سال نیا باب وہی

اب بھلا بتاؤ اس مہنگائی کے دور میں پولیس روک لے اور 50 روپے دے کر جان چھوڑ دے تو اس سے سستا کوئی اور سودا ہوگا؟

نئے سال کے پہلے دن کی ابتداء ہی ایسے ہوئی کہ بجلی اپنے مقررہ اوقات پر گئی۔ گیس دونوں وقت اپنے ٹائم پر غائب ہوئی اور تو اور محکمہ آب کو بھی آج کے دن ہی یاد آیا کے بقایا 364 دن کی اُمیدوں پر کیسے آب پھیرنا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

KARACHI:
کتنا خوش کن احساس ہوتا ہے ناں جب کوئی آپ کو آپ کے ساتھ ہونے کا احساس دلاتا ہے؟

سہی بول رہے ہو۔ مگر پہلے اس بات کی وضاحت کردو کہ یہ احساس دلانے والا ہے کون؟

میرا مطلب ہے آپ کے دوست و احباب میں سے کوئی شخص یا کسی ادارے کا کوئی فرد؟

کیا مطلب؟

میرا مطلب یہ ہے کہ احساس ہونا اور اپنے ہونے کا احساس دلانا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ کبھی غور کرکے دیکھنا اس ہونے اور دلانے پر۔

اور اگر یہ احساس دلانے والا شخص دوست و احباب میں سے کوئی ہے تو شکر ہی کیا جاسکتا ہے!

کیا مطلب؟ اگر دوست احباب کے بجائے کسی ادارے سے ہوا تو اُس صورت میں؟

تو اُس صورت میں، پہلے میں یہ دیکھوں گا کہ وہ بجلی کے محکمے سے، گیس کے محکمے سے، پانی کے محکمے سے ہے، ٹریفک پولیس کے محکمے سے یا پھر پولیس کے محکمے سے

اس سے کیا ہوگا؟

پھر میں ان خیال کرنے والے محکمے کو اُس کے خیال کرنے والوں کے تحت وہ وہ گالیا ں دونگا جو ابھی اردو کی لغت میں بھی دستیاب نہیں۔

ارے یار نئے سال کی ابتدا ہے، نئے سال پر تو خوش ہو لو دیگر لوگوں کی طرح ان اداروں اور ان اداروں والوں کو بھی دعائیں دے دو۔

کیا کہا۔ پھر سے کہنا۔ دعا اور ان کو؟ یعنی اپنی بربادی کے لئے دعا بھی میں خود کروں؟

اب ایسا بھی کیا ہوا؟

یہ پوچھو کہ ایسا کیا نہیں ہوا۔ تم تو ایسی باتیں کر رہے ہو جیسے پاکستان میں نہیں رہتے اور نہ ہی تمہیں کچھ پتہ ہے۔ یاد ہے ناں ابھی پرسوں ہی تم کہہ رہے تھے یار نیا سال آرہا ہے، نئے سال کے نئے 365 دن اور ان نئے 365 دنوں سے وابستہ ڈھیروں اُمیدیں اور دعائیں کہ اس نئے سال میں سب اچھا ہو۔

ہاں تو یہ خواہش کرنے میں بُرائی کیا ہے؟

نہیں میرے بھائی یہ خواہش کرنے میں کوئی بُرائی نہیں، بُرائی تو اس خواہش کے پورے ہونے کے بیچ جو لوگ آجاتے ہیں اُن میں ہے۔ ہاں وہی لوگ جن کا تم ذکر کر رہے ہو جن میں سے ایک ہمارے ساتھ ہونے کا دن میں تین بار احساس دلاتا ہے، دوسرا دو بار اور تیسرا ذرا رحم دل واقع ہوا ہے لہذا اپنے احساس دلانے کے حوالے سے ذرا ہلکا ہاتھ رکھتا ہے۔

میں سمجھا نہیں؟؟ اس نے نا سمجھی سے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


بھائی دن میں تین بار دو دو گھنٹے کو بجلی جاتی ہے کہ نہیں؟ صبح اور شام کو دو دو گھنٹے کے لئے گیس جاتی ہے کہ نہیں؟

ہاں یہ تو ہے۔ اور تیسرا کون؟

محکمہ آب و نکاسی جس کے آب کی نکاسی پر بھی اکثر و بیشتر پہرے لگانے کی ابتداء بھی سمجھو شروع ہو ہی چکی ہے!

