داعش بوکوحرام اور القاعدہ کس حال میں ہیں

بشارالاسد اور روس پر داعش کو مضبوط کرنے کی حقیقت کیاہے؟


عبید اللہ عابد January 03, 2016
بشارالاسد اور روس پر داعش کو مضبوط کرنے کی حقیقت کیاہے؟ ۔ فوٹو : فائل

سن 2014ء میں اپنی خلافت قائم کرنے والی تنظیم داعش پوری دنیا کی توجہ، پالیسی اور حکمت عملی کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ امریکہ سے یورپ تک اور عرب دنیا سے روس اور ایران تک، ہرکوئی گزشتہ ڈیڑھ برس سے اس تنظیم کی سرکوبی کے اعلان کررہاہے، بعض ممالک اس کے خلاف کارروائیاں بھی کررہے ہیں لیکن اس تنظیم کا نیٹ ورک شام اور عراق کے درمیانی خطے سے نکل کر دنیا کے کئی اہم علاقوں تک پھیل رہاہے۔ جنوری 2015ء میں یمنی حکام نے بتایاکہ داعش کے درجنوں ارکان یمن میں القاعدہ کی طرح بڑے پیمانے پر ریکروٹمنٹ کررہے ہیں۔ افغان حکام نے بھی اپنے ہاںداعش کی عسکری موجودگی اور ریکروٹمنٹ کی خبردی۔

جنوری کے اواخر میں رپورٹس منظر عام پر آئیں کہ داعش کے لوگ عراق اور شام سے نقل مکانی کرنے والے عام لوگوں کے بھیس میں یورپی یونین میں داخل ہورہے ہیں۔ اسی اثنا میں داعش کے ترجمان کادعویٰ سامنے آیا کہ داعش نے چارہزار جنگجوں کو یورپی یونین میں کامیابی سے منتقل کردیاہے۔ یہ جنگجو ان ملکوں سے دولت اسلامیہ کے علاقوں میں بمباری کا انتقام لیں گے۔ فروری اور مارچ میں داعش نے لیبیا کے کئی حصوں پر قبضہ کیا حتیٰ کہ وہ طرابلس کے مشرق میں واقع شہر بن غازی کے بھی کچھ علاقوں پر قابض ہوگئی۔

مارچ کو افریقی عسکریت پسند گروہ 'بوکوحرام' باقاعدہ داعش میں ضم ہوگیا۔ اس طرح داعش کانیٹ ورک نائیجیریا، نائیجر، چاڈ اور کیمرون تک پھیل گیا۔اسی طرح اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کا ایک حصہ داعش سے مل گیا۔ 30 مارچ کو انصارالشریعہ لیبیا کے مرکزی رہنما عبداللہ اللبی بھی داعش میں شامل ہوگئے۔ اسی طرح دنیا کے کئی ممالک میں القاعدہ کے لوگ داعش کا حصہ بننے لگے۔مارچ اور اپریل میں عراقی فوج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کرصوبوں تکریت اور صلاح الدین کے علاقے داعش سے چھڑانے کی کوشش کی گئی تاہم زیادہ بڑی کامیابی نہ مل سکی۔ماہ جون ہی میں بعض ملکوںمیں تسلسل کے ساتھ کارروائیاں ہوئیں۔ مثلاً تیونس میں دو ہوٹلوں پر حملہ ، فرانس میں ایک شخص کو ذبح کیاگیا، کویت کی ایک امام بارگاہ میں بم دھماکہ ۔ داعش نے کویت اور تیونس میںکارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی البتہ فرانس میں شخص کو ذبح کرنے کے واقعے کی ذمہ داری قبول نہ کی تاہم فرانسیسی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ اسے جائے وقوعہ پر داعش کا پرچم ملا۔ سن 2015ء کے اواخرتک داعش نے متعدد بڑی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ان میں نومبر میں ہونے والے پیرس حملے اور عدن کے گورنر جعفر محمد سعد کا قتل بھی شامل ہے۔

