بے وقت گانوں کا چربہ ’ہو من جہاں‘

فلم میں سوائے 2 سے 3 گانوں کے اکثر کی ٹائمنگ غلط تھی یا یوں کہہ لیجئے کہ ان کی ضرورت ہی نہیں تھی۔


فلم کا دورانیہ تقریباً 3 گھنٹوں کے آس پاس ہی ہے جس کی وجہ کہانی کا کئی مقامات پر ربط میں نہ ہونا ہے۔ فلم کا دوسرا حصہ کوک اسٹوڈیو کی پبلسٹی پر مشتمل ہے۔ فوٹو: فائل

ہو من جہاں، بس چل پڑو وہاں ۔۔۔۔۔ لیکن عموماً ایسا کم ہوتا ہے اور کبھی کبھار حالات دل سے سوچنے کے بجائے دماغ سے سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ 3 دوستوں کی دوستی کے درمیان آئی مجبوریوں اور مجبوریوں سے دوریوں میں بدل جانے والی کہانی ہو من جہاں کئی مقامات پر کمزور مگر دلچسپ کہانی ہے۔

فلم کے ڈائریکٹر عاصم رضا جبکہ فلم کی کہانی کا سہرا احمد افضل اور یاسر حسین کے سر ہے۔ فلم کی کاسٹ میں ماہرہ خان، عدیل حسین، شہریار منور، سونیا جہاں، حمزہ علی عباسی، فواد خان، بشری انصاری، گلوکار زوہیب حسن، سائرہ شہروز جی ہاں سائرہ شہروز سبزواری اور دیگر شامل ہیں۔

مجموعی طور پر فلم میں 10 گانوں کو شامل کیا گیا ہے۔ جنہیں سن کر آپکو کوک اسٹوڈیوز سننے کا گمان ہوگا۔ اس دوران اسٹرنگز بینڈ کی اینٹری بھی فلم کا حصہ ہے۔ ابتدا میں فلم کے کلائمکس کے لئے تجسس پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے جہاں ماہرہ خان عرف منیزے عرف منی شادی کے لئے تیار ہورہی ہیں اور شہریار یعنی ارحان ان کو اسٹیج تک لیجانے کے لئے کمرے میں آیا ہے۔

اس کے فوراً بعد ہی بزنس انسٹی ٹیوٹ کا منظر ہے جہاں ماہرہ یعنی مُنّی، شہریار یعنی ارہان اور عدیل حسین یعنی نادر عرف ندّو ایک کلاس میں موجود ہیں۔ اس منظر سے ہی آپکو شہریار یعنی ارحان کا کردار سمجھ آجائے گا۔ یہاں ٹیلی ویژن اداکار احمد علی کو بھی سائیڈ رول میں دکھایا گیا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ سائیڈ میں لگا دیا گیا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔



ارحان منیزے اور نادر تینوں دوست موسیقی کے دلدادہ ہیں۔ ارحان گٹارسٹ، نادر ڈرمر اور منیزے ان کی لیڈ گلوکارہ ہے۔ تینوں دوستوں کا انسٹی ٹیوٹ میں آخری سیمسٹر ہے یہیں فلم کا پہلا گانا ہو من جہاں بھی فلمایا گیا ہے۔ تینوں دوستوں میں ارحان کا تعلق متوسط گھرانے سے دکھایا گیا ہے جو اپنے باپ کے ساتھ رہتا ہے اور ہر وقت لڑتا جھگڑتا رہتا ہے۔ دوسری جانب ماہرہ کی ماں جن کا کردار نمرہ بُچّہ نے ادا کیا ہے اپنے شوہر جمال شاہ یعنی مقصود عرف میکس سے علیحدہ رہتی ہیں اور پینٹنگز بناتی ہیں۔ تیسرا گھرانہ عدیل یعنی نادر کا ہے جہاں ارشد محمود نے اسکے والد اور بشری انصاری نے والدہ کا کردار نبھایا ہے۔ ایسی والدہ جو اپنے مثالی بچوں کی 2 اچکے دوستوں سے دوستی پر شدید خائف ہیں۔

پڑھائی مکمل ہوجانے کے بعد نادر منیزے کو پروپوز کردیتا ہے اور منیزے اسکا پروپوزل قبول کرلیتی ہے۔ یہاں زیب النسا کا گانا دل پگلا فلمایا گیا ہے۔ جس میں بیک وقت قدرتی مناظر اور کنسرٹ کا ملاپ گانے کو الجھا رہا ہے۔ ارحان کے فیل ہوجانے پر اس کا باپ اسے ڈانٹتا ہے اور وہ اپنا گھر چھوڑ آتا ہے۔ منیزے کی ماں اپنی ایک دوست سبینہ یعنی سونیا جہاں کے ریستوران میں ارحان کو گٹارسٹ کی نوکری دلوادیتی ہیں۔ نادر کی ماں زبردستی اس سے میوزک چھوڑنے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں اور دونوں دوستوں سے دوستی توڑنے کی بھی۔ نادر میوزک چھوڑ کر فیملی بزنس جوائن کر لیتا ہے لیکن منیزے کو چھوڑنے سے انکار کردیتا ہے۔ جبکہ منیزے اور ارحان اپنی موسیقی جاری رکھتے ہیں یہاں تک کے ان دونوں کو کوک اسٹوڈیو سے کا ل آجاتی ہے۔



فلم میں فواد خان کی اینٹری سبینہ کے دوست رافیل کی صورت میں دکھائی گئی ہے۔ جس کی شاید کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ بہرحال نادر اور منیزے کے درمیان مصروفیات کے باعث غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور یوں فلم کا انٹر ویل ہوجاتا ہے۔

فلم کا دورانیہ تقریباً 3 گھنٹوں کے آس پاس ہی ہے جس کی وجہ کہانی کا کئی مقامات پر ربط میں نہ ہونا ہے۔ فلم کا دوسرا حصہ کوک اسٹوڈیو کی پبلسٹی پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں ارحان، نادر اور منیزے کی دوستی میں دراڑ دکھائی گئی ہے جسے زبردستی کہانی میں تھوپا گیا ہے۔

پوری فلم کا واحد گانا عاطف اسلم کا ''دل کرے'' ہے جو بالکل مناسب وقت پر فلمایا گیا ہے اور اس گانے میں پوری فلم کا فلیش بیک آپ کو مل جائے گا۔ فلم کا اختتام بھی زبردست کھینچ تان کر پیش کیا گیا ہے۔ تاہم سائرہ شہروز کی اینٹری اور شکر ونڈاں پر رقص نے سینما میں بیٹھے عوام کو تالیاں بجانے پر مجبور کردیا ہے۔

ناقدین فلم کو لیکر درج ذیل باتیں سوچ سکتے ہیں۔
ماہرہ خان بطور لیڈ ایکٹریس

ہمسفر اور شہر ذات سے شہرت پانے والی اداکارہ ماہرہ خان کی اداکاری ڈراموں میں بہترین مگر فلم کے حساب سے خاصی کمزور ہے۔ فلم میں جہاں انہیں کالج کی من موجی لڑکی کردار نبھانا تھا وہ اس سے کوسوں دور نظر آئیں۔ اس جگہ عرویٰ، عائشہ عمر یا سوہا علی پر یہ کردار اچھا لگتا۔
کراچی میں بے وقت بارش

فلم میں کراچی کے بجائے اسلام آباد دکھایا جاتا تو زیادہ بہتر تھا۔ کراچی نے تو ایک عرصے سے بارش کا منہ نہیں دیکھا اور فلم میں بے وقت کی بارش۔ یہی نہیں بلکہ اکثر تینوں دوست ٹرین کے پلیٹ فارم پر بیٹھ کر گانا بجانا کرتے تھے اور یقین جانئے ماہرہ کا انداز دیکھ کر تو اسٹیشن پر رش ہی لگ جاتا۔
گانوں میں بے ترتیبی

فلم میں سوائے 2 سے 3 گانوں کے اکثر کی ٹائمنگ غلط تھی یا یوں کہہ لیجئے کہ ان کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس معاملے میں گانوں کی پکچرائزیشن پر بھی خاص توجہ نہیں دی گئی۔
رومانوی مناظر بمقابلہ بھارت

فلم کو بھارت سے مقابلے کے تناظر میں نہ دیکھا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ ماہرہ اور عدیل یقیناً رنبیر اور دپیکا کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور اگر کر بھی لیں تو رومانوی مناظر فلمانے کے بعد ان پر پاکستانیوں کا ٹیگ لگا کر جو تنقید کی جائے گی وہ آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ فلم کو فیملی فلم ہی رہنے دیا جائے تو اچھا ہے۔
کمزور کہانی لیکن شہریار اور عدیل کی مضبوط اداکاری

کہانی کی کمزوری کی اصل وجہ موسیقی کے ساتھ زبردستی کی لڑائی تھی۔ آپ چاہے جتنی بھی مشکل نوکری کرتے ہوں لیکن شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا۔ وقت نکل ہی آتا ہے۔ ماہرہ کی اوور ایکٹنگ کو یقیناً شہریار اور عدیل نے کافی سہارا دیا ہے۔ سونیا جہاں اور دیگر بھی اس معاملے میں داد کے مستحق ہیں۔
بشریٰ انصاری کا ڈرامہ ڈولی کی آئے گی بارات

بشریٰ انصاری کو دیکھ کر یوں لگا جیسے انہیں اب ایک ہی کردار کی عادت ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کردار کی نوعیت کے بجائے اپنی اس عادت پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔

ہو من جہاں ایک فیملی فلم ہے جسے دیکھنے کے لئے آپ ضرور وقت نکالیں۔ اس سے فلم انڈسڑی کی بحالی کے ساتھ ساتھ آپکی قیمتی آراء بھی آنے والی فلموں کے لئے سود مند ثابت ہوگی۔



[poll id="864"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں