سامراج اور دہشت گردی
وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی لاہور آمد پر مشکور ہوں
وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی لاہور آمد پر مشکور ہوں، پاک بھارت مذاکرات پھر شروع ہوں گے۔ خطے میں ایک دوسرے کے دشمن بن کر نہیں رہ سکتے۔ ہمیں ایک دوسرے کے لیے خیرسگالی کا جذبہ رکھنا چاہیے۔ اپنے مسائل بھائی چارے کی فضا اور دوستی کے احوال میں حل کرنے چاہئیں۔
ہمسائیوں سے اچھے تعلقات وقت کی ضرورت ہے۔یہ باتیں انھوں نے بلوچستان میں ژوب کے مقام پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیں۔وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ قومی سلامتی کے مشیر کی بھارتی حکام کے ساتھ بڑی اچھی میٹنگ ہوئی جس کے نتیجے میں بھارت جامع مذاکرات پر آمادہ ہوا۔ بھارتی وزیر خارجہ پاکستان آئیں پھر بھارتی وزیراعظم تشریف لائے،آج وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے کہ بھارت سے ازسرنو مذاکرات شروع کیے جائیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے لیے خیرسگالی کا جذبہ رکھنا چاہیے۔
خطے میں ایک دوسرے کے دشمن بن کر ترقی نہیں کی جا سکتی۔ امید ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بگڑیں گے نہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات میں ہم نے زور دیا کہ مذاکرات کا سلسلہ کسی صورت معطل نہیں ہنا چاہیے۔ توقع ہے کہ اب یہ عمل مسلسل آگے بڑھتا رہے گا۔ پاک بھارت تعلقات آنے والے دنوں میں بہتر ہوں گے ۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس موقعہ پر امریکی صدر اوباما کا حوالہ دیا جنہوںنے ایرانی ایٹمی پروگرام تنازعے کو حل کرنے میں تدبر اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا جس سے جوہری معاہدہ طے پایا۔ امریکا ایران تعلقات میں بہتری کا کریڈٹ صدر اوباما کو جاتا ہے۔ اگر امریکی صدر تمام تر مخالفتوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنا کردار ادا نہ کرتے تو عالمی امن تباہ ہو جاتا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ پاکستان کے حوالے سے ایوان بالا سینیٹ میں تفصیلی بیان دیتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقاتیں دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے خوش آیند ہیں۔ لیڈروں کے درمیان گرم جوشی سے باضابطہ مذاکرات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لاہور میں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقاتیں غیر رسمی اور خیرسگالی کے جذبے کے تحت ہوئی جس کا مقصد صورت حال میں موجود پیش رفت کو مزید بہتر بنانا تھا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ مذاکرات کے عمل میں ''مشکل فیصلے'' ہونے ہیں۔ ہمیں غیرحقیقی توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔ البتہ بعض امور پر پیش رفت ہو گی''۔
بھارتی وزیراعظم کے دورہ پاکستان پر عالمی ذرایع ابلاغ میں تبصرے جاری ہیں۔ ایک سینئر امریکی تجزیہ نگار نے کہا کہ مودی کا دورہ لاہور برصغیر کے لیے ایک فیصلہ کن اور سنگ میل لمحے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب کہ امریکا اور چین نے اس دورے کا خیر مقدم کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ پاک بھارت بہتر تعلقات سے پورے خطے کو فائدہ ہو گا۔ چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ دونوں ملکوں میں بہتر تعلقات سے جنوبی ایشیا میں ا من کی راہ ہموار ہو گی جب کہ چین مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے یہ تجویز دے چکا ہے کہ اس کے حل کے لیے وہی راستہ اختیار کیا جائے جو اس نے ہانگ کانگ تائیوان اور مکاؤ کے حوالے سے اختیار کیا۔ باوثوق ذرایع کہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی میں درپردہ اسٹیبلشمنٹ نے اہم کردار ادا کیا۔