سال 2015ء میں اندازے لگائے گئے کہ داعش کی آمدن کے ذرائع کیاہیں۔ ایک اندازے کے مطابق داعش ہر ماہ آٹھ کروڑ ڈالرز کما رہی ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں داعش کے زیر قبضہ تیل کی تنصیبات سے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ سکڑ گیا ہے۔داعش کو نصف آمدن بھتے اور املاک کی لوٹ مار سے حاصل ہوتی ہے،43 فی صد تیل کی فروخت اور باقی رقوم منشیات کی اسمگلنگ ،بجلی کی فروخت اور عطیات سے۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ داعش تیل کی بہت بڑی مقدار بشارالاسد کی حکومت ہی کو فروخت کر رہی ہے۔ یادرہے کہ داعش نے گزشتہ سال جون میں شام اور عراق میں کے بعض علاقوں میں اپنی خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد شام میں اپنے زیر قبضہ علاقوں میں تیل کی تنصیبات سے تیل کی فروخت شروع کردی تھی۔ دسمبر کے دوسرے عشرے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے وزرائے خزانہ نے داعش کے خلاف وسیع بنیادوں پر پابندیوں اور اس کے مالی و معاشی مقاطعے کے قرارداد متفقہ طور پر منظور کی۔

اگرچہ ایران، روس اور بشارالاسد پر مبنی اتحاد بھی داعش کے خلاف کارروائی کے دعویٰ کررہاہے لیکن اس کا داعش ہی سے تیل خریدنا یکسرحیران کن امر ہے۔ جوں جوں وقت گزر رہاہے، ایسی ہی مزید حیران کن خبریں بھی سامنے آرہی ہیں۔ مثلاً شامی صدر بشارالاسد کے خلاف سرگرم عالمی حمایت یافتہ فوج 'جیش الحر' نے الزام عائد کیاکہ ان کے ملک میں فوجی آپریشن میں مصروف روسی فوج داعش کی عسکری مدد کررہی ہے۔ جبکہ ترک وزیراعظم احمد داؤد اوگلو نے بھی الزام عائد کیاتھاکہ روسی فوج شمالی شام کے سنی اکثریتی شہر 'اللاذقیہ' میں اہل سنت مسلک کی آبادی کی نسل کشی کا مرتکب ہو رہی ہے۔ روسی فوج جن علاقوں میں آپریشن کی آڑ میں کارروائیاں کر رہی ہے وہاں ترکمان(ترک نژاد شامی) اور سنی مسلمان مقیم ہیں۔ ترک وزیراعظم بھی تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ روسی فوج کے اب تک کے حملوں سے داعش مضبوط ہوئی ہے۔

داعش کے حوالے اس سال کی آخری اور اہم ترین پیش رفت سعودی عرب کی قیادت میں34 رکنی بین الاقوامی مسلم عسکری اتحاد کی تشکیل ہے۔یہ نیا اتحاد داعش کے خلاف جنگ کے لیے معلومات کا تبادلہ کرے گا،فورسز کو تربیت دے گا، انھیں مسلح کرے گا اور اگر ضروری ہوا تو فوج بھی بھیجے گا۔ اس نئے اتحاد میں نمایاں اسلامی اور عرب ممالک میں پاکستان کے علاوہ ترکی ،ملائشیا ،مصر ،قطر ،سوڈان،مراکش اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ البتہ اس میں ایران، شام، عراق شامل نہیں ۔

سن 2015ء کا ماحصل یہ ہے کہ مختلف بین الاقوامی طاقتیں داعش کے خلاف کارروائی کے نام پر اس خطے میں کود رہی ہیں،ایسا لگ رہاہے کہ ان کے منصوبے کچھ اور ہی ہیں۔ ایک طرف ایران، روس، لبنان کی حزب اللہ اور بشارالاسد جبکہ دوسری طرف سعودی عرب اور چونتیس رکنی اتحاد، تیسری طرف امریکہ اور یورپ۔ان سب کے درمیان شام اور عراق کا کچھ حصہ!!!

