اسلم اظہر… آنکھیں نم ہیں
بات جانے اورنہ جانے کی نہیں، چاہے وہ ماہ وسال ہوں، انسان ہویا کوئی پتہ۔ یہ تو مقید ہے
بات جانے اورنہ جانے کی نہیں، چاہے وہ ماہ وسال ہوں، انسان ہویا کوئی پتہ۔ یہ تو مقید ہے ہرمظہر کی پیشانی پہ چسپاں ہے۔کوئی شے ساکن نہیں، جامد نہیں، زندگی سفینہ ہے، موجوں کی مستیاں ہیں، زماں ومکاں کے منجھدارے ہیں سانسوں کی لڑیاں ہیں، مگر پھر بھی جو شاخ سے ابھی ٹوٹا نہیں، جو شجر کا حصہ ہے، جو ہے ابھی، جو گزرنے والے کو دیکھتا ہے اور گزرنے والا اسے نہیں دیکھتا اور پھر اگر ایسا شخص جو پھول کی مانند ہو جس میں مٹی کی خوشبو رچی اور بسی ہوئی ہے۔
وہ مہک جو پھر ان کے جانے سے یوں اٹھتی ، پھیلتی ہے کہ آنکھوں میں نمی بھر آتی ہے اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ مجھ جیسے حقیر کو جلاملتی ہے یہ کہتے ہوئے ''ارے بھائی وہ تو ہمارے دوست تھے'' ہم تھے تو آپ کے طالب مگر یہ آپ ہی کی عنایت ہے کہ ہمیشہ دوستوں کی طرح دسترخوان پہ بٹھایا پہلے سنا پھر سنایا، انھیں صاحب کر کے کوئی نہ بلاتا، بس صرف ''اسلم'' کرکے بلاتے اور یوں عمروں کے فاصلے روئی کی طرح مٹ جاتے جب ایسا شخص زرد پتوں کے بن کی طرح شاخ سے جو گرتا ہے، ہوا کا جھونکا اسے لے اڑتا ہے تو غالب پھر ہمیں کچھ اس طرح سے یاد آتا ہے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
سال گیا، یار لے گیا، یار کے ساتھ سارے خیالات لے گیا، غبار خاطر کے جیسے سارے باب لے گیا، اور جو دے گیا وہ یہ قلم ہے، جس میں میری انگلیاں پیوست ہیں جو کچھ لکھ سکوں ان کی نذر کرسکوں، جو مہک تھی وہ اور کرسکوں رقم تاکہ کچھ حق ادا ہو ۔ عجیب مانوس شخص تھا یوں تو 80 سال سے بھی زیادہ کی عمر پائی، مگر کہیں سے بھی نہ سوچا کہ اسلم اظہر پر بھی بڑھاپا آئے گا۔
جو اس کی فکر تھی، عمل بھی ویسا تھا۔ نہ امیر دیکھا نہ غریب دیکھا، سب کے ساتھ ایک جیسے اپنے بچوں کے یار، بیوی کے بہترین ساتھی، سب کامریڈ تھے، وہ تھے تو بورژوا کلاس کے مگر ذہنی طور پر ڈی کلاس تھے۔ ان کی شخصیت میں جادو تھا، جو بھی ملتا ان کا اسیر بن جاتا۔ پائپ دانتوں میں دبائے، موٹے شیشیوں کا چشمہ پہنا ہوا، کسی گہری سوچ میں غلطاں ہر وقت نظر آتے اور قہقہہ اس طرح لگاتے کہ پوری فضا ان کے قہقہے سے محظوظ ہوجاتی آواز میں وہ گرج کہ بغیر مائیک کے بھرے مجمع میں ہر ایک تک اپنی آواز پہنچا دیتے۔مین آف آل سیزنز تھے۔
