کچھ اور کپتان درکار ہیں
امریکا سے ایک صاحب تشریف لائے، تین ہفتے قبل ہونے والی ملاقات میں بہت سی باتیں ہوئیں۔
HYDERABAD:
امریکا سے ایک صاحب تشریف لائے، تین ہفتے قبل ہونے والی ملاقات میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ موصوف 1999ء سے ہیوسٹن میں مقیم ہیں۔ دوسرے ملکوں میں بسنے والے پاکستانی وطن کے حوالے سے ہم سے کہیں زیادہ تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔ مجھے ان کا نام یاد نہیں رہا کیونکہ وہ میرے ایک دوست کے ساتھ آئے تھے۔
وہ سب سے زیادہ اس بات پر پریشان تھے کہ موجودہ دور حکومت میں پاکستان 74ارب ڈالر بیرونی قرضے کا مقروض ہو گیا ہے جب کہ اندرونی اور بیرونی قرضے ملا کر ایک سو چالیس ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔
ان کا خیال تھا کہ اتنا بڑا قرضہ واپس کرنا تقریباً ناممکن ہوگا اس کے باوجود اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ یہ قرضہ کیسے واپس ہو گا یہ تو میں نہیں جانتا۔ قرضہ چونکہ حکمران طبقات لیتے ہیں اس لیے انھیں بہتر پتہ ہو گا کہ اسے کب اور کیسے واپس کرنا ہے۔ اگرچہ حالت ہماری یہ ہے کہ ہم بیرونی قرض اتارنے کے لیے بھی قرض لے رہے ہیں۔ جیسے انہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا، اسی طرح معجزے بھی ہو جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران بھی یقیناً معجزوں پر یقین رکھتے ہیں اس لیے بے دریغ قرض لیتے جا رہے ہیں۔ اس حالت کے بارے میںغالب نے کیا خوب کہا ہے۔
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی یہ فاقہ مستی، ایک دن
شعر کا ذکر ہوا ہے تو اس کی واردات کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ مرزا غالب قرض کی مے بھی پیتے رہے، فاقہ مستی کے رنگ لانے کا انتظار بھی خوب کیا۔ جب قرض حد سے بڑھ گیا تو شراب فروش نے اپنی رقم کی وصولی کے لیے ان کے خلاف مفتی صدرالدین کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ قاضی نے غالب سے پوچھا کہ آپ پر الزام ہے کہ ادھار شراب لے کر پیتے رہے ہیں اور اب آپ پے منٹ نہیں کر رہے، کیا یہ بات درست ہے۔
غالب نے اس موقع پر فی البدیہہ یہ شعر قاضی کی خدمت میں پیش کر دیا۔ قاضی یا جج صاحب غالب کے پرستار تھے' انھوں نے بھانپ لیا کہ غالب کے پاس پیسے نہیں ہیں اس لیے اپنی جیب سے رقم ادا کی اور شراب فروش کا منہ بند کر دیا۔ ہمیں بھی اب مفتی صدر الدین جیسا کوئی جج ملے گا تو ہماری فاقہ مستی رنگ لائے گی۔ امریکا سے آنے والے صاحب کی بات کی طرف واپس آتے ہیں۔ باتوں باتوں میں مہنگائی کا ذکر ہوا تو انھوں نے بتایا کہ جب 99ء میں وہ پہلی بار امریکا گئے تو اس وقت پاکستان میں نان 50پیسے کا تھا۔آج کے ٹین ایجر یہ جان کر ضرور حیران ہوں گے کہ پاکستان میں کبھی ریزگاری بھی ہوا کرتی تھی۔
اس نسل کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ 50 پیسے کا سکہ موجودہ دور کے 5 روپے کے Coin سے دو گنا بڑا ہوتا تھا۔ موصوف بتانے لگے کہ تب امریکا میں نان کی قیمت ایک ڈالر تھی۔ انھوں نے موٹروے کے کسی ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا تھا۔ کھانے کے بل پر انھوں نے نان کی قیمت دیکھی تو وہ 10 روپے تھی۔ تب ڈالر 50 روپے میں ملتا تھا اب ڈالر کی قیمت 100 سے تھوڑی زیادہ ہے۔ یعنی ڈالر کے حساب سے بھی نان کی قیمت بڑھتی تو ایک' ڈیڑھ روپے سے زیادہ نہ ہوتی۔
ہمارے ہاں 16سال میں نان 50 پیسے سے 10 روپے کا ہو گیا، مگر وہاں نان آج بھی ایک ڈالر میں مل جاتا ہے۔ امریکا کی حکومت میٹرو پر بھی سبسڈی دیتی ہو گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی اشیا پر بھی سبسڈی دے رہی ہے اس لیے وہاں ان چیزوں کی قیمتیں 16 سال بعد بھی برقرار رہتی ہیں۔
امریکی مہمان سے ہونے والی گفتگو میں بھول چکا تھا لیکن 29 دسمبر کو شوکت خانم اسپتال پشاور کی افتتاحی تقریب میں عمران خان کی تقریر کے دوران یہ مجھے اچانک یاد آئی۔ کپتان نے بتایا کہ 21 سال پہلے لاہور میں کینسر اسپتال کی تکمیل پر75کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے ، انھوں نے ابتدائی مشکلات کے بارے میں بتایا اور کہا کہ پہلا ایک کروڑ جمع کرنے کے لیے ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ گیا۔ پشاور میں اسپتال کی تعمیر اورتکمیل پر 400 کروڑ یعنی 4ارب کا سرمایہ لگا ہے۔
آخری ایک ماہ میں اسی کروڑ روپے کی ضرورت تھی اور فنڈ ریزنگ کی اپیل کی تو نوے کروڑ روپے جمع ہو گئے۔ اسے کہتے ہیں اعتماد۔ کینسر اسپتال کی تعمیر میں اخراجات بڑھنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ جدید مشینری اور دیگر سازو سامان مہنگا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ دنیا بھر میں ایسا ہوا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا' تعلیم اور صحت پر اخراجات میں ناقابل یقین اضافہ البتہ حیرت انگیز ہے۔
یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ کپتان نے اپنی والدہ کے کینسر میں مبتلا ہونے کی وجہ سے یہ اسپتال بنانے کی ٹھانی تھی۔ اس دن انھوں نے کچھ اور بھی واقعات بتائے جنہوں نے کپتان کو یہ انتہائی مشکل کام کرنے پر مجبور کیا۔ کپتان نے کچھ واقعات کا ذکر کیا جنھیں آپ کے ساتھ شیئر کرنا ضروری ہے۔ عمران نے بتایا کہ ان کی والدہ جب میو اسپتال لاہور میں داخل تھیں تو انھوں نے ایک آدمی کو ڈاکٹر سے بات کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ شخص ایک ہاتھ میں دوائیں اور دوسرے ہاتھ میں ایک کاغذ لیے ڈاکٹر کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب یہ دیکھ لیں، دوائیں لے آیا ہوں۔
ڈاکٹر نے ایک دوا کے بارے میں پوچھا تو اس نے بے بسی سے کہا، یہ والی پھر لے آؤں گا۔ اس غریب اور بے بس آدمی کے جانے کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ شخص دن بھر مزدوری کرتا ہے اور رات بھر اپنے کینسر میں مبتلا مریض بھائی کی ڈیوٹی دیتا ہے۔ وہ دوا مہنگی تھی اس لیے اس کی قوت خرید سے باہر تھی۔ سرکاری اسپتال آج اگر بری حالت میں ہیں تو آج سے 20 ، 25 سال پہلے بھی آئیڈیل کنڈیشن میں نہیں تھے۔ بقول کپتان اس واقعے نے ان پر گہرا اثر ڈالا اور انھوں نے طے کیا کہ وہ غریبوں کے علاج کے لیے اسپتال ضرور بنائیں گے۔
1992ء کا ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد کہا تھا کہ انھوں نے یہ کپ کینسر اسپتال بنانے کا خواب پورا کرنے کے لیے جیتا ہے۔ ان کے اس بیان پر بہت تنقید ہوئی تھی۔ ناقدین کہتے تھے کہ عالمی کپ ملک کے لیے جیتنے کے بجائے ایک اسپتال بنانے کے لیے جیتا گیا ہے۔ ان کا بیان تب مجھے بھی عجیب لگا تھا مگر آج میں سمجھتا ہوں کہ یہ کینسر اسپتال بھی تو ملک اور اس کے غریب مریضوں کے لیے ہی بنائے گئے ہیں۔ یہ بظاہر ناممکن کو ممکن کر کے دکھانے والی بات تھی۔
