نیپال کو بدترین زلزلہ جھیلنا پڑا

خطے میں مزید ناگہانی آفات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہاہے


Hassaan Khalid January 03, 2016
خطے میں مزید ناگہانی آفات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہاہے ۔ فوٹو : فائل

2015ء میں 25 اپریل کو نیپال میں تباہ کن زلزلہ آیا، جو کہ گزشتہ 80 برسوں میں، ملکی تاریخ کا شدید ترین زلزلہ تھا۔ ریکٹر سکیل پر 7.8 درجے شدت کے اس زلزلے کی وجہ سے نو ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں، جبکہ 23 ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔

اس سے پہلے 1934ء میں نیپال کو بدترین زلزلے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تقریباً 17ہزار افراد کی ہلاکت کے علاوہ اس زلزلے نے نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کے ایک چوتھائی حصے کو ملیامیٹ کر دیا تھا۔ ماہرین ارضیات کے مطابق یہ زلزلہ بھی انھیں خطوط پر آیا، جن کے تحت سات سو برس قبل دو بہت بڑے زلزلے آئے تھے۔

زمین میں دراڑیں پڑنے کے بعد ارضی دباؤ کے ایک سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے باعث اس تباہ کن آفت کا سامنا کرنا پڑا۔ زلزلے کا نشانہ نیپال کا وہ مرکزی علاقہ بنا جو دارالحکومت کھٹمنڈو اور پوکھارا شہر کے درمیان واقع ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک منٹ تک اس زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔

زلزلے کی وجہ سے بھاری جانی اور مالی نقصان کے ساتھ، نیپال کے تاریخی ثقافتی ورثے کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ اس بڑی تباہی کے دو ہفتے بعد، 12مئی کو نیپال میں دوبارہ زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، جس کی شدت ریکٹر سکیل پر 7.3 ریکارڈ کی گئی۔ اس زلزلے کے نتیجے میں ہونے والا جانی نقصان تو پہلے کی نسبت بہت کم تھا 150)سے زیادہ ہلاکتیں اور تقریباً 3200 زخمی( لیکن لوگوں میں بہت زیادہ افراتفری دیکھی گئی اور امدادی سرگرمیاں بھی تعطل کا شکار رہیں۔

25 اپریل کے ہولناک زلزلے سے ایک ماہ قبل فرانس کی ریسرچ ایجنسی سے وابستہ ماہرین نے نیپال کے میدانی علاقے میں کھدائی کے بعد ایک بڑے زلزلے کا خدشہ ظاہر کیا تھا، اور زلزلے کا نشانہ بننے والے ممکنہ مقام کی نشاندھی بھی کی تھی۔ تاہم اس وقت اس تحقیق کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ جون کے آغاز میں حکومت نیپال نے دونوں زلزلوں کی وجہ سے ہونے والے مجموعی نقصان کے بارے میں ایک جائزہ رپورٹ پیش کی، جس کے مطابق ان ناگہانی آفات کے نتیجے میں پانچ لاکھ سے زائد گھر تباہ ہو ئے، اور 28 لاکھ افراد کو انسانی مدد کی ضرورت پیش آئی۔

حکومت کے مطابق ان زلزلوں کی وجہ سے نیپال کی معیشت کو سات بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔ صحت کی سہولیات کا فقدان اور صاف پانی کی فراہمی جیسے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ آبی نظام متاثر ہونے کی وجہ سے ملک کے بعض حصوں میں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی۔ زلزلے کے فوراً بعد ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں نے امدادی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا تھا، جو کہ اب تک جاری ہیں۔