ایک ریٹائرڈ جنرل کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بننے سے حکومت کو بھارت کے ساتھ دہشت گردی سمیت دیگر مسائل پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے اعتماد ملا ۔ امریکا بھی اہم رول ادا کررہا ہے۔ افغانستان میں صرف اس صورت میں امن قائم ہو سکتا ہے جب پاکستان اپنی مشرقی سرحدوں سے مطمئن ہو تاکہ مغربی سرحد پر سیکیورٹی کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر سکے۔ جن میں داعش سرفہرست ہے۔ ایک حالیہ خبر کے مطابق روس اور افغان طالبان کے بھی رابطے ہوئے ہیں۔ داعش مشرق وسطیٰ سے افغانستان اور پاکستان کے لیے تیزی سے ابھرتا ہوا خطرہ بن کر سامنے آ رہی ہے۔
داعش کا خطرہ سینٹرل ایشیا کی ریاستوں میں بھی سرایت کر رہا ہے۔ دہشت گردی صرف مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک کا مسئلہ نہیں رہی بلکہ یہ روس اور چین کا بھی مسئلہ بن گئی ہے بلکہ اسے بنا دیا گیا ہے۔ ہے نا کمال کی بات۔ نائن الیون کے بعد کے چودہ سالوں میں بلکہ اب تو یہ دنیا کا مسئلہ بن گئی ہے۔ اس کا ثبوت یورپ میں سال نو کی تقریبات ہیں جن پر دہشت گردی سائے چھائے ہوئے تھے۔ ماسکو کے مشہور زمانہ ریڈ اسکوائر میں جہاں سال نو کی تقریبات ہوئی تھیں۔ اس دفعہ عام لوگوں کا داخلہ ممنوع تھا سوائے منتخب لوگوں کے۔ جتنی دہشت گردی بڑھے گی اتنا ہی سامراجی ملکوں کا اسلحہ بکے گا۔
اسلحے کی فیکٹریاں زیادہ اسلحہ بنائیں گی۔ بحران کا شکار سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت ملے گی۔ انسانوں کا قتل عام بڑھتا چلا جائے گا۔ ان کا خون پانی کی طرح بہے گا۔ ویسے بھی دنیا کی آبادی سات ارب سے زائد ہو چکی ہے جو 2050ء بن پچاس ارب تک پہنچ جائے گی۔ جتنا دہشت گردی قتل و غارت میں اضافہ ہو گا اتنا ہی دنیا پر سامراجی کنٹرول بڑھتا چلا جائے گا۔ نہتے بے خبر سادہ لوح عوام بھلا اس منصوبہ بند دہشت گردی کا کیا مقابلہ کر پائیں گے، کیسا زبردست منصوبہ ہے دنیا پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے اور غریب ملکوں کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کا۔ پہلے دل کو یہ جھوٹی تسلی تھی کہ اگلے تیس چالیس سالوں میں اس خطے میں قدرتی وسائل کے خاتمے کے ساتھ یہاں پر دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔
پھر خیال آیا کہ ابھی تو سینٹرل ایشیا میں قدرتی وسائل کا سمندر پڑا ہے جسے افغانستان اور پاکستان سے کنٹرول کیا جانا ہے۔ اس پر قبضہ بھی دہشت گردی کے خفیہ اسٹرٹیجک ہتھیار کے ذریعے ہی ہو گا وہاں پر عوامی مزاحمت کی صورت میں۔ سینٹرل ایشین ریاستوں کو سوویت یونین کے قبضے سے ایسے ہی تو آزاد نہیں کرایا گیا تھا۔ آخر اگلے پچاس سالوں کے بعد آیندہ سو سالوں کی سامراجی ضرورتیں بھی تو مد نظر رکھنی ہیں... دوراندیشی کا اندازہ لگائیں۔
معاشی و جنگی بالادستی وہ سچائیاں ہیں جن کے ذریعے دنیا کی طاقتور قوموں نے ہر زمانے میں دنیا کو اپنا غلام بنایا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں انسانیت اعلیٰ اقدار برابری مساوات فریب نظر ہیں... اب تو آیندہ دہائیوں میں وہ ٹیکنالوجی آنے والی ہے جس سے سامراجی ترقی یافتہ قوتیں دنیا کے زبردست عوام کے ذہن پر قبضہ کرکے ان کو ہمیشہ کے لیے اپنا غلام اور دنیا پر اپنی بالادستی کو مستقل شکل دے دیں گی... اور ہم امریکا یورپ کے زوال کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
پاک بھارت تعلقات کا مستقبل کیا ہے اس کا فیصلہ 2016ء کا آخر کرے گا۔
ہمسائیوں سے اچھے تعلقات وقت کی ضرورت ہے۔یہ باتیں انھوں نے بلوچستان میں ژوب کے مقام پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیں۔وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ قومی سلامتی کے مشیر کی بھارتی حکام کے ساتھ بڑی اچھی میٹنگ ہوئی جس کے نتیجے میں بھارت جامع مذاکرات پر آمادہ ہوا۔ بھارتی وزیر خارجہ پاکستان آئیں پھر بھارتی وزیراعظم تشریف لائے،آج وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے کہ بھارت سے ازسرنو مذاکرات شروع کیے جائیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے لیے خیرسگالی کا جذبہ رکھنا چاہیے۔
خطے میں ایک دوسرے کے دشمن بن کر ترقی نہیں کی جا سکتی۔ امید ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بگڑیں گے نہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات میں ہم نے زور دیا کہ مذاکرات کا سلسلہ کسی صورت معطل نہیں ہنا چاہیے۔ توقع ہے کہ اب یہ عمل مسلسل آگے بڑھتا رہے گا۔ پاک بھارت تعلقات آنے والے دنوں میں بہتر ہوں گے ۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس موقعہ پر امریکی صدر اوباما کا حوالہ دیا جنہوںنے ایرانی ایٹمی پروگرام تنازعے کو حل کرنے میں تدبر اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا جس سے جوہری معاہدہ طے پایا۔ امریکا ایران تعلقات میں بہتری کا کریڈٹ صدر اوباما کو جاتا ہے۔ اگر امریکی صدر تمام تر مخالفتوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنا کردار ادا نہ کرتے تو عالمی امن تباہ ہو جاتا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ پاکستان کے حوالے سے ایوان بالا سینیٹ میں تفصیلی بیان دیتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقاتیں دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے خوش آیند ہیں۔ لیڈروں کے درمیان گرم جوشی سے باضابطہ مذاکرات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لاہور میں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقاتیں غیر رسمی اور خیرسگالی کے جذبے کے تحت ہوئی جس کا مقصد صورت حال میں موجود پیش رفت کو مزید بہتر بنانا تھا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ مذاکرات کے عمل میں ''مشکل فیصلے'' ہونے ہیں۔ ہمیں غیرحقیقی توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔ البتہ بعض امور پر پیش رفت ہو گی''۔
بھارتی وزیراعظم کے دورہ پاکستان پر عالمی ذرایع ابلاغ میں تبصرے جاری ہیں۔ ایک سینئر امریکی تجزیہ نگار نے کہا کہ مودی کا دورہ لاہور برصغیر کے لیے ایک فیصلہ کن اور سنگ میل لمحے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب کہ امریکا اور چین نے اس دورے کا خیر مقدم کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ پاک بھارت بہتر تعلقات سے پورے خطے کو فائدہ ہو گا۔ چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ دونوں ملکوں میں بہتر تعلقات سے جنوبی ایشیا میں ا من کی راہ ہموار ہو گی جب کہ چین مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے یہ تجویز دے چکا ہے کہ اس کے حل کے لیے وہی راستہ اختیار کیا جائے جو اس نے ہانگ کانگ تائیوان اور مکاؤ کے حوالے سے اختیار کیا۔ باوثوق ذرایع کہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی میں درپردہ اسٹیبلشمنٹ نے اہم کردار ادا کیا۔