بوکوحرام کا اختتام:نائیجیریا کی شدت پسند تنظیم'بوکوحرام'کا پورا نام 'جماعۃ اہل السنۃ للدعوۃ والجہاد' ہے۔ تنظیم مغربی طرز تعلیم کو حرام سمجھتی ہے اس لیے اس کا نام 'بوکو حرام' پڑ گیا۔ بانی محمد یوسف نامی سکالر تھے جو2009ء میں مارے گئے۔ بعدازاںگروہ کئی دھڑوں میں بٹ گیا۔بوکوحرام نے مسلمان رہنماں کوبھی نشانہ بنایا، بم دھماکے، اغوا کی وارداتیں اور بنک لوٹنے جیسی کارروائیاں کیں، متعدد غیرملکیوں کو اغوا کیا۔ سب سے بڑی کارروائی اپریل2014 میں شمالی نائیجیریا کے ایک سکول سے تین سو طالبات کا اغوا تھا۔ اس کے حملوں میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔

جنوری 2015ء میں بوکوحرام نے شمال مشرقی علاقے میں'باگا' میں ملٹی نیشنل جوائنٹ ٹاسک فورس کے فوجی اڈے پر قبضہ کرلیا۔ مغربی میڈیا نے اس لڑائی میں 2000 سے زائد ہلاکتیں بتائیں جبکہ نائیجرین حکام نیتعداد150بتائی۔ 25جنوری کوبوکوحرام نے 'مونوگونو' کی طرف پیش قدمی کی اور شہر، قریبی فوجی اڈے پر قبضہ کرلیا۔

جنوب مشرق کی طرف میدوگوری اور کوندوگا کے علاقوں کی طرف بھی پیش قدمی کی تاہم اسے پسپاکردیاگیا۔ فروری کے مہینے میں نائیجرین فوج نے باگا بھی بوکوحرام سے واپس لے لیا۔ 'باگا' واپس تو مل گیا لیکن باگا پر بوکوحرام کے قبضے نائیجرین فوج کی سب سے بڑی شکست قرارپائی، نتیجتاً متعدد افسروں کے کورٹ مارشل ہوئے۔ 12جنوری کو بوکوحرام نے 'کولوفتا' میں کیمرون کے فوجی اڈے پر حملہ کیا، جس میں بوکوحرام کے143جنگجو ہلاک ہوئے۔

اٹھارہ جنوری کو بوکوحرام نے کیمرون کے ایک دوسرے علاقے 'طورو' کے دیہاتوں پر حملہ کیا اور 60 سے80افراد کو اغوا کرلیا۔جنوری 2015ء میں نائیجیریا، کیمرون، چاڈ اور نائیجر کی مشترکہ فوج نے بوکوحرام کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ چارفروری کو چاڈ فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے200عسکریت پسند ماردئیے ہیں۔ چند دن بعد بوکوحرام نے کیمرون کے ایک شہر 'فوٹوکول' پر چڑھائی کردی۔جس میں 81سویلینز، 13چاڈفوجی اور6کیمرونی فوجی ہلاک ہوئے۔

7مارچ کو بوکوحرام کے رہنما ابوبکر شیکا نے داعش میں شمولیت اختیارکرلی۔ نائیجرین فوج کے ترجمان سمیع عثمان نے کہا کہ بوکوحرام کی داعش میں شمولیت کا مطلب ہے کہ یہ گروہ کمزور پڑگیاہے۔تاہم 24مارچ کو بوکوحرام نے نائیجریا کے ایک شہر داماسک پر قبضہ کرلیااور400 خواتین اور بچوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ یادرہے کہ مشترکہ افریقی فوج جنگجوں کو دیکھتے ہی فرارہوگئی تھی۔

