ایران مغرب معاہدہ کس کی ہار کس کی جیت

یہ 2015ء کا نہیں بلکہ گزشتہ 36برسوں میں رونما ہونے والابڑا واقعہ ہے

یہ 2015ء کا نہیں بلکہ گزشتہ 36برسوں میں رونما ہونے والابڑا واقعہ ہے۔ فوٹو: فائل

LONDON:
ایران اور مغرب معاہدہ گزشتہ 36برسوں میں رونما ہونے والا ایک بڑا واقعہ ہے۔ ان چھتیس برسوں کے دوران میں مغرب انقلابیوں کے ایران کو کچل ڈالنے کی باتیں کرتاتھاجبکہ ایران مغرب کے لئے مردہ باد کے نعرے لگاتاتھا۔تاہم15جولائی کو ایران اور مغرب اچانک بغل گیر ہوگئے۔ اس روزایرانی صدر حسن روحانی نے طویل مذاکرات کے بعد اپنی قوم کو جوہری معاہدے کی نوید سنائی۔

20 جولائی کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور یورپی یونین نے معاہدے کی توثیق کی۔23جولائی کو ایران نے مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کی خواہاں بعض یورپی کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات مکمل کر لیے اور ملک میں ان کے منصوبوں کی منظوری دیدی۔ یادرہے کہ ابھی معاہدہ طے نہیں پایا تھا کہ یورپی ممالک نے ایران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی روابط بڑھانے کے امکانات کا بھی جائزہ لینا شروع کردیا۔

اس معاہدے کے نتائج بھی حیران کن تھے۔ ایران معاہدے کی موافقت اور مخالفت میںتقسیم ہوگیا۔اصلاح پسندوں کا موقف تھا کہ معاہدے کے بعد ایران کو عالمی اقتصادی اور تجارتی پابندیوں سے آزادی ملی ہے، اس کے نتیجے میں ایران میں خوشحالی کا دور آئے گا۔ ایک اخبار نے لکھا کہ مغرب نے ایران کی800 مالیاتی کمپنیوں اورشخصیات پابندی اٹھانے کا اعلان کرکے اگلے15سال کے لئے یورنیم افزودہ کرنے کا حق تسلیم کیا۔

اب ایرانی اپنی غذائی اجناس کو امریکی منڈیوں تک پہنچائیں گے اور طیاروں کی خرید وفروخت میں بھی آزاد ہوں گے۔جبکہ قدامت پسندوں کاخیال ہے کہ ایران اور مغرب کے درمیان معاہدے کامیاب نہیں ہو سکتے،ماضی میں بھی ایسے معاہدے ہوئے تاہم ان معاہدوں پر خوشیاں منانے والے اب شرمندہ ہیں کہ وہ غلطی پر تھے۔ یادرہے کہ ایران اور مغرب معاہدہ بنیادی طورپر چار معاہدوں کا مجموعہ ہے جن میں سے دو معاہدے منظر عام پر لائے گئے، انھیں پارلیمان میں پیش کیاگیا جبکہ باقی دومعاہدے تاحال صیغہ راز میں ہیں۔

جوہری تنازع کے سابق ایرانی مذاکرات کار اور رکن پارلیمنٹ سعید جلیلی کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کے دوران ایران کو ذلیل اور رسوا کیا گیا۔ عالمی چال بازوں نے ایران پر ایسی شرائط مسلط کردی ہیں جن پر عمل درآمد تہران کے لیے گھاٹے کا سودا ہے۔ ایران، مغرب معاہدے میں واضح طور پر عدم توازن موجود ہے۔

ایران نے20 ہزار سے زائد سینٹری فیوجز تیار کرلیے تھے۔ آراک میں بھاری پانی کے ری ایکٹر پر 86 فی صد کام مکمل ہوچکا تھا، فردوری ایکٹر یورینیم افزودگی کے مرحلے میں تھا جبکہ تہران میں اٹامک میڈیکل ریسرچ ری ایکٹر سے پیداوار بھی شروع ہوچکی تھی۔ مذاکرات سے قبل ہم نے''ریڈیو آیسوٹوپ'' تیار کرلیا تھا۔

اس کے علاوہ 418 کلوگرام یورینیم درجہ 20 اور 7000 کلو گرام کو 5 فی صد تک تیار کرلیا گیا تھا، لیکن حکومت نے مغرب سے مذاکرات کے دوران ان تمام پروجیکٹ سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے بنا بنایا کام بگاڑ دیا۔ اب ایران کو پابند کردیاگیاہے کہ وہ20 فیصد سے زیادہ یورینیم افزودہ نہیں کرسکتا۔ اس طرح ایران کے ساتھ کھلم کھلا زیادتی کی گئی کیونکہ دنیا کا کوئی دوسرا ایسا ملک نہیں جس پر اس طرح کی پابندیاں عاید کی گئی ہوں۔ سعد جلیلی کاکہناتھاکہ امریکاکبھی تہران پر حملہ کرنے کی جرات نہ کرتا مگر ہماری حکومت امریکی دھمکیوں کے دباؤ میں آگئی تھی۔

