سال گزشتہ سال نو تسبیح روز و شب
ایک پل بنیاد ہے صدیوں کا اور ہر پل اپنے اندر بہت سی کہانیاں سموئے ہوتا ہے
RAMALLAH:
ایک پل بنیاد ہے صدیوں کا اور ہر پل اپنے اندر بہت سی کہانیاں سموئے ہوتا ہے۔ کئی پل مل کر دن بنتے ہیں اور جب ان دنوں کی تعداد 365 ہوجاتی ہے تو حضرت انسان نے موسم کے حساب کتاب اور دیگر کئی معاملات کے لیے اسے ایک برس یا سال کا نام دے دیا ہے۔ جانے کب سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ سال میں بیتے کئی پلوں کے اندر محفوظ ہوجانے والی خبروں کو برس کی گنتی پوری ہونے پر یاد کیا جاتا ہے اور پھر دیکھا جاتا ہے کہ کیا کچھ گزر چکا ہے! پھر چونکنے، ایک بار اور خوش ہونے یا پھر تھوڑا رنجیدہ ہونے کے لیے یادیں بہت بڑی سورس ہوتی ہیں اور جب یہ ساری یادیں ایک سال کے کوزے میں جمع ہوجائیں تو انھیں دہرانا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔
ذرا پیچھے مڑ کر دیکھیں تو یقین نہیں آتا کہ ایک اور سال بیت گیا ہے۔ دوڑتی بھاگتی اس زندگی میں اتنی تیزی آگئی ہے کہ لگتا ہے یوں چٹکیوں میں 365 دنوں کا ایک اور دور تمام ہوگیا، مگر ان تمام چٹکیوں کے بیچ ہزارہا واقعات اور رجحانات سمٹے ہوئے ہیں۔ وطن عزیز اور اس کے شعبہ ہائے زندگی پر نگاہ کی جائے تو شخصیات اور واقعات کی کئی نئی ترتیب دکھائی دیتی ہے۔ مجموعی رجحانات تبدیل ہوتے دکھائی دیے، کئی شخصیات نے رنگ ڈھنگ بدلے اور وقت کے ساتھ چلنے کی کوشش میں مصروف عمل دکھائی دیں۔
اندازہ ہے کہ دنیا بہت پرانی ہے۔ مگر کتنی؟ ٹھیک پتہ تو کسی کو نہیں اور یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ فانی دنیا کے ایک دم فنا ہوجانے کا وقت کون سا ہے؟ آنے والی گھڑیوں کے بارے میں گیان دھیان رکھنے والے سبھی طرح کے عالم بھی کہتے ہیں کہ یہ محض حساب کتاب ہے اور کامل علم صرف خالق کائنات کے پاس ہے۔ اس معاملے میں کجی یا کمزوری کے باوجود حضرت انسان آنے والے کل کے بارے میں جاننے کو بے چین رہتا ہے اور اس خواہش فطری کو کیش کرنے کے لیے کئی ماہر دنیا کے چپے چپے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
بہرحال وقت کا کام گزرنا ہی ہوتا ہے۔ اس طرح آج، گزرا کل اور آنے والا کل، آج بنتا رہے گا۔ تاہم گزرتے وقت میں صرف وہی لوگ ناقابل فراموش ہوتے ہیں جو اس فانی دنیا میں اپنی محنت و صلاحیت سے کچھ غیر معمولی کام کرجاتے ہیں۔
2016 نیا سال اور اس کا سورج نئی امیدوں، نئی آرزوؤں اور نئے خدشات کو اپنے جلو میں لیے طلوع ہوچکا ہے اور سال گزشتہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ماضی کا ایک حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک تاریخی عمل ہے اور صبح ازل سے لے کر قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا لیکن زندہ قومیں تسبیح روز و شب کے اس سلسلے سے بھی سبق حاصل کرتے ہوئے مسلسل یہ جائزہ لیتی رہتی ہیں کہ اس لمحہ وقت میں انھوں نے کیا کھویا اور کیا پایا۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی مسلمانوں کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ ہر لحظہ اپنا محاسبہ کرتے رہیں کہ ان کا قدم ترقی کی جانب گامزن رہا یا جمود اور خمود نے انھیں یکسانیت کا خوگر بنا کر زوال اور پستی کی جانب دھکیلنے میں کامیابی حاصل کی۔ اگرچہ سال گزشتہ کے دوران پاکستان کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر بے شمار چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ''قدرتی آفات''کی ضمن میں ایک نہایت ہی خوشگوار اور مثبت پہلو یہ دیکھنے کو ملا کہ وہ پاکستانی قوم جو اقتدار کے ایوانوں سے لے کر نچلی سے نچلی سطح تک آپس میں بری طرح کٹی پھٹی نظر آتی ہے میں ایسی عدیم المثال یک جہتی دیکھنے میں آئی، یوں لگتا تھا جیسے اس کی صفوں میں کبھی کوئی اختلاف ہی نہ تھا۔ حکومت اپوزیشن کی روایتی آویزش پس پشت چلی گئی۔