متاثرین کے لیے ہنگامی طور پر پناہ گاہوں اور گھروں کی تیاری میں اس بات کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا کہ یہ مستقبل میں کسی ایسی ناگہانی آفت کی صورت میں زیادہ پائیدار اور محفوظ ثابت ہوں۔ ملک میں اس وقت شدید سردی میں ڈھائی لاکھ بچوں کو عارضی کلاس رومز میں تعلیم دی جا رہی ہے۔ نیپال کے وزیراعظم امدادی سرگرمیوں اور متاثرہ علاقے کی بحالی کے لیے بین الاقوامی برادری سے امداد کی اپیل کر چکے ہیں۔

زمین کی دو بڑی بالائی پرتوں (tectonic plates) کے کنارے پر ہونے کے باوجود، نیپال نے حالیہ تاریخ کے دوران نسبتاً بڑے زلزلوں کا سامنا کیا ہے۔ گزشتہ ایک سو برسوں کے دوران اس علاقے میں چار ایسے زلزلے ریکارڈ کیے گئے، جن کی شدت ریکٹر سکیل پر 6 سے زیادہ تھی، لیکن یہ زلزلے بہت زیادہ نقصان کا باعث بنے۔

1934ء کے تباہ کن زلزلے کا ذکر اوپر کی سطور میں ہو چکا ہے، جس کی شدت ریکٹر سکیل پر 8 تھی۔ حالیہ زلزلوں سے قبل اگست 1988ء میں 6.9 شدت کے زلزلے کی وجہ سے نیپال میں 1500 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یورایشیا (یورپ اور ایشیا) اور انڈیا کی بالائی پرتوں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے ہمالیہ کے خطے میں زلزلے آتے ہیں۔

انڈین پلیٹ، یورایشین پلیٹ کے نیچے شمال کی جانب سالانہ 45 ملی میٹر کھسک رہی ہے، اس عمل کو ''تھرسٹ فالٹ'' (thrust fault) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ جگہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے۔ ماہرین کے مطابق اس ''تھرسٹ فالٹ'' کی وجہ سے حالیہ زلزلے وقوع پذیر ہوئے۔ 25 اپریل کے زلزلے نے زمین کی ہیت بھی بدل دی۔

اس کی وجہ سے ہمالیہ پہاڑوں کی ایک چوڑی پٹی نیچے سرک گئی، جبکہ ملحقہ کھٹمنڈو بیسن کی سطح بھی بلند ہو گئی اور یہ پورا خطہ جنوب کی جانب دو میٹر تک سرک گیا۔ مستقبل میں عمودی چٹانوں پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے، اس خطے میں بہت زیادہ تباہی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق حالیہ زلزلوں کو مستقبل کے لیے خطرے کی علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس کے تباہ کن اثرات سے بچنے کے لیے پیشگی اقدامات کرنا ہوں گے۔

حال ہی میں ''سائنس'' میگزین میں نیپال کے زلزلے پر ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی۔ رپورٹ میں کھٹمنڈو کے شمال میں واقع ٹریکنگ کے لیے مشہور لنگ ٹانگ گاؤں میں ہونے والی تباہی کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ یہاں پہاڑوں کے ساتھ تقریباً 20 لاکھ مکعب میٹر تک ملبہ جمع ہو گیا۔ امریکی ماہر ارضیات برائن کولنز نے زلزلے کے بعد اس علاقے کا دورہ کیا۔

وہ کہتے ہیں: ''تقریباً 5000 میٹر کی بلندی سے ایک برفانی تودہ لڑھکتا ہوا 1000 میٹر تک نیچے آیا اور پھر 500 میٹر گہرائی میں گرتا ہوا پھٹ گیا، اور اپنے ساتھ بہت سا مواد لے کر سیدھا اس گاؤں پر آ گرا۔'' سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ جب یہ برفانی تودہ اپنے ساتھ چٹانی پتھروں کی ایک بڑی مقدار کے ساتھ وادی میں گرا تو اس کی قوت ہیروشیما پر گرنے والی ایٹم بم کے نصف جتنی تھی۔ تحقیق کے سینیئر مصنف جیفری کرگل نے بتایا کہ لنگ ٹانگ کا جو حصہ تودے کی زد میں نہیں آیا وہ ہوائی دھماکے میں تباہ ہو گیا۔ لنگ ٹانگ میں 350 سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

