آتے آتے 2016ء

سو اس بحث میں پڑے بغیر کہ وقت کیا ے اور اس کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے

Amjadislam@gmail.com

وقت ایک طرح سے رب کریم کا ایک اضافی نام ہے کہ اس کے تصور میں بھی خالق کائنات کی ہستیٔ اول و آخر کا ایک استعارہ سا پایا جاتا ہے۔ سو یہ کیلنڈر جو ہم نے اپنی آسانی کے لیے وضع کیے ہیں اور جن کی پہنچ بھی بے حد محدود ہے اپنے نقطہ آغاز، ترتیب اور شب و روز کی پیمائش کے حوالے سے ایک خود ساختہ اور کام چلاؤ سا طریقہ ہیں ورنہ اصل بات وہی ہے جو علامہ اقبال نے کہی تھی کہ ''ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات؟ اور یہ کہ

جو تھا، نہیں ہے، جو ہے، نہ ہوگا یہی ہے ایک حرف محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اُسی کا مشتا ق ہے زمانہ

سو اس بحث میں پڑے بغیر کہ وقت کیا ے اور اس کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے اور یہ کہ موجودہ گریگورین کیلنڈر کسی خاص قوم کا ہے یا کسی کا بھی۔ زمین نامی اس سیارے پر بسنے والے تمام آدم ذادوں کو نیا سال مبارک ہو۔ ہماری آپ کی یہ دنیا اور اس میں موجود انسانی زندگی کس قدر تیزی سے بدل رہی ہے۔ اس کا عمومی اندازہ تو ہم سب کو ہے لیکن برادرم شفیق احمد عباسی نے ٹھیک ایک صدی قبل یعنی 1915ء کا جو نقشہ کھینچا ہے اسے پڑھ کر ایک بار تو واقعی آدمی الف لیلیٰ یا داستان امیر حمزہ کی فضا میں پہنچ جاتا ہے۔ ایک بار پھر اقبال یاد آگئے جو کم و بیش اسی زمانے میں کہہ رہے تھے کہ

''محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی!''
آئیے پہلے ایک نظر 1915ء کی دنیا پر ڈالتے ہیں۔ اس وقت:

-1 انسان کی اوسط عمر 47 برس تھی۔ -2 کاروں کا پٹرول صرف کیمسٹ کی دوکان سے ملتا تھا۔ -3 صرف 14% گھروں میں نہانے کے ٹب ہوتے تھے۔
-4 صرف 8% گھروں میں فون کی سہولت موجود تھی۔
-5 زیادہ تر شہروں میں ٹرانسپورٹ کی حد رفتار 10 میل فی گھنٹہ تھی۔ -6 دنیا کی بلند ترین عمارت ایفل ٹاور تھی۔ -7 امریکا میں فی گھنٹہ اجرت صرف 22 سینٹ تھی۔ -8 ایک عام امریکی کی سالانہ آمدنی 200 سے 400 ڈالر تک تھی۔ -9 95% سے زیادہ بچوں کی پیدائش گھروں میں ہوتی تھی۔
-10 90% سے زیادہ ڈاکٹروں کے پاس اس پیشے کی کوئی باقاعدہ تعلیم یا ڈگری نہیں ہوتی تھی۔
-11 چینی کی قیمت 11 سینٹ فی پاؤنڈ تھی۔
-12 انڈے چودہ سینٹ کے ایک درجن ملتے تھے۔
-13 زیادہ تر خواتین مہینے میں صرف ایک بار بال دھوتی تھیں اور وہ بھی خود ساختہ میٹریل سے۔
-14 کینیڈا میں ایک قانون کے تحت غریب لوگوں کا داخلہ ممنوع تھا۔
-15 جان لیوا بیماریوں کی فہرست میں پہلے پانچ نمبر نمونیا، انفلوئنزا، ٹی بی، ڈائریا اور ہارٹ اٹیک کے تھے۔

-16 امریکی جھنڈے پر ستاروں کی تعداد 45 تھی۔
-17 ہر دس میں سے دو آدمی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔
-18 صرف 6% امریکن ہائی اسکول تک کی تعلیم سے بہرہ ور تھے۔
-19 منشیات ادویہ کی دوکانوں پر کھلے عام فروخت ہوتی تھیں اور انھیں صحت کے لیے مفید سمجھا جاتا تھا۔
-20 اٹھارہ فیصد گھروں میں کل وقتی ذاتی ملازم ہوتے تھے۔
-21 پورے امریکا میں ایک برس میں صرف 230 افراد قتل ہوئے۔

یہ اعدادو شمار اس وقت کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکا کے ہیں اس سے آپ باقی دنیا کے حالات کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ کل شام ایک تقریب میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف آیندہ دو تین برسوں میں مکمل ہونے والے بعض منصوبوں کی تفصیلات بتارہے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ 1915ء کے کسی امریکن کے لیے یہ اتنی ہی ناقابل یقین ہوتیں جتنی اس کے زمانے کے یہ مصدقہ شواہد اور معلومات ہمارے لیے ہیں اور یہ مثال ایک نیم پسماندہ اور ترقی پذیر معاشرے کی ہے جب کہ خود امریکا اور بیشتر ترقی یافتہ ممالک اس سے بھی کئی گنا زیادہ ترقی کرچکے ہیں۔

مقصد اس موازنے کو پیش کرنے کا یہی ہے کہ ہر آنے والا دن اور سال اپنے ساتھ نت نئے امکانات لے کر آرہا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر ان امکانات کو حقائق کی شکل دینے کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں اور اس ضمن میں ہر ممکن مناسب اور تعمیری منصوبہ بندی کریں۔ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان خامیوں کو بھی دور کریںجو ان غلطیوں کی وجہ سے نہیں اس وقت یہ آپشن پاکستان سمیت تمام اسلامی اور تیسری دنیا کے لیے کھلا ہے جب کہ 1915ء میں شاید ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ دنیا بلاشبہ بہت تیزی سے بدل رہی ہے لیکن اگر ہم اس تبدیلی کو پہلے کی طرح صرف تماشا بن کر ہی دیکھتے رہے اور خود تعمیر اور ایجاد کے رستے پر چلنے کے بجائے صارف معاشرے ہی بنے رہے تو آیندہ سو برس یعنی 2116ء تک یہ فرق اتنا بڑھ جائے گا کہ شاید پھر کوئی بھی کوشش اسے ختم نہ کرسکے۔ تو آئیے استعاراتی سطح پر اس نئے سال کا ہدف تعلیم، ترقی، محنت، مساوات، انصاف اور ایجاد کو مقرر کریں اور ایک دوسرے پر نکتہ چینی کے بجائے اصولی سطح پر اتفاق سے مل جل کر قومی اور معاشرتی ترقی کے لیے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں اور یہ عہد کریں کہ

یہ رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدر بھی دراز کرلے
میں تیرگی کا غیار بن کر نہیں جیؤں گا
کرن ہو کتنی نحیف لیکن کرن ہے پھر بھی
یہ ترجماں ہے کہ روشنی کا وجود زندہ ہے اور جب تک
یہ روشنی کا وجود زندہ ہے
رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدر بھی دراز کرلے
کہیں سے سورج نکل پڑے گا

2016ء ہمارے لیے پیغام اور چیلنج لے کر آیا ہے کہ ہم آخری لائن کی ''کہیں'' کو ''یہیں'' سے بدل کر اس کو اس طرح سے لکھیں اور پڑھیں کہ
''یہیں سے سورج نکل پڑے گا''
Load Next Story