آزادیٔ صحافت…کیا اور کیسے
کلاسیکل لبرل نقطہ نظر سے ایک آزاد پریس صرف ریاستی یا سرکاری مداخلت سے آزاد نہیں ہوتا
کلاسیکل لبرل نقطہ نظر سے ایک آزاد پریس صرف ریاستی یا سرکاری مداخلت سے آزاد نہیں ہوتا بلکہ وہ منڈی کی قوتوں، ملکیت کے بندھنوں اور دیگر بہت سے مادی تعلقات سے آزاد ہوتا ہے۔ پریس کی سرگرمیوں کے سارے عمل کے دوران ہر طرح کے جبر سے آزادی۔ نوم چومسکی کے بقول ''ہمیں آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ صحافت کے درمیان فرق کو سمجھنا چاہیے۔ پریس کی آزادی خواہ دکھاوا ہی ہو لیکن آزادیٔ اظہار کا دفاع کرنا بہت ضروری ہے۔'' ہر جمہوری ملک میں آزادیٔ اظہارکا تحفظ کیا جاتا ہے۔
ایک صحت مند جمہوریت کی فعالیت کے لیے میڈیا کا ایک اہم کردار شہریوں کو عوامی مسائل کے بارے میں سچائی سے آگاہ کرنا اور جمہوری فیصلہ سازی میں شہریوں کی شراکت کی حوصلہ افزائی کرنا اور لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہمارے ملک کی حکومت کسی دوسرے ملک کی کمپنی یا حکومت سے کوئی معاہدہ کر رہی ہے تو میڈیا کا فرض ہے کہ وہ عوام کو آگاہ کرے کہ عام آدمی کو اس معاہدے سے کیا فائدہ ہوگا۔
دوسرے، میڈیا کو طاقت ورگروہوں اور مفادات پیوستہ کی بھی جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ یہ صحیح ہے کہ حکومت کا انتخاب شہری اپنے ووٹوں کے ذریعے کرتے ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ برسراقتدار لوگ بہت آسانی سے اپنے اختیارات کا غلط یا ناجائز استعمال کرسکتے ہیں۔
تیسرے، میڈیا مباحثے اور مکالمے کی حوصلہ افزائی کرتا اور رائے عامہ کو تشکیل دیتا ہے لیکن آزاد مارکیٹ عوامی مباحثے کو محدود کرتی ہے کیونکہ یہ اشرافیہ کے لیے معلومات سے بھرپور میڈیا اور عوام کے لیے کم یا ناقص معلومات والا میڈیا بناتی ہے۔
چوتھے، میڈیا عوامی آوازکی نمایندگی کرتا ہے اور لوگوں کو اپنی رائے کے اظہار کے لیے جگہ فراہم کرتا ہے لیکن میڈیا کو منافع بخش کاروبارکے طور پر چلایا جاتا ہے۔ ایسا میڈیا اشتہارات اور منڈی کے رجحانات کی بنیاد پر چلتا ہے۔
میڈیا کا مقصد عوام کو تعلیم دینا ہے تاکہ وہ خود آگاہی اور خود شناسی کے مراحل سے گزر سکیں۔ کسی بھی روایتی جمہوری معاشرے میں تعلیم اور معلومات وہ دو ستون ہیں جن پر ایک آزاد معاشرہ کھڑا ہوتا ہے۔ فی زمانہ سرمایہ داری اور عالم گیریت وہ قوتیں ہیں جن سے جمہوری معاشروں کو خطرہ لاحق ہے۔ صحافت میں شہری شمولیت کا ایک طریقہ نیا میڈیا ہے۔
آزادیٔ صحافت جمہوریت کا ایک لازمی عنصر بھی ہے اور انسانوں کا بنیادی حق بھی ہے۔ ایک فعال اور صحت مند جمہوریت کے لیے یہ ناگزیر ہے۔ آزادیٔ صحافت کا مقصد تلاش حق کے ذریعے مساوی مواقعے اور ایک روادار اور ہم آہنگ معاشرے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
آزادیٔ صحافت کی منطق یہ ہے کہ میڈیا خودمختار ہو اور حقائق کو سامنے لائے۔ یہ صرف طاقت ور گروہوں کے نظریات کی نمایندگی نہ کرے بلکہ کمزور گروہوںکی آوازوں کی ترجمانی بھی کرے۔
ہرمن اور چومسکی کا کہنا ہے کہ میڈیا زیادہ تر بالادست طبقے کے مفادات کو پورا کرتا ہے جن کی بنیاد سرمایہ اور طاقت پر رکھی جاتی ہے۔
