کالاباغ ڈیم کا تنازع پھر سر اُٹھانے والا ہے
خواجہ محمد ہوتی کی جمعیت علمائے اسلام (ف) میں شمولیت کے معاملے پر شوریٰ کے اجلاس میں اعتراضات اُٹھائے جا سکتے ہیں
کالاباغ ڈیم کی مخالف سیاسی جماعتیں اسے ''مردہ گھوڑا''قراردیتی آئی ہیں جن کا موقف ہے کہ اس مردہ گھوڑے کو دفن کیا جاچکا ہے اور یہ منصوبہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا۔
لیکن جس انداز میں کالاباغ ڈیم کا منصوبہ بار ،بار سامنے آتا ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ منصوبہ وہ مردہ ہے جسے امانتاًدفن کیا گیا ہے اور بوقت ضرورت اسے قبر سے نکال لیا جاتا ہے اور جب اس پر احتجاج کا سلسلہ زور پکڑتا ہے تو اسے دوبارہ دفن کردیاجاتا ہے۔ کالاباغ ڈیم کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے حالیہ فیصلہ پر اے این پی سراپا احتجاج بن گئی ہے جس نے نہ صرف روایتی انداز میں ایک مرتبہ پھر اس کی بھرپور مخالفت کی ہے بلکہ اس بات کی بھی مخالفت کی ہے کہ اس منصوبہ کو مشترکہ مفادات کی کونسل میں زیر بحث لایاجائے کیونکہ اے این پی کا اس بارے میں موقف ہے کہ جس منصوبہ کو تین صوبوں کی عوام اور اسمبلیاں مسترد کرچکی ہوں اس کو مشترکہ مفادات کی کونسل میں ایک بار پھر زیر بحث لاتے ہوئے زندہ کرنے کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ چونکہ اس بارے میں اب فیصلہ عدالت کی جانب سے آیا ہے اس لیے اس بات کا امکان موجود ہے کہ اس منصوبہ کو سی سی آئی میں زیر بحث لایاجائے اوراس پر ایک مرتبہ پھر چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی رائے لی جائے ۔
کالاباغ ڈیم کے منصوبہ کے خلاف سندھ اور بلوچستان میں بھی بڑے احتجاج ہوئے ہیں تاہم جہاں تک خیبرپختونخوا کا معاملہ ہے تو باچاخان اور اے این پی کے رہبر تحریک ولی خان کی قیادت میں کئی مرتبہ اس کے خلاف بڑے احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور مسلم لیگ(ن)اور اے این پی کی 1998 ء میں راہیں جدا ہونے کی ایک بڑی وجہ اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان تھا۔ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ بھی دیگر منصوبوں کی طرح ہی ایک منصوبہ ہے جسے پنجاب کے علاوہ تین صوبے اپنی وجوہات کی بناء پر مسترد کرچکے ہیں۔
اگر یہ منصوبہ دوبارہ زیر بحث آہی گیا ہے تو اس کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا آپشن بھی موجود ہے جو تیکنیکی ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہوئے اس منصوبہ کے حوالے سے صورت حال کو ہمیشہ کے لیے واضح کرسکتا ہے جس سے یہ منصوبہ جو تین بمقابلہ ایک صوبہ ،سمجھا جاتا ہے، کے بارے میں معاملات واضح ہوجائیں گے یا پھر اگر کوئی صوبہ یا جماعت سپریم کورٹ سے رجوع نہیں بھی کرتی تو مرکزی حکومت اس بارے میں چاروں صوبوں کی سیاسی قیادت اور ٹیکنیکل ماہرین کی مشترکہ کانفرنس بلاکر اس بارے میں صورت حال کو واضح کرسکتی ہے۔ سردست اس حوالے سے اے این پی ہی سب سے سرگرم نظر آرہی ہے اور مرکزی حکومت کی جانب سے کالاباغ ڈیم کے منصوبہ کے حوالے سے ویسا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا جس کی توقع کی جارہی تھی اس لیے لگ یہی رہا ہے کہ مرکز یہ معاملہ چھیڑنا نہیں چاہتا ۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ 2008 ء کے انتخابات تک اے این پی کی سیاست کا محور کالاباغ ڈیم کی مخالفت ، صوبہ کے نام کی تبدیلی اور صوبائی خود مختاری کا حصول تھا۔ اقتدار میں آنے اور مرکز میں شریک اقتدار ہونے کے بعد اے این پی نہ صرف صوبہ کے لیے پختونخوا کا نام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی بلکہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری کی صوبوں کو منتقلی کا ایشو بھی ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ جہاں تک کالاباغ ڈیم کا تعلق ہے تو مرکزی حکومت کے عہدیدار ایک سے زائد مرتبہ اس منصوبہ کو دفن شدہ قراردے چکے ہیں جس کے باعث یہ ایشو بھی تقریباًختم ہی ہوکر رہ گیا تھا لیکن لگ یہ رہا ہے کہ یہ ایشو ایک مرتبہ پھر زندہ ہوگیا ہے۔
اب اس سے کون کس انداز میں فائدہ حاصل کرتا ہے یہ خود اُس پر ہی منحصر ہے تاہم جہاں تک اے این پی کا تعلق ہے تو اے این پی اس کی مخالفت کرتے ہوئے اسے آئندہ عام انتخابات کے لیے ایک موثر ایشو کے طور پر استعمال کرسکتی ہے اور یہ ایشو صرف اے این پی تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ دیگر قوم پرست جماعتیں جن میں قومی وطن پارٹی بھی شامل ہے اس ایشو کو اُچھال کر اس سے سیاسی فائدہ لے سکتی ہے کیونکہ بہر کیف خیبرپختونخوا کی حد تک کالاباغ ڈیم ایک اہم مسلہ رہا ہے جسے خوب استعمال کیا گیا ہے اور مستقبل میں بھی استعمال کیا جاتا رہے گا۔
گورنر خیبرپختونخوا نے ایسا کیوں کہا کہ ''پنجاب حکومت کے دہشت گردوں کے ساتھ روابط ہیں''،یہ تو انھیں ہی معلوم ہوگا اور جب انھوں نے ایسا کہا ہے تو یقیناًانھوں نے کسی بنیاد پر ہی یہ بات کی ہوگی تاہم یہی بات کسی اور انداز میں اس سے پہلے بھی ہوتی رہی ہے جب خیبرپختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائیاں جاری تھیں اس وقت صوبائی حکومت کے ترجمان اور دیگر وزراء یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں عسکریت پسند موجود ہیں اور ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔
اس مطالبہ کا پنجاب کی جانب سے جواب بھی دیا جاتا رہا ہے، جب ایسے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں تو اس کی بنیاد یہی بتائی جاتی رہی کہ عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے صرف خیبرپختونخوا میں موجودگی کے حوالے سے باتیں درست نہیں ہیں کیونکہ عسکریت پسنددیگر صوبوں میں بھی موجود ہیں اور جنوبی پنجاب سے لے کر وزیرستان تک پورے روٹ کی باتیں بھی ہوتی رہی ہیں اس لیے اس معاملہ کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا نے جس طریقہ سے پنجاب حکومت اور دہشت گردوں کے روابط کی بات کی ہے اس بات پر بھی کھل کر بات ہونی چاہیے کہ اس الزام میں کس حد تک حقیقت ہے اور اگر حقیقت ہے تو پھر اس پر خاموشی کیوں اختیار کی گئی ہے ؟خیبرپختونخوا حکومت کے عہدیداروں کی جانب سے جب جنوبی پنجاب میں عسکریت پسندوں کی موجودگی اور ان کے خلاف کاروائیوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا تو اس وقت بھی کوشش کی گئی کہ اس معاملہ کو دبا دیاجائے اور یہ معاملہ دب بھی گیا مگر اب ایک مرتبہ پھر یہ معاملہ زیر بحث آیا ہے تو اس کو پرکھ لینا چاہیے تاکہ صورت حال واضح ہوجائے ۔
سابق وفاقی وزیر خواجہ محمد ہوتی کی جمیعت علماء اسلام(ف) میں شمولیت کے معاملہ کو کافی حد تک حتمی سمجھا جارہا ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ بس صرف اعلان ہونا باقی ہے۔ لیکن یہ معاملہ اتنا بھی سیدھا نہیں کیونکہ جمیعت علماء اسلام(ف)کی مردان کی ضلعی تنظیم اور اس کی ذیلی تنظیموں میں اس حوالے سے کئی تحفظات پائے جاتے ہیں ،جے یو آئی کے ضلعی امیر مولانا شجاع الملک اور ان کے قریبی ساتھیوں کی جانب سے اس بارے میں کھل کر مخالفت تو ابھی نہیں کی گئی اور ہوسکتا ہے کہ وہ نومبر کے اوائل میں جے یو آئی کی شوریٰ کے سہ روزہ اجلاس میں اس حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کریں۔
ویسے ان کی جانب سے خواجہ محمد ہوتی کی جے یو آئی میں شمولیت کی مخالفت کا تاثر موجود ہے جس کی بڑی وجہ خواجہ ہوتی کی جانب سے پارٹیاں بدلنے کا ریکارڈ بھی ہے اور آئندہ عام انتخابات کے لیے جے یوآئی سے تعلق رکھنے والے مختلف متوقع امیدواروں سے کیے گئے وعدے بھی ،بظاہر تو یہی نظر آرہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن ،خواجہ محمد ہوتی کی جے یو آئی (ف)میں شمولیت چاہتے ہیں اور جے یو آئی میں مولانا فضل الرحمٰن کی ہاں کے آگے کسی کی ناں نہیں چلتی۔ ابھی تو یہ معاملہ دبا ہوا ہے جب کُھل کر سامنے آئے گا تو اس پر لے دے بھی ضرور ہوگی۔
لیکن جس انداز میں کالاباغ ڈیم کا منصوبہ بار ،بار سامنے آتا ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ منصوبہ وہ مردہ ہے جسے امانتاًدفن کیا گیا ہے اور بوقت ضرورت اسے قبر سے نکال لیا جاتا ہے اور جب اس پر احتجاج کا سلسلہ زور پکڑتا ہے تو اسے دوبارہ دفن کردیاجاتا ہے۔ کالاباغ ڈیم کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے حالیہ فیصلہ پر اے این پی سراپا احتجاج بن گئی ہے جس نے نہ صرف روایتی انداز میں ایک مرتبہ پھر اس کی بھرپور مخالفت کی ہے بلکہ اس بات کی بھی مخالفت کی ہے کہ اس منصوبہ کو مشترکہ مفادات کی کونسل میں زیر بحث لایاجائے کیونکہ اے این پی کا اس بارے میں موقف ہے کہ جس منصوبہ کو تین صوبوں کی عوام اور اسمبلیاں مسترد کرچکی ہوں اس کو مشترکہ مفادات کی کونسل میں ایک بار پھر زیر بحث لاتے ہوئے زندہ کرنے کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ چونکہ اس بارے میں اب فیصلہ عدالت کی جانب سے آیا ہے اس لیے اس بات کا امکان موجود ہے کہ اس منصوبہ کو سی سی آئی میں زیر بحث لایاجائے اوراس پر ایک مرتبہ پھر چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی رائے لی جائے ۔
کالاباغ ڈیم کے منصوبہ کے خلاف سندھ اور بلوچستان میں بھی بڑے احتجاج ہوئے ہیں تاہم جہاں تک خیبرپختونخوا کا معاملہ ہے تو باچاخان اور اے این پی کے رہبر تحریک ولی خان کی قیادت میں کئی مرتبہ اس کے خلاف بڑے احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور مسلم لیگ(ن)اور اے این پی کی 1998 ء میں راہیں جدا ہونے کی ایک بڑی وجہ اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان تھا۔ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ بھی دیگر منصوبوں کی طرح ہی ایک منصوبہ ہے جسے پنجاب کے علاوہ تین صوبے اپنی وجوہات کی بناء پر مسترد کرچکے ہیں۔
اگر یہ منصوبہ دوبارہ زیر بحث آہی گیا ہے تو اس کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا آپشن بھی موجود ہے جو تیکنیکی ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہوئے اس منصوبہ کے حوالے سے صورت حال کو ہمیشہ کے لیے واضح کرسکتا ہے جس سے یہ منصوبہ جو تین بمقابلہ ایک صوبہ ،سمجھا جاتا ہے، کے بارے میں معاملات واضح ہوجائیں گے یا پھر اگر کوئی صوبہ یا جماعت سپریم کورٹ سے رجوع نہیں بھی کرتی تو مرکزی حکومت اس بارے میں چاروں صوبوں کی سیاسی قیادت اور ٹیکنیکل ماہرین کی مشترکہ کانفرنس بلاکر اس بارے میں صورت حال کو واضح کرسکتی ہے۔ سردست اس حوالے سے اے این پی ہی سب سے سرگرم نظر آرہی ہے اور مرکزی حکومت کی جانب سے کالاباغ ڈیم کے منصوبہ کے حوالے سے ویسا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا جس کی توقع کی جارہی تھی اس لیے لگ یہی رہا ہے کہ مرکز یہ معاملہ چھیڑنا نہیں چاہتا ۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ 2008 ء کے انتخابات تک اے این پی کی سیاست کا محور کالاباغ ڈیم کی مخالفت ، صوبہ کے نام کی تبدیلی اور صوبائی خود مختاری کا حصول تھا۔ اقتدار میں آنے اور مرکز میں شریک اقتدار ہونے کے بعد اے این پی نہ صرف صوبہ کے لیے پختونخوا کا نام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی بلکہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری کی صوبوں کو منتقلی کا ایشو بھی ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ جہاں تک کالاباغ ڈیم کا تعلق ہے تو مرکزی حکومت کے عہدیدار ایک سے زائد مرتبہ اس منصوبہ کو دفن شدہ قراردے چکے ہیں جس کے باعث یہ ایشو بھی تقریباًختم ہی ہوکر رہ گیا تھا لیکن لگ یہ رہا ہے کہ یہ ایشو ایک مرتبہ پھر زندہ ہوگیا ہے۔
اب اس سے کون کس انداز میں فائدہ حاصل کرتا ہے یہ خود اُس پر ہی منحصر ہے تاہم جہاں تک اے این پی کا تعلق ہے تو اے این پی اس کی مخالفت کرتے ہوئے اسے آئندہ عام انتخابات کے لیے ایک موثر ایشو کے طور پر استعمال کرسکتی ہے اور یہ ایشو صرف اے این پی تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ دیگر قوم پرست جماعتیں جن میں قومی وطن پارٹی بھی شامل ہے اس ایشو کو اُچھال کر اس سے سیاسی فائدہ لے سکتی ہے کیونکہ بہر کیف خیبرپختونخوا کی حد تک کالاباغ ڈیم ایک اہم مسلہ رہا ہے جسے خوب استعمال کیا گیا ہے اور مستقبل میں بھی استعمال کیا جاتا رہے گا۔
گورنر خیبرپختونخوا نے ایسا کیوں کہا کہ ''پنجاب حکومت کے دہشت گردوں کے ساتھ روابط ہیں''،یہ تو انھیں ہی معلوم ہوگا اور جب انھوں نے ایسا کہا ہے تو یقیناًانھوں نے کسی بنیاد پر ہی یہ بات کی ہوگی تاہم یہی بات کسی اور انداز میں اس سے پہلے بھی ہوتی رہی ہے جب خیبرپختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائیاں جاری تھیں اس وقت صوبائی حکومت کے ترجمان اور دیگر وزراء یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں عسکریت پسند موجود ہیں اور ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔
اس مطالبہ کا پنجاب کی جانب سے جواب بھی دیا جاتا رہا ہے، جب ایسے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں تو اس کی بنیاد یہی بتائی جاتی رہی کہ عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے صرف خیبرپختونخوا میں موجودگی کے حوالے سے باتیں درست نہیں ہیں کیونکہ عسکریت پسنددیگر صوبوں میں بھی موجود ہیں اور جنوبی پنجاب سے لے کر وزیرستان تک پورے روٹ کی باتیں بھی ہوتی رہی ہیں اس لیے اس معاملہ کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا نے جس طریقہ سے پنجاب حکومت اور دہشت گردوں کے روابط کی بات کی ہے اس بات پر بھی کھل کر بات ہونی چاہیے کہ اس الزام میں کس حد تک حقیقت ہے اور اگر حقیقت ہے تو پھر اس پر خاموشی کیوں اختیار کی گئی ہے ؟خیبرپختونخوا حکومت کے عہدیداروں کی جانب سے جب جنوبی پنجاب میں عسکریت پسندوں کی موجودگی اور ان کے خلاف کاروائیوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا تو اس وقت بھی کوشش کی گئی کہ اس معاملہ کو دبا دیاجائے اور یہ معاملہ دب بھی گیا مگر اب ایک مرتبہ پھر یہ معاملہ زیر بحث آیا ہے تو اس کو پرکھ لینا چاہیے تاکہ صورت حال واضح ہوجائے ۔
سابق وفاقی وزیر خواجہ محمد ہوتی کی جمیعت علماء اسلام(ف) میں شمولیت کے معاملہ کو کافی حد تک حتمی سمجھا جارہا ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ بس صرف اعلان ہونا باقی ہے۔ لیکن یہ معاملہ اتنا بھی سیدھا نہیں کیونکہ جمیعت علماء اسلام(ف)کی مردان کی ضلعی تنظیم اور اس کی ذیلی تنظیموں میں اس حوالے سے کئی تحفظات پائے جاتے ہیں ،جے یو آئی کے ضلعی امیر مولانا شجاع الملک اور ان کے قریبی ساتھیوں کی جانب سے اس بارے میں کھل کر مخالفت تو ابھی نہیں کی گئی اور ہوسکتا ہے کہ وہ نومبر کے اوائل میں جے یو آئی کی شوریٰ کے سہ روزہ اجلاس میں اس حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کریں۔
ویسے ان کی جانب سے خواجہ محمد ہوتی کی جے یو آئی میں شمولیت کی مخالفت کا تاثر موجود ہے جس کی بڑی وجہ خواجہ ہوتی کی جانب سے پارٹیاں بدلنے کا ریکارڈ بھی ہے اور آئندہ عام انتخابات کے لیے جے یوآئی سے تعلق رکھنے والے مختلف متوقع امیدواروں سے کیے گئے وعدے بھی ،بظاہر تو یہی نظر آرہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن ،خواجہ محمد ہوتی کی جے یو آئی (ف)میں شمولیت چاہتے ہیں اور جے یو آئی میں مولانا فضل الرحمٰن کی ہاں کے آگے کسی کی ناں نہیں چلتی۔ ابھی تو یہ معاملہ دبا ہوا ہے جب کُھل کر سامنے آئے گا تو اس پر لے دے بھی ضرور ہوگی۔