شاہی سواری کلچر
ہمارے صدر، وزیر بشمول دیگر اراکین پارلیمنٹ پروٹوکول کے نام پر درجنوں گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔
پرانے زمانے میں جب بادشاہوں، مہاراجاؤں کی سواریاں گزرا کرتی تھیں تو عوام بڑے ادب سے راستوں کے دونوں جانب کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیاکرتے تھے، بڑے لاؤ لشکر، گھوڑے، پیادہ کے ساتھ ہاتھی پر بیٹھے بادشاہ سلامت، بڑے کروفرسے اپنی رعایا پر ایک تجاہل عارفانہ کی نظر ڈالتے گزرتے تھے۔ خیر وہ تو سب پرانی باتیں ہوئیں، مگر اس دور میں بھی ان کے وارث موجود ہیں، پہلے وہ گھوڑوں اور ہاتھیوں، کئی لمبی قطاروں میں گزرا کرتے تھے، مگر آج کے جدید دور میں کاروں کی لمبی لمبی قطاروں میں یہ قافلہ بڑے شاہانہ انداز میں گزرتا ہے۔
وزراء کی گاڑیوں کے گھر سے نکلنے سے پہلے ہی اس سارے علاقے پر پولیس اور رینجرز کے نوجوانوں کی حکومت ہوتی ہے۔ اب تو عوام اس سرکاری پروٹوکول سے اس قدرخائف ہیں کہ لوگ اپنے گھر سے نکلنے سے قبل ٹائم ٹیبل بناکر نکلتے ہیں، ٹی وی پر جس شہر میں حکمرانوں کے دوروں کی خبریں ہوں، دوسرے شہر کے رہنے والے لوگ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ شکر ہے کہ اس پروٹوکول کے عذاب سے فی الحال ان کا شہر محفوظ ہے۔
ہمارے صدر، وزیر بشمول دیگر اراکین پارلیمنٹ پروٹوکول کے نام پر درجنوں گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ ایک ایسے غریب ملک میں جہاں لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں، ہمارے حکمراں اس فضول خرچی کے کیسے متحمل ہوسکتے ہیں۔ اس موقع محل کی مناسبت سے مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ ملک معراج خالد پاکستان کے وزیراعظم رہ چکے ہیں، یہ اپنے وزارت کے دور میں ہر قسم کے پروٹوکول کے تکلف سے آزاد تھے، وہ کہتے تھے ''میں نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا، تو مجھے کس بات کا ڈر''۔ ایک دفعہ وہ اسلام آباد کی شاہراہ سے گزر رہے تھے۔
ٹریفک رواں دواں تھی کہ اچانک ایک پولیس گاڑی ہوٹر بجاتی ہوئی آئی، تمام ٹریفک روک دی گئی، تھوڑی دیر میں گاڑیوں کی لمبی قطاریں بدترین ٹریفک جام کا منظر پیش کرنے لگیں، آدھے گھنٹے انتظار کے بعد ائیرپورٹ کی طرف سے لمبی قطار میں ہوٹر بجاتی گاڑیاں گزرنے لگیں، ایک شاہانہ انداز لیے گورنر صاحب کی سواری گزری، وزیراعظم معراج خالد اپنی عام سی گاڑی میں ٹریفک میں پھنسے رہے، انھوں نے سر نکال کر ٹریفک پولیس سے پوچھا ''بیٹا! ابھی یہاں سے کون گزرا ہے؟'' پولیس کانسٹیبل نے بے زاری سے جواب دیا ''گورنر پنجاب وزیر اعظم سے ملنے گئے ہیں''۔
وزیراعظم نے سر اندر کیا، اپنے موبائل سے گورنر کا نمبر ملایا، دوسری طرف سے ہیلو ہوئی تو وزیراعظم نے ہنس کر کہا ''خواجہ صاحب، وزیر اعظم میں ہوں، میری گاڑی ہجوم میں رکی رہی اور آپ پورے پروٹوکول کے ساتھ گزرے، سوچتا ہوں آپ کے ساتھ عہدہ بدل لوں''۔ یہ واقعہ کوئی صدی، دو صدی پرانا نہیں ہے، پاکستان کی وزارتوں پر ایسے شاندار لوگ فائز رہ چکے ہیں، جو اپنی ذات سے دوسروں کو تکلیف پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور اپنے دیگر ہم منصبوں کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ملک معراج خالد بنا پروٹوکول کے سفر کرسکتے تھے تو ہمارے آج کے سیاست دان کیوں نہیں نکل سکتے۔
