشرقی پلڑا جھکنے کو ہے۔

اِس وقت عالم ایک سماجی انقلاب کی زد پر ہے، سماجی پیداوارکی برقی میکانیاتی پیداوار سے الیکٹرانکس پروڈکشن میں منتقلی اس کی رفتار کو تیز تر کر رہی ہے۔ دنیا کی معیشت و سیاست پر راج کرنے کی امریکی حکمتِ عملی میں پیداوار کے نئے ذرائع پیداوار تمام سابق معاشی و سیاسی اور سماجی رشتوں کو توڑ کر نئی بنیادیں استوار کر رہی ہے۔

اس نئے تناظر میں بننے والی نئی عالمی منڈی ایک انتہائی بے رحمانہ مقابلے کی خبر بد اثر دے رہی ہے۔ اس مقابلے میں ایشیا اور خاص طور پر چین ایک ایسی عالمی قوت کے طور پر ابھر رہا ہے، جو رواں صدی کی سیاست کی نئی تعریف متعین کرے گی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ نے خود کو تاراج کر لیا تو معیشت کا دھارا امریکا کی سمت اختیار کر گیا اور اس معاشی برتری نے اسے عالمی سیاست کا بھی محور بنا دیا۔ اس کی یہ بالادستی آٹھویں دہائی تک قائم رہی۔ 1986 کی دہائی میں اس کی منتقلی کا آغاز مشرق کی طرف ہونے لگا اور یہ سلسلہ 2008 میں جب عالمی معاشی بحران کی صورت میں ظاہر ہوا تو یہ دراصل امریکا کے ٹھن ٹھن گوپال ہونے کی تیاری ہے لیکن اس کے ساتھ ہی دنیا کے ایک اور جنگ کی طرف بڑھنے کا غیر اعلانیہ اظہار بھی ہے۔

ایک مغربی محقق مائیکل ایونز کاکہنا ہے کہ سولہویں صدی کے بعد پہلی بار عالمی معاشی قوت کا ارتکاز نہ تو یورپ کی طرف ہوگا اور نہ ہی امریکا کی جانب بل کہ اب باری ہے ایشیا کی۔ ایشیا کی آبادی 4.30 ارب یا دوسرے الفاظ میں دنیا کا 60 فی صد ہے اور اس کا رقبہ بھی زیادہ ہے۔ اس کو تین الگ علاقائی اقتصادی منطقوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

.1مشرقی ایشیا، 2 .جنوبی ایشیا اور 3 ۔ جنوب مشرقی ایشیا۔ اس براعظم کی بڑی معیشتیں چین، جاپان، جنوبی کوریا اور انڈونیشیا قرار پاتی ہیں۔ مشرقی ایشیا میں چین، جاپان اور جنوبی کوریا آتے ہیں۔ حیرت نہیں ہونی چاہیے یہ جان کر کہ 2006 میں اس خطے کی جی ڈی پی 37.5 فی صدی تھی۔

اس خطے کی آبادی ڈیڑھ ارب بنتی ہے یعنی ایشیا کی کل آبادی کا 38 فی صد اور دنیا بھر کی آبادی کا 22 فی صد، ایک اور طرح سے کہی تو دنیا کی کل آبادی کے پانچویں حصے سے کچھ زیادہ۔ جنوبی ایشیا کا ذکر کیجیے، تو اس کی آبادی ایک ارب 20 کروڑ بنتی ہے، جو دنیا بھر کی آبادی کا پانچواں حصہ ہے، اس میں بھارت جیسا غریب ملک بھی شامل ہے۔

جس کی 40 فی صد سے زیادہ آبادی کی آمدنی سوا ڈالر روزانہ سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود جنوبی ایشیا اپنے براعظم کا اہم ترین تذویراتی خطہ ہے کیوں کہ مشرقی ایشیا کی 50 فی صد ٹریفک اور اس کا 70 فی صد تیل بحرہند کے راستے سے جاتا ہے۔ بحرہند میں امریکی فلیٹ کے بعد سب سے بڑی بحریہ بھارت کی ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا، براعظم ایشیا کا سب سے چھوٹا علاقہ ہے، اس میں واقع چودہ ملکوں کی آبادی 593 ملین ہے۔ یہ چودہ ملک مشرقی تیمور کے سوا، سب آسیان (Association of south-east Asian Nations) کی تنظیم کے رکن ہیں۔ اپنے چھوٹے حجم کے باوجود یہ خطہ سیاست و معیشت کامرکز ہے۔ اس اہمیت کی وجہ جنوبی چینی سمندر اور اقتصادی ساجھے داری ہے۔ آسیان کا اساسی مقصد خطے کو معاشی طور پر مستحکم کرنا ہے۔

جنوبی چینی سمندر میں چین اور فلپائن کے مابین تنازعہ چلا آ رہا ہے۔ اس تنازع کی وجہ یہ ہے کہ 2012 میں فلپائن نے جزیرہ سکاربورو شوآل (Scarborough shoal) کے علاقے میں ماہی گیری کرتے ہوئے کچھ چینی کشتیاں پکڑ لیں۔ اس پر چین نے فلپائن کو دھمکایا تو اس نے امریکی آقاؤں سے پناہ کی ضمانت حاصل کر لی۔ اس علاقے پر چین بھی دعویدار ہے اور فلپائن بھی اور ایک تیسرا دعویدار اس کا تائیوان ہے۔

امریکا ایشیا اقتصادی بندھن
1991 میں امریکا ایشیا تجارت کا حجم 300 ارب ڈالر تھا جو 2006 میں 900 ارب ڈالر ہو گیا اور اب اس کی قدر و قیمت میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ دسمبر 2011 تک چین، جاپان، ہانگ کانگ پر امریکا کے وفاقی قرضے کی ضخامت اڑھائی کھرب ڈالر تھی یعنی امریکا کے کل وفاقی قرضے کا 28.6 فی صد۔


صدر اوباما ایشیا کو اس کے رقبے اور آبادی کے حوالے سے تَر مال قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر خاص طور پر بھارت، انڈونیشیا، چین اور ویت نام پر ہے، جنہیں امریکی مال اور خدمات برآمد کی جا سکتی ہیں۔ امریکا کی رقابت چین، ہانگ کانگ، سنگاپور، جاپان اور جنوبی کوریا کی کمپنیوں سے بنتی ہے کیوں کہ یہ کمپنیاں بھی اپنی علاقائی منڈی کی وسعت اور اس کے مواقع سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس سے آگے عالمی مارکیٹ پر بھی نظر رکھتی ہیں۔

ایشیائی ممالک اپنی مصنوعات کی مینوفیکچرنگ کے لیے چین کو اپنے پرزے اور معاون مال فراہم کرتے ہیں۔ یہ چین اور ایشیائی ممالک کے مفادات کو محفوظ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں چین، ایشیا کے رہبر کے طور پر امریکا کا سب سے بڑا رقیب بن کر سامنے آتا ہے۔

چین امریکا تعلقات
چین جوں جوں ایک اقتصادی قوت کے طور پر ابھرتا آ رہا ہے، توں توں امریکا کی عسکری حکمت عملی کی خصوصی توجہ کا مرکز بنتا جارہا ہے۔ وہ کسی طور ایشیا اورچین میں اپنے معاشی اور جیو پولیٹیکل مفادات پر زور آزمائی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور اس مقصد کے لیے اپنے مسل کم زور نہیں پڑنے دیتا۔ خطے میں اگر کوئی جنگ چھڑی تو جان لیجیے کہ یہ ہی معاشی رقابت اس کی بنیادی وجہ ہوگی۔

یہ دونوں ممالک اپنی اپنی طاقتوں کی بنیاد دو یک سر مختلف فلسفوں پر کارفرما ہیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ کل عالم پر اپنی شہنشاہیت کا پھریرا لہرائے اور اسے اپنے اشارۂ ابرو کا فرمان بردار بنائے، اسی لیے وہ اپنی عسکری طاقت کو روزافزوں رکھتا ہے۔

اس کے مقابل چین اس نوع کی بادشاہت قائم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اس کے اپنے کچھ تضادات ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام میں گھستا تو ہے لیکن غیر ملکی سرمائے کو پابند (Controlled) رکھتا ہے۔ وہ سماجی وسائل کو معیشت سازی کے لیے مختص کرتا ہے، اسی طرح وہ ملک کی مختصر لیکن ارب پتی اشرافیہ کو بھی قابو میں رکھے ہوئے ہے۔

اس کی طویل مدتی پالیسی کا مقصد اپنے عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنے مالیاتی بجٹ کو اپنے سویلین سیکٹر پر مرکوز رکھتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنی افواج کو نظرانداز کرتا ہے لیکن اس کا دفاعی بجٹ، امریکا کے مقابلے میں سات گنا کم ہے۔ یہ ہندسے پڑھ کر اندازہ کیجے کہ سال 2012 میں امریکہ کا ملٹری بجٹ 737 ارب ڈالر تھا جب کہ چین کا فوجی بجٹ 115.7 ارب ڈالر تھا۔

دماغ دہی کر دینے والے اتنے ہیبت ناک اخراجات کا مقصد آخر کیا ہے ؟۔ اتنے ہیبت ناک بجٹ کو دفاعی کے بجائے جارحانہ بجٹ کہا جائے تو بہتر ہے۔ امریکا نے دنیا بھر میں لگ بھگ 800 فوجی اڈے قائم کررکھے ہیں۔ جنوبی کوریا، جاپان، گوآم، افغانستان اور تائیوان میں اس کے فوجی اڈے، دراصل ایشیا اور خاص طور پر چین کے خلاف ضرورت پڑنے پر استعمال میں لانے کے لیے ہی ہیں۔

امریکا کے جنگی عزائم
اس وقت امریکا کے صوابدیدی بجٹ کا نصف فوج پر صرف ہو رہا ہے اور اس میں اس کی ''سام راجیت'' کے عزائم میں اضافے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے۔ اس کا ہدف ایشیا اور بالخصوص چین ہے۔ وہ برملا تسلیم کرتا ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی کا محور ایشیا ہے چوں کہ اس سے اس کی قومی سلامتی اور اقتصادی مفادات وابستہ ہیں۔

یہ وہ مسابقت ہے جو نہ صرف عالمی معیشت کا توازن بگاڑ رہی ہے بل کہ ایشیا کی منڈی سے زیادہ سے زیادہ منافع اٹھانے کی یہ دوڑ دنیا کو جنگ کے قریب لا رہی ہے۔ دونوں گروپوں کے مقتدر حلقے ایک دوسرے کے خلاف نظریاتی پراپیگنڈے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

چین اور امریکا کے مابین اس رقابت کو تاربخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس تنازع کے دو جغرافیائی نقطے سامنے آ جاتے ہیں۔ ایک نقطہ تائیوان ہے اور دوسرا جنوبی کوریا۔ ان ہی دونقاط کو امریکی شہنشاہیت سازی کے عزائم رکھنے والے، جنگ کی ناگزیر بنیاد بنا سکتے ہیں۔ ان کا حتمی ہدف یہ ہے کہ نئے حالات کے تناظر میں اپنی عسکری، سیاسی اور اقتصادی قوتوں کی یک جائی کے بل پر بڑھتے چلے آتے ایشیا کارستہ روکا جائے۔

پس چہ باید کرد؟
وہ حلقے جو یہ جانتے ہیں کہ عالمی اشرافیہ کے عزائم کیا ہیں، انہیں یہ جاننا زیادہ ضروری ہے کہ جنگ مسلط کرنے کا ارادہ کون رکھتا ہے ؟ ظاہر ہے امریکا کسی بھی قیمت پر دنیا اور خاص طور پر ایشیا کی مارکیٹ پر قبضہ جمانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اس خوف ناک ترین عفریت کو روکنے کے لیے محنت کش طبقات کو متحد ہونا پڑے گا۔ ایک ایسا طبقے کی صورت میں، جو سرمایہ دار طبقات کے سامنے اپنے مفادات کے لیے ڈٹ جائے۔ درندے کے پیٹ میں بیٹھے محنت کش طبقے کو چاہیے کہ وہ دنیا کو بارود سے بھرنے والے عناصر کے خلاف اٹھ کھڑا ہو۔ وہ اپنے ٹیکسوں کو دنیا کو جہنم بنانے پر نہ خرچ ہونے سے بچائے۔
Load Next Story