چوتھا کھلاڑی
آج مجھے ان تینوں کے ساتھ تاش کھیلے ہوئے ساڑھے تین ماہ ہوچکے ہیں
PESHAWAR:
دسمبر کی آخری شام ہمیشہ معمول سے کچھ ہٹ کر ہوتی ہے۔ دھند میں لپٹی دھیمی اور ٹھہری ٹھہری۔اس بار بھی پورے سال کا کیلنڈر کسی اسٹاپ واچ کی طرح میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔ خیالوں کی اس اڑان میں اس مرتبہ کچھ الگ ہے کیونکہ جتنی مرتبہ بھی میرے دماغ نے ان تین سو پینسٹھ دنوں کی فلم چلائی وہ ایک نکتے پر آکر رک گئی۔ ایک ایسے نکتے پر جو دسمبر کی اس آخری رات سے زیادہ سرد ہے۔ جس کی سردی ابھی تک میرے اعصاب کو منجمد کر رہی ہے۔
ستمبر کے دوسرے ہفتے میں جہاں میں بیٹھا تھا وہ چند فٹ گولائی والی ایک نہایت چھوٹی سی جگہ تھی۔ پوسٹ پر موجود افسران اور جوان اسے اگلو کہتے ہیں۔ جس میں میرے جیسے نارمل قدامت کا آدمی بھی پورے قد سے کھڑا ہو سکتا ہے اور نا ہی کھل کر سو سکتا ہے۔ سردی اور آکسیجن کی انتہائی کمی سے مجھے سانس لینے میں خاصی دشواری ہو رہی تھی۔ اسی لیے مجھے اس بند جگہ میں لایا گیا تھا، اگلو سے باہر نکلتے وقت فوجی ڈاکٹر کیپٹن علی نے ایک جوان سے کہا کہ انھیں سونے مت دینا بلکہ مصروف رکھو۔ اور میں خود بھی اس کی اہمیت سے آگاہ تھا۔ ساڑھے اکیس ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچنے سے پہلے بریفنگ میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہاں تیزی سے کام کرنے اور حتیٰ کہ تیز چلنے سے بھی نئے آدمی کی حالت غیر ہو سکتی ہے۔
ایسے میں چکر آنا، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جانا، ہوش کھو جانا معمول ہے۔ اگر احتیاط نہ کی جائے تو جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ ابھی تھوری ہی دیر پہلے میرے ایک کیمرہ مین کونیم بے ہوشی کی حالت میں یہاں سے ریسکیو کر کے نیچے گوما اسپتال میں بھیجا گیا تھا۔ اور میں اب اپنے میزبانوں کو اپنی وجہ سے مزید امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔
میں دو دن پہلے اسلام آباد میں تھا ایک دن پہلے سکردو ائیرپورٹ پر اترا اور پھر ساڑھے اکیس ہزار فٹ کے گلیشیئر پر پہنچ گیا جب کہ ایک فوجی جوان کو وہاں تک پہنچانے میںایک ماہ کا وقت لگتا ہے تاکہ وہ ماحول کی تبدیلی اور موسم کی سختیوں کا عادی ہو جائے۔ ہائی اور کم سے کم آکسیجن میں زندہ رہنا سیکھ لے۔میں نے دو یا تین گھونٹ پانی پیا اورپھر آہستہ آہستہ میری سانسیں بحال ہونے لگیں۔ ڈاکٹر علی نے جس جوان کی ڈیوٹی لگائی تھی اس کا تعلق سندھ کے علاقے گھوٹکی سے تھا جس نے اپنی چمکدار آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور پوچھا،
سر آپ لڈو کھیلیں گے یا تاش؟ اور ساتھ ہی اپنے عقب میں پڑی الماری نما بوسیدہ سی چیز سے ایک پرانے زمانے کی لڈو پکڑ کر میرے سامنے کر دی۔ لڈوکی ایک سائیڈ پر ڈبیہ میں دانہ گوٹیاں اور کچھ پتھر پڑے تھے جو غالباً گم ہوجانے والی گوٹیوں کی ڈیوٹی دے رہے تھے اور ساتھ ہی تاش کی ایک گڈی بھی تھی۔
مجھے سردی لگ رہی تھی اور اتنی سردی میں کھیل کی دعوت مذاق کے سوا کیا ہو سکتی تھی۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ میرے برابر بیٹھے ایک اور جوان نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ عمران خان صاحب تاش ہی ہو جائے۔ سو میں نے بھی کہہ دیا کہ تاش کھیلتے ہیں۔ لڈو کو نیچھے بچھا دیا گیا اور وہی سندھی جوان تاش پھینٹنے لگا۔ اور پھر مہمان نوازی کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس نے گڈی میرے طرف بڑھا دی۔ میں نے جیب سے ہاتھ نکال کرگڈی پکڑی تو فورا ہی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تاش کیا تھی برف کی ایک چھوٹی سی سل تھی۔ سردی کی ایک نئی لہر کئی میل تک میرے جسم کے اندر اتر گئی اور میرے منہ سے صرف اتنا نکلا۔
رنگ آتا ہے آپ لوگوں کو؟