کچھ عرصے قبل کا ایک واقعہ صدر آصف علی زرداری کی کوئٹہ آمد پر ٹریفک جام میں پھنسی خاتون کا ہے، جو تین گھنٹے اس ٹریفک جام میں اذیت سہتی رہی، آخرکار بچے کی ولادت رکشہ ہی میں ہوئی، اس کے کرب کا، اس کی بے عزتی کا اندازہ یا کوئی مول ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ صدر صاحب نے اپنی خجالت مٹانے کے لیے سرکاری خزانے سے پانچ لاکھ ادا تو کردیے، مگر سوال اب بھی وہی ہے، آخر پروٹوکول کے نام پر اتنی لمبی لمبی گاڑیوں کے قافلے اور گھنٹوں شہریوں کو پریشان کرنے کے لیے سڑک کو بند کردینا کہاں کا انصاف ہے؟
اگر یہ سیاسی وزراء کسی اسپتال میں مریض کی عیادت کو جاتے ہیں تو دیگر مریضوں کے رشتے دار اس اسپتال کے قریب تک نہیں پھٹک سکتے، خواہ ان کے مریض کی حالت کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو۔ یہی صورت حال گزشتہ بدھ کو سول اسپتال کراچی میں بلاول بھٹو کے آنے پر پیش آئی، جب اسپتال کے تمام گیٹ بند کردیے گئے تھے، ایمبولینس باہر کھڑی تھیں، بسمہ کا باپ بچی کو ہاتھ میں اٹھائے دہائی دیتا رہا، مگر کسی نے اندر جانے نہیں دیا، آخرکار بچی نے باپ کے ہاتھوں میں دم توڑدیا۔
پروٹوکول کے نام پر حکومت اور ہمارے تمام اراکین پارلیمنٹ عوام کے ساتھ آخر کب تک یہ مذاق جاری رکھیں گے؟ عوام ان کے ہاتھوں کب تک اس طرح کی غلامی اور بے عزتی برداشت کریں گے؟ ان کی آمد پر شہری کیوں عذاب میں مبتلا ہوجاتے ہیں، کیوں خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں؟ دعائیں کرتے ہیں کہ ہمارے علاقوں سے ان کا گزر نہ ہو، گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہتے ہیں۔
گاڑیوں میں روتے ہوئے بچے، مریضوں کو لے جانے والی ایمبولنس شور مچا کر حالت کی نزاکت کا احساس دلاتے تھک جاتی ہیں۔ اگر پروٹوکول یافتہ کو کسی جنازے میں شریک ہونا ہو تو مرحومین کے اصل رشتے دار تک اس پروٹوکول کی زد میں آکر جنازے میں شرکت نہیں کرپاتے۔ طالب علم امتحانی ہال ٹائم پر نہیں پہنچ پاتے؟ کیا باہر کے ملکوں میں وزاء اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلتے؟
اب وقت آگیا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ اسمبلی میں ایسا بل منظور کریں، جس کے تحت پروٹوکول کلچر، جسے اگر شاہانہ سواری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کا خاتمہ ہوجائے تاکہ عوام سکون کا سانس لے سکیں۔ کوئٹہ میں بچے کی رکشہ میں ولادت کا واقعہ پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بنا، اب یہ نیا افسوسناک حادثہ جس میں دس ماہ کی ننھی بسمہ جان سے گئی، خدا نہ کرے کہ اس قسم کا کوئی اور واقعہ پیش آئے۔
ہمارے وزراء اور لیڈروں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ وہ کوئی مغل بادشاہ یا کوئی راجا مہاراجہ نہیں، نہ عوام ان کے غلام ہیں، بلکہ یہ عوام کے ووٹوں ذریعے ہی یہاں تک پہنچے ہیں اور اب عوام اپنا اچھا برا سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر آپ نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا، آپ سارے فیصلے عوام کی فلاح وبہبود کو مدنظر رکھ کر کرتے ہیں تو آپ کو عوام میں آنے سے کوئی ڈر نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ عوام ہی ہیں، جنھوں نے آپ کو اپنے ووٹوں سے یہ مقام دلایا ہے۔
وزراء کی گاڑیوں کے گھر سے نکلنے سے پہلے ہی اس سارے علاقے پر پولیس اور رینجرز کے نوجوانوں کی حکومت ہوتی ہے۔ اب تو عوام اس سرکاری پروٹوکول سے اس قدرخائف ہیں کہ لوگ اپنے گھر سے نکلنے سے قبل ٹائم ٹیبل بناکر نکلتے ہیں، ٹی وی پر جس شہر میں حکمرانوں کے دوروں کی خبریں ہوں، دوسرے شہر کے رہنے والے لوگ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ شکر ہے کہ اس پروٹوکول کے عذاب سے فی الحال ان کا شہر محفوظ ہے۔
ہمارے صدر، وزیر بشمول دیگر اراکین پارلیمنٹ پروٹوکول کے نام پر درجنوں گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ ایک ایسے غریب ملک میں جہاں لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں، ہمارے حکمراں اس فضول خرچی کے کیسے متحمل ہوسکتے ہیں۔ اس موقع محل کی مناسبت سے مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ ملک معراج خالد پاکستان کے وزیراعظم رہ چکے ہیں، یہ اپنے وزارت کے دور میں ہر قسم کے پروٹوکول کے تکلف سے آزاد تھے، وہ کہتے تھے ''میں نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا، تو مجھے کس بات کا ڈر''۔ ایک دفعہ وہ اسلام آباد کی شاہراہ سے گزر رہے تھے۔
ٹریفک رواں دواں تھی کہ اچانک ایک پولیس گاڑی ہوٹر بجاتی ہوئی آئی، تمام ٹریفک روک دی گئی، تھوڑی دیر میں گاڑیوں کی لمبی قطاریں بدترین ٹریفک جام کا منظر پیش کرنے لگیں، آدھے گھنٹے انتظار کے بعد ائیرپورٹ کی طرف سے لمبی قطار میں ہوٹر بجاتی گاڑیاں گزرنے لگیں، ایک شاہانہ انداز لیے گورنر صاحب کی سواری گزری، وزیراعظم معراج خالد اپنی عام سی گاڑی میں ٹریفک میں پھنسے رہے، انھوں نے سر نکال کر ٹریفک پولیس سے پوچھا ''بیٹا! ابھی یہاں سے کون گزرا ہے؟'' پولیس کانسٹیبل نے بے زاری سے جواب دیا ''گورنر پنجاب وزیر اعظم سے ملنے گئے ہیں''۔
وزیراعظم نے سر اندر کیا، اپنے موبائل سے گورنر کا نمبر ملایا، دوسری طرف سے ہیلو ہوئی تو وزیراعظم نے ہنس کر کہا ''خواجہ صاحب، وزیر اعظم میں ہوں، میری گاڑی ہجوم میں رکی رہی اور آپ پورے پروٹوکول کے ساتھ گزرے، سوچتا ہوں آپ کے ساتھ عہدہ بدل لوں''۔ یہ واقعہ کوئی صدی، دو صدی پرانا نہیں ہے، پاکستان کی وزارتوں پر ایسے شاندار لوگ فائز رہ چکے ہیں، جو اپنی ذات سے دوسروں کو تکلیف پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور اپنے دیگر ہم منصبوں کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ملک معراج خالد بنا پروٹوکول کے سفر کرسکتے تھے تو ہمارے آج کے سیاست دان کیوں نہیں نکل سکتے۔
کچھ عرصے قبل کا ایک واقعہ صدر آصف علی زرداری کی کوئٹہ آمد پر ٹریفک جام میں پھنسی خاتون کا ہے، جو تین گھنٹے اس ٹریفک جام میں اذیت سہتی رہی، آخرکار بچے کی ولادت رکشہ ہی میں ہوئی، اس کے کرب کا، اس کی بے عزتی کا اندازہ یا کوئی مول ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ صدر صاحب نے اپنی خجالت مٹانے کے لیے سرکاری خزانے سے پانچ لاکھ ادا تو کردیے، مگر سوال اب بھی وہی ہے، آخر پروٹوکول کے نام پر اتنی لمبی لمبی گاڑیوں کے قافلے اور گھنٹوں شہریوں کو پریشان کرنے کے لیے سڑک کو بند کردینا کہاں کا انصاف ہے؟
اگر یہ سیاسی وزراء کسی اسپتال میں مریض کی عیادت کو جاتے ہیں تو دیگر مریضوں کے رشتے دار اس اسپتال کے قریب تک نہیں پھٹک سکتے، خواہ ان کے مریض کی حالت کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو۔ یہی صورت حال گزشتہ بدھ کو سول اسپتال کراچی میں بلاول بھٹو کے آنے پر پیش آئی، جب اسپتال کے تمام گیٹ بند کردیے گئے تھے، ایمبولینس باہر کھڑی تھیں، بسمہ کا باپ بچی کو ہاتھ میں اٹھائے دہائی دیتا رہا، مگر کسی نے اندر جانے نہیں دیا، آخرکار بچی نے باپ کے ہاتھوں میں دم توڑدیا۔
پروٹوکول کے نام پر حکومت اور ہمارے تمام اراکین پارلیمنٹ عوام کے ساتھ آخر کب تک یہ مذاق جاری رکھیں گے؟ عوام ان کے ہاتھوں کب تک اس طرح کی غلامی اور بے عزتی برداشت کریں گے؟ ان کی آمد پر شہری کیوں عذاب میں مبتلا ہوجاتے ہیں، کیوں خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں؟ دعائیں کرتے ہیں کہ ہمارے علاقوں سے ان کا گزر نہ ہو، گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہتے ہیں۔
گاڑیوں میں روتے ہوئے بچے، مریضوں کو لے جانے والی ایمبولنس شور مچا کر حالت کی نزاکت کا احساس دلاتے تھک جاتی ہیں۔ اگر پروٹوکول یافتہ کو کسی جنازے میں شریک ہونا ہو تو مرحومین کے اصل رشتے دار تک اس پروٹوکول کی زد میں آکر جنازے میں شرکت نہیں کرپاتے۔ طالب علم امتحانی ہال ٹائم پر نہیں پہنچ پاتے؟ کیا باہر کے ملکوں میں وزاء اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلتے؟
اب وقت آگیا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ اسمبلی میں ایسا بل منظور کریں، جس کے تحت پروٹوکول کلچر، جسے اگر شاہانہ سواری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کا خاتمہ ہوجائے تاکہ عوام سکون کا سانس لے سکیں۔ کوئٹہ میں بچے کی رکشہ میں ولادت کا واقعہ پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بنا، اب یہ نیا افسوسناک حادثہ جس میں دس ماہ کی ننھی بسمہ جان سے گئی، خدا نہ کرے کہ اس قسم کا کوئی اور واقعہ پیش آئے۔
ہمارے وزراء اور لیڈروں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ وہ کوئی مغل بادشاہ یا کوئی راجا مہاراجہ نہیں، نہ عوام ان کے غلام ہیں، بلکہ یہ عوام کے ووٹوں ذریعے ہی یہاں تک پہنچے ہیں اور اب عوام اپنا اچھا برا سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر آپ نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا، آپ سارے فیصلے عوام کی فلاح وبہبود کو مدنظر رکھ کر کرتے ہیں تو آپ کو عوام میں آنے سے کوئی ڈر نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ عوام ہی ہیں، جنھوں نے آپ کو اپنے ووٹوں سے یہ مقام دلایا ہے۔