نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم

اسکیم کااطلاق اراکین قومی وصوبائی اسمبلی،سینٹرز،منی لانڈرنگ کی رقم اورمنشیات سےحاصل ہونے والی رقم پرنہیں ہوگا


Editorial January 03, 2016
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی ملک معاشی طور پر مضبوط ہے تو پھر وہ دفاعی طور پر بھی مضبوط ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

LOS ANGELES: سینیٹ اورقومی اسمبلی میں نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے حوالے سے انکم ٹیکس ترمیمی بل 2016 پیش کر دیا گیا جس کے تحت ایک فیصد ٹیکس ادا کر کے پانچ کروڑ کالادھن سفید کرایا جا سکے گا جب کہ31 جنوری 2016 تک ٹیکس گوشوارے جمع کرانے پر گزشتہ چار سال کی آمدن کا ذریعہ بھی نہیں پوچھا جائے گا۔ یہ بل وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے پیش کیا۔ بل میں ٹیکس کی ادائیگی کے لیے3 سلیب تجویز کیے گئے ہیں جب کہ اس کامقصد ٹیکس نادہندگا ن اور کم آمدنی ظاہر کرکے ٹیکس چوری کرنے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔ چیئرمین سینیٹ اوراسپیکر قومی اسمبلی نے بل مزید غوروخوص کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھجوا دیا جب کہ چئیرمین سینیٹ نے بل پر ارکان سے4جنوری تک تجاویز طلب کر لیں۔

ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اطلاق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی،سینٹرز،منی لانڈرنگ کی رقم اور منشیات سے حاصل ہونے والی رقم پرنہیں ہوگا۔اسکیم میں فائلرز اورنان فائلرز کے لیے سہولیات شامل ہیں۔ حکومت کو اسکیم کے نفاذ سے سالانہ 50 ارب روپے سے زیادہ آمدنی متوقع ہے جب کہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں بھی بڑے پیمانے پر اضافے کا امکان ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے اگلے مذاکرات سے پہلے بے نامی ٹرانزیکشن و اثاثہ جات کا بل بھی اسمبلی میں پیش کر دیا جس سے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط بھی پوری کردی گئی۔

اگر تواخلاقی حوالے سے دیکھا جائے تو پھر کالے دھن کو کچھ رقم لے کر سفید کرنے کے اقدام کو درست قرار دینا خاصا مشکل ہے لیکن اگر اقتصادی اور معاشی حوالے سے دیکھا جائے تو پھر یہ فیصلہ درست قرار پاتا ہے۔ ویسے بھی سرمایہ دارانہ سسٹم میں بلیک منی کو وائٹ کرنا کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی ماضی میں ایسا ہو چکا ہے۔ بہرحال حکومت کا یہ فیصلہ بہتری کی جانب ایک قدم ہے۔ یقینی طور پر اس سے معاشرے کے بہت سے طبقات فائدہ اٹھائیں گے۔

اس سے یقینی طور پر ٹیکس نیٹ میں آنے والے افراد کی تعداد بھی بڑھے گی۔ بہرحال اس معاملے میں احتیاط یہ کرنی چاہیے کہ منشیات فروش، جرائم مافیاز یا دہشت گردوں کے پشت پناہ کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ حکومت نے اعلان تو کیا ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اطلاق ارکان قومی وصوبائی اسمبلی، سینیٹرز، منی لانڈرنگ کی رقم اور منشیات سے ہونے والی رقم پر نہیں ہو گا۔ اصل معاملہ پھر وہی ہے کہ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ یہ رقم منی لانڈرنگ سے حاصل ہوئی ہے یا منشیات فروشی سے حاصل ہوئی ہے۔ یقینی طور پر اس اسکیم سے ایسے لوگ بھی مستفید ہوں گے جن کا کہیں نہ کہیں کوئی تعلق ڈرگز ٹریفکنگ یا منی لانڈرنگ سے ہو گا۔

ظاہر سی بات ہے کہ جو کالا دھن سفید ہو گا، وہ پہلے ٹیکس نیٹ سے بھی باہر ہو گا اور حکومت کو بھی پتہ نہیں ہو گا کہ یہ دھن کس ذریعے سے حاصل کیا گیا ہے۔ دوسرا یہ بھی امکان ہے کہ ایک شخص اپنے نام سے، بیوی کے نام اور بچوں وغیرہ کے نام پر کالا دھن سفید کرائے گا۔ یوں معاملہ محض پانچ کروڑ تک محدود نہیں رہے گا۔ مثال کے طور پر اگر کسی گھرانے کے چھ افراد ہیں تو وہ تیس کروڑ کا دھن سفید کروا لے گا۔ بہرحال حکومت کو یہ انتظام کرنا چاہیے کہ اس اسکیم سے جرائم پیشہ اور دہشت گرد فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ اگر ایسے تاجر جنھوں نے ٹیکس بچانے کے لیے اپنا دھن چھپایا ہوا ہے، وہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ اس سے کاروباری طبقے کو بھی فائدہ ہو گا اور معیشت بھی پھلے پھولے گی۔

ادھر وزیراعظم نوازشریف نے اگلے روز فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی طرف سے رضا کارانہ ٹیکس ادائیگی(فائلنگ)اسکیم کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اسکیم ایف بی آر اورکاروباری برادری کے مابین قریبی اشتراک کار میں نئی خوش آیند پیشرفت ثابت ہو گی۔ تاجر برادری کے ساتھ مشاورت سے پالیسیاں بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہ خوشدلی سے ٹیکس ادا کریں۔

تاجر ملکی ترقی کے لیے تعاون کریں،وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے کہہ دیا کہ ٹیکس اتنا کم کریں کہ ہر کوئی بخوشی دے۔جو ملک معاشی لحاظ سے مضبوط ہوتا ہے اس کی افواج بھی مضبوط ہوتی ہیں،وہاں خوشحالی ہوتی ہے،بیروزگاری اور ناخواندگی نہیں ہوتی، تمام معاملات ٹھیک چلتے ہیں اور دہشتگردی اپنے پاؤں جمانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔لیکن اگر کوئی ملک اندرونی طور پر خستہ حال اور کمزور ہو تو پھر کوئی بھی پہلو ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم کی باتیں بالکل ٹھیک ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی ملک معاشی طور پر مضبوط ہے تو پھر وہ دفاعی طور پر بھی مضبوط ہوتا ہے۔

وہاں امن بھی ہوتا ہے اور شخصی آزادیاں بھی موجود ہوتی ہیں لیکن کوئی معیشت اسی وقت مضبوط ہوتی ہے جب بالادست طبقہ یا جسے اشرافیہ کہا جاتا ہے، وہ ایمانداری سے ٹیکس ادا کرتی ہو۔ اشرافیہ خود پر قانون نافذ کرے تو نچلی سطح تک قانون کی حکمرانی قائم ہو جاتی ہے۔ پاکستان اس وقت دہشت گردی اور بدامنی کا شکار ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس ملک کی اشرافیہ ذہنی طور پر تقسیم ہے۔ بہرحال موجودہ حکومت معیشت کو بہتر بنانے کے لیے جو پالیسیاں اختیار کیے ہوئے ہے، ان پر صحیح معنوں میں عمل کیا جائے تو ملک میں دہشت گردی بھی ختم ہو جائے گی، امن قائم ہو گا جس کا نتیجہ ملکی معیشت کا استحکام ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں