صبح کا بھولا
عامر نے کرکٹ میں کرپشن کی اور سزا پائی۔ وہ لوگ جو قومی مفاد سے کھیل کر اربوں کھا جاتے ہیں ان کا احتساب کون کرے گا؟
غضب خدا کا منہ اندھیرے کس نے اٹھادیا۔ ہم نے صبح اٹھتے ہی منہ پھاڑا۔
''ککڑوں۔۔۔ کوں۔۔!''
آواز تھی یا تھا۔ ایسا لگا کسی نے کانوں میں رس ہی گھول دیا ہو۔ آنکھیں تھیں کہ چوپٹ کُھل اٹھیں۔
ہائے محمد عامر کو نہیں کھلا رہے یہ لوگ۔ ایک سریلی آواز۔ غنودگی کی کیفیت یکدم کافور ہوگئی۔ دماغ میں روشنی کے جھماکے شروع ہوگئے۔ حسبِ معمول پڑوس میں ''کمنٹری'' شروع ہوگئی تھی۔
ارے کیوں؟؟ بے چین زنانہ آواز۔ ہم نے بستر پر کروٹ بدلی۔ سرشاری کی کیفیت سی طاری ہوگئی۔ ککڑوں ۔۔ کوں، ککڑوں کوں۔ مرغ کی آواز سے الجھن بڑھ گئی۔ کان صاف کئے تو پورا من بھر میل نکل آیا۔ یاد آیا کہ آخری دفعہ کان بھی ''ان'' کی آواز سننے کے لئے سال بھر پہلے صاف کئے تھے۔
آخاہ! یہ وہی محترمہ ہیں گویا، خود کلامی سی ہوئی۔ دل بلیاں اچھلنے لگا۔ دیکھو کتنا پیارا بالر تھا۔ پہلی شوخ و چنچل آواز۔ پیار۔۔!'' ہمارے حلق میں پھندہ سا اٹک گیا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے سانس کی نالی پر حلق کا کوا چڑھ بیٹھا ہو۔ ہاں ناں۔۔ دیکھو کتنی وکٹیں اڑاتا تھا۔ کتنی چھوٹی عمر میں مشہور ہوگیا تھا۔ دوسری آواز۔
''ککڑوں۔۔ کوں۔۔!''
ہم جھلا کر اٹھ بیٹھے۔ ارادہ تو تھا کہ مرغے کا گلا ہی دبا دیں مگر پچھلے سال کا واقعہ یاد آگیا۔ ''ان'' کے چکر میں ''ان کے کتے'' نے گھیرلیا تھا۔ پھر حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا کہ 14 ٹیکے ہمارے پیٹ میں قطعاً بے اثر ثابت ہوئے۔ ہم سیاست دانوں کی طرح ایک لمبی ڈکار کے بعد بنا ''الحمد اللہ'' کہے سب ہضم کرگئے۔ بعد میں دل کو تسلی دینے بس یہ بچا کہ مارکیٹ میں اب کتے بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ شاید معدے کے ساتھ دل بھی عادی ہوتا گیا۔
''عامر نے جو کیا اس کی سزا مل گئی ہے۔ اب اسے کِھلانا چاہیئے''۔ وہی پہلی اور ہمارے دل کی آواز۔
پگلی اس کا ایٹی ٹیوڈ دیکھا ہے تم نے؟ سینئرز کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آتا ہے۔ اس دوسری آواز پر ہم جانتے ہیں ''قتالہ عالم'' کو کس زور کا غصہ آیا ہوگا۔ ہم بھی بس دانت پیس کر رہ گئے۔ پیٹ کے کیڑے ویسے بھی یہ کام کرواتے رہتے ہیں گویا عادت ہی ٹھہری۔
ارے تم کیا جانو، میچ فکسنگ تو سب ہی کرتے ہیں۔ ''پہلی چنچل آواز'' جمہوری معاشروں کے سارے میچ ہی فِکس ہوتے ہیں۔ قتالہِ عالم نے اپنے تئیں آنکھ ضرور ماری ہوگی۔ ہم نے دل میں سوچا اور پھر منہ چلاتے ہوئے زور سے آنکھ مارنے کی کوشش میں دونوں ہی آنکھیں بھنچ گئیں۔ ہم بیڈ سے اچھل کر کھڑے ہوگئے اور طبیعت کی ہلچل نے ٹہلنے پر مجبور کردیا۔ محمد عامر کے لئے دل میں نرم گوشہ بھی ابھر آیا۔
