72سالہ ’’بابا جی‘‘ شدید بیمار پی ٹی وی کو دوبارہ صحتمند بنا سکیں گے

ہمیں یقینِ واثق ہے کہ قاسمی صاحب پی ٹی وی کے حاضر سروس ملازمین کے گھمبیر مسائل فوری حل کرنے کی کوشش کرینگے

rehmatraazi@hotmail.com

ہمارے ساتھ دائم ہی یہ معاملہ رہا ہے کہ جب بھی کبھی کسی حسبِ دلخواہ سرنامہ پر قلم طرازی کا قصد کیا کوئی نہ کوئی مراسلہ آن موصول ہوا۔ اس بار بھی مساعی کسی اور موضوع کی تھی کہ ایسے میں پی ٹی وی ریٹائرڈ ایمپلائیز ایکشن کمیٹی کی جانب سے ایک نامہ رسید ہوا جس کی تمہید پر نگاہ کرتے ہی ہمارے اندر کا سماج سیوک قلقاریاں بھرتے باہر آگیا اور چارو ناچار ہمیں اسی پر ہی قلم بکف ہونا پڑا۔ اس خط کے کاتب ریاض مسعود ہیں جو پاکستان ٹیلیویژن کے بانیوں اور مبتدیوں میں سے ہیں اور کافی عرصہ سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔

انھوں نے استدعا کی ہے کہ ''براہِ کرم ایک کالم پی ٹی وی کے لاوارث اور بے بس بزرگ پینشنروں کے لیے بھی لکھ دیں، اللہ آپ کو اس کا اجر دیگا،،۔ دیکھئے! ہمیں کسی جزاء کی رغبت وتحریص تو ہرگز نہ ہے، ہاں البتہ اطمینانِ قلب، بشر دوستی اور خدمتِ خلق کے جذبہ سے نفع رسائی کے ضرور قائل ہیں۔

ریاض مسعود کا نام نظر سے گزرتے ہی وہ تمام بڑے اسماء ہماری یادداشت کی پہنائیوں میں برقی کوندے بن کر لپک آئے جن کے وجود کے بغیر پی ٹی وی کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی بلکہ صدر و ابتدا کا باب ہی وضع نہیں ہوتا۔ آغازِ بسم اللہ کے وہ ارکان کون کون سے تھے جن کے دم سے پاکستان کا قومی چینل جمالیاتی فلک کا درخشندہ ستارہ بن گیا! یقینا وہ آغا نثار، کنور آفتاب احمد، انور حسین، اختر وقار عظیم، ذکاء درانی، اسلم اظہر، جمیل آفریدی، شہنشاہ نواب، بختیاراحمد، فضل کمال، مختار صدیقی، آغا بشیر اور شہزاد خلیل جیسے بڑے نام ہیں۔ یہ فہرست تو بہت طویل ہے تاہم جو چند ایک نام ہمیں یاد پڑے، ان کا ذکر واذکار بہ ذوقِ اجمال کردیا ہے۔

یہ جن مشاہیرِ فن کا ذکرِ خیر ہم نے کیا ان میں کئی ایک تو ہمارے رفقائے خاص میں شامل ہیں، کچھ بقیدِ حیات اور کچھ ایک بقدرِ رفتگاں بھی ہو چکے۔ کبھی پی ٹی وی کے نگار خانے میں جن کا طوطی بولتا تھا اور وہ پاکستان ٹیلیویژن کا حوالہ سمجھے جاتے تھے آج ان کی اولادیں پی ٹی وی کے لیے اجنبی جنریشن کا درجہ رکھتی ہیں، ان کی نئی نسل میں سے شاذ ونادر ہی آج کوئی اہل مقدور اس چینل کا جزو ہو گا۔ ہم نام نہیں لیں گے۔