جوہری معاہدے کی ایران کے اندر مضبوط مخالفت اپنی جگہ بہرحال تیرہ اکتوبر کوایرانی پارلیمان نے اس معاہدے کی منظوری دے دی اور 19اکتوبر سے ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیاں مرحلہ وار اٹھانے کا آغاز ہو گیا۔ امریکی صدر براک اوباما نے محکمہ خارجہ، خزانہ، اقتصادیات اور توانائی کو ہدایات جاری کیں کہ اس جوہری معاہدے میں طے شدہ امریکی وعدوں پر عمل درآمد کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔' اُس وقت اعلیٰ امریکی عہدیداران نے بتایا کہ ان سارے اقدامات کے ذریعے ایران پر عائد پابندیاں اٹھانے میں کم از کم دو ماہ لگ سکتے ہیں۔

21اکتوبر کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی معاہدے کی توثیق کردی لیکن انھوں نے صدر حسن روحانی کی حکومت کو چوکنا رہنے کا حکم دیا کیونکہ ان کے بقول امریکا پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہناتھا کہ ایران آگے بھی جاسکتا تھا لیکن اب سمجھوتے میں موجود''ابہاموں'' پر نظر رکھی جانی چاہیے۔ انھوں نے کہاکہ امریکی صدر براک اوباما نے ان کے نام دو خطوط کے ذریعے یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکا ایرانی علماء کی حکومت کو ہٹانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔

خامنہ ای نے یہ بھی کہاکہ ایران اپنی افزودہ یورینیم کے ذخیرے یا آراک میں واقع بھاری پن کے جوہری ری ایکٹر سے دستبردار نہیں ہوگا جب تک کہ متنازعہ جوہری پروگرام کی ممکنہ فوجی نوعیت (پی ایم ڈی) کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ انھوں نے کہا کہ آراک اور یورینیم کو بیرون ملک بھیجنے سے متعلق کوئی بھی اقدام پی ایم ڈی فائل بند ہونے کے بعد ہی کیا جائے گا۔

معاہدہ کے فوری بعد سعودی عرب کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آئے کہ ایران سے نیو کلیئر ڈیل مشرق وسطیٰ میں تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ امریکا نے ایران اور شمالی کوریا کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کے باوجود ایران کے ساتھ جوہری تنازعے پر معاہدہ کر لیا۔


صدر اوباما نے تزویراتی خارجہ پالیسی تجزیے،قومی انٹیلی جنس کی معلومات اور خطے میں امریکی اتحادیوں کی انٹیلی جنس کے باوجود ایران کے ساتھ ڈیل کی حالانکہ ان سب کا موقف تھاکہ ایران سے معاہدہ کے نتائج بھی شمالی کوریاسے معاہدے ایسے ہوں گے بلکہ اس سے بھی بدتر۔ نتیجتاً ایران کو اربوں ڈالرز تک رسائی حاصل ہوجائے گی، اس سے مشرق وسطیٰ میں تباہی آئے گی کیونکہ سعودی شاہی خاندان کے ایک اہم فرد کے بقول ایران اس خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں ایک بڑے کھلاڑی کا کردار ادا کررہا ہے۔

ایران اور مغرب کے درمیان طے پانے والے

معاہدے کے بعض نکات درج ذیل ہیں:
٭اراک کے مقام پر بھاری پانی کا پلانٹ نہ صرف قائم رہے گا بلکہ وہاں سے بھاری پانی کی تیاری، حسب ضرورت اس میں اپ گریڈنگ، نئی تجربہ گاہوں اور عالمی امن کی ضمانت کے تحت جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ماضی میں طے پانے والے معاہدے میں بھاری پانی کے منصوبے کو ہلکے پانی کے منصوبے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔٭ ایران جوہری مصنوعات تیار کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کے بعد مرحلہ وار عالمی منڈی میں داخل ہو گا۔

بالخصوص افزودہ یورنیم اور بھاری پانی کے تزویراتی سودے کرنے کی صلاحیت حاصل کرے گا اور اس شعبے میں پچھلے 35 سال سے عاید پابندیاں مرحلہ وار ختم کی جائیں گی۔٭معاہدے کے فوری بعد یورپی یونین اور مغرب کی جانب سے ایران پر عاید اقتصادی پابندیاں، مالیاتی اداروں، بینکوں، گیس، پٹرول، پیٹرو کیمیکل مصنوعات، ٹرانسپورٹ اور مواصلات پر عاید پابندیاں ختم کی جائیں گی۔٭ ایران کے بیلیسٹک میزائلوں کی تیاری پر عاید پابندی ایٹمی وار ہیڈ لے جانے والے میزائلوں پر پابندی میں بدل جائے گی۔ اگرچہ آج تک ایران نے جوہری وار ہیڈ لے جانے والے میزائل تیار کرنے کا دعویٰ نہیں کیا ہے اور نہ ان میزائلوں کو ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے میں شامل کیا گیا تھا۔

٭معاہدے کے پانچ سال بعد ایران پر عاید اسلحہ کی خریدو فروخت پر پابندی ختم ہو جائے گی۔ جس کے بعد ایران دفاعی آلات کی درآمدات وبرآمدات میں آزاد ہو گا۔ ٭ حساس آلات کی تیاری، ان کے استعمال اور خرید وفروخت پر پابندی ایران کی دفاعی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے گروپ چھ کے مندوبین مشاورت سے اٹھائی جائے گی۔٭ایرانی طلباء بالخصوص جوہری شعبے سے وابستہ طلباء کی بیرون ملک تعلیم پر پابندی اٹھا لی جائے گی۔٭ سول مقاصد کے لیے طیاروں کی خریداری اور فضائی سروس کی سکیورٹی اور انشورنس کی غرض سے فضائی بیڑے کو اعلیٰ معیار تک لے جانے پر عاید پابندی ختم ہو جائے گی۔

٭ معاہدے کے تحت مغرب اور امریکا کے ہاں ایران کے منجمد کیے گئے اثاثے بحال کیے جائیں گے جن کی مالیت کھربوں ڈالر میں بتائی جاتی ہے۔٭ ایران کے مرکزی بنک، نیشنل آئل کمپنی، نیشنل آئل ٹرانسپورٹ، قومی ایئر لائن اور ملک کے 800 کے قریب سرکاری اور نجی مالیاتی اداروں پر عاید پابندی ختم ہو جائے گی۔٭ ایران اور بین الاقوامی دنیا کے درمیان عاید اقتصادی بیریئر ہٹا دیے جائیں گے جس کے بعد ایران کو اپنا تیل، گیس، پیٹرو کیمیکل آلات اور دیگر مصنوعات کو عالمی منڈی تک لے جانے کی اجازت ہو گی۔

معاہدے کے اہم نکات کا جائزہ لینے سے محسوس کیاجاسکتاہے کہ ایران اس معاہدے کی رو سے بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ سب سے بڑا فائدہ، دنیا میں اس کی تنہائی ختم ہوئی، اب ایرانی قوم کی معاشی مشکلات کا خاتمہ ہوا چاہتاہے۔ ایرانی نژاد امریکی سکالر، مصنف اور امریکی خارجہ پالیسی کے ماہر ڈاکٹر ماجد رفیع زادہ کے بقول''دنیا کے چھ طاقتور ممالک نے ایران کے ساتھ ایک کمزور سا معاہدہ کیا جس کے تحت کچھ مدت کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور یورینیم افزودگی بند کردینے کے عوض ایران کے ایٹمی پروگرام کو نہ صرف تسلیم کر لیا گیا بلکہ اسے کئی رعایتیں دی گئی ہیں جن میں عالمی پابندیوں کا خاتمہ بھی شامل ہے۔

امریکی کانگریس اور ایرانی پارلیمنٹ(مجلس) نے بھی اس معاہدے کی توثیق کی جس کے بعد اس کی حیثیت ایک مکمل طے شدہ معاہدے کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایرانی مجلس نے خامنہ ای کے بالواسطہ حکم کے تحت اس معاہدے کی توثیق کر کے ان کی پوزیشن کو بہت مستحکم کر دیا ہے''۔ بعض حلقوں کا یہ بھی کہناہے کہ خامنہ ای نے اگرچہ اس معاہدے کی توثیق کی ہے لیکن ان کا طرزعمل اور طرزکلام ایسا ہے جیسے وہ مغرب پر پورا اعتماد کرنے کو تیارنہیں اور شاید کسی وقت کوئی بھی اعتراض کرکے یہ معاہدہ ختم کردیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ مغرب ایرانی منڈیوں تک پہنچنے کے لئے بہت مضطرب تھا، اس اضطراب کا ایرانی سپریم لیڈر نے فائدہ اٹھایا، اپنے ملک وقوم کا فائدہ بھی کیا اور یہ ثابت بھی کیا کہ ایرانی اقتدارپر آج بھی ان کی گرفت غیرمعمولی طور پر مضبوط ہے۔ مغرب کو ان کے اقتدارکے سامنے جھکناپڑا۔

دوسری طرف اس معاہدے کو خلیجی خطے کو شیعہ سنی دوبلاکوں کو تقسیم کرنے کے مغربی منصوبے کے تناظر میں دیکھا جارہاہے۔ اس جوہری معاہدے کے بعد ایران کی حیثیت میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ وہ اس علاقے میں زیادہ بڑا کردار اداکرے گا۔ اس کے ردعمل میں سعودی عرب کی طرف سے معاہدے پر تحفظات سامنے آئے اور اب چونتیس رکنی اسلامی عسکری اتحاد تشکیل دیدیا۔اس میں ایران، عراق، شام جیسے ممالک کو شامل نہ کرنا بہت سے سوالوں کے جواب دے رہاہے۔

ایرانی صدر حسن روحانی کے خیال میں سال 2016ء شروع ہونے تک ایران سے مغرب وہ پابندیاں اٹھالے گا جو معاہدے میں طے ہوئی ہیں۔
Load Next Story