سیاسی پارٹیوں نے اپنے روایتی اختلافات طاق نسیاں پر رکھ دیے اور مذہبی جماعتوں نے اپنی فکری و فروعی آویزشوں کو یکسر بھلا کر ''مصیبت زدگان'' کے کام آئے۔ پڑوسی ممالک، دوست ممالک اور بعض مغربی ممالک نے بھی پاکستان کی بھرپور مدد کی۔ پاکستانی قوم بجا طور پر اس جذبہ انسانیت کے اظہار پر ان کی سپاس گزار ہے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ حالات کی کروٹ چونکہ ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی اس لیے حکومت اور اپوزیشن تعلقات میں بھی اتحاد فکر و عمل کا منظرنامہ بدلتا ہوا صاف دکھائی دیا۔ اگرچہ ایسا ہونا بہت حد تک فطری اور طبعی ہے لیکن اس کے باوجود زعمائے قوم کو خواہ ان کا تعلق ارباب اختیار سے ہو یا اپوزیشن سے یہ کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ ملکی مفاد، اس کی سالمیت اور اس کی بہتری کے لیے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلیں، حکمران اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش نہ کریں اور اپوزیشن بھی مخالفت برائے مخالفت کی روش کو ترک کرنے کی سعی کرے تو اس کے اثرات وطن عزیز کے لیے فائدہ مند ہی ثابت ہوں گے۔
ملک میں یوں تو ان گنت مسائل ہیں لیکن ہمارے دانست میں پانی کی قلت یا قحط آنے والے وقتوں میں ملک بھر میں ایک عذاب کی صورت نازل ہوگا اور وہ ایک ایسی ہولناک اور دلخراش صورتحال ہوگی جس کا تصور ہی جھرجھری پیدا کردیتا ہے۔ وطن عزیز میں آبی ذخائر میں تیزی سے کمی ہوتی جا رہی ہے اور نئے آبی ذخائر کی تعمیر مسئلہ کشمیر کی طرح مسئلہ بنی چلی آرہی ہے۔
اگرچہ کالاباغ اور دوسرے ڈیموں کی تعمیر کا مسئلہ خاصا پرانا ہے لیکن موسمی تبدیلیوں کے نتیجے میں بارشوں میں ہونے والی مسلسل کمی اور تربیلا ڈیم و منگلا ڈیم کی تہہ میں جمنے والی مٹی میں جس رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے اس سے ان بڑے ڈیموں کے ذخیرہ آب میں تیزی سے کمی ہوتی جا رہی ہے اور اگر نئے ڈیم جلد نہ بنائے گئے تو پھر خدشہ ہے کہ آیندہ دو عشروں کے بعد پاکستان کی زرعی و برقی ضروریات کو پورا کرنا ناممکن ہوجائے گا اور پاکستان جس تیزی سے صنعتی دور میں داخل ہو رہا ہے اس کی رفتار بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی اس لیے نئے آبی ذخائر کی تعمیر اب قومی ضروریات میں ایک ایسی بڑی ترجیح حاصل کرگئی ہے کہ اسے پس پشت ڈالنا قومی مفادات سے غداری کرنے کے مترادف ہوگا۔
بلوچستان اور سندھ بالخصوص کراچی کی صورتحال بہت تشویشناک حد تک خراب ہے۔ کراچی کے حوالے سے بلدیاتی امیدواروں کو ان کا مقام اور اختیار و فنڈنگ حکومت وقت کا اولین فریضہ ہونا چاہیے۔ شہر قائد میں امن و امان کی صورتحال کے ساتھ ساتھ صحت، صفائی ستھرائی، پانی کی قلت، لوڈ شیڈنگ (گیس و بجلی کی) ٹرانسپورٹ کی شدید قلت یہ ساری ترجیحات حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بلوچستان میں بیرونی مداخلت کے ساتھ ساتھ اندرونی اختلافات، شورش کی کیفیت دکھائی دے رہی ہے جسے معمول پر لانے کے لیے تمام فریقوں کو ازسرنو اعتماد میں لینے کی جدوجہد کی جانی چاہیے اور اس امر کو پوری طرح ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے کہ مذاکرات سے ہر گرہ کھل سکتی ہے۔ اس لیے اس راستے کو کسی بھی حالت میں ترک نہیں کیا جانا چاہیے اور اگر ''غیروں'' سے بات چیت ہو سکتی ہے تو اپنوں سے ڈائیلاگ کرنے میں کون سی قباحت ہے اور اس سلسلے کی آفاقی سچائی یہ ہے کہ لفظ قریب لاتے ہیں اور خاموشی دور لے جاتی ہے۔