ابھی ڈیڑھ ہی برس پہلے پی ٹی وی کے ان بانیوں میں سے ہمارے ایک جگری دوست کے ہونہارسپوت ہمارے ہاں کام کی تلاش میں تشریف لائے تھے۔ انھوں نے بڑی رنجیدگی سے پی ٹی وی کے سرپرستوں کا گلہ کہہ سنایا۔ موصوف نے ڈبل ایم اے کررکھا ہے، سینما آٹوگرافی اور ڈائریکشن کا کورس بھی کیا ہوا ہے، اسکرپٹ اور سکرین پلے میں بھی خاصی مہارت ہے، موسیقی کا بھی کمال ادراک رکھتے ہیں،الغرض فنونِ لطیفہ میں سب کچھ ہی کر لیتے ہیں مگر افسوس کہ اس کے باوصف بھی وہ بیکار اور بیروزگار ہیں۔ وہ اتنے مجبور تھے کہ گارڈ کی نوکری کرنے پر بھی آمادہ نظر آتے تھے۔ ایسے دُکھ ہم سے دیکھے سنے نہیںجاتے، ہم نے انہیں اپنے پاس تو ملازمت نہ دی کیونکہ صحافت ان کے مزاج سے موافقت نہیں رکھتی تھی، ہاں انہیں ایک پرائیویٹ کمپنی میں معقول معاوضے پر جاب ضرور دلا دی۔

اس برخوردار کے خوددار باپ آج اگر زندہ ہوتے تو بھی وہ زندہ نہ ہوتے کیونکہ اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ لختِ جگر کی خستہ حالی دیکھ کر وہ ضرور خودکشی کرلیتے۔ ہمیں ان کا وہ دور یاد آرہا ہے جب وہ پی ٹی وی کے قیام سے پہلے صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے ساتھ کبھی کبھار شاہ نور اسٹوڈیو میں نظر آجایا کرتے تھے۔ انہیں پی ٹی وی کے یکے ازبانیان ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔

اسٹیٹ ٹیلیویژن اور میڈیا کے قیام کا خیال 1956ء میں سب سے پہلے نیشنل ایجوکیشن کمیشن نے پرائیویٹ طورپر پیش کیا جسے جنرل ایوب کی مکمل حمایت حاصل تھی۔1961ء میں صنعت کار سید واجد علی نے ٹیلی ویژن انڈسٹریل ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کا آغاز کیا اور واجد علی انجینئرنگ ڈویژن کے الیکٹریکل انجینئر عبیدالرحمان کو لاہور میں قائم ہونے والے پاکستان کے پہلے پرائیویٹ ٹیلیویژن اسٹیشن کا پراجیکٹ ڈائریکٹر مقرر کیا۔

واجد علی نے بالآخر چندماہ کی محنت کے بعد 1961ء ہی میں جاپان کی نپون الیکٹرک کمپنی اور برطانیہ کے تھامس ٹیلی ویژن انٹرنیشنل کی معاونت سے پرائیویٹ ٹیلی ویژن براڈ کاسٹنگ کمپنی کا سنگِ میل وضع کیا۔ 1963ء میں صدر ایوب خان نے ایک عوامی اجلاس میں فیصلہ کیا کہ ریاست کا اپنا ایک ٹی وی اسٹیشن اور میڈیا ہونا چاہیے۔

1961ء سے 62ء تک ٹیلیویژن ہیڈکوارٹر لاہور میں قائم کیا گیا اور ٹیسٹ ٹرانسمشن کے متعدد پائلٹ پروگرام عبیدالرحمان کی ٹیم ہی کے ذریعے انجام دیے گئے۔ بعدازاں اسی ٹیم نے پاکستان کے بڑے شہروں بشمول ڈھاکہ میںٹیلیویژن ڈویژن کا قیام ممکن بنایا اور 1963ء کو اسلام آباد میں کیبنٹ سیکرٹریٹ کے قریب اس کا ہیڈکوارٹر بنایا گیا۔1962ء میں واجد علی کے تعارف کے بعد پہلی خبر نشر ہوئی اور پی ٹی وی کی بلیک اینڈ وائٹ ٹرانسمشن کا آغاز ہوا۔ پہلا پروگرام تھامس ٹیلی ویژن انٹرنیشنل نے ترتیب دیا اور ولایتی فلموں کے ساتھ ابتدائی پروگراموں کا آغاز کیا۔

پنجاب میں ٹیلیویژن ڈویژن یونیسکو، کولمبو پلان اور حکومتِ جاپان کی استعانت سے قائم ہوئی، اس دوران مختلف پرائیویٹ کمپنیوں کے اشتہار مفت چلائے جاتے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب ہمارے دوست موصوف یہ اشتہار اکٹھے کر کے پی ٹی وی لاہور میں لایا کرتے تھے۔ پی ٹی وی دو سال تک مکمل طور پر پرائیویٹ سیکٹر میں رہا خواہ اس کے نصف شیئرز وزارتِ اطلاعات ونشریات کے پاس تھے۔ صدر ایوب خان نے عبیدالرحمن کو وزارتِ اطلاعات میں تعینات کر دیا تاکہ وہ پی ٹی وی کی لانچنگ کے لیے این ای سی کے ساتھ باہمی اشتراک کو یقینی بناسکیں۔ ان دنوں پی ٹی وی ریڈیو پاکستان کے احاطہ میں ایک ٹینٹ کے نیچے تھا۔

اس اسٹیشن کا افتتاح26نومبر 1964ء کو صدر ایوب نے کیا اور پہلی اناؤنسمنٹ طارق عزیز نے کی۔ 1965ء کو دوسرا اسٹیشن ڈھاکہ میں قائم ہوا، تیسرا اسی سال راولپنڈی اور اسلام آباد میں جب کہ چوتھا اسٹیشن 1966ء کو کراچی میں بنا۔ 1967ء کو کمپنی ایکٹ 1913ء کے تحت ایک پرائیویٹ کمپنی ''پاکستان ٹیلیویژن کارپوریشن،، کے نام سے بنائی گئی۔ 1971ء میں نیشنلائزیشن کے تحت پی ٹی وی مکمل طور پر حکومتِ پاکستان کی ملکیت میں چلا گیا اور 1974ء تک پشاور اور کوئٹہ سینٹرز کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔

اکلوتا ٹی وی ہونے کی وجہ سے پی ٹی وی کی چودھراہٹ پرائیویٹ چینلوں کا سیلاب آنے تک ہمیشہ قائم رہی۔پی ٹی وی کے ہاں آغازِ کار سے یہ شیوہ رہا ہے کہ کبھی فنکاروں تو کبھی اُجرت گیروں کے نقدینے اور چیکس ہڑپے جاتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے کنٹریکٹ ملازمین کی حق تلفی کی روداد تو سن رکھی تھی مگر اب یہ سن کر ہمارے حیرت و تکلف میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے کہ اسٹیٹ ٹیلیویژن اپنے ریٹائرڈ ملازمین کا استحقاق بھی برابر مجروح کیے جا رہا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے وظیفۂ حسنِ خدمت میں سے باقاعدگی کے ساتھ منہا کی گئی تقلیب کی رقم (کمیوٹیشن) بوقت ریٹائرمنٹ ہی انہیں یکمشت ادا کردی جاتی تاکہ وہ اس زرِسالم کو کسی کاروبار میں لگا کر یا قومی بچت میں ڈیپازٹ کر کے اپنے بڑھاپے اور اکلاپے کے لیے کوئی مناسب بندوبست کرلیتے لیکن یہ تو اور بھی بھوچکّا پن ہے کہ پنشن تو درکنار انہیں ان کی کمیوٹیشن کی رقم بھی لیت ولعل سے ادا کی جارہی ہے۔

یہ تاخیری حربے تو تب بروئے کار لائے جائیں ناں جب سالانہ بجٹ میں ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن یا کمیوٹیشن کے لیے کوئی رقم نہ رکھی گئی ہو یا قومی خزانے سے یہ رقم جاری ہونے میں کسی کٹ حجتی کا مظاہرہ ہوا ہو۔ چلیے یہ مصائب کوشی بھی کسی حد تک جھیلی جاسکتی ہے مگر جن ریٹائرڈ ملازمین کو دو سال سے کمیوٹیشن مل ہی نہیں رہی انہیں کونسی زنجیر ہلانے کی باہمی تجویز دی جائے۔ یہ مظلوم ومقہور وہ ملازمین ہیں جو 2013ء سے 2015ء کے دوران فارغ الخدمت ہوئے ہیں۔

اچنبھے کی بات تو یہ ہے کہ پی ٹی وی کے مینیجنگ ڈائریکٹر اس ایشو پر محکمہ کا دفاع کرتے ہوئے اپنا موقف پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے پی ٹی وی کے ذمّے دو ارب روپے کے واجبات ادا کر دیے ہیں اور اب کوئی بھی بِل یا کسی ملازم کے مزید بقایا جات پی ٹی وی کے ذمہ واجب الادا نہیں ہیں، ان کے مطابق میڈیکل بِل بھی کلیئر ہوچکا ہے ، پنشن اور ٹرانسپورٹ کی مدمیں مزید 9سو ملین روپے بھی ادا کردیے گئے ہیں۔

وہ تو اپنی صفائی میں یہ کریڈٹ بھی سمیٹتے ہیں کہ ان کے آنے کے بعد پی ٹی وی کو دودھ سے غسل کروایا گیا ہے اور اب اس پر کوئی انگلی اسلیے نہیں اٹھا سکتا کہ انھوں نے رات دن ایک کر کے ادارہ کے ماضی کے سارے دھبے واشنگ پاؤڈر سے دھو دیے ہیں۔ کہتے ہیں پی ٹی وی ایشیا پیسیفک براڈ کاسٹنگ کا ممبر ہے جس کی فیس سالوں سے ادا نہیں کی گئی تھی لیکن شرمندگی سے بچنے کے لیے انھوں نے محکمہ کی طرف سے ایک کروڑ سے زائد کی فیس ادا کردی ہے۔

جب انھوں نے ذمے داری سنبھالی تھی تو پی ٹی وی کے ذمہ واجب الادا رقم تقریباً 2 ارب روپے سے زائد تھی جب کہ گوشواروں میںیہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ادارہ منافع میں جارہا ہے، اب یہ ہوا ہے کہ پی ٹی وی اپنے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے دو سالوں میں دو ارب روپے کی سرمایہ کاری کریگا اور ڈی ایس این جی وینز، جدید کیمرے، ایڈیٹننگ کا نظام اور لنکنگ ٹرانسمیشن کا سامان خریدے گا تاکہ سسٹم کو مکمل ڈیجیٹل کیا جاسکے، یہ سب کچھ کرپشن سے بچنے کے لیے ایک نئی پالیسی کے تحت کیا گیا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی میںساز وسامان نیلامی کے ذریعے خریدا جاتا تھا جو ایک مشکوک عمل ہے۔


اب نئی پالیسی کے تحت دیگر محکموں کی طرح پی ٹی وی کو بھی اپنا سالانہ بجٹ پیش کرنے کا اختیار ہو گا جس میں اس کو درکار نئے آلات بھی درج ہونگے ، اس کے علاوہ حاضر سروس ملازمین کی تنخواہیں، مراعات اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی وضاحت بھی ہو گی۔ ہم منیجنگ ڈائریکٹر کی اس بات پر کیسے یقین کر لیں جب ریٹائرڈ ملازمین ان کے دستِ ستم کے براہِ راست نخچیر ہیں۔ ایم ڈی صاحب ایک بزرگ پنشنر کا یہ شکایت نامہ بھی ملاحظہ فرمالیں تو ان کے اس دعویٰ کی دبیز چلمن بھی خود بخود سرک جائے گی۔

ریاض مسعود کا خط صحت ودرستی کے ساتھ پیش ہے:''قبلہ رحمت علی رازی صاحب! پاکستان ٹیلیویژن کے ریٹائر ملازمین آپکی توجہ خالصتاً انسانی مسئلے کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ پی ٹی وی انتظامیہ عرصہ دراز سے ہمیں اپنے جائز حقوق سے مسلسل محروم کر رہی ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ہماری کمیوٹیشن کی رقم بروقت ادا نہیں کر رہی۔ 2013ء سے دسمبر 2015ء کے دوران جو ملازمین ریٹائر ہو چکے ہیں، ان کی اربوں روپے کی رقم ابھی تک واجب الادا ہے۔ حکومت پاکستان کے تمام محکموں اور اداروں میں ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے وقت ہی تمام واجبات بشمول کمیوٹیشن کی رقم بھی ادا کر دیے جاتے ہیں لیکن پی ٹی وی کا باوا آدم ہی نرالا ہے ،آخر ان کے اس ظلم کو کون سے الفاظ سے یاد کیا جائے۔

کیا پی ٹی وی یہ بتائے گا کہ مجبور وبے کس بوڑھے پنشنروں کی اس رقم کو اپنے پاس روکے رکھنے کا کیاجواز ہے؟ کیا پی ٹی وی اس عرصے کا منافع بھی انہیں ادا کریگی؟ کیونکہ اگر ریٹائرڈ ملازمین اپنی پھنسی ہوئی رقوم کو قومی بچت میں لگا دیتے تو 8 سے 10 فیصد تک خالص منافع حاصل کر سکتے تھے ، اس نقصان کا ازالہ پی ٹی وی کو ہر صورت کرنا چاہیے۔ اب پی ٹی وی کے ایم ڈی صاحب دعوے کر رہے ہیں کہ 31 دسمبر 2014ء تک ریٹائر ہونیوالے تمام ملازمین کو کمیوٹیشن کی تمام رقم 31 دسمبر 2015ء تک ادا کر دینگے (اللہ کرے ایسا ہو جائے!) جب کہ 2015ء کے دوران ریٹائر ہونیوالوں کا کوئی ذکرہی نہیں، آخر کیوں؟ 2015ء کے دوران پی ٹی وی کے بہت کم ملازم ریٹائر ہوئے ہیں۔

اگر پی ٹی وی 31دسمبر 2015ء کو اب تک کے تمام ریٹائر افراد بشمول 2015 میں ریٹائر ہونیوالوں کو بھی ادائیگی کر دے تو اس میں ملازمین کا بھی فائدہ ہے اور پی ٹی وی کا بھی۔ یکم جنوری 2016ء کے بعد پی ٹی وی کی یہ پالیسی ہونی چاہیے کہ ریٹائرمنٹ کے وقت ہی ملازمین کے تمام واجبات معہ کمیوٹیشن ادا کر دیے جائیں، قواعد و ضوابط بھی یہی ہی ہیں۔ یاد رہے کہ کمیوٹیشن کی رقم ہی بوڑھے اور بزرگ پنشنروں کا اللہ کے بعد زندگی کا سب سے بڑا سہارا ہے، اس رقم سے وہ کوئی پلاٹ یا مکان خرید سکتے تھے، اپنے بچوں کی تعلیم، شادی، روزمرہ اخراجات، کوئی کاروبار یا عمرہ و حج کر سکتے تھے لیکن کیا کیا جائے پی ٹی وی انتظامیہ کا جو اپنے ملازمین کو کمیوٹیشن کی رقم بروقت ادا نہ کر کے ظلم اور زیادتی کی مرتکب ہو رہی ہے۔

یاد رہے کہ مظلوم اور بے آسرا کی فریاد آسمانوں تک جاتی ہے۔ ہمارا دوسرا سب سے اہم مسئلہ پنشن کا ہے۔ بڑھاپے میں یہ ہمارے لیے آبِ حیات سے کم نہیں لیکن آپ حیران ہونگے کہ ہماری پنشن میں 2012ء کے بعد کوئی اضافہ نہیں ہوا حالانکہ حکومتِ پاکستان نے 2013،14ء اور 15ء میں تمام ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کی پنشن میں اضافہ کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی وی انتظامیہ پر حکومت کا کوئی قانون یا ضابطہ لاگو نہیں ہوتا جو ہماری پنشن 2013ء سے نہیں بڑھا رہی۔ وزیراعظم پاکستان اوروفاقی وزیر اطلاعات کو اس بات کا فوری نوٹس لے کر 2013ء سے اب تک پنشن میں اضافے اور بقایا جات کی ادائیگی کا حکم جاری کرنا چاہیے اور حکومت کے فیصلے کو نہ ماننے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کرنی چاہیے۔

پی ٹی وی سے ریٹائر ہونیوالے ملازمین کے لیے نجانے کیوں اب تک کوئی باقاعدہ پنشن فنڈ قائم نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں، اس طرف بھی پی ٹی وی انتظامیہ کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ہر محکمے اور ادارے کا باقاعدہ طورایک پنشن فنڈ ہوتا ہے۔ پی ٹی وی کے ریٹائر ملازمین کا مطالبہ ہے کہ حکومتِ پاکستان جب سرکاری ملازموں کی پنشن میں اضافہ یا مراعات کا اعلان کرے تواس کا اطلاق خود بخود پی ٹی وی کے پنشنروں پر بھی ہونا چاہیے۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وزارتِ اطلاعات کے تحت ہی کام کرنیوالے ادارے ریڈیو پاکستان (پی بی سی )میں حکومتِ پاکستان کے پنشن میں اضافے کا اطلاق فوراً ہوجاتا ہے لیکن پی ٹی وی حکومت کے اعلان کو نہ جانے کیوں نہیں مانتا۔ ایک ہی وزارت، ایک ہی سیکریٹری اور ایک ہی چیئرمین کے ماتحت کام کرنے والے ایک جیسے دو اداروں میں مختلف قوانین کا اطلاق کیوں؟ وزیراعظم اور وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات کو اس کافی الفور نوٹس لینا چاہیے۔

پی ٹی وی انتظامیہ سی بی اے یونین کے دباؤ اور مطالبہ کے بعد حاضر سروس ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں تو اضافہ کر دیتی ہے مگر اسے ریٹائرڈ ملازمین جنھوں نے پی ٹی وی کو بامِ عروج تک پہنچانے کے لیے خون پسینہ ایک کردیا تھا ان کا خیال کیوں نہیں آتا؟ تمام سرکاری محکموں اور اداروں میں ریٹائرڈ ملازمین کے بچوں کا ملازمت کے لیے کوٹہ مختص کیا جاتا ہے لیکن پی ٹی وی میں یہ سہولت بھی نہیں ہے جس سے ریٹائرڈ ملازمین بیحد پریشان ہیں ،ان کے تعلیم یافتہ بچے بیروزگار پھر رہے ہیں ، ان کا کوئی پُرسان حال نہیں، پی ٹی وی انتظامیہ کو اس طرف بھی خصوصی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

پی ٹی وی کے ریٹائرڈ ملازموں کی پنشن 10 سے 20 ہزار کے درمیان ہے، اتنی قلیل رقم میں گزارا انتہائی مشکل ہے۔ پی ٹی وی اپنے ریٹائر ملازم اور اس کی اہلیہ کو تو علاج کی سہولت دیتا ہے جب کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ پنشنرز کے غیرشادی شدہ اور بیروزگار بچوں کو بھی میڈیکل کی سہولت دی جائے تاکہ پنشنرز کے لیے اتنی کم پنشن میں بھی اپنے بچوں کا علاج کروانا آسان ہو سکے اور ان پرمالی بوجھ نہ پڑے، اس ضمن میں قواعد وضوابط طے کیے جانے بہت ضروری ہیں۔ پنشنرز کے میڈیکل بلوں کی ادائیگی بھی ترجیحی بنیادوں پر فی الفور ہونی چاہیے، ماشاء اللہ پی ٹی وی کی اشتہارات کی مدمیں آمدنی مثالی ہے۔

خاص طور پر پی ٹی وی ہوم اور پی ٹی وی اسپورٹس سے بھاری آمدنی ہو رہی ہے، اس کے علاوہ واپڈا کے ذریعے لائسنس فیس کی مد میں بھی 4 سے 5 ارب روپے کی اضافی آمدنی ہو رہی ہے ،پھر پی ٹی وی اپنے ریٹائرڈ ملازمین کی زندگیوں کو کیوں اجیرن بنا رہا ہے، ان کے بقایاجات کی وقت پر ادائیگی نہ کر کے قوم کو کس قسم کا پیغام دیا جا رہا ہے۔ہمیں اُمید ہے کہ وزیراعظم پاکستان اور وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات ہمارے مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری احکامات جاری کر کے بوڑھے پنشنروں کی دلی دعائیں لیں گے۔پی ٹی وی میں کسی آرٹسٹ مہمان کو ٹائم پر پے منٹ نہیں ملتی، کم ازکم چھ ماہ سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔

ان حالات میں لوگوں نے پی ٹی وی میں آنا کم کر دیا ہے، پروڈیوسران کو ٹرخا دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب پی ٹی وی کے اسٹوڈیو ویران اورلاؤنج سنسان پڑے ہیں۔ ایسے حالات میں تخلیق کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایم ڈیز کی سیاسی بنیادوں پر تقرریوں نے ادارے کا بیڑہ غرق کردیا ہے ،اس وقت پیشہ ورانہ عہدوں پر نان ٹیکنیکل لوگ بھاری معاوضوں پر کام کر رہے ہیں، ان سے فوراً چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ اب پی ٹی وی کے پروگراموں میں نہ تو ایجوکیشن ہے نہ انفارمیشن اور نہ ہی انٹرٹینمنٹ جو اس قومی ادارے کی اصل بنیاد ہوا کرتی تھی۔

پی ٹی وی کے ایم ڈی صاحب گزشتہ دو سالوں کے کسی ایک پروگرام کا نام ہی بتا دیں جسے دیکھنے کے لیے لوگ بیتاب ہوں۔پی ٹی وی کا اپنا کوئی ڈرامہ بتا دیں جس میں صف ِاول کا کوئی اداکار ہو، کوئی رائیٹر ہو یاکوئی نامی گرامی پروڈیوسرہو۔ پی ٹی وی کے نئے نویلے پروڈیوسروں کی نہ کوئی اکیڈمی ٹریننگ ہے نہ ہی ان کے پاس کوئی نیا آئیڈیا ہے، ایک دوسرے کو دیکھ کر کام سیکھا ہے اور سیکھا بھی کیا مکھی پر مکھی مارنے کا فن،کیمرہ ورک، لائیٹنگ، سَیٹ، ڈرائی ریہرسل، کیمرہ ریہرسل و دیگر امور کی ابجد تک بھی نہیں جانتے۔ پی ٹی وی میں سیاسی بنیادوں پر ملازمین اور اینکرز کی بھاری معاوضوں پر تقرریاں ہورہی ہیں۔

جس سے ادارے کی مالی حالت بری طرح انحطاط پذیرہے۔ جو ادارہ اپنے بانیوں، بزرگوں اور سینئرز کا خیال نہیں کرتا جن کی محنت ِ شاقہ اور خونِ جگر سے اس ادارے کی آبیاری ہوئی ہے اس کی تباہی کیونکر نہ ہوگی؟ ہماری نئے چیئرمین سے اپیل ہے کہ2013ء سے اب تک ریٹائر ہونیوالے تمام ملازمین کو کمیوٹیشن کی رقم فوراً ادا کی جائے اور آیندہ سے بوقت ریٹائرمنٹ ہی ملازمین کے جملہ واجبات موقع پرہی ادا کیے جانے کا کوئی نظام وضع کیا جائے۔ 2013ء سے اب تک حکومت پاکستان نے پنشنروں کی پنشن میں جو اضافہ کیا ہے اس کا اطلاق پی ٹی وی کے پنشنروںکے لیے بھی بلا تامل کیا جائے اور بقایاجات کی بھی ادائیگی کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی کے ریٹائرڈ ملازمین کے لیے پنشن فنڈ کا اجراء کیا جائے تو تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