(جو لوگ تاش سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ رنگ باون پتوں کا ایک دلچسپ کھیل ہے جسے کم سے کم چار افراد کھیل سکتے ہیں۔ )
میرے ساتھ اگلو میں موجود چار جوانوں اور کیپٹن صفدر نے ایک دم میری طرف دیکھا اور پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ فوجیوں کے ریکشن سے ایک لمحے کے لیے مجھے لگا کہ شائد فوج میں رنگ کھیلنا منع ہے اور میں نے ان کے کسی ایس او پی کی خلاف ورزی کر دی ہے۔ پھر اچانک میرے بائیں جانب بیٹھے جوان نے گرمجوشی سے مجھے دبوچ لیا۔ ''چھا گئے او خان صاحب ''
جوان کی گرمجوشی کم ہوئی تو مجھے دو باتیں سمجھ آگئیں۔ ایک یہ کہ میرے ساتھ بیٹھا آدمی پنجابی ہے اور دوسری یہ کہ یہاں رنگ کھیلنا کوئی ممنوعہ عمل نہیں تھا۔ مگر مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ رنگ کو لے کر یہ سب اتنے جذباتی کیوں ہیں۔ اس راز سے کیپٹن صفدر نے پردہ اٹھایا۔ خان صاحب دراصل یہاں گزشہ چھ ماہ سے رنگ کے صرف تین ہی پلیئرز ہیں۔
اور آپکے دائیں جانب بیٹھے گلگت بلتستان کے اس جوان کے علاوہ باقی تینوں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود یہاں رنگ کا چوتھا کھلاڑی نہیں بنا سکے۔ کیپٹن صفدر کی بات سمجھ آتی تھی کیونکہ میڈیکل سائنس کے مطابق آٹھ ہزار فٹ کے بعد انسان جوں جوں مزید بلندی پر جاتا ہے دماغ کو ملنے والی آکسیجن کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے جس سے نہ صرف یادداشت متاثر ہو سکتی ہے بلکہ عموما اس دوران سیکھنے کی صلاحیتیں نارمل نہیں رہتیں۔ اور یہ جوان آٹھ نو یا دس بارہ ہزار نہیں بلکہ ساڑھے اکیس ہزار فٹ کی بلندی پر موجود ایک گلیشئر پر پہرہ دے رہے تھے۔
اب میں سیاچن کے بلند ترین گلیشیئرز میں سے ایک پر بیٹھا تاش کی پرانی سی گڈی کو پھینٹتا ہوا گننے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں کتنی مرتبہ رنگ کا یہ کھیل کھیلا ہو گا۔ شائد سیکڑوں مرتبہ۔ مگر مجھے زمین پر کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ اس کھیل میں چوتھا کھلاڑی کتنا اہم ہے۔ جس کے بغیر کھیل ہی نہیں ہو سکتا۔
آج مجھے ان تینوں کے ساتھ تاش کھیلے ہوئے ساڑھے تین ماہ ہوچکے ہیں شائد ابتک وہاں کسی جوان یا آفیسر نے میری یعنی چوتھے کھلاڑی کی جگہ سنبھال لی ہو۔شائد کسی نے قدرت سے لڑ کر رنگ سیکھ لیا ہو مگر ذرا سوچئے کیا اس گلیشئر پر صرف رنگ کے ایک کھلاڑی کی کمی تھی یا وہاں کچھ اور بھی کم تھا۔ یا سرے سے تھا ہی نہیں۔ میں فہرست بناؤں تو بے شمار رشتے، جذبات، تعلقات اور احساسات ایسے ہیں جن کا ان گلیشیئرز پر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
وہاں ماؤں کے لاڈلے تو تھے مگر ماؤں کا لاڈ نہیں تھا۔ ابا کی ڈانٹ نہیں تھی۔ بہن بھائیوں کا پیار ، بیوی کے نخرے اور بچوں کی معصوم ضد نہیں تھی۔ دوستوں کے قہقہے اور بزرگوں کے قصے کہانیاں نہیں تھے۔ گاؤں کی گلیاں اور شہروں کے راستے نہیں تھے۔ اگر کچھ تھا تو صرف سفید برف کی ایک چادر، بلا کی سردی ، پل پل بدلتا موسم اور اس طرف کھڑا دشمن۔
مجھے آج بھی یاد ہے وہاں برف کی سفید چادر پر کھڑے ایک آفیسر سے جب میں نے پوچھا کہ کیا یہاں سے جوانوں کا گھر رابطہ ہو جاتا ہے تو انھوں نے مسکرا کر کہا کہ جہاں ہم کھڑے ہیں اس بلندی پر تو بارش نہیں ہو سکتی آسمانی بجلی نہیں گر سکتی۔ کوئی جانور زندہ حالت میں نہیں پہنچ سکتا۔ انتہائی کارآمد خچر اور کتے بھی زیادہ سے زیادہ سترہ یا اٹھارہ ہزار فٹ کی بلندی تک ہی پہنچ سکتے ہیں۔ اورجناب آپ رابطوں کی بات کرتے ہیں۔
آج سال کے آخری دن میں چوتھا کھلاڑی لاہور کے کھلے آسمان کے نیچے کھڑا سیکڑوں میل دور سیاچن کے گلیشئیر پر بنے اس چھوٹے سے اگلو میں جھانک رہا ہے۔ وہاں سردی خاصی بڑھ گئی ہے۔ تاش کی وہ گڈی مزید سرد ہو گئی ہے۔ اور باقی تین کھلاڑی ابتک وہاں پہرہ دے رہے ہیں۔