بارش کہاں ہے

کچھ پہلے جو زبردست بارشیں ہوئیں ان سے زمین کی تہیں بھی جل تھل ہو گئیں۔


Abdul Qadir Hassan January 03, 2016
[email protected]

کچھ پہلے جو زبردست بارشیں ہوئیں ان سے زمین کی تہیں بھی جل تھل ہو گئیں۔ ہمارے بارانی علاقے کے لوگ بھی جو ہر وقت بارش اور مزید بارش کے طلب گار رہتے ہیں، توبہ توبہ کر اٹھے۔ پیاسی زمینوں کو اتنا پانی ملا کہ ان کے لیے اسے ہضم کرنا اور سمیٹنا مشکل ہو گیا چنانچہ زمین کے وَتر آنے کے بعد اس میں طرح طرح کی فصل کاشت کی گئی اور کاشتکار ان کے کنارے پر حقہ گڑگڑاتے ہوئے انتظار میں بیٹھ گئے اور اندازے لگانے لگے کہ آنے والی فصل کتنی شاندار ہو گی کہ اسے جی بھر کر پانی ملا ہے اور پانی ہی کسی فصل کی زندگی ہوتی ہے۔

اس بار یہ زندگی گویا آبِ حیات پی کر آئی ہے مگر قدرت کی اپنی ہی حکمت ہوتی ہے۔ اب جب اپنی فصلوں کو پانی درکار ہے تو بارش نہیں۔ سابقہ بارشوں کے زندگی بخش اثرات سے بیج کامیاب رہے اور زمینیں نئی فصلوں سے ہری ہو گئیں۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نوخیز تازہ دم لیکن اس سبزے اور نئی فصلوں کو زندگی برقرار رکھنے اور بڑھنے کے لیے مزید پانی کی ضرورت تھی تاکہ وہ آگے بڑھ سکیں، صرف سبزے کی بہار دکھا کر نہ رہ جائیں لیکن ان نوخیز فصلوں کو بڑھنے کے لیے مزید پانی درکار ہے اور پانی وہ ہے جو آسمان سے آتا ہے، دریائی یعنی نہری پانی میں وہ زندگی نہیں ہوتی جو بارشوں میں ہوتی ہے چنانچہ اس قدرتی پانی کے انتظار میں فصل مرجھا رہی ہے۔

بہت دنوں سے بارش نہیں ہوئی، قحط کی سی صورت حال ہے لیکن کاشتکاروں کی فریاد ہمیشہ نہیں سنی جا سکتی کیونکہ وہ تو مسلسل فریادی رہتے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کاشتکار اسے قحط کہہ رہے ہیں اور جب قحط کی صورت حال ہو تو کاشتکار بھی دیکھنے میں قحط زدہ دکھائی دیتے ہیں، چہروں سے رونق غائب اور اداسی کی کیفیت جسے بارش ہی دھو سکتی ہے لیکن وہ ان اداس لوگوں کے بس میں نہیں ہے۔

کسان کی زندگی کی رونق صرف بارش سے ہوتی ہے جو ظاہر ہے کہ کسی خواہش کے بس میں نہیں ہے۔ وہ صرف کسی نیک بندے کی دعا میں ہے یا پھر صبر اور انتظار میں۔ کالم کے دوران جب کوئی پرانی بات یاد آتی ہے تو میں رجعت پسندی کا طعنہ قبول کرنے پر تیار ہو جاتا ہوں۔ عربوں کی خشک سرزمین کو بارش ہمیشہ مطلوب رہتی تھی اور وہ دعاؤں کا سہارا لیتے تھے۔ ایک بار حضرت عمرؓ کے زمانے میں بارش رک گئی اور رفتہ رفتہ قحط کی صورت حال پیدا ہو گئی۔

