پٹھانکوٹ پر حملہ ایک نئی فلمی کہانی

یہ تو انتہائی واہیات قسم کی خام منصوبہ بندی ہے۔ کیا پولیس افسر سلوندر سنگھ کا موبائل فون اس صلاحیت کا حامل تھا


Tanveer Qaisar Shahid January 04, 2016
[email protected]

بھارتی پنجاب کا مشہور شہر، پٹھانکوٹ، تین بھارتی ریاستوں (مشرقی پنجاب، ہماچل پردیش اور مقبوضہ جموں و کشمیر) کا نقطۂ اتصال ہے۔ یہ انڈین ائیرفورس اور بھارتی افواج کا شہر بھی ہے۔

65ء کی جنگ میں پاکستان ائیرفورس کے جانباز شاہینوں نے پٹھانکوٹ میں بروئے کار انڈین ائیرفورس بیس کو خوب ہدف بنا کر عالمی شہرت حاصل کی تھی۔ 2جنوری 2016ء کو اسی شہر کا یہی ائیربیس مبینہ طور پر مسلّح دہشت گرد حملہ آوروں کانشانہ بن گیا۔ حملہ آوروں نے سحری کے سوا تین بجے ائیربیس پر حملہ کرکے دہشت پھیلادی۔ کہا گیا ہے کہ حملہ آور اور ان کا مقابلہ کرنے والے پندرہ گھنٹے باہم متصادم رہے۔

اس دوران پانچوں دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا۔گزشتہ روز بھی تصادم ہوا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بہت محتاط الفاظ میں ٹیررازم کے اس سانحہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ''انسانیت کے دشمن بھارت کی ترقی نہیں دیکھنا چاہتے۔'' جناب مودی نے تو پاکستان کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا اور نہ ہی بھارتی وزیردفاع نے لیکن بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر بھارتی سیاستدانوں اور بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف دریدہ دہنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بتایا گیا ہے کہ دہشت گردوں نے تین بھارتی سیکیورٹی اہل کاروں کو ہلاک تو کیا لیکن وہ ائیربیس پر کھڑے جنگی جہازوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔

(کچھ عرصہ قبل پاکستان میں حملہ آور دہشت گرد ہماری ائیرفورس کے بعض قیمتی جہازوں کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوگئے تھے) پٹھانکوٹ میں دہشت گردی کی یہ واردات دنیا بھر میں اس لیے بھی زیادہ سنسنی خیزی کا باعث بنی ہے کہ نریندر مودی کو لاہور کاغیر سرکاری دورہ کیے ابھی آٹھ دن ہی گزرے تھے۔ کہیں یہ بھارتی واردات تو نہیں جس کی طرف سے گذشتہ دو ماہ سے مسلسل یہ پروپیگنڈہ خبریں شایع ہورہی تھیں کہ بعض بھارتی شہری ایجنٹ کا کردار ادا کررہے ہیں؟ مثلاً: 29دسمبر 2015ء کو اسی الزام کے تحت راجھستان سے رنجیت کے کے نامی ایک شخص کا گرفتار کیا جانا۔

جس کسی (بھارتی) کندذہن اور نالائق اسٹریٹجسٹ نے پٹھانکوٹ میں انڈین ائیرفورس بیس پر پانچ دہشت گردوں کا حملہ کروا کر پاکستان کو لپیٹنے اور ملزم ٹھہرانے کی منصوبہ بندی کی، اس سے بہت سی بنیادی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر جب بھارتیوں نے یہ بیان دیا کہ دہشت گردوں نے پٹھانکوٹ کے مذکورہ ہوائی اڈے کے گرد سیکیورٹی پر مامور ایس پی سلوندر سنگھ اور اس کے دو ساتھیوں سے جیپ چھینی تو انھیں قتل کیوں نہ کیا گیا؟ پٹھانکوٹ کے ڈی ایس پی کلدیپ سنگھ نے ایس پی سلوندر سنگھ کے دیے گئے بیان کے مطابق جو ایف آئی آر درج کی، وہ بھی خاصی مضحکہ خیز ہے۔

یہ ایف آئی آر نہیں، فلمی کہانی لگتی ہے۔ مثال کے طور پر سلوندرسنگھ کا یہ بیان کہ پانچوں مسلح دہشت گردوں نے انھیں اور ان کے دونوں ساتھیوں کو جیپ سے اتار کر درختوں سے باندھ دیا اور پھر وہ بعدازاں خود ہی آزاد ہوگئے اور بھاگ کر فوجی اداروں کو مطلع کردیا۔ کیا خوب!!ایک بھارتی انگریزی اخبار نے جو تفصیلات شایع کی ہیں، وہ خاصی دلچسپ تو ہیں لیکن ساتھ ہی کذب وریا کا پلندہ بھی۔ اس اخبار نے تو بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سارا ملبہ ہی پاکستان پر ڈال دیا اور کسی بھی صحافتی اخلاقی قدر کی پروا نہ کرتے ہوئے لکھا: ''حملہ آور پاکستانی دہشت گرد تھے۔'' بھارتی میڈیا نے یہ بھی بتایا کہ دہشت گردوں نے اسی پولیس افسر، سلوندر سنگھ، سے چھینا گیا موبائل فون استعمال کیا اور اس کے ذریعے پاکستان میں اپنے ''ہینڈلرز'' کو کئی بار کالز کیں۔

