جہانِ سائنس بندھی امید ملیں خوش خبریاں
گذشتہ سال ہونے والی نئی دریافتوں، ایجادات وا ختراعات
جہان سائنس و ٹیکنالوجی میں ارتقا کا عمل ہر لمحہ جاری رہتا ہے۔ دنیائے سائنس میں ترقی کی رفتار اس سطح پر پہنچ گئی ہے جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی دریافت، پیش رفت، ایجاد یا اختراع ہوتی ہے۔ اور ان کی بنیاد پر ترقی کا عمل مزید تیزرفتار ہوجاتا ہے۔
گزرے برسوں کی طرح 2015ء میں بھی جہان سائنس میں کئی سنگ میل عبور ہوئے، انسانی کاوشوں کی بدولت کئی راز ہائے کائنات سے پردہ اٹھا، متعدد دریافتیں اور اختراعات ہوئیں جن کا اجمالی تذکرہ ذیل کی سطور میں کیا جارہا ہے۔
٭خلا/ قدرتی و مصنوعی سیارے/ راکٹ : پچھلے کئی برسوں سے ماہرین فلکیات کی توجہ ایسے سیاروں کا سراغ لگانے پر مرکوز ہے جو اپنے طبعی خواص میں ہماری زمین سے قریب تر ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس داں سمجھتے ہیں صرف اسی قسم کے سیاروں پر زندگی موجود ہوسکتی ہے۔ ماہرین فلکیات نے زمین سے ملتے جلتے کئی سیارے دریافت کیے۔ اس سلسلے کی اہم دریافت نومبر میں ہوئی جب آسٹریلوی ماہرین فلکیات نے زمین سے محض چودہ نوری سال کے فاصلے پر اس سے ملتے جلتے سیارے کا سراغ لگایا۔ زمین سے چار گنا زیادہ کمیت رکھنے والا یہ سیارہ Wolf 1061 نامی بونے ستارے کے گرد حیات کی نمو کے لیے موزوں علاقے (habitable zone) میں موجود ہے۔
٭ نظام شمسی سے باہر ایک ایسا سیارہ دریافت ہوا جس کے گرد زحل کی طرح ہالے پائے جاتے ہیں، مگر ان ہالوں کا قطر زحل سے دو سو گنا زیادہ ہے۔ نظام شمسی سے باہر دریافت ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا سیارہ ہے۔
٭ ستارے کی گردشی رفتار کی مدد سے اس کی عمر معلوم کرنے کی تیکنیک وضع کرلی گئی۔ امریکی سائنس دانوں نے ستارے کی گردشی رفتار کی پیمائش کرتے ہوئے اس کی عمر کا تعین کیا۔ بعدازاں رائج طریقوں سے اس کی عمر کا اندازہ لگایا۔ دونوں طریقوں سے ستارے کی عمر ایک ارب سال معلوم ہوئی۔
٭ امریکی خلائی ادارے ناسا نے خلا میں ایک اور تحقیقی خلائی جہاز روانہ کیا۔ یہ اسپیس کرافٹ دراصل ایک خلائی رصدگاہ ہے جو زمین کے مدار میں گردش کرتے ہوئے سطح ارض میں نمی کی درست ترین پیمائش کرے گی۔
٭ عطارد کے مدار پچھلے چار برسوں سے محورگردش خلائی جہاز ' میسینجر' اپنی عمر پوری کرکے اسی سیارے کی سرزمین پر گرکر تباہ ہوگیا۔ میسینجر نے نظام شمسی کے سب سے چھوٹے سیارے کے بارے میں قیمتی معلومات ارسال کیں۔
٭ چودہ جولائی کو 'نیو ہورائزنز' نامی خلائی جہاز پلوٹو کے قریب سے گزرا۔ فلکیاتی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب کوئی خلائی جہاز پلوٹو کے مدار میں پہنچا ہو۔ اس دوران نیوہورائزنز کی ارسال کردہ معلومات کی بنیاد پر ناسا نے اعلان کیا کہ پلوٹو پر نیلے بادل اور برف دریافت ہوئی ہے۔
٭طب و صحت .... سرطان: گزرے سال جن شعبوں میں سب سے زیادہ تحقیق ہوئی، طب و صحت کا شعبہ ان میں سے ایک ہے۔ محققین اور سائنس دانوں کی توجہ لاعلاج بیماریوں، خاص طور پر سرطان کا علاج ڈھونڈنے پر مرکوز رہی۔
٭ جونز ہوپکنز یونی ورسٹی سے وابستہ محققین کا کہنا ہے کہ انھوں نے چوہوں کے دماغ میں سرطان کے خلیوں کو نینو ذرات کی مدد سے کام یابی کے ساتھ نشانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں چوہوں کا عرصۂ حیات بڑھ گیا۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق تھی۔
٭ ماہرین نے پھپھڑوں کے کینسر میں مبتلا مریضوں پر nivolumab دوا کے تجربات کیے۔ ماہرین کا دعویٰ تھا دوا استعمال کرنے والے کچھ مریضوں کی زندگی ان کی توقع سے زیادہ بڑھ گئی۔
٭ امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے چھاتی کے سرطان کے علاج کے لیے ایک نئی دوا palbociclibکے استعمال کی منظوری دے دی۔
٭منیسوٹا میں قائم مایو کلینک کے محققین نے ایک پروٹین کی مدد سے سرطان کے خلیوں کی نمو روکنے کا طریقہ دریافت کرلیا۔
٭ ایک اور تحقیق میں سرطان کے خلیوں کے ساتھ ملیریا ویکیسن سے تیارکردہ پروٹین منسلک کرکے ان کے خاتمے میں کام یابی حاصل کی گئی۔ یہ طریقہ سرطان کی 90 فی صد اقسام میں کارگر ثابت ہوا۔ انسانوں پر اس طریقۂ علاج کے تجربات چار سال کے عرصے میں شروع ہونے کی توقع ہے۔
٭ الزائمر: دماغی خلل اور یادداشت کی خرابی کا سبب بننے والے مرض، الزائمر کا علاج دریافت کرنے کے سلسلے میں کئی پیش رفت ہوئیں۔
٭ الٹراساؤنڈ کے ذریعے چوہوں میں یادداشت بہتر بنانے میں کام یابی حاصل ہوئی۔ اس طریقہ علاج کے دوران بہ ظاہر دماغ کے خلیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
٭ امریکا کی ڈیوک یونی ورسٹی کے محققین نے الزائمر کا نیا سبب دریافت کرلیا۔
موتیا: موتیا کا علاج آپریشن کے ذریعے ہوتا ہے مگر اب اس سے نجات پانے کے لیے سرجری کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ماہرین نے موتیے کا خاتمہ کرنے والے قطرے بنالیے۔ ابتدائی طور پر اس دوا کو کتوں پر کام یابی سے آزمایا گیا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جلد ہی یہ دوا انسانی استعمال کیے لیے بھی دست یاب ہوگی۔
٭ ایبولا ویکسین: ایبولا کے ہاتھوں سیکڑوں لوگوں کی ہلاکت کے بعد بالآخر اس مہلک مرض کی ویکسین تیار کرلی گئی، جس کی آزمائش کی جارہی ہے۔ تاہم تجرباتی مرحلے میں یہ دوا ایبولا کے خلاف انتہائی مؤثر پائی گئی۔
مصنوعی اعضا: تجربہ گاہوں میں انسانی اعضا ' اُگانے' کی کوششوں میں پیش رفت ہوئی۔ پچھلے سال ڈیوک یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے پھیلنے اور سکڑنے والا انسانی عضو 'اُگا' لیا۔ محققین کے مطابق یہ کام یابی نت نئی ادویہ کی تیاری اور ہر مریض کے لیے الگ الگ طریقہ علاج وضع کرنے کی بنیاد بن سکتی ہے۔
٭ امریکی محکمۂ دفاع کے ذیلی ادارے ڈارپا سے وابستہ سائنس دانوں نے ایسا مصنوعی بازو تیار کرلیا جسے ' پہننے ' والا اشیاء کا لمس محسوس کرسکتا ہے۔ یہ بازو نچلے دھڑ سے مفلوج ایک جوان کے لگایا گیا۔
