’’اللہ کی قدرت سیاچن میں عورت‘‘

عموماً انور مقصود کے ڈراموں کو دیکھ کر ناظرین زیادہ ہنستے ہیں مگر سیاچن کودیکھنے والوں کی آنکھیں ضرور نم ہوجائیں گی۔

سیاچن ڈرامے میں اداکاروں نے اس بات کو باور کروایا کہ جتنے ہی سخت اور مشکل حالات ہی کیوں نہ ہوں لیکن پاکستان کا ہر فوجی اپنے ملک کی خاطر جان دینے کے لئے تیار ہے۔

آخر یہ فوجی بھی انسان ہیں اور ان کی کہانی بیان کی ہے انور مقصود نے کچھ اپنے ہی انداز میں۔ جی ہاں یہ کہانی ایسے فوجیوں کے گرد گھومتی ہے جو اپنے گھر بار کی پرواہ کئے بغیر ملکی حفاظت میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ ساتھ ہی گھر سے دور ہونے کے سبب وہ یاد کرتے ہیں اپنے گھر والوں کو اپنی ماں، بہن، بیٹی، بیٹا، دوست اور زندگی سے منسلک ہونے والے دیگر رشتوں کو۔

داور محمود کی ہدایت کاری اور انور مقصود کے اسکرپٹ نے سیاچن ڈرامے میں ایسی جان ڈالی ہے جس سے واقعی شیکسپئیر کی وہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ 'زندگی ایک اسٹیج کی مانند ہے اور ہم سب کو اس سے گزر جانا ہے'۔ اداکاروں کی بہترین پرفارمنس نے اس ڈرامے میں زندگی بھر دی ہے۔ جی ہاں سخت سردیوں میں ہم اپنے گھروں میں گرم اور نرم و ملائم بستروں پر سکون کی نیند سوتے ہیں اور اسی زمین پر ایک ایسا بھی مقام ہے جہاں سال کے 12 مہینے سورج بہت کم ہی اپنی شکل دکھاتا ہے اور برف کی چادر ہر وقت ان پہاڑوں کو اپنی لپیٹ میں لئے رہتی ہے اور ہمارے ملک و قوم کے محافظ ہر آن ہر لحظہ انہی پہاڑوں میں رہتے ہیں جو سیاچن کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

ان تمام مناظر کو قلم کے ذریعے صفحے پر لانا انور مقصود صاحب کا کمال اور پھر انہیں اداکاروں سے پرفارم کروانا داور محمود ہی پر جچتا ہے۔ حال ہی میں شروع ہونے والے اس تھیٹر ڈرامے جس کا نام ''سیاچن'' ہے، اپنے منفرد انداز کی وجہ سے لوگوں میں ایک مقام پیدا کرلیا ہے اور اس بات کا بھی احساس دلایا ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے تھیٹر بنائے جا سکتے ہیں۔ ڈرامے کے ڈائیلاگز کی ادائیگی میں ایسا تسلسل ہے کہ ناظرین کو 'پونے 14 اگست' اور 'سوا 14 اگست' کی جھلک اس میں صاف دکھائی دے گی۔

عموماً انور مقصود کی نوک قلم سے لکھے جانے والے ڈراموں کو دیکھ کر ناظرین زیادہ ہنستے اور کچھ کم غمگین نظر آتے ہیں لیکن یہ سیاچن اس سے کہیں مختلف ہے کیونکہ اس میں مزاح تو اپنی جگہ ہے لیکن ساتھ ڈائیلاگز میں ایک ایسا اثر ہے جس سے دیکھنے والوں کی آنکھیں ضرور نم ہو جائیں گی۔ اس تھیٹر کے ڈائریکٹر داور محمود نے کہانی کو کس حد تک جاندار بنایا ہے اس کا اندازہ آپ کو یہ جان کر ہوگا کہ اس تھیٹر میں کام کرنے والی پوری کاسٹ کو 120 دنوں کے لئے ایک گھر میں رکھا گیا جہاں نہ تو وہ موبائل فونز استعمال کرسکتے تھے اور نہ ہی ان کو باہر کی دنیا سے تعلق رکھنے کی کوئی اجازت تھی۔ اس دوران دو عیدیں بھی آئیں تب بھی یہ پوری کاسٹ اپنے گھروں کو نہیں گئی۔

داور محمود کے اس عمل سے ایک اہم فائدہ یہ ہوا کہ سب کرداروں کے اندر وہ جذبہ اور احساس پیدا ہوگیا جو ایک فوجی کے دل میں ہوتا ہے۔ البتہ وہ ہمت تو پیدا کرنا شاید ہم سب کے لئے ناممکن ہو!


سیاچن ڈرامے میں اداکاروں نے اس بات کو دیکھنے والوں کے لئے اس احساس کو باور کروایا کہ جتنے ہی سخت اور مشکل حالات ہی کیوں نہ ہوں لیکن پاکستان کا ہر فوجی اپنے ملک کی خاطر جان دینے کے لئے تیار ہے۔ اس ڈرامے میں کام کرنے والے ذیادہ تر نئے چہرے ہیں ان میں محسن اعجاز، سعد فرخ، عمر اقبال، حسن رضا، طحہ ہمایوں، زین طاہر، مصطفیٰ حسن، سکندر خان، سجیل میر اور محمد تنویر نے فوجیوں کا کردار ادا کیا ہے۔

ایسا ممکن نہیں ہے کہ تحریر انور مقصود کی اور اس میں چٹخارے نہ ہوں۔ ڈرامے میں ایسے بہت سے سین بھی شامل ہیں جن میں سے ایک کچھ یوں ہے کہ حاجرا یامین بی بی سی کی رپورٹر کے طور پر سیاچن پر آتی ہیں۔ جس پر فل بدیہہ وہاں موجود ایک فوجی کہتا ہے،
''اللہ کی قدرت، سیاچن میں عورت''

طنزو مزاح اور حقیقت سے بہت قریب یہ تھیٹر ڈرامہ اسلام آباد، فیصل آباد اور ملتان سے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد آج یکم جنوری سے آرٹس کونسل آف پاکستان میں پیش کیا جائے گا تو انتظار کس بات کا ہے کراچی میں رہتے ہوئے سیاچن کی ٹھنڈی ہواؤں کو محسوس کرنے شوق رکھتے ہیں تو آجائیں اور لطف اٹھائیں سیاچن کا۔

[poll id="859"]


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story