شرو ع ہوچکی ہے مطلب؟

بس تمہارے ساتھ یہی مسئلہ ہے کہ تمہارا حافظہ نہایت کمزور ہے۔ ارے بھائی یاد نہیں۔ جب سالوں پہلے بجلی کی آنکھ مچولی شروع ہوئی تھی تو یہی کہا جاتا تھا وقتی مسئلہ ہے جلد اس پر قابو پالیں گے اور پھر اسی طرح کے دعوے گیس کی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے کئے گئے کہ وقتی مسئلہ ہے اور اب کم از کم میں اتنا تو سمجھ چکا ہوں کہ بقول حکومت کہ کسی بھی وقتی مسئلے کی مُدت اتنی ہوتی ہے کہ جب تک عوام اس کے عادی نہ ہوجائیں۔ پھر بھلے مسئلہ رہے۔ مگر اس مسئلے کا رونا نہیں رہتا۔

یار تم بھی حد کرتے ہو، میں نے ایک ذرا سی احساس دلانے کی بات چھیڑی تھی تم بات کو کہاں سے کہاں لے گئے!

تو میں بھی اسی احساس دلانے کے پس منظر میں بات کررہا ہوں۔

جب سال کے 365 دن کے پہلے دن کی ابتداء ہی اسی احساس دلانے کے ساتھ ہوئی جب بجلی اپنے مقررہ اوقات پر گئی۔ گیس دونوں وقت اپنے ٹائم پر غائب ہوئی اور تو اور محکمہ آب کو بھی آج کے دن ہی یاد آیا کے بقایا 364 دن کی اُمیدوں پر کیسے آب پھیرنا ہے۔

جبکہ پولیس نے تو ہم ساتھ ساتھ ہیں کا احساس تو ایک رات قبل ہی نیا سال شروع ہونے سے پہلے ہی اپنے احساس ہونے کا احساس دلا دیا۔ جب رات کو 9 بجے آفس سے واپسی پر روک کر چائے پانی کے پیسے مانگے تو میرے بس اتنا ہی کہنے پر کہ بھائی کیا صبح ناشتے میں چائے نہیں پی کہ اب رات کو چائے کے پیسے مانگ رہے ہو۔ یہ تو رات کے کھانے کا وقت ہے تو میری بات پر تو وہ ایسے مسکرایا جیسے اُس کی دلی مُراد بر آئی ہو اور اپنی اُسی خبیث مُسکراہٹ کے ہمراہ کہنے لگا تو چائے پانی کے نہیں رات کے کھانے کے پیسے ہی دے دو۔

تو پھر تم نے کیا کیا؟

خاک کچھ دیتا جیب سے 50 کا نوٹ نکال کر پکڑا کر جان بخشی کرائی۔

میں اسی احساس ہونے کا تو تم سے کہہ رہا تھا۔ اب بھلا بتاؤ اس مہنگائی کے دور میں پولیس روک لے اور پچاس روپے دے کر جان چھوڑ دے تو اس سے سستا کوئی اور سودا ہوگا؟ اس سے مہنگے تو آج کل ٹماٹر چل رہے ہیں۔ اب تم خود ہی بتاؤ کہ اس مہنگائی کے دور میں ہماری پولیس کو ہی سہی ہمارا احساس ہے کہ نہیں؟

حالانکہ آج صبح نئے سال کے پہلے دن مجھے بھی ڈبل سواری پر روک لیا تھا۔ گیس کی صبح والی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گھر پر بھی گیس نہیں آرہی تھی تو سال کے پہلے دن ہی بناء ناشتے کے گھر سے نکلنا پڑا اور جب پولیس نے ڈبل سواری کے باعث روکا تو مجھ سے بھی چائے پانی کا خرچہ مانگا۔ چائے تو میں بھی گھر سے نہیں پی کر نکلا تھا اور یہ چائے کا یاد نہیں دلاتے تو میں بھی بغیر چائے پیئے ہی آفس پہنچتا مگر خدا بھلا کرے ان کی اس انسانی ہمدردی پر۔ پھر ساتھ والے ہوٹل پر ببیٹھ کر نہ صرف اُن کو چائے پلائی خود بھی پی۔

اور اب میرے پاس نہ بحث کرنے کو لفظ بچے تھے نہ جان جلانے کو خون۔ سو چند خون کے گھونٹ بھرے اور گھر کی جانب چل دیا اس خیال کے ساتھ کہ اگر سارا خون اس کے ساتھ اسی لاحاصل بحث میں جلادیا تو سال کے باقی 364 دن کیا پیوں گا؟

[poll id="863"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story