میری عمر بیس برس کی تھی جب میں نے انھیں پہلی بار دیکھا وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کانفرنس میں اپنی نوٹنکی ''دستک'' کے پلیٹ فارم سے برتالت بریخت کا لکھا ہواکھیل گلیلو گالیلے کر رہے تھے۔ پورا ڈرامہ ان کے کردار کے گرد گھوم رہا تھا ان کی گرجتی آواز ہزار لوگوں سے بھی زیادہ بھرے ہوئے حال میں بغیر مائیک کے پہنچ جاتی۔ پورے حال میں خاموشی تھی۔
کون کون نہیں تھا اس کانفرنس میں حبیب جالب سے لے کراصغر انجینئر ، سبط حسن، عبداللہ ملک غرض کہ پورے برصغیر کا شعور تھا وہاں ۔ اسلم کے کیے گلیلو کے اس کردار اور خود اس تاریخی اعتبار سے گلیلو کی داستان نے یوں کہیے میرا من چرا لیا کہ کس طرح سچ اور عقیدے کا آپس میں جھگڑا رہا ہے بس یوں کہیے کہ اسلم کی پرفارمنس نے مجھ میں ایک انقلاب پیدا کردیا یہ ماجرا ہمارے ساتھ کچھ اس طرح سے ہوا جس طرح کبیر کہتے ہیں:
لالی میرے لال کی جت دیکھوں تت لال
لالی دیکھن میں گئی میں بھی ہوگئی لال
ہم میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو اسلم اظہر کی کاربن کاپی بن گئے وہ جیسے چلتے پھرتے اسلم تھے۔
اسلم کے والد اے ڈی اظہر سول سرونٹ تھے ،بڑے دانشور تھے ، جناح کے ساتھ بھی رہے، کیمبرج یونیورسٹی میں اسلم کو پڑھایا ایک آزاد فرد کی طرح اس کی پرورش اس کے ماں باپ نے کی۔ وہ جب سچ کی تلاش میں نکلا تو سوشلسٹ خیالات اس کو قریب تر لگے، اسے سارے انسان خوبصورت لگے اور سرمایہ نفرت کی وجہ محسوس ہوئی اس نے اپنے عہد کے سچ کے اظہار کے لیے آرٹ کو ذریعہ بنایا اور خود اپنی روح کے پذیرائی بھی اس میں پائی۔
وہ پی ٹی وی کے بانی سربراہ بھی رہے۔ بھٹو کے رائے عامہ کی پالیسی بنانے والوں میں سے ایک تھے۔ جب آمریت آئی تو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے بڑے بڑے نشیب و فراز دیکھے مگر کمر میں خم نہ آیا آنکھوں سے دور اندیشی نہ گئی اورکوزہ گر کی طرح وہ خواب بیچتے رہے۔
یہ شخص جو دوسروں کے لیے خواب بیچتا رہا اپنے بچوں کے لیے جاتے ہوئے ایک عدد مکان بھی نہ چھوڑ گیا۔ اور رہا بھی یوں کہ جیسے لارڈ رہتے ہیں مگر گھر میں کیا تھا ، تجریدی فن کے فن پارے پھیلے ہوئے ہوتے، کتابوں کے انبار ہوتے، کارل مارکس کا مجسمہ ہو یا فیض کی وہ تصویر جس میں ان کے ہاتھ میں سگریٹ کا ٹوٹا ہے جس میں کہ ابھی دو کش باقی ہوں۔ان کی بیٹل گاڑی اور ایک دن وہ ہمارے پروگرام میں جیکب آباد تک بھی آ نکلے یہ وہ وقت تھا جب اسلم میں لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا جنون تھا۔
اسلم کیا گیا پورے باب کھل گئے یاد ماضی کے ، سوچتا ہوں کہاں گیا سرخوں والا وہ پاکستان ، کدھر گر گئی میری یادوں والی زنجیر؟
جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں
خاک میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں
نہ جانے کس جا
کھو گئی ہیں میری دونوں آنکھیں
(فیض)
میں نے کہا نا کہ جانا معین ہے، وہ تو ہر شخص کی پیشانی پہ چسپاں ہے۔ اسلم گئے تو یہ دستور تھا۔ بس جو اپنی شخصیت و ذات سے بڑے ہوتے ہیں، اپنوں کے لیے کم اوروں کے لیے زیادہ جیتتے ہیں ، کچھ ایسی یادیں چھوڑ جاتے ہیں جو کوئی کافر ہوگا جو ان پر قلم نہ اٹھائے۔ کام کام اور کام یہی عنوان تھا ان کے زندگی کے اسکرپٹ کا۔ ان کے لیے دنیا ایک اسٹیج تھی جہاں ہر شخص اپنا کردار ادا کر کے پردے کے پیچھے چلا جاتا ہے۔میں بھی اسلم کی رت میں تھیٹرکرنے لگا یہ ثانیہ سعید ، اریب، شاہد شفاط ، یوں کہیے کہ ان کے گھر کا فرد تھا۔ محبتوں سے بھرا ہوا گھر، قربتوں سے مہکا ہوا گھر اور اسلم کے گرد گھومتے ہوئے باقی سارے ہم فرد تھے ۔
گلیلو کے وہ ڈائیلاگ جو اسلم نے ادا کیے تھے وہ اب بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں جب وہ کلیسا کی عدالت میں یہ کہتا ہے کہ اس کی تحقیق جھوٹی ہے۔ گھر واپس جب لوٹتا ہے تو اس کا محبوب شاگرد اس سے لڑ پڑتا ہے اور روٹھ کے جاتے وقت وہ پلٹ کے کہتا ہے ''بدنصیب ہے وہ زمین جہاں ہیرو جنم نہیں لیتے'' اس پر گلیلو اس کو جواب دیتا ہے ''بدنصیب ہے وہ زمین جہاں ہیرو جنم لیتے ہیں'' گلیلو دراصل اپنے شاگرد کو یہ کہنا چاہتا ہے کہ وہ اگر اپنی تحقیق سے مکر گیا تو کیا، شخصیت تو وہیں پڑی ہے۔
آج کل پاکستان میں ہر طرف فتوؤں کا دور دورہ ہے ہر ایک کے ہاتھ میں خنجر ہے۔مگر سچ کو خنجروں سے ڈرایا نہیں جاتا، وہ گلیلو کی طرح کسی ہیرو کا محتاج نہیں ہوتا ۔ فرد آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ سچ اپنے ارتقا کی مسافتیں طے کرتا رہے گا ، عقیدوں کو عرق بینی و تحقیق کے مراحل سے گزرنا ہوگا۔ جو سچ ہے وہ سچ ہے جو جھوٹ ہے وہ جھوٹ ہے۔ چاہے گلیلو ہار مانے یا نہ مانے، چاہے ہیرو پیدا ہوتے ہوں یا نہ پیدا ہوتے ہوں ۔ پچھلے سال اسی مہینے سوبھوگیان چندانی چل بسے تھے۔ اسی طرح 18 برس پہلے شیخ ایاز اور اس مرتبہ تو میں ابھی نئے سال کو خوش آمدید کہہ رہا تھا تو اپنے استاد جس نے مجھے تھیٹر سکھایا، لوگوں سے کمٹمنٹ کرنا سکھائی چل بسا۔
میں ادا کار تو نہ بن سکا مگر انسان ہونے کے جذبے سے ابھی تک سرشار ہوں یہ اور بات ہے کہ نہ کوئی مکمل انسان بن سکتا ہے نہ کسی کو مکمل جہاں مل سکتا ہے۔ ہر آدمی جتنا کچھ بھی کرلے رہے گا ہمیشہ گناہ گار اور یہی بات گلیلو کہتے تھے جس کا کردار اسلم اظہر نے ادا کیا۔