''سائنس'' جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں ماہرین کا کہنا ہے کہ 2015ء میں نیپال میں آنے والے تباہ کن زلزلے سے جو نقصان پہنچا، وہ اس سے کہیں کم ہے جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ بی بی سی کے مطابق ایک بین الاقوامی ٹیم کی رپورٹ نے ان زلزلوں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دوران برفانی تودوں کے پھسلنے کے واقعات لوگوں کے خدشات کے برعکس نسبتاً کم تھے۔ ٹیم کو اس اہم خدشے کے بارے میں بھی کوئی ثبوت نہیں ملا کہ اس زلزلے کی وجہ سے ہمالیہ کی برفانی جھیلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ان نتائج کو سان فرانسسکو میں امریکی جیوفزیکل یونین کے اجلاس میں پیش کیا گیا ہے۔

یہ اجلاس ارضیاتی سائنس پر ہونے والا دنیا کا سب سے بڑا اجلاس ہے۔ یونیورسٹی آف ایری زونا سے تعلق رکھنے والے محقق جیفری کرگل کا کہنا ہے، ''ہمیں بہت حیران کن نتائج ملے۔ ان زلزلوں کے چھوٹے بڑے اثرات کی نوعیت ہماری توقعات کے برعکس تھی۔'' اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ان زلزلوں سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی، تاہم تحقیق کاروں کو یقین ہے کہ یہ خطرناک اثرات بھی اس ممکنہ نقصان سے کہیں کم ہیں جو ان زلزلوں کے نتیجے میں پہنچ سکتے تھے۔

سائنس دانوں کو توقع تھی کہ اس زلزلے کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں تودے گرنے کے واقعات رونما ہوں گے۔ لیکن ایسے واقعات میں بہت کمی دیکھی گئی اور سائنسدان صرف پانچ ہزار کے قریب ایسے واقعات شناخت کر پائے۔ اسی طرح سائنس دانوں کا خیال تھا کہ ان تودوں کے پیچھے موجود جھیلوں کا پانی زلزلے کی وجہ سے بہتا ہوا نیپال کی وادیوں میں گھس کر تباہی مچا دے گا، لیکن سیٹیلائٹ سے حاصل کی گئی تصاویر اور علاقے کے معائنے کے بعد ان کو کسی بڑے نقصان کے شواہد نہیں ملے۔

ماہرین کے نزدیک توقعات کے برعکس کم تباہی ہونے کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہو سکتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ زلزلے کے دوران زمین کے ہلنے کا رجحان بھی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زلزلہ طاقتور ہونے کے باوجود نسبتاً ہموار تھا۔ ایک خیال یہ ہے کہ خطے میں پتھروں کی ساخت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا گیا جو نقصان کم کرنے کی اہم وجہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ خطے میں ایک خاص قسم کے جنگلات نے زمین کو اپنی جگہ مضبوطی سے قائم رکھنے میں کردار ادا کیا۔

نیپال کی معیشت میں سیاحت کا کردار بہت اہم ہے۔ 2013ء میں نیپال کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا آٹھ فیصد سے زائد حصہ سیاحت سے حاصل کردہ آمدنی پر مشتمل تھا، جبکہ برآمدات سے حاصل کردہ غیرملکی زردمبادلہ میں سیاحت کا حصہ 20 فیصد تھا۔ نیپال میں عالمی ثقافتی مقامات، تاریخی عمارتوں، لاتعداد قدیم مندروں اور ماؤنٹ ایورسٹ کی وجہ سے ہر سال تقریباً 10 لاکھ غیرملکی سیاح آتے تھے، لیکن گزشتہ سال کے زلزلوں کی وجہ سے ان کی تعداد پہلے کی نسبت بہت کم ہے۔