کپتان پہلے اسپتال کی تعمیر میں پیش آنے والی مشکلات کا کئی بار ذکر کر چکے ہیں۔ لاہور میں اسپتال بنانے کے لیے انھیں اس وقت کے وزیر اعلی نواز شریف نے مفت پلاٹ دیا تھا اور پشاور میں سابق وزیراعلی امیر حیدر خان ہوتی نے بلا معاوضہ زمین فراہم کی ہے۔ عمران نے کہا کہ وہ پہلے اسپتال کے سب سے بڑے ڈونر تھے اس بار بھی سب سے خطیر رقم انھوں نے ہی دی ہے۔ کپتان نے بتایا کہ ان کے ایک دوست نے چند سال پہلے بیس کنال کا ایک پلاٹ انھیں گفٹ کیا تھا تاکہ ان کی وجہ سے دیگر لوگ بھی وہاں فارم ہاؤس بنا لیں۔ ان کے دوست کا خیال تھا کہ بنی گالہ کی رونقیں خان کی وجہ سے ہیں۔ یہ پلاٹ سال بھر پہلے ایک کروڑ کا تھا اور ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کی وجہ سے اب پانچ کروڑ میں فروخت ہوا ہے۔
لاہور کے بعد پشاور میں بھی شوکت خانم کینسر اسپتال نے کام شروع کر دیا ہے۔ اس کے بعد کراچی میں اسپتال بننا ہے۔ کپتان نے بتایا لاہور کے شوکت خانم کا سالانہ خسارہ ساڑھے تین کروڑ ہے۔ پشاور کے خسارے کا ایک سال بعد پتہ چلے گا۔ لگتا ہے دونوں کا خسارہ ملا کر ساڑھے چھ سات کروڑ تک جا پہنچے گا۔ پاکستانی یہ اسپتال چلاتے ہیں۔ وہ کپتان پر اعتماد کی وجہ سے فنڈز دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف ون مین پارٹی ہے۔ عمران کے بغیر یہ پارٹی کچھ بھی نہیں ہے۔
شوکت خانم اسپتال بھی عمران کی وجہ سے چل رہے ہیں۔ اللہ عمران کو لمبی عمر دے۔ یہ بھی دعا ہے کہ ہماری حکومتیں اس قابل ہو جائیں کہ اس طرح کے اسپتالوں میں غریب مریضوں کے علاج کے ذمے داری وہ اپنے ذمے لے لیں۔ کپتان کی سیاسی مخالفت کی جا سکتی ہے لیکن اس کام کی تعریف کیے بنا نہیں رہا جا سکتا۔ جب تک حکومتیں اپنی ترجیحات درست نہیں کرتیں تب تک اس قوم کو مزید کپتان درکار ہیں۔ کیا اس طرح کے اور کپتان مل سکتے ہیں؟
امریکا سے ایک صاحب تشریف لائے، تین ہفتے قبل ہونے والی ملاقات میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ موصوف 1999ء سے ہیوسٹن میں مقیم ہیں۔ دوسرے ملکوں میں بسنے والے پاکستانی وطن کے حوالے سے ہم سے کہیں زیادہ تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔ مجھے ان کا نام یاد نہیں رہا کیونکہ وہ میرے ایک دوست کے ساتھ آئے تھے۔
وہ سب سے زیادہ اس بات پر پریشان تھے کہ موجودہ دور حکومت میں پاکستان 74ارب ڈالر بیرونی قرضے کا مقروض ہو گیا ہے جب کہ اندرونی اور بیرونی قرضے ملا کر ایک سو چالیس ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔
ان کا خیال تھا کہ اتنا بڑا قرضہ واپس کرنا تقریباً ناممکن ہوگا اس کے باوجود اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ یہ قرضہ کیسے واپس ہو گا یہ تو میں نہیں جانتا۔ قرضہ چونکہ حکمران طبقات لیتے ہیں اس لیے انھیں بہتر پتہ ہو گا کہ اسے کب اور کیسے واپس کرنا ہے۔ اگرچہ حالت ہماری یہ ہے کہ ہم بیرونی قرض اتارنے کے لیے بھی قرض لے رہے ہیں۔ جیسے انہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا، اسی طرح معجزے بھی ہو جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران بھی یقیناً معجزوں پر یقین رکھتے ہیں اس لیے بے دریغ قرض لیتے جا رہے ہیں۔ اس حالت کے بارے میںغالب نے کیا خوب کہا ہے۔
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی یہ فاقہ مستی، ایک دن
شعر کا ذکر ہوا ہے تو اس کی واردات کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ مرزا غالب قرض کی مے بھی پیتے رہے، فاقہ مستی کے رنگ لانے کا انتظار بھی خوب کیا۔ جب قرض حد سے بڑھ گیا تو شراب فروش نے اپنی رقم کی وصولی کے لیے ان کے خلاف مفتی صدرالدین کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ قاضی نے غالب سے پوچھا کہ آپ پر الزام ہے کہ ادھار شراب لے کر پیتے رہے ہیں اور اب آپ پے منٹ نہیں کر رہے، کیا یہ بات درست ہے۔
غالب نے اس موقع پر فی البدیہہ یہ شعر قاضی کی خدمت میں پیش کر دیا۔ قاضی یا جج صاحب غالب کے پرستار تھے' انھوں نے بھانپ لیا کہ غالب کے پاس پیسے نہیں ہیں اس لیے اپنی جیب سے رقم ادا کی اور شراب فروش کا منہ بند کر دیا۔ ہمیں بھی اب مفتی صدر الدین جیسا کوئی جج ملے گا تو ہماری فاقہ مستی رنگ لائے گی۔ امریکا سے آنے والے صاحب کی بات کی طرف واپس آتے ہیں۔ باتوں باتوں میں مہنگائی کا ذکر ہوا تو انھوں نے بتایا کہ جب 99ء میں وہ پہلی بار امریکا گئے تو اس وقت پاکستان میں نان 50پیسے کا تھا۔آج کے ٹین ایجر یہ جان کر ضرور حیران ہوں گے کہ پاکستان میں کبھی ریزگاری بھی ہوا کرتی تھی۔
اس نسل کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ 50 پیسے کا سکہ موجودہ دور کے 5 روپے کے Coin سے دو گنا بڑا ہوتا تھا۔ موصوف بتانے لگے کہ تب امریکا میں نان کی قیمت ایک ڈالر تھی۔ انھوں نے موٹروے کے کسی ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا تھا۔ کھانے کے بل پر انھوں نے نان کی قیمت دیکھی تو وہ 10 روپے تھی۔ تب ڈالر 50 روپے میں ملتا تھا اب ڈالر کی قیمت 100 سے تھوڑی زیادہ ہے۔ یعنی ڈالر کے حساب سے بھی نان کی قیمت بڑھتی تو ایک' ڈیڑھ روپے سے زیادہ نہ ہوتی۔
ہمارے ہاں 16سال میں نان 50 پیسے سے 10 روپے کا ہو گیا، مگر وہاں نان آج بھی ایک ڈالر میں مل جاتا ہے۔ امریکا کی حکومت میٹرو پر بھی سبسڈی دیتی ہو گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی اشیا پر بھی سبسڈی دے رہی ہے اس لیے وہاں ان چیزوں کی قیمتیں 16 سال بعد بھی برقرار رہتی ہیں۔
امریکی مہمان سے ہونے والی گفتگو میں بھول چکا تھا لیکن 29 دسمبر کو شوکت خانم اسپتال پشاور کی افتتاحی تقریب میں عمران خان کی تقریر کے دوران یہ مجھے اچانک یاد آئی۔ کپتان نے بتایا کہ 21 سال پہلے لاہور میں کینسر اسپتال کی تکمیل پر75کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے ، انھوں نے ابتدائی مشکلات کے بارے میں بتایا اور کہا کہ پہلا ایک کروڑ جمع کرنے کے لیے ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ گیا۔ پشاور میں اسپتال کی تعمیر اورتکمیل پر 400 کروڑ یعنی 4ارب کا سرمایہ لگا ہے۔
آخری ایک ماہ میں اسی کروڑ روپے کی ضرورت تھی اور فنڈ ریزنگ کی اپیل کی تو نوے کروڑ روپے جمع ہو گئے۔ اسے کہتے ہیں اعتماد۔ کینسر اسپتال کی تعمیر میں اخراجات بڑھنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ جدید مشینری اور دیگر سازو سامان مہنگا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ دنیا بھر میں ایسا ہوا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا' تعلیم اور صحت پر اخراجات میں ناقابل یقین اضافہ البتہ حیرت انگیز ہے۔
یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ کپتان نے اپنی والدہ کے کینسر میں مبتلا ہونے کی وجہ سے یہ اسپتال بنانے کی ٹھانی تھی۔ اس دن انھوں نے کچھ اور بھی واقعات بتائے جنہوں نے کپتان کو یہ انتہائی مشکل کام کرنے پر مجبور کیا۔ کپتان نے کچھ واقعات کا ذکر کیا جنھیں آپ کے ساتھ شیئر کرنا ضروری ہے۔ عمران نے بتایا کہ ان کی والدہ جب میو اسپتال لاہور میں داخل تھیں تو انھوں نے ایک آدمی کو ڈاکٹر سے بات کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ شخص ایک ہاتھ میں دوائیں اور دوسرے ہاتھ میں ایک کاغذ لیے ڈاکٹر کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب یہ دیکھ لیں، دوائیں لے آیا ہوں۔
ڈاکٹر نے ایک دوا کے بارے میں پوچھا تو اس نے بے بسی سے کہا، یہ والی پھر لے آؤں گا۔ اس غریب اور بے بس آدمی کے جانے کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ شخص دن بھر مزدوری کرتا ہے اور رات بھر اپنے کینسر میں مبتلا مریض بھائی کی ڈیوٹی دیتا ہے۔ وہ دوا مہنگی تھی اس لیے اس کی قوت خرید سے باہر تھی۔ سرکاری اسپتال آج اگر بری حالت میں ہیں تو آج سے 20 ، 25 سال پہلے بھی آئیڈیل کنڈیشن میں نہیں تھے۔ بقول کپتان اس واقعے نے ان پر گہرا اثر ڈالا اور انھوں نے طے کیا کہ وہ غریبوں کے علاج کے لیے اسپتال ضرور بنائیں گے۔
1992ء کا ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد کہا تھا کہ انھوں نے یہ کپ کینسر اسپتال بنانے کا خواب پورا کرنے کے لیے جیتا ہے۔ ان کے اس بیان پر بہت تنقید ہوئی تھی۔ ناقدین کہتے تھے کہ عالمی کپ ملک کے لیے جیتنے کے بجائے ایک اسپتال بنانے کے لیے جیتا گیا ہے۔ ان کا بیان تب مجھے بھی عجیب لگا تھا مگر آج میں سمجھتا ہوں کہ یہ کینسر اسپتال بھی تو ملک اور اس کے غریب مریضوں کے لیے ہی بنائے گئے ہیں۔ یہ بظاہر ناممکن کو ممکن کر کے دکھانے والی بات تھی۔
کپتان پہلے اسپتال کی تعمیر میں پیش آنے والی مشکلات کا کئی بار ذکر کر چکے ہیں۔ لاہور میں اسپتال بنانے کے لیے انھیں اس وقت کے وزیر اعلی نواز شریف نے مفت پلاٹ دیا تھا اور پشاور میں سابق وزیراعلی امیر حیدر خان ہوتی نے بلا معاوضہ زمین فراہم کی ہے۔ عمران نے کہا کہ وہ پہلے اسپتال کے سب سے بڑے ڈونر تھے اس بار بھی سب سے خطیر رقم انھوں نے ہی دی ہے۔ کپتان نے بتایا کہ ان کے ایک دوست نے چند سال پہلے بیس کنال کا ایک پلاٹ انھیں گفٹ کیا تھا تاکہ ان کی وجہ سے دیگر لوگ بھی وہاں فارم ہاؤس بنا لیں۔ ان کے دوست کا خیال تھا کہ بنی گالہ کی رونقیں خان کی وجہ سے ہیں۔ یہ پلاٹ سال بھر پہلے ایک کروڑ کا تھا اور ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کی وجہ سے اب پانچ کروڑ میں فروخت ہوا ہے۔
لاہور کے بعد پشاور میں بھی شوکت خانم کینسر اسپتال نے کام شروع کر دیا ہے۔ اس کے بعد کراچی میں اسپتال بننا ہے۔ کپتان نے بتایا لاہور کے شوکت خانم کا سالانہ خسارہ ساڑھے تین کروڑ ہے۔ پشاور کے خسارے کا ایک سال بعد پتہ چلے گا۔ لگتا ہے دونوں کا خسارہ ملا کر ساڑھے چھ سات کروڑ تک جا پہنچے گا۔ پاکستانی یہ اسپتال چلاتے ہیں۔ وہ کپتان پر اعتماد کی وجہ سے فنڈز دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف ون مین پارٹی ہے۔ عمران کے بغیر یہ پارٹی کچھ بھی نہیں ہے۔
شوکت خانم اسپتال بھی عمران کی وجہ سے چل رہے ہیں۔ اللہ عمران کو لمبی عمر دے۔ یہ بھی دعا ہے کہ ہماری حکومتیں اس قابل ہو جائیں کہ اس طرح کے اسپتالوں میں غریب مریضوں کے علاج کے ذمے داری وہ اپنے ذمے لے لیں۔ کپتان کی سیاسی مخالفت کی جا سکتی ہے لیکن اس کام کی تعریف کیے بنا نہیں رہا جا سکتا۔ جب تک حکومتیں اپنی ترجیحات درست نہیں کرتیں تب تک اس قوم کو مزید کپتان درکار ہیں۔ کیا اس طرح کے اور کپتان مل سکتے ہیں؟