٭ لندن کی کوئن میری یونی ورسٹی میں ایک نامیاتی میٹیریل تیار کیا گیا۔ یہ منفرد مادّہ نمو پاتا ہے، یعنی جسامت میں بڑھتا اور اس دوران اپنی ہیئت بھی تبدیل کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس تخلیق سے مصنوعی شریانیں بنائی جاسکیں گی۔
٭ نینو ٹیکنالوجی:نینو ٹیکنالوجی سے کام لیتے ہوئے ایرانی سائنس دانوں نے کئی مفید ایجادات و اختراعات کیں۔
٭ ایران اور ارجنٹائن کے سائنس دانوں کی مشترکہ ٹیم نے گرافین سے 'بایوسینسر' تخلیق کرلیا۔ یہ ایجاد کئی منہگے طبی ٹیسٹوں کا سستا متبادل ثابت ہوگی۔
٭ ایرانی سائنس دانوں نے نینو ٹیکنالوجی سے کام لیتے ہوئے زمین سے تیل نکالنے کے طریقے کو کفایتی بنا ڈالا۔ تیل نکالنے کی غرض سے زیرزمین چٹان تک ایک مرکب پہنچایا جاتا ہے جو سطحی عامل کہلاتا ہے۔ سائنس دانوں نے سطحی عامل میں نینو ذرات ملاکر اسے چٹان تک پہنچایا جس کے نتیجے میں سطحی عامل کی مقدار میں اضافہ ہوا مگر خام تیل کا سطحی تناؤ گھٹ گیا۔ یوں خام تیل نکالنے کے لیے کم مقدار میں سطحی عامل درکار ہوا۔ ٭ایرانی سائنس دانوں نے ' نینو الیکٹریکل انسولیٹر' تیار کرلیا جو برقی اور برقیاتی آلات میں پُرزوں کے درمیان کرنٹ کے انتقال، بہ الفاظ دیگر شارٹ سرکٹ کا راستہ روکے گا۔
٭کمپیوٹنگ:کمپیوٹر ساز اداروں کی توجہ سپرفاسٹ یعنی تیزترین کمپیوٹنگ مشینوں کی تیاری پر مرکوز رہی۔
٭ ٹیکساس یونی ورسٹی کے انجنیئروں نے 'سپرفاسٹ کمپیوٹنگ' کو ممکن بنانے کے لیے پہلی بار سلیسین سے ٹرانسسٹر بنالیا۔ اس ٹرانسسٹر کی موٹائی محض ایک ایٹم کے مساوی ہے۔ سلیسین، سلیکون سے بنا دنیا کا باریک ترین مادّہ ہے۔ ماہرین کو امید ہے کہ سلیسین ٹرانسسٹر کی تیاری کے بعد ڈرامائی رفتار کی حامل اور انتہائی مختصر کمپیوٹر چِپس بنالی جائیں گی۔
٭ فلیش اسٹوریج ڈیوائسز بنانے والی سب سے بڑی کمپنی، سین ڈسک کارپوریشن نے دو سوگیگابائٹ کی گنجائش رکھنے والا مائیکرو ایس ڈی کارڈ جاری کردیا جسے موبائل فون میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس میموری کارڈ میں بیس گھنٹے دورانیے کی ہائی ڈیفینیشن ویڈیوز ذخیرہ کی جاسکتی ہیں۔
٭ کمپیوٹر سازی کے میدان کی دو بڑی کمپنیوں انٹیل اور مائیکرون نے نئی میموری ٹیکنالوجی متعارف کروائی جسے 3D XPoint کا نام دیا گیا۔ یہ میموری چِپس، NAND چپس کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زیادہ تیزرفتار اور روایتیDRAM سے دس گنا زیادہ کثیف ہوں گی۔ تاہم ان کی قیمت روایتی چِپس جتنی ہوگی۔
٭ماحولیات / گلوبل وارمنگ: ماضی کی طرح سال گذشتہ میں بھی گلوبل وارمنگ پر تحقیق کا سلسلہ جاری رہا۔ کئی تحقیقی مطالعات میں بتایا گیا عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کی رفتار ماضی میں لگائے گئے اندازوں سے کہیں تیز ہے اور اگر سبزمکانی گیسوں کے اخراج کا سلسلہ جاری رہا تو قطبین پر جمی برف کے پگھلنے کی رفتار بڑھنے کے علاوہ ماؤنٹ ایورسٹ کے علاقے میں واقع گلیشیئر بھی پگھلنا شروع ہوجائیں گے۔ سائنس دانوں کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ کے گلیشیئروں کا پگھلنا عالمی ماحولیات پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔
٭ روبوٹکس:روبوٹ سازی کے میدان میں اختراعات ہوتی رہیں۔ ماہرین کی توجہ خودکار مشینوں میں مصنوعی ذہانت ذہانت پیدا کرنے اور انھیں انسانوں کی طرح حرکت کرنے کے قابل بنانے پر رہی۔ سال گذشتہ کئی منفرد روبوٹ تیار ہوئے، جیسے بینک میں کیشیئر کے فرائض انجام دینے والا روبوٹ بنالیا گیا۔ اسی طرح گاہکوں کا استقبال کرنے والا روبوٹ بھی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اس کے علاوہ خودکار مشینوں میں مہمانوں کو کھانا پیش کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کی گئی۔ چین اور جاپان میں ایسے کئی ریستوراں کھولے گئے جہاں بیراگیری روبوٹ نبھارہے ہیں۔
٭ تھری ڈی پرنٹنگ: تھری ڈی پرنٹرز کے ذریعے ان گنت اقسام کی اشیاء 'پرنٹ' کرنے کا سلسلہ دو تین برس پہلے شروع ہوگیا تھا۔ سال گذشتہ تھری ڈی پرنٹڈ اشیاء کے استعمال کے سلسلے میں کئی پیش رفت ہوئیں۔
٭ آسٹریلیا میں سرجنوں نے ٹائٹینیم سے بنا مصنوعی جبڑا مریض کے لگادیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب تھری ڈی پرنٹڈ جبڑا کام یابی سے پیوند کیا گیا۔ کئی دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں بھی تھری ڈی ٹیکنالوجی کے استعمال سے بنائے جانے والے مصنوعی اعضا مریضوں کو لگائے گئے۔
٭ امریکا کی فوڈاینڈڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے پہلی بار تھری ڈی پرنٹر سے گولی کی تجارتی پیمانے پر پیداوار کی منظوری دے دی۔ Spritam نامی یہ گولی دماغی دوروں کو کنٹرول کرتی ہے۔
گزرے برسوں کی طرح 2015ء میں بھی جہان سائنس میں کئی سنگ میل عبور ہوئے، انسانی کاوشوں کی بدولت کئی راز ہائے کائنات سے پردہ اٹھا، متعدد دریافتیں اور اختراعات ہوئیں جن کا اجمالی تذکرہ ذیل کی سطور میں کیا جارہا ہے۔
٭خلا/ قدرتی و مصنوعی سیارے/ راکٹ : پچھلے کئی برسوں سے ماہرین فلکیات کی توجہ ایسے سیاروں کا سراغ لگانے پر مرکوز ہے جو اپنے طبعی خواص میں ہماری زمین سے قریب تر ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس داں سمجھتے ہیں صرف اسی قسم کے سیاروں پر زندگی موجود ہوسکتی ہے۔ ماہرین فلکیات نے زمین سے ملتے جلتے کئی سیارے دریافت کیے۔ اس سلسلے کی اہم دریافت نومبر میں ہوئی جب آسٹریلوی ماہرین فلکیات نے زمین سے محض چودہ نوری سال کے فاصلے پر اس سے ملتے جلتے سیارے کا سراغ لگایا۔ زمین سے چار گنا زیادہ کمیت رکھنے والا یہ سیارہ Wolf 1061 نامی بونے ستارے کے گرد حیات کی نمو کے لیے موزوں علاقے (habitable zone) میں موجود ہے۔
٭ نظام شمسی سے باہر ایک ایسا سیارہ دریافت ہوا جس کے گرد زحل کی طرح ہالے پائے جاتے ہیں، مگر ان ہالوں کا قطر زحل سے دو سو گنا زیادہ ہے۔ نظام شمسی سے باہر دریافت ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا سیارہ ہے۔
