صنعتی سرمائے اور جاگیرداری کے مابین تصادم
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں صنعتی سرمائے اور جاگیرداری کے درمیان تصادم کی سطح ابتدائی نوعیت کی ہے
PESHAWAR:
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں صنعتی سرمائے اور جاگیرداری کے درمیان تصادم کی سطح ابتدائی نوعیت کی ہے، بلکہ اسے تصادم سے زیادہ جارحیت کہا جائے تو درست ہوگا کیوں کہ صنعتی سرمایہ اپنی بقاکے لیے فکرمند نظر آتا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ سیاسی چال بازیوں کے ذریعے اسے دبا کر صنعتی سرمائے کی ترقی کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں۔ اس کی حقیقت کراچی جیسے عالمی صنعتی شہر کی صورت حال سے جانی جاسکتی ہے۔
اس شہر کی سماجی زندگی خوف اور دہشت کی ایک مسلسل حالت میں رکھی جارہی ہے اور اس کے باوجود یہاں سے ملکی ریونیو کا بڑا حصہ پیدا ہوتا ہے۔دوسرے علاقوں کے سیاستدان مسلسل زرعی معیشت کی ترقی اور ملک میں اس کی برتر حیثیت کا اعلان کرتے رہتے ہیں جو دراصل اس خوف کا نتیجہ ہے جو انھیں اندر سے مسلسل صنعتی سرمائے کی برتری کے آگے بے بس اور بے وقعت ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔
جاگیرداری اور صنعتی سرمائے کے مابین جوہری تصادم کا ابھی امکان نہیں ہے کیوں کہ ملک میں صنعتیت کا عمل زبوں حالی کا شکار ہے اور صنعتی سرمائے کی بڑی قوت کا انحصار برآمدات پر ہوتا ہے جو تاحال روایتی اشیا سے آگے نہیں بڑھ سکی ہیں۔ ہمارا بوسیدہ سیاسی و عسکری نظام بھی صنعتی سرمائے کی ترقی کی راہ میں واضح رکاوٹ ہے۔ جاگیر داری و زمیں داری اس نظام کی پشت پناہی کے لیے بڑی صلاحیت کی حامل ہے۔
اس معاملے کا دوسرا تناظر یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو جو اہم اور تباہ کن مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ سرمایہ داری طرز پیداوار کا ناکافی ارتقا پورے سماج کو گھن کی طرح پس رہا ہے اور یہ ان معمولی فوائد سے بھی مستفید نہیں ہو پارہے ہیں جو اس طرز پیداوار کے کافی ارتقا کے نتیجے میں بقدر مونگ پھلی سامنے آتے ہیں۔ ہم سرمایہ داری نظام پر تنقید کرسکتے ہیں لیکن اس کا سیاسی اور سماجی و معاشی تناظر ہمارا اپنا نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم پر مغرب کا سرمایہ داری نظام نہیں بلکہ اس سے جنم لینے والے بالواسطہ اثرات مسلط ہیں۔ ان تباہ کن اثرات کی شدت میں مزید اضافہ ہمارے خائن سیاسی نظام کے ہاتھوں ہورہا ہے، ایک سطح پر اجناس کی 'فیٹی شزم' یعنی اشیا پرستی کے باعث عام آدمی بدحال ہے تو دوسری سطح پر عالمی مالیاتی نظام کے دباؤ کے تحت وہ اشیائے صرف تک مکمل رسائی ہی سے محروم ہے۔ عام آدمی کا معیار زندگی ٹیکسز کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ لیکن سرمایہ داری نظام کے یہ ظالمانہ اثرات شہروں تک محدود ہیں، ایک بڑی آبادی تو جاگیردار اور وڈیرے کے ہاتھوں ذلت کے گہرے گڑھوں میں مقید ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مقتدر طبقات صنعتی سرمائے اور جاگیرداری کے درمیان ٹکراؤ کے فطری نقطہ ظہور کو ابھرنے نہیں دے رہے ہیں جس کے بارے میں انھیں واضح خدشات لاحق ہیں کہ اس عمل کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں ایک انارکی پھیل جائے گی، جو دراصل نظام کی تبدیلی پر منتج ہونے والا انقلاب ہوگا۔
زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم صنعتی سرمائے اور جاگیرداری کے مابین تصادم کے امکان پر تو غور کرسکتے ہیں لیکن ایک سوشلسٹ انقلاب کی حرکیات ہمارے زمینی حقائق سے جوہری انسلاک نہیں رکھتیں۔ ہم ابھی صنعتی سماج کا درجہ ہی حاصل نہیں کرپائے ہیں تو اس کے تدارک کے لیے کسی سوشلسٹ فکر کو کس طرح اپنی سماجی حرکیات میں جوہری سطح پر جگہ دیں۔ ملک کی ایک بڑی آبادی کو جاگیرداری نظام کے ظالمانہ چنگل سے نجات دلانے کے لیے صنعتی سرمائے کی ترقی وہ واحد موجود قابل عمل راستہ ہے جو ہماری سماجی حرکیات کے ساتھ اپنا توازن قائم رکھ سکتا ہے۔ سماجی پیداوار کے ضمن میں 'سرمایہ داری اقتدار' کوئی آخری قطعی شکل نہیں ہے۔
یہ بلاشبہ، جیسا کہ کارل مارکس نے بھی داس کیپٹل کے دوسرے ایڈیشن کے دیباچے میں اشارہ کیا ہے، صرف ایک عبوری درجہ ہے۔ جاگیرداری نظام سے ٹکرانے کی اساسی قوت صنعتی سرمائے کی تعمیر کے تسلسل سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ زمینی حقیقت بھی یہی ہے کہ یہاں مردہ سیاست کے نام پر ناقص سرمایہ داری اور جاگیرداری کے مابین کھینچاتانی چلتی رہتی ہے۔ گزشتہ تین عشروں سے جاگیرداری اور ناقص سرمایہ داری حکومت کی تفریق کچھ واضح ہوئی ہے اور یہ بھی کہ اول الذکر میں سماجی صورت حال المناک حد تک گرجاتی ہے اور آخرالذکر میں ذرا سی اوپر کی طرف اٹھ جاتی ہے۔
یہ بنیادی طور پر ان دو نظاموں کی نفسیات کے فرق کا بھی نتیجہ ہوتا ہے۔ اول الذکر میں سماجی رشتوں کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں کی جاتی جب کہ آخرالذکر میں اپنے مفاد ہی کے لیے کسی حد تک سماجی رشتوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ تیسری طرف آمرانہ مداخلتیں ہیں جو سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیتی ہیں اور مسائل آنے والے وقتوں میں مزید گھمبیر ہوجاتے ہیں۔
کیا یہاں طبقاتی جدوجہد کا امکان ہے؟ یہ وہ اہم ترین سوال ہے جو حقیقی سیاسی اور سماجی صورت حال کی طرف ہماری رہنمائی کرسکتا ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات کے تحفظ کے لیے اقتصادی غارت گروں سے کام لیا جاتا ہے جب کہ ہمارے مقامی سماج میں یہ کام اپنے آمرانہ مفادات کے تحفظ کے لیے اعتقادی غارت گروں سے لیا جاتا ہے، جسے عرف عام میں لوگ مذہبی شدت پسند کہتے ہیں۔
مذہبی شدت پسندی کی اصطلاح اتنی معمولی اور سطحی ہے کہ اسے کسی نظام کو برقرار رکھنے کے تصور سے جوڑا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ حقیقت میں اعتقادی غارت گر ہیں جو مقامی ناقص سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ اور آمرانہ نظاموں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ واضح رہے کہ اعتقادی غارت گروں کے عالمی تناظر سے یہاں بحث نہیں ہے، اگرچہ یہ تصور بھی عالمی سرمایہ داری نظام کی گود میں پیدا ہوا ہے۔ اعتقادی غارت صرف مذہب ہی نہیں لسانی اور مالی عقائد کی بنیاد پر بھی عوام پر مسلط ہوتے ہیں اور انھیں ہمہ وقت دہشت زدہ رکھتے ہیں اور تعلیم و ترقی کے تصورات کو ختم کرتے رہتے ہیں۔
مقتدر طبقات انھی اعتقادی غارت گروں کے ذریعے معاشرے میں حقیقی طبقاتی جدوجہد کا رخ تبدیل کرچکے ہیں۔ اس جدوجہد کو درست راستے پر گامزن کرنے کے لیے بھی ہمارے معاشرے میں صنعتی سرمائے کی ترقی کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں سماج کو اعتقادی غارت گروں سے نجات مل جائے گی، کیونکہ صنعتی سرمائے کو معاشرے میں امن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بھی ترقی کے راستے کھلتے ہیں۔ اعتقادی غارت گروں کا پہلا نشانہ تعلیمی ادارے ہی کیوں ہوتے ہیں؟ اس لیے کہ اس سے ذہنی پسماندگی کے ذریعے ترقی کے وہ تمام راستے مسدود کردیے جاتے ہیں جو ایک صنعتی سماج کی طرف لے کر جاتے ہیں۔
اگر یہ کسی نظام کے بجائے خود رو اور آزاد انفرادی وجود رکھتے ہیں تو ان کی سمت اتنی مرکز آشنا کیوں ہوتی ہے۔ کارل مارکس نے کہا ہے کہ جس ماحول میں طبقاتی جدوجہد خفی رہے (اور ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ جدوجہد مفقود ہو) تو ایسے ہی ماحول میں 'سرمایہ داری اقتدار' کو سماجی پیداوار کی قطعی شکل کہنے والا فلسفہ معاشیات ایک علم کی حیثیت سے باقی رہ سکتا ہے ورنہ یہ اپنی علمی حیثیت کھودیتا ہے۔ اس تناظر میں (جب کہ طبقاتی جدوجہد مفقود ہے) اگرچہ ہمارا ماحول بورژوا نہیں بلکہ جاگیرداری پر استوار ہے، فلسفہ معاشیات تو کیا، فلسفہ سیاسیات میں ہمارا قومیت کا موضوع اور فلسفہ دینیات تک ایک جعلی علمی حیثیت کے حامل ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں صنعتی سرمائے اور جاگیرداری کے درمیان تصادم کی سطح ابتدائی نوعیت کی ہے، بلکہ اسے تصادم سے زیادہ جارحیت کہا جائے تو درست ہوگا کیوں کہ صنعتی سرمایہ اپنی بقاکے لیے فکرمند نظر آتا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ سیاسی چال بازیوں کے ذریعے اسے دبا کر صنعتی سرمائے کی ترقی کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں۔ اس کی حقیقت کراچی جیسے عالمی صنعتی شہر کی صورت حال سے جانی جاسکتی ہے۔
اس شہر کی سماجی زندگی خوف اور دہشت کی ایک مسلسل حالت میں رکھی جارہی ہے اور اس کے باوجود یہاں سے ملکی ریونیو کا بڑا حصہ پیدا ہوتا ہے۔دوسرے علاقوں کے سیاستدان مسلسل زرعی معیشت کی ترقی اور ملک میں اس کی برتر حیثیت کا اعلان کرتے رہتے ہیں جو دراصل اس خوف کا نتیجہ ہے جو انھیں اندر سے مسلسل صنعتی سرمائے کی برتری کے آگے بے بس اور بے وقعت ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔
جاگیرداری اور صنعتی سرمائے کے مابین جوہری تصادم کا ابھی امکان نہیں ہے کیوں کہ ملک میں صنعتیت کا عمل زبوں حالی کا شکار ہے اور صنعتی سرمائے کی بڑی قوت کا انحصار برآمدات پر ہوتا ہے جو تاحال روایتی اشیا سے آگے نہیں بڑھ سکی ہیں۔ ہمارا بوسیدہ سیاسی و عسکری نظام بھی صنعتی سرمائے کی ترقی کی راہ میں واضح رکاوٹ ہے۔ جاگیر داری و زمیں داری اس نظام کی پشت پناہی کے لیے بڑی صلاحیت کی حامل ہے۔
اس معاملے کا دوسرا تناظر یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو جو اہم اور تباہ کن مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ سرمایہ داری طرز پیداوار کا ناکافی ارتقا پورے سماج کو گھن کی طرح پس رہا ہے اور یہ ان معمولی فوائد سے بھی مستفید نہیں ہو پارہے ہیں جو اس طرز پیداوار کے کافی ارتقا کے نتیجے میں بقدر مونگ پھلی سامنے آتے ہیں۔ ہم سرمایہ داری نظام پر تنقید کرسکتے ہیں لیکن اس کا سیاسی اور سماجی و معاشی تناظر ہمارا اپنا نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم پر مغرب کا سرمایہ داری نظام نہیں بلکہ اس سے جنم لینے والے بالواسطہ اثرات مسلط ہیں۔ ان تباہ کن اثرات کی شدت میں مزید اضافہ ہمارے خائن سیاسی نظام کے ہاتھوں ہورہا ہے، ایک سطح پر اجناس کی 'فیٹی شزم' یعنی اشیا پرستی کے باعث عام آدمی بدحال ہے تو دوسری سطح پر عالمی مالیاتی نظام کے دباؤ کے تحت وہ اشیائے صرف تک مکمل رسائی ہی سے محروم ہے۔ عام آدمی کا معیار زندگی ٹیکسز کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ لیکن سرمایہ داری نظام کے یہ ظالمانہ اثرات شہروں تک محدود ہیں، ایک بڑی آبادی تو جاگیردار اور وڈیرے کے ہاتھوں ذلت کے گہرے گڑھوں میں مقید ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مقتدر طبقات صنعتی سرمائے اور جاگیرداری کے درمیان ٹکراؤ کے فطری نقطہ ظہور کو ابھرنے نہیں دے رہے ہیں جس کے بارے میں انھیں واضح خدشات لاحق ہیں کہ اس عمل کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں ایک انارکی پھیل جائے گی، جو دراصل نظام کی تبدیلی پر منتج ہونے والا انقلاب ہوگا۔
زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم صنعتی سرمائے اور جاگیرداری کے مابین تصادم کے امکان پر تو غور کرسکتے ہیں لیکن ایک سوشلسٹ انقلاب کی حرکیات ہمارے زمینی حقائق سے جوہری انسلاک نہیں رکھتیں۔ ہم ابھی صنعتی سماج کا درجہ ہی حاصل نہیں کرپائے ہیں تو اس کے تدارک کے لیے کسی سوشلسٹ فکر کو کس طرح اپنی سماجی حرکیات میں جوہری سطح پر جگہ دیں۔ ملک کی ایک بڑی آبادی کو جاگیرداری نظام کے ظالمانہ چنگل سے نجات دلانے کے لیے صنعتی سرمائے کی ترقی وہ واحد موجود قابل عمل راستہ ہے جو ہماری سماجی حرکیات کے ساتھ اپنا توازن قائم رکھ سکتا ہے۔ سماجی پیداوار کے ضمن میں 'سرمایہ داری اقتدار' کوئی آخری قطعی شکل نہیں ہے۔
یہ بلاشبہ، جیسا کہ کارل مارکس نے بھی داس کیپٹل کے دوسرے ایڈیشن کے دیباچے میں اشارہ کیا ہے، صرف ایک عبوری درجہ ہے۔ جاگیرداری نظام سے ٹکرانے کی اساسی قوت صنعتی سرمائے کی تعمیر کے تسلسل سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ زمینی حقیقت بھی یہی ہے کہ یہاں مردہ سیاست کے نام پر ناقص سرمایہ داری اور جاگیرداری کے مابین کھینچاتانی چلتی رہتی ہے۔ گزشتہ تین عشروں سے جاگیرداری اور ناقص سرمایہ داری حکومت کی تفریق کچھ واضح ہوئی ہے اور یہ بھی کہ اول الذکر میں سماجی صورت حال المناک حد تک گرجاتی ہے اور آخرالذکر میں ذرا سی اوپر کی طرف اٹھ جاتی ہے۔
یہ بنیادی طور پر ان دو نظاموں کی نفسیات کے فرق کا بھی نتیجہ ہوتا ہے۔ اول الذکر میں سماجی رشتوں کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں کی جاتی جب کہ آخرالذکر میں اپنے مفاد ہی کے لیے کسی حد تک سماجی رشتوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ تیسری طرف آمرانہ مداخلتیں ہیں جو سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیتی ہیں اور مسائل آنے والے وقتوں میں مزید گھمبیر ہوجاتے ہیں۔
کیا یہاں طبقاتی جدوجہد کا امکان ہے؟ یہ وہ اہم ترین سوال ہے جو حقیقی سیاسی اور سماجی صورت حال کی طرف ہماری رہنمائی کرسکتا ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات کے تحفظ کے لیے اقتصادی غارت گروں سے کام لیا جاتا ہے جب کہ ہمارے مقامی سماج میں یہ کام اپنے آمرانہ مفادات کے تحفظ کے لیے اعتقادی غارت گروں سے لیا جاتا ہے، جسے عرف عام میں لوگ مذہبی شدت پسند کہتے ہیں۔
مذہبی شدت پسندی کی اصطلاح اتنی معمولی اور سطحی ہے کہ اسے کسی نظام کو برقرار رکھنے کے تصور سے جوڑا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ حقیقت میں اعتقادی غارت گر ہیں جو مقامی ناقص سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ اور آمرانہ نظاموں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ واضح رہے کہ اعتقادی غارت گروں کے عالمی تناظر سے یہاں بحث نہیں ہے، اگرچہ یہ تصور بھی عالمی سرمایہ داری نظام کی گود میں پیدا ہوا ہے۔ اعتقادی غارت صرف مذہب ہی نہیں لسانی اور مالی عقائد کی بنیاد پر بھی عوام پر مسلط ہوتے ہیں اور انھیں ہمہ وقت دہشت زدہ رکھتے ہیں اور تعلیم و ترقی کے تصورات کو ختم کرتے رہتے ہیں۔
مقتدر طبقات انھی اعتقادی غارت گروں کے ذریعے معاشرے میں حقیقی طبقاتی جدوجہد کا رخ تبدیل کرچکے ہیں۔ اس جدوجہد کو درست راستے پر گامزن کرنے کے لیے بھی ہمارے معاشرے میں صنعتی سرمائے کی ترقی کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں سماج کو اعتقادی غارت گروں سے نجات مل جائے گی، کیونکہ صنعتی سرمائے کو معاشرے میں امن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بھی ترقی کے راستے کھلتے ہیں۔ اعتقادی غارت گروں کا پہلا نشانہ تعلیمی ادارے ہی کیوں ہوتے ہیں؟ اس لیے کہ اس سے ذہنی پسماندگی کے ذریعے ترقی کے وہ تمام راستے مسدود کردیے جاتے ہیں جو ایک صنعتی سماج کی طرف لے کر جاتے ہیں۔
اگر یہ کسی نظام کے بجائے خود رو اور آزاد انفرادی وجود رکھتے ہیں تو ان کی سمت اتنی مرکز آشنا کیوں ہوتی ہے۔ کارل مارکس نے کہا ہے کہ جس ماحول میں طبقاتی جدوجہد خفی رہے (اور ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ جدوجہد مفقود ہو) تو ایسے ہی ماحول میں 'سرمایہ داری اقتدار' کو سماجی پیداوار کی قطعی شکل کہنے والا فلسفہ معاشیات ایک علم کی حیثیت سے باقی رہ سکتا ہے ورنہ یہ اپنی علمی حیثیت کھودیتا ہے۔ اس تناظر میں (جب کہ طبقاتی جدوجہد مفقود ہے) اگرچہ ہمارا ماحول بورژوا نہیں بلکہ جاگیرداری پر استوار ہے، فلسفہ معاشیات تو کیا، فلسفہ سیاسیات میں ہمارا قومیت کا موضوع اور فلسفہ دینیات تک ایک جعلی علمی حیثیت کے حامل ہیں۔