سیاحت میں غیرمعمولی کمی کی وجہ سے ملکی معیشت کو دھچکا پہنچا ہے۔ حکومت نیپال کو متاثرین کی بحالی، تباہ شدہ عمارتوں کی تعمیر اور سیاحت کے فروغ جیسے فوری مسائل کا سامنا ہے۔ اسے طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت ایسے اقدامات بھی کرناہونگے، جن سے شہریوں کی زندگیاں زیادہ محفوظ ہوں۔ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ نیپال ان چیلنجز سے کس حد تک عہدا برا ہوتاہے۔

تاریخی ثقافتی ورثے کی تباہی اور بحالی
نیپال کو تاریخی ثقافتی ورثے کی بحالی کے لیے ایک خطیر رقم درکار ہے، جس کا بیشتر حصہ گزشتہ سال کے زلزلے میں تباہ ہو گیا تھا۔ یونیسکو کی جانب سے کھٹمنڈو میں بین الاقوامی ثقافتی ورثہ قرار دیے جانے والے سات میں سے چار مقامات کو اس زلزلے سے بری طرح نقصان پہنچا، جبکہ شہر کے 80 فیصد مندر بھی تباہ ہو گئے تھے۔

تباہ ہونے والی دیگر عمارتوں میں کھٹمنڈو کا دہراہرا ٹاؤر بھی شامل ہے۔ نیپال کے پہلے وزیر اعظم کی جانب سے 1832ء میں تعمیر کیے گئے اس ٹاور کو بِھمسن ٹاور بھی کہا جاتا ہے جو سیاحوں میں بے حد مقبول تھا، جہاں وہ 200 سیڑھیاں چڑھ کر شہر کا نظارہ کر سکتے تھے۔ کھٹمنڈو کے قدیم شہر میں واقع معروف چوک دربار سکوائر میں بھی تباہی کے مناظر دیکھے گئے، یہ سکوائر یونیسکو کی فہرست میں شامل ہے۔ اس سکوائر کے قریب مختلف محل اور مندر موجود ہیں اور یہ جگہ یونیسکو کے مطابق کھٹمنڈو کی معاشرتی، مذہبی اور شہری زندگی کا مرکز ہے۔ بھکتا پور اور پٹن کے دربار سکوائر بھی زلزلے کے جھٹکوں کا نشانہ بنے۔

بھکتاپور کے مرکزی مندر کی چھت مکمل طور پر تباہ ہو گئی جبکہ 16ویں صدی میں قائم کیا جانا والا وٹسالا دْرگا مندر بھی زلزلے میں مسمار ہوگیا۔ یہ مندر اپنے ریتیلے پتھر کی دیواروں اور سونے کا پانی چڑھی مورتیوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ پٹن کے تیسری صدی میں قائم کیے جانے والے سکوائر میں کئی عمارتیں مسمار ہوگئیں۔ پانچویں صدی میں تعمیر کیے جانے والا سوایم بوناتھ مندر بھی تباہی کا نشانہ بنا۔ ماہرین کے مطابق ان میں سے کچھ عمارتوں کو اب اپنی پرانی شکل میں بحال نہیں کیا جا سکتا۔

1934ء کے زلزلے میں تباہ ہونے والی کئی عمارتوں کو بحال کر دیا گیا تھا جن میں دہراہرا ٹاور بھی شامل تھا۔ نیپال میں ایک ہزار سال پہلے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں گرنے والے برفانی تودوں اور ان کا ملبہ جمع ہونے سے خطے کی زمین کا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا تھا۔ اس زلزلے کی شدت ریکٹرسکیل پر آٹھ یا اس سے زیادہ تھی۔ نیپال کا سب سے بڑا شہر پوخارا دراصل 150 مربع میٹر پر پھیلے ہوئے اسی تباہ شدہ ملبے کے ڈھیر پر تعمیر کیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