ہمیں افسوس ہے کہ ایم ڈی صاحب کا دعویٰ تو بس دعویٰ ہی رہا،اور وعدہ بھی صرف وعدئہ فردا ہی ثابت ہوا جو اگروفا ہو جائے تو ان کو ملنے والی بدعائیںشاید دعاؤں میں تبدیل ہوسکتی ہیں، اور خوار وزبوں ہورہے ہم ملازمین کے چہروں پر بھی شادابی کی تھوڑی بہت رَمق لوٹ آئے،،۔اس چٹھی میں وہ تمام جزئیات شامل ہیں جو پی ٹی وی کے ریٹائرڈ ایمپلائیز کو مسائل کی شکل میں درپیش ہیں۔ مقامِ حیرت ہے کہ متاثرین کے رونے بسورنے کے باوجود ایم ڈی صاحب اڑے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی کوتاہی کہی جائے یا فروماندگی، یا پھر انہیں مجبورِ محض قرار دیا جائے۔

بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ پی ٹی وی کے نوآمدہ چیئرمین محترم عطاء الحق قاسمی کے ساتھ کس کروٹ بیٹھتے ہیں، آیا وہ ایک کالمسٹ اور عمررسیدہ ادیب کے ماتحت کام جاری رکھتے ہیں یا انکا نِکو بننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ قاسمی صاحب 72 ویں سال میں زندگی کی رعنائیوں کے مزے لوٹ رہے ہیں، اور ان کے حوالہ سے یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ وہ پی ٹی وی کے اب تک کے معمرترین چیئرمین ہیں، انھوں نے یہ چارج حال ہی میں سنبھالا ہے۔ اس سے قبل وہ الحمرا آرٹس کونسل لاہور کے مربی بھی رہے ہیں جہاں انھوں نے جو بھی ''مثالی کام،، کیے ہیں، وہ قوم کو یاد رہیں گے۔

ناقدین تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایم ڈی صاحب اور عطاء الحق قاسمی نون لیگ کے دو دیوانے ہیں اور اب کیا خوب گزرے گی جب یہ دونوں مل بیٹھیں گے۔ پی ٹی وی یوں تو ہمیشہ ہی ریاستی ٹیلی ویژن رہا ہے لیکن دونوں نون لیگی پروانوں کی سرپرستی میں آکر اب یہ مکمل طور پرپی ٹی وی این بن کررہ گیا ہے۔ ایم ڈی صاحب نے تو پی ٹی وی کے ریٹائرڈ ملازمین کو مایوس کیا ہے تاہم نئے چیئرمین صاحب کے چارج سنبھالنے پر ان مظلوموں کی یاسیت جاتی رہی ہے اور ان کے دلوں میں اُمید کی قوسِ قزح نے کمان سنبھالنا شروع کردی ہے۔

ہمیں یقینِ واثق ہے کہ قاسمی صاحب پی ٹی وی کے حاضر سروس ملازمین کے گھمبیر مسائل فوری حل کرنے کی کوشش کرینگے اور طاقتور میرٹ پر بھرتی ہونیوالوں سے پی ٹی وی کی جان چھڑائیں گے اور بزرگ پنشنروں کے حقوق بہ حجت تمام ان تک پہنچائیں گے، اس کے بعد ہی وہ اپنا نیا منصب سنبھالنے کی مبارکباد کے بھی مستحق ٹھہریں گے اپنے فارغ الخدمت ملازمین کی طرف سے بھی اور ہماری جانب سے بھی۔ ہمیں یقین تو ہے کہ ہمارے 72سالہ باباجی اور دوست شدید بیمار اور لاغر پی ٹی وی کو آئیڈیل بنا سکیں گے، اب دیکھتے ہیں کہ وہ کس حد تک ہماری لاج رکھتے ہیں۔
Load Next Story