٭ ستارے کی گردشی رفتار کی مدد سے اس کی عمر معلوم کرنے کی تیکنیک وضع کرلی گئی۔ امریکی سائنس دانوں نے ستارے کی گردشی رفتار کی پیمائش کرتے ہوئے اس کی عمر کا تعین کیا۔ بعدازاں رائج طریقوں سے اس کی عمر کا اندازہ لگایا۔ دونوں طریقوں سے ستارے کی عمر ایک ارب سال معلوم ہوئی۔
٭ امریکی خلائی ادارے ناسا نے خلا میں ایک اور تحقیقی خلائی جہاز روانہ کیا۔ یہ اسپیس کرافٹ دراصل ایک خلائی رصدگاہ ہے جو زمین کے مدار میں گردش کرتے ہوئے سطح ارض میں نمی کی درست ترین پیمائش کرے گی۔
٭ عطارد کے مدار پچھلے چار برسوں سے محورگردش خلائی جہاز ' میسینجر' اپنی عمر پوری کرکے اسی سیارے کی سرزمین پر گرکر تباہ ہوگیا۔ میسینجر نے نظام شمسی کے سب سے چھوٹے سیارے کے بارے میں قیمتی معلومات ارسال کیں۔
٭ چودہ جولائی کو 'نیو ہورائزنز' نامی خلائی جہاز پلوٹو کے قریب سے گزرا۔ فلکیاتی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب کوئی خلائی جہاز پلوٹو کے مدار میں پہنچا ہو۔ اس دوران نیوہورائزنز کی ارسال کردہ معلومات کی بنیاد پر ناسا نے اعلان کیا کہ پلوٹو پر نیلے بادل اور برف دریافت ہوئی ہے۔
٭طب و صحت .... سرطان: گزرے سال جن شعبوں میں سب سے زیادہ تحقیق ہوئی، طب و صحت کا شعبہ ان میں سے ایک ہے۔ محققین اور سائنس دانوں کی توجہ لاعلاج بیماریوں، خاص طور پر سرطان کا علاج ڈھونڈنے پر مرکوز رہی۔
٭ جونز ہوپکنز یونی ورسٹی سے وابستہ محققین کا کہنا ہے کہ انھوں نے چوہوں کے دماغ میں سرطان کے خلیوں کو نینو ذرات کی مدد سے کام یابی کے ساتھ نشانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں چوہوں کا عرصۂ حیات بڑھ گیا۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق تھی۔
٭ ماہرین نے پھپھڑوں کے کینسر میں مبتلا مریضوں پر nivolumab دوا کے تجربات کیے۔ ماہرین کا دعویٰ تھا دوا استعمال کرنے والے کچھ مریضوں کی زندگی ان کی توقع سے زیادہ بڑھ گئی۔
٭ امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے چھاتی کے سرطان کے علاج کے لیے ایک نئی دوا palbociclibکے استعمال کی منظوری دے دی۔
٭منیسوٹا میں قائم مایو کلینک کے محققین نے ایک پروٹین کی مدد سے سرطان کے خلیوں کی نمو روکنے کا طریقہ دریافت کرلیا۔
٭ ایک اور تحقیق میں سرطان کے خلیوں کے ساتھ ملیریا ویکیسن سے تیارکردہ پروٹین منسلک کرکے ان کے خاتمے میں کام یابی حاصل کی گئی۔ یہ طریقہ سرطان کی 90 فی صد اقسام میں کارگر ثابت ہوا۔ انسانوں پر اس طریقۂ علاج کے تجربات چار سال کے عرصے میں شروع ہونے کی توقع ہے۔
٭ الزائمر: دماغی خلل اور یادداشت کی خرابی کا سبب بننے والے مرض، الزائمر کا علاج دریافت کرنے کے سلسلے میں کئی پیش رفت ہوئیں۔
٭ الٹراساؤنڈ کے ذریعے چوہوں میں یادداشت بہتر بنانے میں کام یابی حاصل ہوئی۔ اس طریقہ علاج کے دوران بہ ظاہر دماغ کے خلیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
٭ امریکا کی ڈیوک یونی ورسٹی کے محققین نے الزائمر کا نیا سبب دریافت کرلیا۔
موتیا: موتیا کا علاج آپریشن کے ذریعے ہوتا ہے مگر اب اس سے نجات پانے کے لیے سرجری کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ماہرین نے موتیے کا خاتمہ کرنے والے قطرے بنالیے۔ ابتدائی طور پر اس دوا کو کتوں پر کام یابی سے آزمایا گیا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جلد ہی یہ دوا انسانی استعمال کیے لیے بھی دست یاب ہوگی۔
٭ ایبولا ویکسین: ایبولا کے ہاتھوں سیکڑوں لوگوں کی ہلاکت کے بعد بالآخر اس مہلک مرض کی ویکسین تیار کرلی گئی، جس کی آزمائش کی جارہی ہے۔ تاہم تجرباتی مرحلے میں یہ دوا ایبولا کے خلاف انتہائی مؤثر پائی گئی۔
مصنوعی اعضا: تجربہ گاہوں میں انسانی اعضا ' اُگانے' کی کوششوں میں پیش رفت ہوئی۔ پچھلے سال ڈیوک یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے پھیلنے اور سکڑنے والا انسانی عضو 'اُگا' لیا۔ محققین کے مطابق یہ کام یابی نت نئی ادویہ کی تیاری اور ہر مریض کے لیے الگ الگ طریقہ علاج وضع کرنے کی بنیاد بن سکتی ہے۔
٭ امریکی محکمۂ دفاع کے ذیلی ادارے ڈارپا سے وابستہ سائنس دانوں نے ایسا مصنوعی بازو تیار کرلیا جسے ' پہننے ' والا اشیاء کا لمس محسوس کرسکتا ہے۔ یہ بازو نچلے دھڑ سے مفلوج ایک جوان کے لگایا گیا۔
٭ لندن کی کوئن میری یونی ورسٹی میں ایک نامیاتی میٹیریل تیار کیا گیا۔ یہ منفرد مادّہ نمو پاتا ہے، یعنی جسامت میں بڑھتا اور اس دوران اپنی ہیئت بھی تبدیل کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس تخلیق سے مصنوعی شریانیں بنائی جاسکیں گی۔
٭ نینو ٹیکنالوجی:نینو ٹیکنالوجی سے کام لیتے ہوئے ایرانی سائنس دانوں نے کئی مفید ایجادات و اختراعات کیں۔
٭ ایران اور ارجنٹائن کے سائنس دانوں کی مشترکہ ٹیم نے گرافین سے 'بایوسینسر' تخلیق کرلیا۔ یہ ایجاد کئی منہگے طبی ٹیسٹوں کا سستا متبادل ثابت ہوگی۔
٭ ایرانی سائنس دانوں نے نینو ٹیکنالوجی سے کام لیتے ہوئے زمین سے تیل نکالنے کے طریقے کو کفایتی بنا ڈالا۔ تیل نکالنے کی غرض سے زیرزمین چٹان تک ایک مرکب پہنچایا جاتا ہے جو سطحی عامل کہلاتا ہے۔ سائنس دانوں نے سطحی عامل میں نینو ذرات ملاکر اسے چٹان تک پہنچایا جس کے نتیجے میں سطحی عامل کی مقدار میں اضافہ ہوا مگر خام تیل کا سطحی تناؤ گھٹ گیا۔ یوں خام تیل نکالنے کے لیے کم مقدار میں سطحی عامل درکار ہوا۔ ٭ایرانی سائنس دانوں نے ' نینو الیکٹریکل انسولیٹر' تیار کرلیا جو برقی اور برقیاتی آلات میں پُرزوں کے درمیان کرنٹ کے انتقال، بہ الفاظ دیگر شارٹ سرکٹ کا راستہ روکے گا۔
٭کمپیوٹنگ:کمپیوٹر ساز اداروں کی توجہ سپرفاسٹ یعنی تیزترین کمپیوٹنگ مشینوں کی تیاری پر مرکوز رہی۔
٭ ٹیکساس یونی ورسٹی کے انجنیئروں نے 'سپرفاسٹ کمپیوٹنگ' کو ممکن بنانے کے لیے پہلی بار سلیسین سے ٹرانسسٹر بنالیا۔ اس ٹرانسسٹر کی موٹائی محض ایک ایٹم کے مساوی ہے۔ سلیسین، سلیکون سے بنا دنیا کا باریک ترین مادّہ ہے۔ ماہرین کو امید ہے کہ سلیسین ٹرانسسٹر کی تیاری کے بعد ڈرامائی رفتار کی حامل اور انتہائی مختصر کمپیوٹر چِپس بنالی جائیں گی۔
٭ فلیش اسٹوریج ڈیوائسز بنانے والی سب سے بڑی کمپنی، سین ڈسک کارپوریشن نے دو سوگیگابائٹ کی گنجائش رکھنے والا مائیکرو ایس ڈی کارڈ جاری کردیا جسے موبائل فون میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس میموری کارڈ میں بیس گھنٹے دورانیے کی ہائی ڈیفینیشن ویڈیوز ذخیرہ کی جاسکتی ہیں۔
٭ کمپیوٹر سازی کے میدان کی دو بڑی کمپنیوں انٹیل اور مائیکرون نے نئی میموری ٹیکنالوجی متعارف کروائی جسے 3D XPoint کا نام دیا گیا۔ یہ میموری چِپس، NAND چپس کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زیادہ تیزرفتار اور روایتیDRAM سے دس گنا زیادہ کثیف ہوں گی۔ تاہم ان کی قیمت روایتی چِپس جتنی ہوگی۔
٭ماحولیات / گلوبل وارمنگ: ماضی کی طرح سال گذشتہ میں بھی گلوبل وارمنگ پر تحقیق کا سلسلہ جاری رہا۔ کئی تحقیقی مطالعات میں بتایا گیا عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کی رفتار ماضی میں لگائے گئے اندازوں سے کہیں تیز ہے اور اگر سبزمکانی گیسوں کے اخراج کا سلسلہ جاری رہا تو قطبین پر جمی برف کے پگھلنے کی رفتار بڑھنے کے علاوہ ماؤنٹ ایورسٹ کے علاقے میں واقع گلیشیئر بھی پگھلنا شروع ہوجائیں گے۔ سائنس دانوں کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ کے گلیشیئروں کا پگھلنا عالمی ماحولیات پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔
٭ روبوٹکس:روبوٹ سازی کے میدان میں اختراعات ہوتی رہیں۔ ماہرین کی توجہ خودکار مشینوں میں مصنوعی ذہانت ذہانت پیدا کرنے اور انھیں انسانوں کی طرح حرکت کرنے کے قابل بنانے پر رہی۔ سال گذشتہ کئی منفرد روبوٹ تیار ہوئے، جیسے بینک میں کیشیئر کے فرائض انجام دینے والا روبوٹ بنالیا گیا۔ اسی طرح گاہکوں کا استقبال کرنے والا روبوٹ بھی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اس کے علاوہ خودکار مشینوں میں مہمانوں کو کھانا پیش کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کی گئی۔ چین اور جاپان میں ایسے کئی ریستوراں کھولے گئے جہاں بیراگیری روبوٹ نبھارہے ہیں۔
٭ تھری ڈی پرنٹنگ: تھری ڈی پرنٹرز کے ذریعے ان گنت اقسام کی اشیاء 'پرنٹ' کرنے کا سلسلہ دو تین برس پہلے شروع ہوگیا تھا۔ سال گذشتہ تھری ڈی پرنٹڈ اشیاء کے استعمال کے سلسلے میں کئی پیش رفت ہوئیں۔
٭ آسٹریلیا میں سرجنوں نے ٹائٹینیم سے بنا مصنوعی جبڑا مریض کے لگادیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب تھری ڈی پرنٹڈ جبڑا کام یابی سے پیوند کیا گیا۔ کئی دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں بھی تھری ڈی ٹیکنالوجی کے استعمال سے بنائے جانے والے مصنوعی اعضا مریضوں کو لگائے گئے۔
٭ امریکا کی فوڈاینڈڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے پہلی بار تھری ڈی پرنٹر سے گولی کی تجارتی پیمانے پر پیداوار کی منظوری دے دی۔ Spritam نامی یہ گولی دماغی دوروں کو کنٹرول کرتی ہے۔