27مارچ کو نائیجرین فوج نے 'گوزا' شہر پر قبضہ کرلیا جس کے بارے میں کہاجاتاتھا کہ یہ بوکوحرام کا ہیڈکوارٹر ہے۔ 28مارچ ، عام انتخابات کے موقع پر بوکوحرام کے ہاتھوں 41افراد ہلاک ہوئے، ان میں سے ایک سابق رکن پارلیمان بھی تھا۔بڑی تعداد میں ووٹرز خوف وہراس کا شکار ہوئے اور ووٹ کاسٹ نہ کرسکے۔مارچ میں نائیجریا کے شمالی شہر باما اور گوزا نائیجرین فوج نے بوکوحرام سے چھین لئے۔ آنے والے دنوں میں نائیجرین حکام نے بوکوحرام کے زیرقبضہ 14 میں سے11اضلاع واپس لینے کا دعویٰ کیا۔ اپریل میں فوج نے سمبیسہ کے جنگلات میں بوکوحرام کے چارکیمپوں پربھی قبضہ کرلیا اور وہاں سے 300 خواتین کو بازیاب کرالیا۔ بعدازاں مندرا کے پہاڑوں سے بھی بوکوحرام پسپاہوگئی۔

15جون کو چاڈ میں دوپولیس سٹیشنوں پر حملے کرکے38افراد کو ہلاک کردیاگیا۔گیارہ جولائی کو جمینا نامی شہر میں خودکش دھماکے میں15افراد ہلاک ہوئے۔ یکم جولائی کو بوکوحرام کے جنگجوں نے نائیجریا کے شہر'کوکوا' کی ایک مسجد پر حملہ کیاجس میں 48 افراد جاں بحق ہوئے۔ دوجولائی کو بھی ایک مسجد پر حملہ کرکے97 افراد کو ہلاک کردیا۔ نوستمبر2015ء کو نائیجریا کی وزارت دفاع کے ترجمان ربیع ابوبکر نے اعلان کیا کہ بوکوحرام کے تمام کیمپ اور سیل تباہ کردئیے گئے ہیں۔ اب یہ تنظیم اس قدر کمزور پڑ گئی ہے کہ کہیں بھی قبضہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

القاعدہ کی کہانی:سن 2015ء کے دوران القاعدہ بحیثیت مجموعی کوئی بڑی کارروائی نہ کرسکی۔ اگرچہ اوائل برس برطانوی انٹیلی جنس رپورٹ میں خبردار کیاگیاتھا کہ القاعدہ مغرب میں بڑے حملے کی تیاری کررہی ہے تاہم ایسا نہ ہوسکا۔

سال کے دوران القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹرایمن الظواہری نے نئے طالبان امیر ملا اختر منصور کی بیعت کا اعلان کیا جبکہ داعش کے امیر ابوبکربغدادی کو خلیفہ تسلیم کرنے سے انکارکیا۔ البتہ اس سال انھوں نے شام اور عراق میں مغرب اور روس کا مقابلہ کرنے کے لئے عسکریت پسندوں کے اتحاد کی کوششیں ضرورکیں۔ وہ القاعدہ اور داعش کے درمیان بہتر کوارڈی نیشن اور اتحاد پر زور دیتے رہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی، روسی، ایرانی، شامی علوی اور حزب اللہ ہمارے خلاف مربوط جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔کیا ہم باہمی لڑائی چھوڑ کر اپنی تمام تر توانائیاں ان کے خلاف جنگ میں صرف نہیں کر سکتے؟

عمومی طورپر خیال کیاجارہاہے کہ القاعدہ کا نیٹ ورک ٹوٹ چکاہے تاہم وہ اب اپنا نیا نیٹ ورک بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ اس سال کے دوران میں القاعدہ نے اپنی تمام تر توجہ شام اور یمن کی طرف مرکوز کی، دنیا بھر سے اس کے جنگجو انہی دونوں ملکوں میں پہنچ کے لڑتے رہے، القاعدہ نے ثابت کیا کہ وہ ان دونوں ملکوں میں بڑی کارروائیاں کرنے پر قادر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں