پل دو پل میری کہانی ہے
یش چوپڑا دنیا کے بڑے فلم میکرز میں سے ایک تھے، انھیں گنیز بک سوئس اتھارٹی سے لے کر سیکڑوں جگہ اعزازات سے نوازا گیا۔
کچھ سال پہلے کی بات ہے، ہماری والدہ نیلوفرعباسی نیویارک میں منعقد ایک پریس کانفرنس میں وہاں کے ایک مقامی ہوٹل پہنچیں۔
یہ بولی وڈ کے سپراسٹار شاہ رخ خاں کی نئی فلم کے بارے میں منعقد کی گئی تھی، جس میں میڈیا کے کوئی تیس چالیس لوگ مدعو تھے، پریس کانفرنس پندرہویں فلور پر تھی، ہماری والدہ لفٹ میں داخل ہوئیں تو اس میں ایک صاحب پہلے سے موجود تھے، شکل کچھ جانی پہچانی لگی، اس لیے ہماری والدہ نے انھیں سلام کیا جس کا انھوں نے جواب دیا، لفٹ کا دروازہ بند ہوگیا، ہماری والدہ کو وہ پشاور کے ایک معروف شاعر لگے، جنھیں وہ پاکستان میں کئی بار مل چکی تھیں، ہماری والدہ نے پوچھا، ''آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟'' انھوں نے جواب دیا، ''بس کچھ کام سے آیا ہوں''، ''کب تک ہیں آپ یہاں؟'' دو دن بعد واپس چلا جائوں گا، انھوں نے جواب دیا۔
جس کے بعد ہماری والدہ پشاور کے ''ان ہی شاعر'' سے پاکستان کے شاعروں اور پاکستان کے کرنٹ افیئرز پر بات کرتی رہیں۔ لفٹ پندرہویں فلور پر رک گئی تھی، باتوں کا سلسلہ کوریڈور میں جاری رہا۔ کچھ دیر میں ہماری والدہ کو احساس ہوا کہ وہ ان کے بارے میں تو کچھ پوچھ ہی نہیں رہے ہیں، نہ ہی ہمارے والد قمر علی عباسی کے بارے میں اور نہ ہی یہ پوچھا کہ آپ آج کل نیویارک میں کیا کررہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہماری والدہ نے پوچھا آپ ''وہی شاعر'' ہیں نا، جس کا جواب انھوں نے نفی میں دیا۔ ہماری والدہ نے پوچھا، ''تو پھر آپ کا نام کیا ہے؟'' تو انھوں نے جواب دیا ''یش چوپڑا۔'' جب ہماری والدہ نے بتایا کہ وہ انھیںپاکستان کا ایک شاعر سمجھ رہی تھیں اور اِسی مغالطے میں ان سے بات چیت کررہی تھیں تو وہ خوب ہنسے اور جب ان سے پوچھا کہ وہ پاکستان کے بارے میں اِتنا کیسے جانتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ ''میری پیدایش پاکستان کی ہے۔
میرے دل میں پاکستان کی جگہ ماں کی طرح ہے، بچّہ ماں سے دور ہو تو بھی اس کی اولاد رہتا ہے، بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ میں پاکستان کے شاعروں، آرٹسٹوں اور رائٹرز کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں... ان کے بارے میں پڑھتا رہتا ہوں، انھیں اپنے دل کے قریب سمجھتا ہوں۔''
یش چوپڑا بھی اسی پریس کانفرنس کا حصّہ تھے اور اسی فلم کے سلسلے میں نیویارک آئے تھے۔ ان کچھ منٹوں کی ملاقات سے یش چوپڑا بتا گئے کہ ایک بڑا آدمی کیسا ہوتا ہے، آج ایک آدمی کو چھوٹی سی کامیابی مل جائے تو اس کا دماغ خراب ہوجاتا ہے، اپنے آس پاس کے لوگوں کو کم تر اور اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھنے لگتا ہے، اپنے اسٹیٹس، پوزیشن پاور یا پیسے کو ہر جگہ استعمال کرنے لگتا ہے، لیکن یش چوپڑا ایسے نہیں تھے۔
یش چوپڑا دنیا کے بڑے فلم میکرز میں سے ایک تھے، انھیں گنیز بک سوئس اتھارٹی سے لے کر سیکڑوں جگہ اعزازات سے نوازا گیا ہے جب کہ وہ بخوبی سمجھ گئے تھے کہ ہماری والدہ انھیں کوئی اور سمجھ کر بات کر رہی ہیں لیکن ان کی کسی بھی بات یا انداز سے یہ نہیں لگا کہ وہ اِتنے بڑے فلم میکر ہیں اور کوئی انھیں نہیں پہچان رہا تو ان کی شان میں گستاخی ہوگئی۔
یش چوپڑا 27 ستمبر 1932 کو لاہور میں پیدا ہوئے، آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہونے کی وجہ سے گھر میں بڑوں نے پہلے سے ہی طے کرلیا تھا کہ یش کیا کرے گا بڑے ہو کر، سب چاہتے تھے وہ انجینئر بنیں جس کے لیے انھوں نے پڑھائی بھی کی تھی، لیکن کچھ عرصے ہی میں ان کا دل اِس کام سے اُوب گیا، انھوں نے خود سے پوچھا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں اور ان کے دل نے جواب دیا کہ وہ لوگوں کو فلموں کے ذریعے کہانیاں سنانا چاہتے ہیں، دو سو روپے اور دِل میں بہت سی تمنّائیں لیے وہ اپنے بڑے بھائی بی آر چوپڑا کے پاس ممبئی آگئے اور فلموں میں ڈائریکٹر بننے کی ٹھان کر محنت کرنے لگے۔
یش چوپڑا نے 1959 میں فلم ''دھول کا پھول'' ڈائریکٹ کی، جسے لوگوں نے بہت پسند کیا لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لیے یش چوپڑا کو اگلے دس برس بہت زیادہ محنت کرنی پڑی۔ 1970 میں شادی کی لیکن گھر چلانے کے لیے ان کے پاس کافی پیسے نہیں تھے، اِسی لیے 1971 میں اپنی بیوی اور بیٹے آدیتیہ چوپڑا کو ان کے میکے میں چھوڑ کر اپنی کمپنی یش راج فلمز شروع کی۔ یش راج فلمز نے کئی بڑی فلمیں بنائیں جن میں دیوار، سلسلہ، کبھی کبھی اور مشعل شامل ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ''کبھی کبھی'' اور ''سلسلہ'' جیسی فلمیں نہیں چلیں لیکن یش چوپڑا نے اپنے خواب کو دنیا کے آگے جھکنے نہیں دیا جب کہ یش چوپڑا سے لوگوں نے کہا کہ رومانٹک فلموں کا دور چلا گیا اور یہ کہ ایکشن فلمیں بنائو، اِس کے باوجود یش چوپڑا نے ''چاندنی'' بنائی جسے لوگ آج تک یاد کرتے ہیں۔
لمحے، ڈر، دل تو پاگل ہے جیسی فلمیں انھوں نے ڈائریکٹ کیں اور ان کی کمپنی نے دل والے دلہنیا لے جائیں گے اور دھوم جیسی فلمیں پروڈیوس اور ڈسٹری بیوٹ کیں، کچھ لوگ پیدایشی ٹیلنٹڈ ہوتے ہیں اور ساری زندگی محنت کرکے وہ مقام حاصل کرتے ہیں جو عام آدمی کے لیے حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یش چوپڑا کی کمپنی 2006 میں بھارت کی سب سے بڑی فلم ڈسٹری بیوشن اور پروڈکشن کمپنی بن گئی۔ شاید ان کی عمر کے دوسرے لوگ ایسی کامیابی کے بعد ریٹائر ہوجاتے ہیں لیکن یش چوپڑا کا Passion جوان تھا، وہ آج بھی دل سے وہی نوجوان تھے جو مختلف کہانیوں کے ذریعے لوگوں میں خوشیاں بانٹنا چاہتا تھا۔ کچھ سال پہلے انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میں جوتے پہنے پہنے دنیا سے جانا چاہتا ہوں، یعنی کام کرتے کرتے اور ان کی یہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔ یش چوپڑا کی نئی فلم ''جب تک ہے جاں'' 13 نومبر 2012 کو ریلیز ہونی تھی لیکن وہ اِس فلم کے پروموشن کے دوران ہی 21 اکتوبر کو دنیا چھوڑ گئے۔ ان کا نام ہمیشہ ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ رہے گا، ان کی فلمیں، ان کی آواز بن کر پرستاروں کے دلوں میں ہر دن اترتی رہیں گی۔
یش چوپڑا سے وہ لفٹ کی ملاقات، جس کا ذکر میری والدہ نے مجھ سے کیا ان کی کامیابی دیکھ کر آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک عام انسان تھے، جس نے اپنی محنت، لگن اور چاہت سے بہت کچھ حاصل کیا اور اپنی زندگی میں بہت سے لوگوں میں خوشیاں بانٹیں اور خود پر یقین رکھا کہ مجھے دل کی سنتے رہنا ہے ''جب تک ہے جاں۔'' کچھ لوگ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اور یش چوپڑا بھی ان میں سے ایک ہیں۔