ایک ریٹائرڈ جنرل کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بننے سے حکومت کو بھارت کے ساتھ دہشت گردی سمیت دیگر مسائل پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے اعتماد ملا ۔ امریکا بھی اہم رول ادا کررہا ہے۔ افغانستان میں صرف اس صورت میں امن قائم ہو سکتا ہے جب پاکستان اپنی مشرقی سرحدوں سے مطمئن ہو تاکہ مغربی سرحد پر سیکیورٹی کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر سکے۔ جن میں داعش سرفہرست ہے۔ ایک حالیہ خبر کے مطابق روس اور افغان طالبان کے بھی رابطے ہوئے ہیں۔ داعش مشرق وسطیٰ سے افغانستان اور پاکستان کے لیے تیزی سے ابھرتا ہوا خطرہ بن کر سامنے آ رہی ہے۔
داعش کا خطرہ سینٹرل ایشیا کی ریاستوں میں بھی سرایت کر رہا ہے۔ دہشت گردی صرف مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک کا مسئلہ نہیں رہی بلکہ یہ روس اور چین کا بھی مسئلہ بن گئی ہے بلکہ اسے بنا دیا گیا ہے۔ ہے نا کمال کی بات۔ نائن الیون کے بعد کے چودہ سالوں میں بلکہ اب تو یہ دنیا کا مسئلہ بن گئی ہے۔ اس کا ثبوت یورپ میں سال نو کی تقریبات ہیں جن پر دہشت گردی سائے چھائے ہوئے تھے۔ ماسکو کے مشہور زمانہ ریڈ اسکوائر میں جہاں سال نو کی تقریبات ہوئی تھیں۔ اس دفعہ عام لوگوں کا داخلہ ممنوع تھا سوائے منتخب لوگوں کے۔ جتنی دہشت گردی بڑھے گی اتنا ہی سامراجی ملکوں کا اسلحہ بکے گا۔
اسلحے کی فیکٹریاں زیادہ اسلحہ بنائیں گی۔ بحران کا شکار سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت ملے گی۔ انسانوں کا قتل عام بڑھتا چلا جائے گا۔ ان کا خون پانی کی طرح بہے گا۔ ویسے بھی دنیا کی آبادی سات ارب سے زائد ہو چکی ہے جو 2050ء بن پچاس ارب تک پہنچ جائے گی۔ جتنا دہشت گردی قتل و غارت میں اضافہ ہو گا اتنا ہی دنیا پر سامراجی کنٹرول بڑھتا چلا جائے گا۔ نہتے بے خبر سادہ لوح عوام بھلا اس منصوبہ بند دہشت گردی کا کیا مقابلہ کر پائیں گے، کیسا زبردست منصوبہ ہے دنیا پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے اور غریب ملکوں کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کا۔ پہلے دل کو یہ جھوٹی تسلی تھی کہ اگلے تیس چالیس سالوں میں اس خطے میں قدرتی وسائل کے خاتمے کے ساتھ یہاں پر دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔
پھر خیال آیا کہ ابھی تو سینٹرل ایشیا میں قدرتی وسائل کا سمندر پڑا ہے جسے افغانستان اور پاکستان سے کنٹرول کیا جانا ہے۔ اس پر قبضہ بھی دہشت گردی کے خفیہ اسٹرٹیجک ہتھیار کے ذریعے ہی ہو گا وہاں پر عوامی مزاحمت کی صورت میں۔ سینٹرل ایشین ریاستوں کو سوویت یونین کے قبضے سے ایسے ہی تو آزاد نہیں کرایا گیا تھا۔ آخر اگلے پچاس سالوں کے بعد آیندہ سو سالوں کی سامراجی ضرورتیں بھی تو مد نظر رکھنی ہیں... دوراندیشی کا اندازہ لگائیں۔
معاشی و جنگی بالادستی وہ سچائیاں ہیں جن کے ذریعے دنیا کی طاقتور قوموں نے ہر زمانے میں دنیا کو اپنا غلام بنایا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں انسانیت اعلیٰ اقدار برابری مساوات فریب نظر ہیں... اب تو آیندہ دہائیوں میں وہ ٹیکنالوجی آنے والی ہے جس سے سامراجی ترقی یافتہ قوتیں دنیا کے زبردست عوام کے ذہن پر قبضہ کرکے ان کو ہمیشہ کے لیے اپنا غلام اور دنیا پر اپنی بالادستی کو مستقل شکل دے دیں گی... اور ہم امریکا یورپ کے زوال کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
پاک بھارت تعلقات کا مستقبل کیا ہے اس کا فیصلہ 2016ء کا آخر کرے گا۔