بیرونی محاذ پر دیکھیں تو اس میدان میں پاکستان کو خاصی کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اس نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دیتے ہوئے ہر اول دستے کا جو کردار ادا کیا (ماضی میں) اس کے ثمرات حال اور مستقبل میں ملتے دکھائی پڑتے ہیں اور عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر ہوا ہے۔بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں اچھا ''یوٹرن'' دیکھنے کو ملا ہے۔ بھارت سے ضروری اشیا کی ہنگامی بنیادوں پر درآمد بھی اسی صورتحال کی عکاس ہے۔
لیکن بگلیہار ڈیم، کشن گنگا ڈیم اور مسئلہ کشمیر کے کسی منصفانہ اور پائیدار حل کے لیے بھارتی حکمرانوں کی طرف سے کسی مثبت ردعمل کا اظہار ابھی تک نہیں ہوا بلکہ گاہے بگاہے ان کی طرف سے ایسے بیانات داغ دیے جاتے ہیں جو بھارتی عزائم کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔
ان حالات میں امریکا، برطانیہ، چین، روس اور بعض اہم اسلامی ممالک کی یہ ذمے داری ہے کہ اگر وہ خلوص نیت سے برصغیر میں مستقل اور پائیدار امن کے خواہاں ہیں تو وہ نئی دہلی کو پاک بھارت روابط میں کشیدگی کے اصل سبب یعنی تنازعہ کشمیر کے کسی تصفیہ کے لیے بھی آمادہ کریں کیونکہ اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو پھر دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے تمام خواب تشنہ تعبیر ہی رہیں گے۔
ایک پل بنیاد ہے صدیوں کا اور ہر پل اپنے اندر بہت سی کہانیاں سموئے ہوتا ہے۔ کئی پل مل کر دن بنتے ہیں اور جب ان دنوں کی تعداد 365 ہوجاتی ہے تو حضرت انسان نے موسم کے حساب کتاب اور دیگر کئی معاملات کے لیے اسے ایک برس یا سال کا نام دے دیا ہے۔ جانے کب سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ سال میں بیتے کئی پلوں کے اندر محفوظ ہوجانے والی خبروں کو برس کی گنتی پوری ہونے پر یاد کیا جاتا ہے اور پھر دیکھا جاتا ہے کہ کیا کچھ گزر چکا ہے! پھر چونکنے، ایک بار اور خوش ہونے یا پھر تھوڑا رنجیدہ ہونے کے لیے یادیں بہت بڑی سورس ہوتی ہیں اور جب یہ ساری یادیں ایک سال کے کوزے میں جمع ہوجائیں تو انھیں دہرانا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔
ذرا پیچھے مڑ کر دیکھیں تو یقین نہیں آتا کہ ایک اور سال بیت گیا ہے۔ دوڑتی بھاگتی اس زندگی میں اتنی تیزی آگئی ہے کہ لگتا ہے یوں چٹکیوں میں 365 دنوں کا ایک اور دور تمام ہوگیا، مگر ان تمام چٹکیوں کے بیچ ہزارہا واقعات اور رجحانات سمٹے ہوئے ہیں۔ وطن عزیز اور اس کے شعبہ ہائے زندگی پر نگاہ کی جائے تو شخصیات اور واقعات کی کئی نئی ترتیب دکھائی دیتی ہے۔ مجموعی رجحانات تبدیل ہوتے دکھائی دیے، کئی شخصیات نے رنگ ڈھنگ بدلے اور وقت کے ساتھ چلنے کی کوشش میں مصروف عمل دکھائی دیں۔
اندازہ ہے کہ دنیا بہت پرانی ہے۔ مگر کتنی؟ ٹھیک پتہ تو کسی کو نہیں اور یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ فانی دنیا کے ایک دم فنا ہوجانے کا وقت کون سا ہے؟ آنے والی گھڑیوں کے بارے میں گیان دھیان رکھنے والے سبھی طرح کے عالم بھی کہتے ہیں کہ یہ محض حساب کتاب ہے اور کامل علم صرف خالق کائنات کے پاس ہے۔ اس معاملے میں کجی یا کمزوری کے باوجود حضرت انسان آنے والے کل کے بارے میں جاننے کو بے چین رہتا ہے اور اس خواہش فطری کو کیش کرنے کے لیے کئی ماہر دنیا کے چپے چپے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
بہرحال وقت کا کام گزرنا ہی ہوتا ہے۔ اس طرح آج، گزرا کل اور آنے والا کل، آج بنتا رہے گا۔ تاہم گزرتے وقت میں صرف وہی لوگ ناقابل فراموش ہوتے ہیں جو اس فانی دنیا میں اپنی محنت و صلاحیت سے کچھ غیر معمولی کام کرجاتے ہیں۔
2016 نیا سال اور اس کا سورج نئی امیدوں، نئی آرزوؤں اور نئے خدشات کو اپنے جلو میں لیے طلوع ہوچکا ہے اور سال گزشتہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ماضی کا ایک حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک تاریخی عمل ہے اور صبح ازل سے لے کر قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا لیکن زندہ قومیں تسبیح روز و شب کے اس سلسلے سے بھی سبق حاصل کرتے ہوئے مسلسل یہ جائزہ لیتی رہتی ہیں کہ اس لمحہ وقت میں انھوں نے کیا کھویا اور کیا پایا۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی مسلمانوں کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ ہر لحظہ اپنا محاسبہ کرتے رہیں کہ ان کا قدم ترقی کی جانب گامزن رہا یا جمود اور خمود نے انھیں یکسانیت کا خوگر بنا کر زوال اور پستی کی جانب دھکیلنے میں کامیابی حاصل کی۔ اگرچہ سال گزشتہ کے دوران پاکستان کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر بے شمار چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ''قدرتی آفات''کی ضمن میں ایک نہایت ہی خوشگوار اور مثبت پہلو یہ دیکھنے کو ملا کہ وہ پاکستانی قوم جو اقتدار کے ایوانوں سے لے کر نچلی سے نچلی سطح تک آپس میں بری طرح کٹی پھٹی نظر آتی ہے میں ایسی عدیم المثال یک جہتی دیکھنے میں آئی، یوں لگتا تھا جیسے اس کی صفوں میں کبھی کوئی اختلاف ہی نہ تھا۔ حکومت اپوزیشن کی روایتی آویزش پس پشت چلی گئی۔
سیاسی پارٹیوں نے اپنے روایتی اختلافات طاق نسیاں پر رکھ دیے اور مذہبی جماعتوں نے اپنی فکری و فروعی آویزشوں کو یکسر بھلا کر ''مصیبت زدگان'' کے کام آئے۔ پڑوسی ممالک، دوست ممالک اور بعض مغربی ممالک نے بھی پاکستان کی بھرپور مدد کی۔ پاکستانی قوم بجا طور پر اس جذبہ انسانیت کے اظہار پر ان کی سپاس گزار ہے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ حالات کی کروٹ چونکہ ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی اس لیے حکومت اور اپوزیشن تعلقات میں بھی اتحاد فکر و عمل کا منظرنامہ بدلتا ہوا صاف دکھائی دیا۔ اگرچہ ایسا ہونا بہت حد تک فطری اور طبعی ہے لیکن اس کے باوجود زعمائے قوم کو خواہ ان کا تعلق ارباب اختیار سے ہو یا اپوزیشن سے یہ کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ ملکی مفاد، اس کی سالمیت اور اس کی بہتری کے لیے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلیں، حکمران اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش نہ کریں اور اپوزیشن بھی مخالفت برائے مخالفت کی روش کو ترک کرنے کی سعی کرے تو اس کے اثرات وطن عزیز کے لیے فائدہ مند ہی ثابت ہوں گے۔
ملک میں یوں تو ان گنت مسائل ہیں لیکن ہمارے دانست میں پانی کی قلت یا قحط آنے والے وقتوں میں ملک بھر میں ایک عذاب کی صورت نازل ہوگا اور وہ ایک ایسی ہولناک اور دلخراش صورتحال ہوگی جس کا تصور ہی جھرجھری پیدا کردیتا ہے۔ وطن عزیز میں آبی ذخائر میں تیزی سے کمی ہوتی جا رہی ہے اور نئے آبی ذخائر کی تعمیر مسئلہ کشمیر کی طرح مسئلہ بنی چلی آرہی ہے۔
اگرچہ کالاباغ اور دوسرے ڈیموں کی تعمیر کا مسئلہ خاصا پرانا ہے لیکن موسمی تبدیلیوں کے نتیجے میں بارشوں میں ہونے والی مسلسل کمی اور تربیلا ڈیم و منگلا ڈیم کی تہہ میں جمنے والی مٹی میں جس رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے اس سے ان بڑے ڈیموں کے ذخیرہ آب میں تیزی سے کمی ہوتی جا رہی ہے اور اگر نئے ڈیم جلد نہ بنائے گئے تو پھر خدشہ ہے کہ آیندہ دو عشروں کے بعد پاکستان کی زرعی و برقی ضروریات کو پورا کرنا ناممکن ہوجائے گا اور پاکستان جس تیزی سے صنعتی دور میں داخل ہو رہا ہے اس کی رفتار بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی اس لیے نئے آبی ذخائر کی تعمیر اب قومی ضروریات میں ایک ایسی بڑی ترجیح حاصل کرگئی ہے کہ اسے پس پشت ڈالنا قومی مفادات سے غداری کرنے کے مترادف ہوگا۔
بلوچستان اور سندھ بالخصوص کراچی کی صورتحال بہت تشویشناک حد تک خراب ہے۔ کراچی کے حوالے سے بلدیاتی امیدواروں کو ان کا مقام اور اختیار و فنڈنگ حکومت وقت کا اولین فریضہ ہونا چاہیے۔ شہر قائد میں امن و امان کی صورتحال کے ساتھ ساتھ صحت، صفائی ستھرائی، پانی کی قلت، لوڈ شیڈنگ (گیس و بجلی کی) ٹرانسپورٹ کی شدید قلت یہ ساری ترجیحات حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بلوچستان میں بیرونی مداخلت کے ساتھ ساتھ اندرونی اختلافات، شورش کی کیفیت دکھائی دے رہی ہے جسے معمول پر لانے کے لیے تمام فریقوں کو ازسرنو اعتماد میں لینے کی جدوجہد کی جانی چاہیے اور اس امر کو پوری طرح ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے کہ مذاکرات سے ہر گرہ کھل سکتی ہے۔ اس لیے اس راستے کو کسی بھی حالت میں ترک نہیں کیا جانا چاہیے اور اگر ''غیروں'' سے بات چیت ہو سکتی ہے تو اپنوں سے ڈائیلاگ کرنے میں کون سی قباحت ہے اور اس سلسلے کی آفاقی سچائی یہ ہے کہ لفظ قریب لاتے ہیں اور خاموشی دور لے جاتی ہے۔
بیرونی محاذ پر دیکھیں تو اس میدان میں پاکستان کو خاصی کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اس نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دیتے ہوئے ہر اول دستے کا جو کردار ادا کیا (ماضی میں) اس کے ثمرات حال اور مستقبل میں ملتے دکھائی پڑتے ہیں اور عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر ہوا ہے۔بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں اچھا ''یوٹرن'' دیکھنے کو ملا ہے۔ بھارت سے ضروری اشیا کی ہنگامی بنیادوں پر درآمد بھی اسی صورتحال کی عکاس ہے۔
لیکن بگلیہار ڈیم، کشن گنگا ڈیم اور مسئلہ کشمیر کے کسی منصفانہ اور پائیدار حل کے لیے بھارتی حکمرانوں کی طرف سے کسی مثبت ردعمل کا اظہار ابھی تک نہیں ہوا بلکہ گاہے بگاہے ان کی طرف سے ایسے بیانات داغ دیے جاتے ہیں جو بھارتی عزائم کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔
ان حالات میں امریکا، برطانیہ، چین، روس اور بعض اہم اسلامی ممالک کی یہ ذمے داری ہے کہ اگر وہ خلوص نیت سے برصغیر میں مستقل اور پائیدار امن کے خواہاں ہیں تو وہ نئی دہلی کو پاک بھارت روابط میں کشیدگی کے اصل سبب یعنی تنازعہ کشمیر کے کسی تصفیہ کے لیے بھی آمادہ کریں کیونکہ اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو پھر دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے تمام خواب تشنہ تعبیر ہی رہیں گے۔