99 کا ورلڈ کپ بیچ دیا تھا، کان پر جوں رینگی کسی کے؟ پہلی طنزیہ آواز۔ ارے باپ رے۔۔ ہم نے جلدی سے کان پر جوں ٹٹولی۔ ادھر قتالہ عالم کی دھاڑ گرج چمک کے ساتھ سنائی دیتی رہی۔ چمک کی گواہی ہم اس لیے نہیں دے سکتے کیوں کہ وہ دکھائی نہ دی تھی۔ مینجمنٹ میں شامل ماضی کے میچ فکسرز کے ساتھ کھیلنے پر تو کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
صرف اس لئے کہ ان کو سزا نہ ہوئی۔ ہم نے لقمہ دیا۔ مگر ہماری سنتا کون؟ کچھ ہی عرصہ پہلے بھارتی کھلاڑیوں کی میچ فکسنگ ثابت ہونے کے بعد بھی کسی نامور کھلاڑی کو سزا نہ ہوئی۔ پاکستانیوں کو جان بوجھ کر بھی ایسے حالات کا شکار بنایا جاتا ہے تاکہ دنیا میں بدنامی ہوسکے۔ ورنہ دوغلے رویوں میں آئی سی سی ہی سب سےآگے ہیں۔ بھارتی نامور اسپن بالر ایشون کا ایکشن سب سے زیادہ متنازعہ ہے اور اس کے صدقے ساری دنیا کے اچھے اسپنرز برباد ہوچکے ہیں۔ بگ تھری کے نام پر بھارت نے جو 6 باہمی سیریز کا وعدہ کیا تھا اسے کون پورا کروارہا ہے؟
ہم دیوار پر کان لگا کر کھڑے ہوگئے اور قتالہ عالم کی کرکٹ پر اس قدر معلومات پر انگشت بدنداں بھی۔ 2007 کے ورلڈ کپ فائنل میں آسٹریلوی وکٹ کیپر ایڈم گلکرسٹ نے اسکوائش بال گلوز میں ڈال کر استعمال کی۔ تاکہ گِرپ ٹھیک رہے مگر کسی کو بے ایمانی ہوتی نظر نہ آئی۔ سردی کی وجہ سے دیوار سے لگے لگے کان تو جم سے گئے۔ قتالہ عالم کے غصے سے لگ رہا تھا کہ ہمارے ہی کان اکھاڑے جارہے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیئے کہ ٹیم میں جتنے اللہ والے عامر کے ساتھ کھیلنے سے انکاری ہیں ان پر پہلے بین لگاؤ۔ کیوںکہ اتنے عرصے سے وہ سٹوریوں کی مینجمنٹ میں کھیلتے رہے ہیں۔
''ککڑوں۔۔۔ کوں۔۔۔۔!''
یہ مرغے کو کیا ہوا جو چلائے جارہا ہے؟ دوسری آواز۔ کہہ رہا ہوگا مجھے کرکٹ ٹیم کا چئرمین بنادو۔ قتالہ عالم کی شوخی لوٹ آئی تھی۔
پھر کیا ہوگا؟ دوسری آواز۔ کرکٹ ہوگی۔
بس؟
تم کیا چاہتی ہو ساتھ گُلی ڈنڈا بھی ہو؟ ارے یہ دیکھو ٹی ٹوئنٹی کپتان کا کیا بیان آرہا ہے۔ دوسری آواز۔ ''عامر کو کھلانے پر جسے اعتراض ہے وہ الگ ہوجائے۔ ڈریسنگ روم کا ماحول نہ خراب کیا جائے''۔ ککڑوں۔۔ کوں۔۔۔ ، ککڑوں ۔۔۔ کوں۔۔۔! وہی مرغے کی آواز کے ساتھ ٹی وی پر بے ہنگم سا شورسنائی دینے لگا۔ وہ دو آوازیں انہیں میں کہیں دب کر رہ گئیں۔ اب ٹی وی کی آواز پر ہم کیا کان دھرتے۔
سوچ کا محور محمد عامر ہی تھا۔ عامر نے کرکٹ میں کرپشن کی اور سزا پائی۔ وہ لوگ جو قومی مفاد سے کھیل کر اربوں کھا جاتے ہیں ان کا احتساب کون کرے گا؟ ان کو کوئی سزا ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی پاکبازی پر کوئی حرف آتا ہے۔
[poll id="860"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
''ککڑوں۔۔۔ کوں۔۔!''
آواز تھی یا تھا۔ ایسا لگا کسی نے کانوں میں رس ہی گھول دیا ہو۔ آنکھیں تھیں کہ چوپٹ کُھل اٹھیں۔
ہائے محمد عامر کو نہیں کھلا رہے یہ لوگ۔ ایک سریلی آواز۔ غنودگی کی کیفیت یکدم کافور ہوگئی۔ دماغ میں روشنی کے جھماکے شروع ہوگئے۔ حسبِ معمول پڑوس میں ''کمنٹری'' شروع ہوگئی تھی۔
ارے کیوں؟؟ بے چین زنانہ آواز۔ ہم نے بستر پر کروٹ بدلی۔ سرشاری کی کیفیت سی طاری ہوگئی۔ ککڑوں ۔۔ کوں، ککڑوں کوں۔ مرغ کی آواز سے الجھن بڑھ گئی۔ کان صاف کئے تو پورا من بھر میل نکل آیا۔ یاد آیا کہ آخری دفعہ کان بھی ''ان'' کی آواز سننے کے لئے سال بھر پہلے صاف کئے تھے۔
آخاہ! یہ وہی محترمہ ہیں گویا، خود کلامی سی ہوئی۔ دل بلیاں اچھلنے لگا۔ دیکھو کتنا پیارا بالر تھا۔ پہلی شوخ و چنچل آواز۔ پیار۔۔!'' ہمارے حلق میں پھندہ سا اٹک گیا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے سانس کی نالی پر حلق کا کوا چڑھ بیٹھا ہو۔ ہاں ناں۔۔ دیکھو کتنی وکٹیں اڑاتا تھا۔ کتنی چھوٹی عمر میں مشہور ہوگیا تھا۔ دوسری آواز۔
''ککڑوں۔۔ کوں۔۔!''
ہم جھلا کر اٹھ بیٹھے۔ ارادہ تو تھا کہ مرغے کا گلا ہی دبا دیں مگر پچھلے سال کا واقعہ یاد آگیا۔ ''ان'' کے چکر میں ''ان کے کتے'' نے گھیرلیا تھا۔ پھر حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا کہ 14 ٹیکے ہمارے پیٹ میں قطعاً بے اثر ثابت ہوئے۔ ہم سیاست دانوں کی طرح ایک لمبی ڈکار کے بعد بنا ''الحمد اللہ'' کہے سب ہضم کرگئے۔ بعد میں دل کو تسلی دینے بس یہ بچا کہ مارکیٹ میں اب کتے بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ شاید معدے کے ساتھ دل بھی عادی ہوتا گیا۔
''عامر نے جو کیا اس کی سزا مل گئی ہے۔ اب اسے کِھلانا چاہیئے''۔ وہی پہلی اور ہمارے دل کی آواز۔
پگلی اس کا ایٹی ٹیوڈ دیکھا ہے تم نے؟ سینئرز کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آتا ہے۔ اس دوسری آواز پر ہم جانتے ہیں ''قتالہ عالم'' کو کس زور کا غصہ آیا ہوگا۔ ہم بھی بس دانت پیس کر رہ گئے۔ پیٹ کے کیڑے ویسے بھی یہ کام کرواتے رہتے ہیں گویا عادت ہی ٹھہری۔
ارے تم کیا جانو، میچ فکسنگ تو سب ہی کرتے ہیں۔ ''پہلی چنچل آواز'' جمہوری معاشروں کے سارے میچ ہی فِکس ہوتے ہیں۔ قتالہِ عالم نے اپنے تئیں آنکھ ضرور ماری ہوگی۔ ہم نے دل میں سوچا اور پھر منہ چلاتے ہوئے زور سے آنکھ مارنے کی کوشش میں دونوں ہی آنکھیں بھنچ گئیں۔ ہم بیڈ سے اچھل کر کھڑے ہوگئے اور طبیعت کی ہلچل نے ٹہلنے پر مجبور کردیا۔ محمد عامر کے لئے دل میں نرم گوشہ بھی ابھر آیا۔
99 کا ورلڈ کپ بیچ دیا تھا، کان پر جوں رینگی کسی کے؟ پہلی طنزیہ آواز۔ ارے باپ رے۔۔ ہم نے جلدی سے کان پر جوں ٹٹولی۔ ادھر قتالہ عالم کی دھاڑ گرج چمک کے ساتھ سنائی دیتی رہی۔ چمک کی گواہی ہم اس لیے نہیں دے سکتے کیوں کہ وہ دکھائی نہ دی تھی۔ مینجمنٹ میں شامل ماضی کے میچ فکسرز کے ساتھ کھیلنے پر تو کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
صرف اس لئے کہ ان کو سزا نہ ہوئی۔ ہم نے لقمہ دیا۔ مگر ہماری سنتا کون؟ کچھ ہی عرصہ پہلے بھارتی کھلاڑیوں کی میچ فکسنگ ثابت ہونے کے بعد بھی کسی نامور کھلاڑی کو سزا نہ ہوئی۔ پاکستانیوں کو جان بوجھ کر بھی ایسے حالات کا شکار بنایا جاتا ہے تاکہ دنیا میں بدنامی ہوسکے۔ ورنہ دوغلے رویوں میں آئی سی سی ہی سب سےآگے ہیں۔ بھارتی نامور اسپن بالر ایشون کا ایکشن سب سے زیادہ متنازعہ ہے اور اس کے صدقے ساری دنیا کے اچھے اسپنرز برباد ہوچکے ہیں۔ بگ تھری کے نام پر بھارت نے جو 6 باہمی سیریز کا وعدہ کیا تھا اسے کون پورا کروارہا ہے؟
ہم دیوار پر کان لگا کر کھڑے ہوگئے اور قتالہ عالم کی کرکٹ پر اس قدر معلومات پر انگشت بدنداں بھی۔ 2007 کے ورلڈ کپ فائنل میں آسٹریلوی وکٹ کیپر ایڈم گلکرسٹ نے اسکوائش بال گلوز میں ڈال کر استعمال کی۔ تاکہ گِرپ ٹھیک رہے مگر کسی کو بے ایمانی ہوتی نظر نہ آئی۔ سردی کی وجہ سے دیوار سے لگے لگے کان تو جم سے گئے۔ قتالہ عالم کے غصے سے لگ رہا تھا کہ ہمارے ہی کان اکھاڑے جارہے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیئے کہ ٹیم میں جتنے اللہ والے عامر کے ساتھ کھیلنے سے انکاری ہیں ان پر پہلے بین لگاؤ۔ کیوںکہ اتنے عرصے سے وہ سٹوریوں کی مینجمنٹ میں کھیلتے رہے ہیں۔
''ککڑوں۔۔۔ کوں۔۔۔۔!''
یہ مرغے کو کیا ہوا جو چلائے جارہا ہے؟ دوسری آواز۔ کہہ رہا ہوگا مجھے کرکٹ ٹیم کا چئرمین بنادو۔ قتالہ عالم کی شوخی لوٹ آئی تھی۔
پھر کیا ہوگا؟ دوسری آواز۔ کرکٹ ہوگی۔
بس؟
تم کیا چاہتی ہو ساتھ گُلی ڈنڈا بھی ہو؟ ارے یہ دیکھو ٹی ٹوئنٹی کپتان کا کیا بیان آرہا ہے۔ دوسری آواز۔ ''عامر کو کھلانے پر جسے اعتراض ہے وہ الگ ہوجائے۔ ڈریسنگ روم کا ماحول نہ خراب کیا جائے''۔ ککڑوں۔۔ کوں۔۔۔ ، ککڑوں ۔۔۔ کوں۔۔۔! وہی مرغے کی آواز کے ساتھ ٹی وی پر بے ہنگم سا شورسنائی دینے لگا۔ وہ دو آوازیں انہیں میں کہیں دب کر رہ گئیں۔ اب ٹی وی کی آواز پر ہم کیا کان دھرتے۔
سوچ کا محور محمد عامر ہی تھا۔ عامر نے کرکٹ میں کرپشن کی اور سزا پائی۔ وہ لوگ جو قومی مفاد سے کھیل کر اربوں کھا جاتے ہیں ان کا احتساب کون کرے گا؟ ان کو کوئی سزا ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی پاکبازی پر کوئی حرف آتا ہے۔
[poll id="860"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