یہ تو انتہائی واہیات قسم کی خام منصوبہ بندی ہے۔ کیا پولیس افسر سلوندر سنگھ کا موبائل فون اس صلاحیت کا حامل تھا کہ اس سے پاکستان کال کی جاسکتی؟ اور یہ بھی کہ اتنا خطرناک آپریشن کرنے والے دہشت گرد کیا یہ بنیادی بات بھی نہیں جانتے تھے کہ ان کی کال بھارت کے خفیہ ادارے Intercept کرسکتے ہیں؟ یہ تو وہی بھارتی خفیہ ادارے ہیں جن کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ انھوں نے جون 1999ء میں ہونے والی کارگل جنگ میں جنرل پرویز مشرف اور جنرل عزیز کی مبینہ خفیہ فون گفتگو پکڑلی تھی۔

بھارت کے کایاں میڈیا کو اس بار منہ کی کھانا پڑی ہے۔ ادھر پٹھانکوٹ میں اس ڈرامے کا آغاز ہوا، اور ادھر بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف اپنی قابلِ مذمت توپوں کے دھانے کھول دیے۔ گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ وطنِ عزیز کی کئی حساس تنصیبات پر دہشت گردوں نے کئی بار حملے کیے ہیں۔ ہمارے ہوائی اڈے بھی ان خونیوں کے حملوں کی زد میں آئے ہیں لیکن پاکستانی میڈیا اور پاکستانی حکام نے کبھی فوری طور پر بھارت، بھارتی خفیہ اداروں اور بھارت کی پاکستان دشمن شدت پسند تنظیموں پر تہمتوں کی بارش نہیں برسائی۔

پٹھانکوٹ میں بھارتی ائیرفورس کے ہوائی اڈے، جس پر کئی مِگ اور ایم آئی نامی لڑاکا طیارے اور جنگی ہیلی کاپٹر کھڑے تھے، پر ہونے والے مبینہ دہشت گردی حملے کے پس منظر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ساتھ بھارتی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے بھی (پاکستان پر الزام کے حوالے سے) محتاط بیان دیا ہے۔ ممتاز بھارتی اخبار ''دی ہندو'' کے رپورٹر Nistula Hebbar کو راجناتھ سنگھ نے 2جنوری 2016 ہی کے روز انٹرویو دیا۔ جب یہ پوچھا گیا کہ اس حملے کے بعد بھارت کے پاکستان سے تعلقات کس شکل میں متاثر ہوں گے تو بھارتی وزیرداخلہ نے کہا: ''ہم اپنے ہمسایوں سے اچھے تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔

مودی حکومت اس پالیسی میں بہت واضح ہے لیکن اگر ہم پر حملہ ہوتا ہے تو ہم دندان شکن جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دہشت گردی کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان نے بھی پٹھانکوٹ پر ہونے والے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ جب ہم آپس میں بات چیت کریں تو دہشت گردی کو بھی موضوعِ گفتگو بنایا جانا چاہیے۔

آیندہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات ہوں تو یہ بھی بات کی جانی چاہیے کہ دہشت گردوں اور دہشت گردی سے دونوں ممالک کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔'' راجناتھ سنگھ نے توقعات کے برعکس نرم لہجہ اپنایا ہے۔ گویا اگلے ہفتے ہونے والے پاک بھارت سیکریٹری خارجہ مذاکرات متاثر نہیں ہوں گے۔ مفسد بھارتی میڈیا کے برعکس بھارتی وزیراعظم، وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ نے ٹھنڈا لہجہ اختیار کیا ہے۔

''انڈیا ٹو ڈے'' بھارت کا معروف اور کثیر الاشاعت انگریزی جریدہ ہے۔ پٹھانکوٹ کے ائیرفورس بیس پر حملے کو چند گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ اس جریدے نے ایک نام نہاد''خصوصی'' رپورٹ شایع کردی۔ اس میں پاکستان کی جانب انگلی اٹھائی گئی تھی۔ اس ''انکشاف خیز'' رپورٹ کے مطابق، دہشت گرد گورداسپور کے راستے بھارت میں تیس دسمبر 2015ء کو داخل ہوئے۔ اس نام نہاد انکشاف خیز رپورٹ کی اشاعت فی الحقیقت اس جریدے کے منہ پر کالک مل گئی ہے۔

یہ رپورٹ اس امر کا بھی ثبوت ہے کہ بھارتی میڈیا کس بری طرح بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ یہ گھناؤنا کردار اجتماعی طور پر جنوبی ایشیا کے امن اور خوشحالی کو بلڈوز کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ یقین کیا جارہا ہے کہ اس سیاہ کاری کے عقب میں نریندر مودی کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر مسٹر اجیت ڈوول خصوصی کردار ادا کررہے ہیں۔ ایک اور بھارتی انگریزی اخبار نے اپنے رپورٹر Vinay Dhengra کی جو رپورٹ شایع کی ہے، وہ بھی خاصی مشتبہ ہے۔

اس رپورٹ میں مغوی راجیش ورما (ایس پی سلوندرسنگھ کا سنار دوست جسے مبینہ طور پر دہشت گردوں نے دیگر کے ساتھ اغوا کیا) کے یہ الفاظ شایع ہوئے ہیں کہ ''حملہ آور ہمیں جب اغوا کرکے لے جارہے تھے تو وہ مسلسل کہہ رہے تھے کہ ہم افضل گُرو کا بدلہ لینے آئے ہیں۔'' کشمیری حریت پسند بے گناہ افضل گرو کو فروری 2013ء میں بھارت نے پھانسی دے کر شہید کردیا تھا لیکن اب تین سال بعد یہ انتقام چہ معنی دارد؟ ''کی یہ اسٹوری بھی خانہ سازی میں شمار کی جائے گی۔ کچے ذہن کی ساختہ۔ نہایت نان سینس کہانی!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں