پی ٹی آئی کے تنظیمی الیکشن تنقید کی زد میں

پارٹی رہنمائوں کا خیال ہے کہ تنظیمی الیکشن کی سرگرمیوں نے ن لیگ کو دوبارہ اپنےپائوں پرکھڑا ہونے کا موقع فراہم کردیا ہے


October 30, 2012
اس وقت مکمل توجہ یو سی الیکشن پر دی جا رہی ہے جس کے نتائج واضح کریں گے کہ کون کس پوزیشن میں ہے۔ فوٹو : فائل

تحریک انصاف کے تنظیمی الیکشن کا مرحلہ وار آغاز2 نومبر کو اسلام آباد سے ہو رہا ہے جس کے بعد 10 نومبر تک خیبر پختونخواہ میں جبکہ 20 نومبر تک پنجاب میں یونین کونسل کی سطح پر انتخابات مکمل کیئے جائیں گے۔

یو سی کے انتخابات مکمل ہونے کے بعد تحصیل اور ضلع کے الیکشن مکمل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی اور آخری مرحلے میں ضلعی سطح پر منتخب عہدیدار صوبائی قیادت کا انتخاب کریں گے ۔تحریک انصاف کے موجودہ شیڈول کے مطابق صوبائی قیادت کے انتخاب کا آخری مرحلہ 10 دسمبر تک مکمل کر لیا جائے گا۔

انتہائی تیز رفتار الیکشن شیڈول پر پارٹی کے بہت سے اہم رہنماوں کو تحفظات ہیں اور ان کا موقف ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ جنوری میں نگران حکومت کے قیام کی اطلاعات درست ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہیں تحریک انصاف کے ''ریپڈ فائر الیکشن شیڈول''کی وجہ سے اگر الیکشن میں شفافیت اور غیر جانبداری کے حوالے سے کوئی معاملہ سامنے آگیا تو اس کا پارٹی کو شدید نقصان ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ پارٹی رہنما 2 نومبر کو اسلام آباد الیکشن کا بطور پائلٹ پرا جیکٹ جائزہ لیں گے ۔اگر اس طریقہ کار میں کوئی قابل اعتراض نکتہ سامنے آتا ہے تو پھر باقی صوبوں میں مقررہ شیڈول کے مطابق تنظیمی الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا۔یہ بات خوش آئند ہے کہ تحریک انصاف کے تمام نئے اور پرانے کارکنوں اور رہنماوں کو تنظیمی الیکشن کیلئے بنائے گئے الیکشن کمیشن پر مکمل اعتماد ہے ۔مرکزی الیکشن کمیشن میں حامد خان اور جسٹس(ر) وجیہہ الدین جیسے اہم رہنما شامل ہیں جبکہ صوبوں میں بھی غیر متنازعہ افراد کو الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا ہے ۔

پنجاب کے تنظیمی الیکشن کو تحریک انصاف میں سب سے اہم اور دلچسپ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے تمام گروپ الیکشن میں اپنی طاقت دکھانے کیلئے مختلف طریقے استعمال کر رہے ہیں ۔پنجاب میںتحریک انصاف کے تین رہنماوں کی زیرقیادت گروپ سب سے زیادہ متحرک ہیں ،ان میں میاں محمودالرشید ،عبدالعلیم خان اوراحسن رشید شامل ہیں۔تینون گروپ لیڈر خود بھی صوبائی سطح پر تنظیمی الیکشن میں حصہ لیں گے لیکن ابھی تک کسی گروپ نے ضلعی و صوبائی الیکشن کیلئے اپنے پینل کااعلان نہیں کیا۔

اس وقت مکمل توجہ یو سی الیکشن پر دی جا رہی ہے جس کے نتائج واضح کریں گے کہ کون کس پوزیشن میں ہے جس کے بعد اضلاع اور صوبائی سطح پر پینلز کا اعلان کیا جائے گا ۔میاں محمود الرشید اور علیم خان کو احسن رشید پر یہ برتری حاصل ہے کہ ان دونوں رہنماوں نے ماضی میں مختلف الیکشن لڑے اور لڑوائے ہیں۔میاں محمود الرشید نے سیاست کاآغاز30 برس قبل کیا تھا ،وہ 1983 اور1987 میں لاہور سے کونسلر منتخب ہوئے تھے جبکہ 1988 اور1990 میں انھوں نے لاہور سے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا تھا ۔ان کے بھائی مصطفے رشید بھی1997/98 میںاقبال ٹاون سے کونسل الیکشن میں جیت چکے ہیں۔

تاہم پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے دونوں بلدیاتی انتخابات میں مصطفے رشید کو شکست ہوئی تھی۔اسی طرح تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق صوبائی وزیر علیم خان 2002 اور2008 کے الیکشن میں قومی و صوبائی اسمبلی نشستوں پر دو،دو مرتبہ خود الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں جبکہ راوی ٹاون کے ناظم عامر منیر اور داتا گنج بخش ٹاون کے ناظم طارق ثناء باجوہ کے الیکشن سمیت ٹاون ناظم گلبرگ فراز چوہدری اور صوبائی اسمبلی کیلئے شعیب صدیقی کا الیکشن بھی علیم خان نے ہی پس منظر میں رہتے ہوئے لڑا تھا۔تحریک انصاف لاہور کی صدارت کے امیدوار فاروق امجد میر جب قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے تھے تو اس کامیابی میں بھی علیم خان کا بڑا حصہ تھا۔تحریک انصاف تنظیمی الیکشن کی دلدل میں پھنس چکی ہے اور پارٹی رہنماوں کی اکثریت اس کا ذمے دار اپنے پارٹی چیئر مین کو قرار دے رہے ہیں ۔

ان کے مطابق تنظیمی الیکشن نے تحریک انصاف کے لئے جنرل الیکشن کے حوالے سے مشکلات میں اضافہ کردیا ہے ۔بعض رہنما تو نجی محفلوں میں عمران خان پر شدید تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہتے سنائی دیئے ہیں کہ عمران خان کی تنظیمی الیکشن کی ضد نے مسلم لیگ(ن) کو تحریک انصاف کے مقابلے میں دوبارہ پاوں پر کھڑا کردیا ہے ۔تنظیمی الیکشن کا شوشہ چھوڑے جانے سے قبل تحریک انصاف نے مسلم لیگ(ن) کوٹف ٹائم دے رکھا تھا لیکن جیسے ہی پارٹی الیکشن کا اعلان کیا گیا تمام پارٹی آپس میں الجھ گئی جس کا فائدہ مسلم لیگ(ن) نے اٹھایا ہے۔

ٹورنٹو میں امریکی امیگریشن حکام کی جانب سے عمران خان کو نیویارک جانے والے طیارے سے اتار کر ایک گھنٹہ تک تفتیش کے واقعے پر تحریک انصاف کے کارکن بہت طیش میں ہیں ۔اس حوالے سے لاہور میں پنجاب اسمبلی کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں فوزیہ عامر خان، فرخ جاوید مون،ڈاکٹر فاروق طاہر چشتی،ڈاکٹر سیمی بخاری،رانا اختر حسین،عرفان احمد، صادقہ صاحبزاد خان،مومن فاروق، انعام علی، خیام حسین،رخسانہ نوید سمیت درجنوں کارکنوں نے شرکت کی ۔

عید کے موقع پر تحریک انصاف کے رہنماوں بالخصوص آئندہ عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں نے اپنے حلقوں میں کارکنوں کے ساتھ کافی وقت گذارا ہے۔میاں محمود الرشید، جمشید اقبال چیمہ،حامد معراج،فاروق امجد میر سمیت متعدد رہنما عید کے تینوں ایام اپنے حلقوں میں لوگوں سے عید ملتے رہے تاہم ابھی تک تحریک انصاف کی جانب سے اکلوتی عید ملن پارٹی علیم خان کی جانب سے دی گئی ہے ۔گلبرگ آفس میں ہونے والی اس تقریب میں اہم رہنماوں سمیت کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ہے۔

لاہور کے حلقہ این اے 121 میں سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کے صاحبزادے حماد اظہر نے گزشتہ کچھ عرصے میں یہ تاثر پیدا کیا تھا کہ شاید ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کا کوئی دوسرا امیدوار سامنے نہیں آئے گا لیکن عید کے موقع پر تحریک انصاف کے رہنما اور سابق ٹاون ناظم سمن آباد میاں جاوید علی اور ان کے حامیوں نے سیکڑوں کی تعداد میں اس حلقے میں بینر آویزاں کئے ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ حماد اظہر کو پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے شدید دشواریاں پیش آئیں گی کیونکہ میاں جاوید علی اس حلقے میں کافی اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔اس حلقے میں سابق یو سی ناظم ارشاد ڈوگر کا بھی ووٹ بینک موجود ہے اور وہ تحریک انصاف کیلئے بہت کام بھی کر رہے ہیں لیکن ان کی دلچسپی قومی اسمبلی کی بجائے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں زیادہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |