دہشت گردوں کے خلاف پوری قوت سے کارروائی ہونی چاہیے
حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لے، اے این پی اور ایم کیو ایم کو احساس ہو گیا ہے کہ انھیں...
پورے سندھ میں اس حوالے سے عید الضحٰی خیریت کے ساتھ گزرگئی کہ کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا لیکن کراچی میں عید کے تین دنوں میں بھی دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں اور تقریبا 13 افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔
عید کا مذہبی تہوار بھی کراچی میں جاری دہشت گردی کی لہر کو نہیں روک سکا ۔ کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر جو قتل عام ہو رہا ہے ، اسے شاید حکومت کوئی مسئلہ تصور نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ عید ملنے کیلئے آنے والے سیاسی رہنمائوں اور علماء کرام سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شا ہ نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ عید الضحٰی کے موقع پر صوبے میں کہیں بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا ۔ ملک کے دیگر شہروں کی طرح سندھ کے تین شہروں کراچی ، حیدرآباد اور خیرپور میں بھی عید والے دن صبح 6 بجے سے 10 بجے تک موبائل فون سروس معطل رہی ۔ حکومت کے بعض ذمے داران اس اقدام کے مثبت نتائج پر خوش ہیں ، مگر وہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان خصوصا کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے کہیں اور جاکر ملتے ہیں اور ان کے نمائشی اقدامات لوگوں کو صرف یہ بتانے کے لیے ہوتے ہیں کہ حکومت کچھ کر رہی ہے ۔
انھیں یہ بھی اندازہ ہوگا کہ کراچی کی بدامنی کیا رخ اختیار کرنے جا رہی ہے ۔ کراچی گزشتہ تین عشروں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اس عرصہ کے دوران مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کبھی دہشت گردی میں شدت آجاتی ہے اور کبھی اس میں کمی آجاتی ہے ۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ دہشت گردی کی وارداتیں کم ہوجاتی ہیں اور طویل وقفہ آجاتا ہے لیکن گزشتہ دو تین سالوں سے کراچی کے لوگوں کو ایسا طویل وقفہ نصیب نہیں ہوا ۔ یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے اور دہشت گردوں نے کراچی کی سماجی ، اقتصادی اور سیاسی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ تاجر ، دکاندار اور صنعت کار بھتہ خوروں سے پریشان ہیں ۔ عام آدمی ڈکیتوں ، اسٹریٹ کرائمز اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں سے خوفزدہ ہیں ۔ کراچی کا کوئی علاقہ محفوظ نہیں ہے ۔
سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی بڑے پیمانے پر ٹار گٹ کلنگ ہوچکی ہے اکثر سیاسی جماعتیں کراچی میں اپنی سرگرمیاں محدود کرچکی ہیں اگر یہ کہا جائے کہ کراچی کو غیر سیاسی شہر بنا دیا گیا ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ کراچی میں بیک وقت سیاسی ، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ بھی ہو رہی ہوتی ہے اور عام لوگ بھی مارے جا رہے ہیں جن کی کوئی نمایاں وابستگی نہیں ہوتی ۔ کراچی سے سرمایہ کی منتقلی تیزی کے ساتھ جاری ہے ۔ جیسے جیسے عام انتخابات قریب آرہے ہیں ، کراچی میں بدامنی کے حوالے سے بھی لوگوں کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک پانچ رکنی بینچ نے عید سے قبل کراچی بدامنی کیس کی دوبارہ سماعت شروع کردی ہے ۔ یہ سماعت عید کے بعد بھی جاری رہے گی اس کیس کا فیصلا گزشتہ سال ہوچکا تھا ۔ فیصلے پر عمل درآمد کے لیے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی سربراہی میں ایک مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے سپریم کورٹ کو رپورٹ دی تھی کہ حکومت امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اس لیے کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی ، فاضل عدالت کی طرف سے چیف سیکریٹری سندھ ، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سندھ اور دیگر حکام کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں کیونکہ انھوں نے 2005 میں سندھ ہائی کورٹ کے اس حکم پر ابھی تک عمل درآمد نہیں کیا جس میں سرکاری زمینوں کا سروے کرانے کی ہدایت کی گئی تھی ۔
کیس کی سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہہ زمینوں پر مختلف گروہوں کے قبضے کی جنگ بھی کراچی میں بدامنی کا ایک سبب ہے ۔ اگر سرکاری زمینوں کے نمبرز کا سروے کرالیا جائے تو ان زمینوں کو قبضہ مافیا سے بچایا جاسکتا ہے ۔ فاضل بینچ نے امن و امان قائم نہ ہونے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ۔ کراچی بدامنی کیس کی سماعت اس وقت ہو رہی جب بلوچستان بدامنی کیس کی کوئٹہ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر فاضل جج صاحبا ن اپنے ریمارکس میں بلوچستان حکومت کو امن و امان قائم کرنے میں ناکام قرار دے چکے ہیں ۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ کراچی بدامنی کیس میں بھی عدالت کی طرف سے سندھ حکومت کے بارے میں بھی ایسے ہی خیالات سامنے آسکتے ہیں ۔
حروں کے روحانی پیشوا اور مسلم لیگ فنگشنل کے سربراہ پیر پگارا سید صبغت اللہ راشدی متعدد بار کہ چکے ہیں کہ انھیں پاکستان میں عام انتخابات نظر نہیں آرہے ، کراچی میں جاری خون ریزی اور حکومت کی بے بسی کے تناظر میں بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پیر پگارا کی پیش گوئی درست ثابت ہوسکتی ہے ، پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس مرتبہ مفاہمت اور اتحادیوں کو خوش رکھنے کی جو پالسی اپنائی ہے وہ بھی کراچی میں امن نہیں قائم کرسکی ۔ کراچی میں بدامنی پر پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں میں پائی جانے والی تشویش اب کچھ عرسے سے باہر آنے لگی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت صورت حال کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے آئندہ کیا حکمت عملی ا ختیار کرتی ہے ۔
سندھ حکومت آئندہ عام انتخابا ت کے حوالے سے اپنی حکمت عملی ترتیب دینے میں زیادہ مصروف ہوگئی ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ امن و امان کی طرف توجہ دینے کے لیے اب اس کے پا س وقت ہی نہیں ہے ۔ منتخب ارکان اسمبلی ، وزراء اور پارٹی عہدیداران اپنے حلقوں میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام کرانے ، انتخابی فہرستوں کی تیاریوں اور انتخابی نوعیت کی دیگر سرگرمیوں میں الجھ گئے ہیں ۔ یہ بھی توقع کی جا رہی ہے کہ محکمہ تعلیم سمیت دیگر محکموں میں بڑے پیمانے پر بھرتیاں بھی کی جائیں گی۔ دوسر ی طرف سندھ کی حزب اختلاف کی سیاسی اور قوم پرست جماعتوں نے عید کے بعد نئے بلدیاتی نظام کے خلاف اپنی جدوجہد تیز کرنے کا اعلان کیا ہے ۔
بلدیاتی نظام کا مسئلہ سندھ میں انتہائی حساس نوعیت اختیار کرگیا ہے حکومت کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی سرگرمیاں تو اتنا بڑا چیلنج نہیں بن سکیں لیکن سب سے بڑا چیلنج کراچی میں امن و امان کا قیام ہے۔ پیپلز پارٹی کے کچھ حلقے یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کراچی کے حالات ایک بار پھر ملک میں جاری سیاسی اور جمہوری عمل پر اثرانداز ہوسکتے ہیں ۔ کراچی میں امن و امان کے جس مسئلے کو حکومت نے اب تک مسئلہ تصور نہیں کیا وہ ایک بڑا مسئلہ بننے والا ہے ۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے دعوے کچھ سچ ثابت ہو رہے ہیں کہ تیسری قوت اتحادیوں کو لڑانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کو ایم کیو ایم اور اے این پی اپنی لڑائی سمجھتے رہے لیکن آہستہ آہستہ اتحادیوں کی سمجھ میں آگیا ہے کہ جس نوعیت کی دہشت گردی کراچی میں شروع ہوئی ہے اس میں تیسری قوت شامل ہے ۔ اب اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید بھی اس حوالے سے خاموش نظر آتے ہیں جبکہ ایم کیو ایم بھی اے این پی کے حوالے سے کوئی بیان بازی نہیں کر رہی۔ حکومت کو چاہیے کہ کراچی کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے اتحادیوں سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو فوری طور پر اعتماد میں لے اور پوری قوت سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی شروع کردے کہیں وقت ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
عید کا مذہبی تہوار بھی کراچی میں جاری دہشت گردی کی لہر کو نہیں روک سکا ۔ کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر جو قتل عام ہو رہا ہے ، اسے شاید حکومت کوئی مسئلہ تصور نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ عید ملنے کیلئے آنے والے سیاسی رہنمائوں اور علماء کرام سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شا ہ نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ عید الضحٰی کے موقع پر صوبے میں کہیں بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا ۔ ملک کے دیگر شہروں کی طرح سندھ کے تین شہروں کراچی ، حیدرآباد اور خیرپور میں بھی عید والے دن صبح 6 بجے سے 10 بجے تک موبائل فون سروس معطل رہی ۔ حکومت کے بعض ذمے داران اس اقدام کے مثبت نتائج پر خوش ہیں ، مگر وہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان خصوصا کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے کہیں اور جاکر ملتے ہیں اور ان کے نمائشی اقدامات لوگوں کو صرف یہ بتانے کے لیے ہوتے ہیں کہ حکومت کچھ کر رہی ہے ۔
انھیں یہ بھی اندازہ ہوگا کہ کراچی کی بدامنی کیا رخ اختیار کرنے جا رہی ہے ۔ کراچی گزشتہ تین عشروں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اس عرصہ کے دوران مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کبھی دہشت گردی میں شدت آجاتی ہے اور کبھی اس میں کمی آجاتی ہے ۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ دہشت گردی کی وارداتیں کم ہوجاتی ہیں اور طویل وقفہ آجاتا ہے لیکن گزشتہ دو تین سالوں سے کراچی کے لوگوں کو ایسا طویل وقفہ نصیب نہیں ہوا ۔ یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے اور دہشت گردوں نے کراچی کی سماجی ، اقتصادی اور سیاسی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ تاجر ، دکاندار اور صنعت کار بھتہ خوروں سے پریشان ہیں ۔ عام آدمی ڈکیتوں ، اسٹریٹ کرائمز اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں سے خوفزدہ ہیں ۔ کراچی کا کوئی علاقہ محفوظ نہیں ہے ۔
سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی بڑے پیمانے پر ٹار گٹ کلنگ ہوچکی ہے اکثر سیاسی جماعتیں کراچی میں اپنی سرگرمیاں محدود کرچکی ہیں اگر یہ کہا جائے کہ کراچی کو غیر سیاسی شہر بنا دیا گیا ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ کراچی میں بیک وقت سیاسی ، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ بھی ہو رہی ہوتی ہے اور عام لوگ بھی مارے جا رہے ہیں جن کی کوئی نمایاں وابستگی نہیں ہوتی ۔ کراچی سے سرمایہ کی منتقلی تیزی کے ساتھ جاری ہے ۔ جیسے جیسے عام انتخابات قریب آرہے ہیں ، کراچی میں بدامنی کے حوالے سے بھی لوگوں کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک پانچ رکنی بینچ نے عید سے قبل کراچی بدامنی کیس کی دوبارہ سماعت شروع کردی ہے ۔ یہ سماعت عید کے بعد بھی جاری رہے گی اس کیس کا فیصلا گزشتہ سال ہوچکا تھا ۔ فیصلے پر عمل درآمد کے لیے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی سربراہی میں ایک مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے سپریم کورٹ کو رپورٹ دی تھی کہ حکومت امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اس لیے کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی ، فاضل عدالت کی طرف سے چیف سیکریٹری سندھ ، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سندھ اور دیگر حکام کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں کیونکہ انھوں نے 2005 میں سندھ ہائی کورٹ کے اس حکم پر ابھی تک عمل درآمد نہیں کیا جس میں سرکاری زمینوں کا سروے کرانے کی ہدایت کی گئی تھی ۔
کیس کی سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہہ زمینوں پر مختلف گروہوں کے قبضے کی جنگ بھی کراچی میں بدامنی کا ایک سبب ہے ۔ اگر سرکاری زمینوں کے نمبرز کا سروے کرالیا جائے تو ان زمینوں کو قبضہ مافیا سے بچایا جاسکتا ہے ۔ فاضل بینچ نے امن و امان قائم نہ ہونے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ۔ کراچی بدامنی کیس کی سماعت اس وقت ہو رہی جب بلوچستان بدامنی کیس کی کوئٹہ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر فاضل جج صاحبا ن اپنے ریمارکس میں بلوچستان حکومت کو امن و امان قائم کرنے میں ناکام قرار دے چکے ہیں ۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ کراچی بدامنی کیس میں بھی عدالت کی طرف سے سندھ حکومت کے بارے میں بھی ایسے ہی خیالات سامنے آسکتے ہیں ۔
حروں کے روحانی پیشوا اور مسلم لیگ فنگشنل کے سربراہ پیر پگارا سید صبغت اللہ راشدی متعدد بار کہ چکے ہیں کہ انھیں پاکستان میں عام انتخابات نظر نہیں آرہے ، کراچی میں جاری خون ریزی اور حکومت کی بے بسی کے تناظر میں بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پیر پگارا کی پیش گوئی درست ثابت ہوسکتی ہے ، پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس مرتبہ مفاہمت اور اتحادیوں کو خوش رکھنے کی جو پالسی اپنائی ہے وہ بھی کراچی میں امن نہیں قائم کرسکی ۔ کراچی میں بدامنی پر پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں میں پائی جانے والی تشویش اب کچھ عرسے سے باہر آنے لگی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت صورت حال کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے آئندہ کیا حکمت عملی ا ختیار کرتی ہے ۔
سندھ حکومت آئندہ عام انتخابا ت کے حوالے سے اپنی حکمت عملی ترتیب دینے میں زیادہ مصروف ہوگئی ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ امن و امان کی طرف توجہ دینے کے لیے اب اس کے پا س وقت ہی نہیں ہے ۔ منتخب ارکان اسمبلی ، وزراء اور پارٹی عہدیداران اپنے حلقوں میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام کرانے ، انتخابی فہرستوں کی تیاریوں اور انتخابی نوعیت کی دیگر سرگرمیوں میں الجھ گئے ہیں ۔ یہ بھی توقع کی جا رہی ہے کہ محکمہ تعلیم سمیت دیگر محکموں میں بڑے پیمانے پر بھرتیاں بھی کی جائیں گی۔ دوسر ی طرف سندھ کی حزب اختلاف کی سیاسی اور قوم پرست جماعتوں نے عید کے بعد نئے بلدیاتی نظام کے خلاف اپنی جدوجہد تیز کرنے کا اعلان کیا ہے ۔
بلدیاتی نظام کا مسئلہ سندھ میں انتہائی حساس نوعیت اختیار کرگیا ہے حکومت کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی سرگرمیاں تو اتنا بڑا چیلنج نہیں بن سکیں لیکن سب سے بڑا چیلنج کراچی میں امن و امان کا قیام ہے۔ پیپلز پارٹی کے کچھ حلقے یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کراچی کے حالات ایک بار پھر ملک میں جاری سیاسی اور جمہوری عمل پر اثرانداز ہوسکتے ہیں ۔ کراچی میں امن و امان کے جس مسئلے کو حکومت نے اب تک مسئلہ تصور نہیں کیا وہ ایک بڑا مسئلہ بننے والا ہے ۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے دعوے کچھ سچ ثابت ہو رہے ہیں کہ تیسری قوت اتحادیوں کو لڑانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کو ایم کیو ایم اور اے این پی اپنی لڑائی سمجھتے رہے لیکن آہستہ آہستہ اتحادیوں کی سمجھ میں آگیا ہے کہ جس نوعیت کی دہشت گردی کراچی میں شروع ہوئی ہے اس میں تیسری قوت شامل ہے ۔ اب اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید بھی اس حوالے سے خاموش نظر آتے ہیں جبکہ ایم کیو ایم بھی اے این پی کے حوالے سے کوئی بیان بازی نہیں کر رہی۔ حکومت کو چاہیے کہ کراچی کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے اتحادیوں سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو فوری طور پر اعتماد میں لے اور پوری قوت سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی شروع کردے کہیں وقت ہاتھ سے نہ نکل جائے۔