نماز استسقاء کے لیے لوگ جمع ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے آسمان کی طرف دیکھ کر دعا کی اور ساتھ ہی نمازیوں سے کہا کہ اگر کسی کے پاس آنحضرتؐ کی کوئی نشانی ہے تو وہ بتائے۔ ایک صاحب نے کہا کہ میرے پاس ایک چادر ہے جو حضورؐ سے مجھے تحفے میں ملی تھی۔ عمرؓ نے کہا جاؤ لے آؤ۔ وہ بھاگ کر گیا اور یہ متبرک چادر جو کئی چادروں میں لپٹی ہوئی تھی لا کر خلیفہ وقت کو دے دی۔ حضرت عمرؓ نے یہ چادر ہاتھوں میں اٹھائی اور اس کا واسطہ دے کر اللہ تبارک وتعالیٰ سے بارش کی درخواست کی جس کے بعد بارش ہوئی اور کہتے ہیں کہ لوگ بھیگتے ہوئے گھروں کو لوٹے۔

آج پاکستان میں قحط کی سی کیفیت ہے اور فصلیں بارش کے لیے بے تاب ہیں۔ درست کہ ہمارے پاس کوئی تبرک نہیں ہے لیکن ہر مسلمان کا دل جس ایمان سے منور ہوتا ہے وہ ایک تبرک ہی ہے۔ کیا معلوم کہ کسی کے دل کی آواز بادلوں تک جا پہنچے۔ اطلاعات ہیں کہ بارانی علاقوں کے لوگ بارش کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں اور استسقاء کی نمازیں پڑھ رہے ہیں۔ کیا معلوم ان نمازیوں میں بھی کوئی دل ایسا ہو جس کی دعا سن لی جائے اور بارش ہو جائے۔

ایک تو کسان ہیں جو روزی کے لیے بارش کی دعائیں کر رہے ہیں اور ایک شہری لوگ ہیں جو یہ دیکھے سوچے بغیر کہ ان کے لیے آٹا دانہ گاؤں سے آتا ہے، موسم کی تبدیلی کے لیے دعا مانگ رہے ہیں کیونکہ وہ سردی نہ آنے سے بور ہو رہے ہیں اور انھیں بارش والا موسم پسند ہے۔

اگرچہ ہمارے شہروں میں آباد بہت سے لوگوں کی اصل دیہات کی ہے اور وہ دیہات کی زندگی اور اس کی تلخیوں کو سمجھتے ہیں لیکن وہ رفتہ رفتہ شہری ہو گئے ہیں اور ایئرکنڈیشنز کی نسل سے تعلق پیدا کر چکے ہیں اور نل کے پانی سے، جب بجلی نہ ہو اور اے سی نہ چلے اور کسی وجہ سے نلکے میں پانی نہ ہو تب تو ان کے لیے کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے ورنہ وہ اپنے اصل یعنی دیہات سے لاتعلق ہو کر زندگی بسر کرتے ہیں، شہری زندگی جس کی خواہش اگرچہ ہر دیہاتی کے دل میں ہوتی ہے لیکن اس وقت تک جب تک کہ وہ شہر کا پانی نہیں پیتا اور شہر کے پانی کے ساتھ وابستہ جو مشکلات ہوتی ہیں ان کو نہیں دیکھتا۔

دیہات کی شہری آلائشوں اور سائنسی آلات سے محفوظ زندگی میں جو لطف ہے وہ شہروں کے ہنگاموں میں ہرگز نہیں ہے لیکن اس کے باوجود گاؤں کے لوگ شہریوں کو رشک سے دیکھتے ہیں کیونکہ انھوں نے شہروں سے وابستہ مشکلات کو نہیں دیکھا ہوتا۔ بہرکیف اس وقت تو گاؤں کے لوگوں کو بارش کی ضرورت ہے اور قحط نے ان کی زندگی بے قرار کر رکھی ہے۔ وہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کی امید پر زندہ ہیں اور شہری لوگ موسم کی تبدیلی کے لیے بھی بارش کے طلب گار ہیں۔ گویا پورا پاکستان بارش کا طلب گار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