ملک میں ہر سال غیرت کے نام پر1000خواتین کو قتل کیا جاتا ہے سروے

سماج میں عورت کو انسان نہیں کوئی شے سمجھا جاتا اوراسے خاندانی دشمنی پر قتل کر دیا جاتا ہے، کالم نگار زاہدہ حنا

معاشرے میں خواتین کو تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے، قتل کی سزا کا تعین کیا جائے، توصیف احمد :فوٹو : فائل

KABUL:
فرسودہ رسم ورواج کے باعث حواکی بیٹی کوشک کی بنیاد پرقتل کرنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے،قانونی ماہرین کاکہنا ہے کہ اس حوالے سے قوانین میں سقم پایا جاتا ہے، موجودہ قوانین متاثرہ خاندانوں کوانصاف دینے کے بجائے ملزمان کو تحفظ فراہم کررہاہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم شخصیات کے مطابق پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے بعدشک کے نتیجے میںخواتین کا استحصال تیزی سے بڑھتا جارہا ہے،کراچی میں گزشتہ ہفتے 3خواتین کوان کے شوہروں نے شک کی بنیادپرقتل کردیا، لیاری میں شوہر نے بیوی کو قتل کرکے خود کوپولیس کے حوالے کردیا،الفلاح میں شوہر نے بیوی کو کاری قرار دیکرقتل کیااورفرارہوگیا، پٹھان کالونی میں ظالم شوہر نے بیوی کو 3سسرالیوں سمیت مل کر قتل کردیا ،ایکسپریس سروے کے مطابق غربت اور بیروزگاری میں اضافے کے باعث قبائلی ودیہاتی علاقوں سے لوگوں کی اکثریت شہروں کارخ کررہی ہیں ۔

جس کی وجہ سے دیہاتی علاقوں میں رائج رسم ورواج کا رنگ شہری علاقوں میں بھی نظرآنے لگاہے،ملک بھرمیں ہر سال 1000 خواتین کوغیرت کے نام پرکاری قراردیکرقتل کیا جاتا ہے، عورت فاوٗنڈیشن کے مطابق پاکستان میں 2008 سے لے کر اب تک 3ہزار سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جا چکا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن برائے پاکستان کے مطابق 2014میں 923 خواتین اور82کمسن لڑکیوںکو غیرت کے نام پرقتل کیا گیا، کالم نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والے واقعات میں اضافہ ناقص سماجی واقتصادی حالات کا شاخسانہ ہے، معاشرے میں خواتین کو ابھی تک تیسرے درجے کا شہری سمجھاجاتا ہے،ان کوغیرت کے نام پر قتل کر کے دشمنوں کو سزادینے کا رواج عام ہے،غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کے خلاف سول لا کے تحت سزاکاتعین کیاجائے۔

معروف کالم نگار زاہدہ حنا کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میںبعض غیرت مند شوہر اپنی بیویوں کو اس بات پر قتل کردیتے ہیں کہ خواب میں کسی دوسرے مردکے ساتھ بیوی کو دیکھا تھا،اس کے علاوہ معاشرے میںدیہی علاقوں میں غیرت کے نام پرخاندانی دشمنی بھی نکالی جاتی ہے ، اگر کسی مرد سے دشمنی ہے تو اسے قتل کر دو اوراس کے ساتھ ہی بیوی کو بھی ہلاک کردواور خود ہی تھانے میں جاکر حاضر ہوجاؤ، پولیس ایسے قاتلوں کے ساتھ نرمی کا برتاوٗ کرتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ پولیس بھی اسی سماج کا حصہ ہے،ہمارا سماج عورت کو انسان نہیں بلکہ ایک شے سمجھتا ہے،سالن میں نمک تیزہوجائے یاروٹی صحیح پکی ہوئی نہ ہو تواس کاکے نتیجے میں بیوی عورت کوقتل کردیاجاتاہے۔


پاکستانی کمیشن برائے انسانی حقوق کی زہرا یوسف نے کہا ہے کہ ملک کی 50 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہیں لیکن خواتین کو معاشرے میں برابری کا مقام حاصل نہیں ہے، خواتین کے حقوق کی بحالی کے لیے قوانین بن چکے ہیںلیکن ان پرعمل نہیں کیا جاتا، مہذب معاشرے میں قانون کا راج ہوتا ہے ،شوہر کا بیوی کے کردار پر شک کرنا اوراس کی بنیاد پر قتل کر دینا کوئی انسانیت نہیں ہے،مرداپنے خاندان کی عزت و ناموس کاٹھیکہ صرف عورت کو ہی دیتے ہیں وہ عورت کواپنی جائیدادسمجھتاہے۔

وہ عورت کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں جب تک معاشرے میںقانون کی بالادستی، جہالت کا خاتمہ اورخواتین کومساوی حقوق میسرنہیں ہوں گے، خواتین قتل اور تشدد کا نشانہ بنتی رہیں گی، اجرک سوشل ویلفیئر سوسائٹی کی بشریٰ سیدکا کہنا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے کے ملزمان کو جیلوں اور تھانوں میں وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ہمدردی کا سلوک رواں رکھا جاتا ہے اور غیرت مند مرد ہونے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہیں، خواتین کومشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے علم و ہنر کے زیور سے آراستہ ہونا چاہیے، حکومت کوخواتین کے لیے شیلٹر ہوم بنانے چاہیں۔

جہاں وہ اپنے بچوں کے ہمراہ پرسکون زندگی بسر کرسکیں،عورت فاؤنڈیشن کی مہناز رحمٰن کا کہنا تھا کہ معاشرے میں جہالت، غربت، بیروزگاری اور عدم برداشت کے باعث خواتین کو قتل وغارت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مردوں کی تربیت کرنے کی اشد ضرورت ہے،شوہر اور بیوی کے مابین اعتماد کا رشتہ ہونا چاہیے، شک کی آگ رشتے کو خراب کردیتی ہیں، دونوں کو اپنے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو بات چیت کے ذریعے ختم کرناچاہیے۔

اگر دونوںکے درمیان کو اختلافات شدت اختیار کرجائیں تودونوں فریقین کو راستے الگ کرلینے چاہئیں،اسلام میں طلاق و خلع کی اجازت ہے لیکن قتل وغارت کرنے کی کوئی گنجائش نہیںہے،گھریلو جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے مقامی سطح پر کونسلنگ سروس سینٹرز قائم کرنے چاہیے جس میں ماہر سماجیات،ماہر نفسیات اور ماہر قانون بھی موجود ہوں۔

غلام محمد جدون ایڈووکیٹ کے مطابق پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل میںدفاع کے طور پرایسے قوانین موجودہیںجومرداورروایات کادفاع کرکے سزامیں تخفیف کی گنجا ئش پیداکرتے ہیں،قانون کی روسے اگرکوئی شخص کسی دوسرے شخص کواپنے رشتے کی کسی خاتون کوقابل اعتراض حالت میںدیکھ کرمشتعل ہونے کے بعد قتل کردے توقانون اسے دفاع کاراستہ فراہم کرتاہے۔

قانون کے مطابق قتل عمداکی سزاسزائے موت ہے لیکن اچانک اشتعال انگیزی کے نتیجے میںقتل پرموت کے بجائے25سال (عمرقید) کی سزادی جاتی ہے ،یہی قانون کاروکاری کے قتل میںدفاع کے طور پراستعمال ہونے لگا جس سے مجرم بڑی سزا سے بچ جاتے ہیں لیکن ترمیمی بل2004میںاسے قتل عمدا (جان بوجھ کر)قراردے دیا گیاہے جس کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کی سزا پھانسی ہونی چاہیے۔
Load Next Story