انصاف اور اخلاقیات کو اکثر نظرانداز کردیا جاتا ہے اور اگر میڈیا بڑے کاروباری اداروں اور طاقت ور سیاسی گروہوں کے ساتھ مل جاتا ہے تو حقائق کو آسانی سے مسخ کیا جاسکتا ہے۔ خاص مفادات کے کام آنا اور گٹھ جوڑ کی مثالیں دنیا کے بہت سے ممالک میں ملتی ہیں۔ بہت سے جمہوری ملکوں میں میڈیا زیادہ تر اشرافیہ کے مفادات کو پروان چڑھاتا ہے اور بالادست گروہ آزادیٔ صحافت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
ہمیں ان کلیدی مسائل پر غور کرنا چاہیے جو آزادیٔ صحافت کے معیار پر اثرانداز ہوتے ہیں لیکن اس سے پہلے پریس فریڈم کی تعریف ہوجائے۔ فریڈم آف پریس سے مراد ایسی صحافت ہے جو اندرونی اور بیرونی عوامل اور دیگر عناصر جو صحافیوں کے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں سے آزاد ہو۔
اگر ہم یہ بات مان لیں کہ ذرایع ابلاغ خاص طور پر ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی ملکیت اطلاعات کی آزادی اور آزادیٔ اظہار کے لیے اہمیت رکھتی ہے اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سرکاری ملکیت یا سرمایہ دارانہ ملکیت کے تحت اس آزادی کو محفوظ نہیں رکھا جاسکتا تو پھر آخر اس کا نعم البدل کیا ہے؟
نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ ریاستی یا نجی اختیارکا نعم البدل جمہوریت ہے۔ جمہوریت کے چلنے کی پیشگی شرائط میں مساوات اور حق پرستی شامل ہیں۔ اس کے لیے سرکاری اور نجی طاقت اور اختیارات کو کم کرنا بھی ضروری ہے۔ دیگر اداروں کی طرح میڈیا پر بھی ان کارکنوں اور کمیونٹیز کا کنٹرول ہونا چاہیے جن کے درمیان وہ کام کرتا ہے۔ میڈیا کو عوام کے گوناگوں مسائل کو سامنے لانا چاہیے۔
آزادیٔ صحافت کے لحاظ سے اگر ہم جنوبی ایشیائی ممالک پر نظر ڈالیں تو 1940 کے عشرے میں برطانوی نوآبادیاتی تسلط سے نجات پانے کے بعد یہاں جمہوریت کی تاریخ تغیروتبدل کا شکار رہی ہے اس خطے میں خاصا سیاسی تنوع پایا جاتا ہے۔ نیپال میں کچھ عرصہ پہلے تک بادشاہت اور سری لنکا میں خانہ جنگی رہی۔بنگلہ دیش اور پاکستان میں باری باری فوجی اور سویلین حکومتیں آتی رہیں۔ جب کہ ہندوستان میں جمہوریت کو استحکام حاصل رہا ہے۔
1980 کے عشرے سے جنوبی ایشیا میں جمہوری عمل پر زیادہ اصرارکیا جاتا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ آزادیٔ صحافت پر بھی ایک بار پھر سے بحث کا آغاز ہوا۔ اور پھر لوگوں کو جس کتاب نے صحافیوں کی جدوجہد کے بارے میں یاد دلایا وہ احفاظ الرحمن کی کتاب ''سب سے بڑی جنگ'' تھی جو منہاج برنا کی قیادت میں چلنے والی 1977-78 کی تحریک کے بارے میں تھی۔ پاکستان میں آزادیٔ صحافت کی جدوجہد کے سرخیل منہاج برنا تھے اور انھیں ترقی پسند، بے لوث کارکنوں کی حمایت حاصل تھی۔
آج ذرایع ابلاغ کی آزادی کو یقینی بنانا دنیا بھر میں پہلی ترجیح بن چکا ہے اور ہر کوئی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ آزاد اور خودمختار میڈیا کسی بھی جمہوری ملک میں اچھی حکمرانی کے لیے بنیادی شرط ہے کیونکہ آزاد میڈیا شفافیت، احتساب اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بناسکتا ہے آزاد میڈیا کی طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور بدلے میں میڈیا عوام کو طاقتور بناتا ہے۔