گلوبل وارمنگ جدید ہتھکنڈے
کیونکہ کرہ ارض کی گردشی رفتارکا بڑھنا غروب وطلوع آفتاب کے اوقات کار پر اثرانداز ہو گا۔
سائنسدان عرصے سے موسمیاتی تبدیلیوں کی بنیاد پرکرہ ارض پر ازل سے جاری وساری حیاتیاتی چکر میں بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ظاہرکرتے آئے ہیں۔ایک نئی تحقیق میں انھوں نے خبردارکیا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زمین اپنے محور سے ہٹ سکتی ہے اور اس کی گردشی حرکت میں تیزی آسکتی ہے ۔ماہرین کے مطابق گردش تیزہونے سے رات اور دن کا دورانیہ متاثرہوگا۔
کیونکہ کرہ ارض کی گردشی رفتارکا بڑھنا غروب وطلوع آفتاب کے اوقات کار پر اثرانداز ہو گا۔ زمین کی گردشی رفتار پر اثراندازہونے والے عوامل میں گلیشیئرزکے پگھلنے اوران کے پگھلنے کے اسباب ونتائج کوکیلیفورنیا یونیورسٹی آف اوشینوگرافیا سے وابستہ اوشینو گرافر (بحری جغرافیہ داں)والٹر منک کی تحقیقات سے منسوب سائنسی اصطلاح میں Munk's Enigma ''منک کا معمہ''کے حل ہوجانے کا باضابطہ اعلان ہارورڈ یونیورسٹی میں ارضی طبیعیات کے ماہر اور تحقیقی ٹیم کے سربراہ جیری متروویچا نے گزشتہ دنوں اپنی تحقیق کے نتائج بیان کرنے والی اپنی ایک کانفرنس میں کیا اور یہ پہلا موقعہ تھاکہ سائنس نے منک کا معمہ حل کرلینے کا دعویٰ کیا ہے کہ قطبی گلیشیئرزکے پگھلنے کی وجہ سے ان کے نیچے موجود چٹانوں کے اوپر سے وزن ہٹ جاتا ہے۔نتیجتاً یہ چٹانیں کچھ ابھر آتی ہیں ۔اس حرکت کے نتیجے میں قطبین کم مسطح اور زمین بہ طور مجموعی زیادہ کروی ہوجاتی ہے۔جس کے سبب زمین کا جھکاؤ بڑھنا اور اس کی گردشی رفتار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
اوشینوگرافر جیری متروویچا کہتے ہیں کہ''بیسویں صدی کے دوران گلیشیئرزکے پگھلنے اور سطح سمندر کے بلند ہونے کی تصدیق ارضی نظام میں ہونے والی ڈرامائی تبدیلیوں ،جیسے سیلابوں ،خشک سالی اور شدیدگرمی سے ہوتی ہے ۔ان کے علاوہ زمین کی گردشی شرح میں معمولی تبدیلی کے اشارے بھی ملتے ہیں ۔''انھی دنوں سائنسدانوں کی جانب سے اس بات کا اعادہ بھی کیا گیا ہے کہ ''وقت کے ساتھ ساتھ زمین کی محوری حرکت کی شرح میں تبدیلی وقوع پذیر ہوتی رہی ہے۔اس ضمن میں ان کا استدلال ہے کہ'' زمانہ قدیم میں بابلی ،چینی ،عرب اور یونانی ماہر فلکیات کی دستاویزمیں چاند اور سورج گرہن کے ریکارڈ سے حاصل ہونے والی معلومات کوکسی مخصوص وقت میں زمین کا محل وقوع معلوم کرنے والے نمونوں کے ساتھ ملایا جائے تو اس سے یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ ان مخصوص لمحات میں زمین کی محوری گردش کی رفتارکیا تھی۔''
اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ عالم انسانیت میں اسی واحد محقق انسانی گروہ کاحق بجانب دعویٰ ہے کہ یہ بہ یک وقت بابلی ، یونانی، عربی اور بعد میں چینی تہذیبوں سے متعلق قدیم مادی علوم ، تحقیقات اور ان کے مقامی سطح کے تمام تر لوازمات تمدن سے گہری واقفیت رکھتے ہوئے انھیں اپنی'' تحریر ''و'' تحقیق ''سے نہ صرف دیگر انسانی گروہوں کے سامنے لاتے آئے ہیں بلکہ ان سے وہ خرابیاں بھی وابستہ کرتے آئے ہیں کہ جس سے آج عالم انسانیت ٹکڑوں میں بٹی ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ معمولی نوعیت کے اختلافات کی بنیاد پر ٹکڑوں میں بٹی ہوئی عالم انسانیت اس انسانی گروہ کی پیش کردہ'' تحقیقات' ' کی اطاعت میں سربسجود ہونے پر مجبور ہوچکی ہے اور اب اسی محقق انسانی گروہ کی حالیہ تحقیقات کے سامنے آنے سے دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کودہشتگردی سے بھی بڑا اور جنگی بنیادوں پر حل طلب مسئلہ قراردیا جانے لگا ہے ،کیونکہ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافے اور اس کے نتیجے میں زمین پر تغیرات کے ظہور پذیر ہونے کی وجہ سے انسان سمیت کرہ ارض پر بسنے والے کروڑوں جاندار متاثر ہوسکتے ہیں ۔
انھی خدشات کے پیش نظرگزشتہ دنوں فرانس کے دار الحکو مت پیرس میں کانفرنس آف پارٹیز کی اکیسویںماحولیاتی کانفرنس میں کرہ ارض کی حفاظت کے لیے اقوام عالم کے مابین ایک تحریری معاہدہ بھی کیا گیا، جس پر 195ممالک کے نمایندوں نے اپنے اپنے ممالک کی طرف سے تصویبی وتصدیقی دستخط کیے ہیں ، جب کہ دیگر ممالک کو بھی اس معاہدے میں شامل کرنے کے عزم کا اعادہ کیاگیا ہے ۔''آب وہوا میں تبدیلی ''کے عنوان سے بلائی گئی، اس کانفرنس میں ماحولیاتی تبدیلی سے انتہائی متاثرہ ممالک کے لیے 100 ار ب ڈالر کے فنڈزفراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا گیاہے۔ جس کی میعاد 2020تک تھی لیکن کانفرنس میں اس کے دورانیے میں پانچ سال کا اضافہ کرتے ہوئے اسے2025تک بڑھائے جانے کا بھی اعلان کیاگیا ۔
جب کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے تو اس معاہدے کو حضرت انسان سمیت کرہ ارض پر رہنے والے تمام جانداروں کی بقاء کا انحصار قرار دیتے ہوئے تمام ممالک سے اس معاہدے کو قبول اور منظور کرنے کی اپیل بھی کر دی ہے۔اس معاہد ے میں محققین اور ماہرین کی جانب سے دی گئی ہدایات کی روشنی میں اس بات کا اقرارکیا گیا ہے کہ ''صنعتی انقلاب کے بعد زمین کا درجہ حرارت پہلے کے مقابلے میں بڑھ گیا ہے جس کی تمام تر ذمے داری ایندھن اورصنعتی عمل سے خارج ہونیوالے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسز پر عائد ہوتی ہے۔ اسی لیے اس معاہدے کی بنیادی اور اہم شرط ہی یہی رکھی گئی ہے کہ اس میں شامل تمام ممالک زمین کے درجہ حرارت کے بلند ہونے کی شرح کو 2سینٹی گریڈکم رکھنے کے لیے شرح حد کو بڑھاوا دینے والی ٹیکنالوجی کے صنعتی استعمال کو ممنوع تصورکریں گے۔''
ان معروضی حالات اور اس سیاق وسباق میں گلوبل وارمنگ کے حوالے سے عالم انسانیت کے آیندہ فکری لائحہ عمل کا نقشہ کچھ یوں ابھرکر سامنے آتا ہے کہ حضرت انسان اپنی تاریخ کے موجودہ مقام پر اتنا ترقی یافتہ ہوچکا ہے کہ وہ ماحولیاتی بدلاؤ پر ضابطہ لانے کے لیے کمربستہ ہے۔حالانکہ وہ اب تک زلزلے کی پیش گوئی کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں، دوسرا یہ کوئی ہالی ووڈ کی فلم 2012ء کا کوئی سین ہے۔
لیکن اس کے باوجود حضرت انسان کو ماحولیاتی تبدیلیوں پر ضابطہ لائے جانے کا خود پر اعتماد ہونا بھی چاہیے کیونکہ تمام جانداروں کے مقابلے میں انسان نے ہی کرہ ارض اور اس پر موجود تمام اشیاء پر اپنی اجارہ داری قائم کی ہے اور اب اس کا سامنا ماحولیاتی بدلاؤ کی مادی بلا سے ہونے والا ہے تو اس لیے انسان اس پر بھی قابو پانے کی کوششوں میں جت گیا ہے، لیکن عملی طور پر اگر حالات کو سامنے رکھاجائے تونقشہ کچھ یوں بنتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک اب بتدریج اور مرحلہ وار اس صنعتی وکیمیکلی ٹیکنالوجی کو ترک کرتے جائیں گے جس کے دم پر یورپ کی استعماری قوتوں نے کرہ ارض کے دیگر خطوں کو صنعتی طور پر اپنا باج گذار بنایا تھا اور جن صنعتوں کے ایندھن سے موجودہ ماحولیاتی بدلاؤ وقوع پذیر ہوا ہے ۔
اس لیے اس معاہد ے پر دستخط کرنے والے یہ ممالک ان ماہرین و محققین کی جانب سے تجویزکردہ اس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کریں گے جو استعماری قوتوں کے آشیرباد اور مقاصدکی تکمیل کی خاطران استعماری قوتوں کے محقق افرادکی شب وروز کی عرق ریزیوں اور جگر سوزیوں کے نتیجے میں ایجاد کی جا چکی ہے۔اس وقت امریکا اور چین دنیا میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرنے والے ممالک ہیں، جب کہ کمزور اقوام صنعتی طورپر اتنی ترقی یافتہ نہیں ہیں، لہٰذا وہ ماحولیاتی آلودگی کی ذمے دار بھی نہیں، جو یہ ثابت کرنے کے لیے بہت بڑا ثبوت ہے کہ ترقی یافتہ اقوام نے دنیا کوخطرے میں ڈال دیا ہے۔
مزیدار بات یہ کہ یہ ترقی یافتہ اقوام خود ان استعماری قوتوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں، جن کی تحقیقات کی روشنی اور ان ہی کے ایماء وامداد سے ایک سوارب ڈالر کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے ۔جو بعد میں سود سمیت جرمانوں اور مزید مطالبوں کی منظوری کی صورت میں وصول بھی کرلی جائے گی ۔عالم انسانیت کے پاس اس وقت اس ایک راستے کے علاوہ اور کوئی حل میسر نہیں اس لیے بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس'' معاہدے کی پاسداری ''ان استعماری قوتوں کے جدید استحصالی ہتھکنڈوںکو جنم دیتی رہے گی اور عملی طور پردرد بڑھتا جائے گا جوں جوں دوا ہوگی۔
ایسی صورتحال میں صرف نظریہ پاکستان ہی جناب نوح ؑ کی ماحولیاتی تبدیلیوں کی ''مادی بلا ''کے بے قابو ہوجانے کے نتیجے میں ہونے والی بارشوں کی تباہی وہولناکی کے دوران خشکی پر رہنے والی حیات کو ان کے تمام تر لوازمات کے ساتھ بچانے، حضرت یوسف ؑ کی چودہ سال کے عرصے پر مبنی خوشحالی وخشک سالی کی پیش گوئی اوران اثرات کے سدباب کے لیے محققانہ حکمت عملی اور جناب لوط ؑ کی خلائی وسعتوں میں موجود فلکی اجسام کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں زمین پر گرنے والے فلکی اجسام کے ٹکڑوں اور ان سے خارج ہونے والی زہریلی گیسز سے بچاؤ کی تحقیقات رکھتا ہے۔
ارض وسماء کے معرض وجود میں آنیوالے تمام سائنسی مراحل اور بے چین ومضرب رہنے والے سیارے زمین کو پرسکون رکھنے کی خاطر اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑے جانے کا بھی اقراری ہے ۔نظریہ پاکستان اقوام عالم کو دعوت فکر ہے کہ یہ ماحولیاتی تبدیلیاںحیات ارض کے لیے جزوی خطرہ تو ہوسکتی ہیں، لیکن دراصل یہ فطرتی نشتر ہے جس کی حرکت وجودِکائنات میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب پیدا ہوجانیوالے ناسورکوکاٹنے جیسا ہی عمل ہے۔