مذہبی رواداری کا کلچر
ہم پرائمری کے طالب علم تھے، ہمارے شہر بیدر میں مسلمانوں کی تعداد صرف بارہ فیصد تھی
ہم پرائمری کے طالب علم تھے، ہمارے شہر بیدر میں مسلمانوں کی تعداد صرف بارہ فیصد تھی، ہندو 88 فیصد تھے منطقی طور پر اتنی بڑی اکثریت کو اقلیت پر حاوی ہونا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں تھا ہندو مسلمان مل جل کر رہتے تھے۔
مسلمان ہندوؤں کے تہواروں دیوالی، وسہرہ، ہولی وغیرہ کی تقریبات میں شرکت کرتے تھے اور ہندو مسلمانوں کی عیدوں میں شریک رہتے تھے مذہبی منافرت کا دور دور تک وجود نہ تھا۔ مجھے یاد ہے رمضان اور محرم کا چاند دیکھنے کے لیے جب ہم فصیل پر جاتے تو ہماری کلاس کے ہندو لڑکے بھی ہمارے ساتھ چاند دیکھنے کے لیے فصیل پر موجود ہوتے۔ بقر عید پرگائے کی قربانی ہر محلے ہرگلی میں ہوتی لیکن کسی ہندو کو اس پر اعتراض نہ ہوتا۔ شادی بیاہ کے موقعے پرگھروں پر ہی گائے ذبح کی جاتی لیکن گائے دونوں مذاہب کے درمیان فساد کا ذریعہ نہیں بنتی۔ ہندو اپنی بعض تقاریب جلوس کی شکل میں مناتے ان جلوسوں میں باجے تاشے بھی ہوتے لیکن مساجد راستے میں آتیں تو ہندو احتراماً باجے تاشے بند کردیتے۔
ہندوؤں کو مندروں میں پوجا پاٹ کی آزادی تھی، مسلمان مسجدوں، عیدگاہوں میں بے خطر نماز ادا کرتے تھے نہ کسی مسجد پر نمازیوں کی حفاظت کے لیے پولیس ہوتی تھی نہ مندروں کی حفاظت کے لیے رینجرز یا فوج کا پہرہ ہوتا تھا۔اس مذہبی یکجہتی اور رواداری کی وجہ یہ تھی کہ عوام ہندوؤں اور مسلمانوں نے مذہب کو اپنی ذات کے ساتھ وابستہ کر رکھا تھا۔ اسے ریاست کے ساتھ نتھی نہیں کیا تھا مولوی مسجد میں اور پنڈت مندروں میں امن و محبت اور مذہبی یکجہتی کی تلقین کرتے تھے۔ مذہب کے نام پر عوام میں نفرت کا پرچار نہیں کرتے تھے۔
آج مجھے بچپن کا یہ زمانہ اس لیے یاد آیا کہ ہمارے ملک میں بھی مذہبی تہواروں پر ہندو مسلمان رواداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں ہندوؤں کی مذہبی تقریبات دیوالی، وسہرہ، ہولی وغیرہ پر مسلمانوں کی سیاسی قیادت اور حکومتی ارکان مندروں میں جاکر مذہبی یکجہتی کا مظاہرہ کررہے ہیں حتیٰ کہ مذہبی قیادت کی طرف سے بھی اسی رواداری اور یکجہتی کے مظاہرے دیکھے جاسکتے ہیں یہ روایات قابل تحسین ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
ہر مذہب میں جہاں مذہبی یکجہتی اور رواداری کے حامی بھاری تعداد میں ہوتے ہیں وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مذہب کے نام پر نفرتوں کا پرچارکرتے ہیں اور انسانوں کے درمیان نفرتیں پھیلانا ان کی زندگی کا اولین مقصد ہوتا ہے۔ آج ہم پاکستان سمیت کئی مسلم ملکوں میں جو مذہبی دیوانگی دیکھ رہے ہیں۔
عوام کی بھاری اکثریت اس کے خلاف ہے اور یہ مذہبی دیوانگی اب اس حد تک جا پہنچی ہے کہ ہندو مسلمان کی تفریق بھی ختم ہوگئی ہے، آج صورتحال یہ ہے کہ مذہبی تہوار ہوں یا قومی تہوار عبادت گاہوں پر بھاری تعداد میں پولیس اور رینجرز متعین کردی جاتی ہے مذہبی جلوسوں کی حفاظت کے لیے ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور رینجرز کے سپاہی سڑکوں پر موجود ہوتے ہیں کسی کو تلاشی کے بغیر جلسوں جلوسوں میں شریک نہیں ہونے دیا جاتا ہر جمعے کو شہرکی ہر مسجد کے باہر پولیس اور رینجرز متعین کی جاتی ہے ،کنٹینر لگا کر سڑکیں بند کردی جاتی ہیں ،اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی جاتی ہے اور ہر علاقے میں ایمبولینسیں مرنے اور زخمی ہونے والوں کو اسپتال لے جانے کے لیے تیار رہتی ہیں یہ صورتحال صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ تقریباً تمام مسلم ملکوں تک پھیلی ہوئی ہے۔
پاکستان کے قیام کا سب سے بڑا جواز یہ تھا کہ اگر مسلمان متحدہ ہندوستان میں رہتے تو ان کی جان مال غیر محفوظ ہوجاتیں، ان کے مذہب کو خطرہ لاحق ہوجاتا ان کی قدریں خطرے میں پڑ جاتیں یہ وہ خدشات تھے جن کی وجہ ہندوستان تقسیم ہوگیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندو کمیونٹیز میں بھی مذہبی انتہا پسند بھاری تعداد میں موجود تھے اور مذہب کے نام پر خون خرابا ان کا مشن تھا لیکن ان کی تعداد ہمیشہ آٹے میں نمک کے برابر رہی ہے، ہر مذہب میں امن پسند اور مذہبی رواداری کے حامی اکثریت میں رہے ہیں۔
1947 میں تقسیم کے وقت جو خونی فسادات ہوئے اور جس میں 22 لاکھ کے لگ بھگ بے گناہ لوگ جن میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی مارے گئے لیکن اس گندے کھیل میں صرف مذہبی انتہا پسند شامل تھے عوام کی بھاری اکثریت اس شیطانیت سے الگ تھی۔
بھارت میں جب سے نریندر مودی وزیر اعظم بنے ہیں اور ان کی جماعت بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے بھارت میں مذہبی انتہا پسندی بڑھتی جا رہی ہے مسلمان اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک میں اس حد تک اضافہ ہوگیا ہے کہ بھارت کے ادیب، شاعر، فنکار، دانشور، اہل قلم سب اس انتہا پسندی کے خلاف بلاتفریق مذہب و ملت احتجاج کر رہے ہیں سیکڑوں کی تعداد میں ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، دانشوروں نے وہ اعزازات واپس کر دیے ہیں جو کسی شخص کے لیے اعزاز اور فخر کا باعث ہوتے ہیں انتہا پسندی خواہ اس کا تعلق کسی مذہب کسی قوم کسی ملک سے ہو انسانوں اور انسانیت کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہوتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی پیدا کیسے ہوتی ہے کہاں پرورش پاتی ہے۔
مسجد،مندر،گرجا سب عبادت گاہیں ہیں جہاں لوگ عبادت کے لیے جاتے ہیں۔ عبادت کیا ہے انسانی ذہن کی تسکین کا ایک بڑا ذریعہ ۔ یہ تسکین مسلمان مسجد میں جاکر حاصل کرتا ہے، ہندو مندر میں عبادت کرکے حاصل کرتا ہے، عیسائی گرجا میں جاکر حاصل کرتا ہے، اسی طرح ہر مذہب کے ماننے والے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جاکر اپنی روح کو سکون پہنچاتے ہیں۔
عبادت گاہیں خدا کا گھر ہوتی ہیں جہاں خدا کی بڑائی کا ذکر ہوتا ہے اگر ان عبادت گاہوں پر متعصب اور انتہا پسندوں کا قبضہ ہو تو یہ عبادت گاہیں تعصب، نفرت پھیلانے کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔ مذہب کے نام پر کی جانے والی انتہا پسندی اپنی اصل میں خود مذہب دشمنی ہوتی ہے اور اس کا ہر صورت میں خاتمہ ضروری ہے دنیا کے تمام انسانوں کے جدامجد آدمؑ ہیں اس حوالے سے ہر انسان دوسرے سے خونی رشتے میں جڑا ہوا ہے خواہ اس کا تعلق کسی مذہب کسی قوم کسی ملک سے ہو سب بنیادی طور پر آدم کی اولاد ہیں اگر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر ایک دوسرے سے نفرت کا جواز ہی ختم ہوجاتا ہے آج دنیا کے 90 فیصد عوام جس غربت، بھوک، افلاس اور جہل کا شکار ہیں ان کی جڑیں بھی انسانوں کی تقسیم ہی میں پیوست ہیں۔
مسلمان ہندوؤں کے تہواروں دیوالی، وسہرہ، ہولی وغیرہ کی تقریبات میں شرکت کرتے تھے اور ہندو مسلمانوں کی عیدوں میں شریک رہتے تھے مذہبی منافرت کا دور دور تک وجود نہ تھا۔ مجھے یاد ہے رمضان اور محرم کا چاند دیکھنے کے لیے جب ہم فصیل پر جاتے تو ہماری کلاس کے ہندو لڑکے بھی ہمارے ساتھ چاند دیکھنے کے لیے فصیل پر موجود ہوتے۔ بقر عید پرگائے کی قربانی ہر محلے ہرگلی میں ہوتی لیکن کسی ہندو کو اس پر اعتراض نہ ہوتا۔ شادی بیاہ کے موقعے پرگھروں پر ہی گائے ذبح کی جاتی لیکن گائے دونوں مذاہب کے درمیان فساد کا ذریعہ نہیں بنتی۔ ہندو اپنی بعض تقاریب جلوس کی شکل میں مناتے ان جلوسوں میں باجے تاشے بھی ہوتے لیکن مساجد راستے میں آتیں تو ہندو احتراماً باجے تاشے بند کردیتے۔
ہندوؤں کو مندروں میں پوجا پاٹ کی آزادی تھی، مسلمان مسجدوں، عیدگاہوں میں بے خطر نماز ادا کرتے تھے نہ کسی مسجد پر نمازیوں کی حفاظت کے لیے پولیس ہوتی تھی نہ مندروں کی حفاظت کے لیے رینجرز یا فوج کا پہرہ ہوتا تھا۔اس مذہبی یکجہتی اور رواداری کی وجہ یہ تھی کہ عوام ہندوؤں اور مسلمانوں نے مذہب کو اپنی ذات کے ساتھ وابستہ کر رکھا تھا۔ اسے ریاست کے ساتھ نتھی نہیں کیا تھا مولوی مسجد میں اور پنڈت مندروں میں امن و محبت اور مذہبی یکجہتی کی تلقین کرتے تھے۔ مذہب کے نام پر عوام میں نفرت کا پرچار نہیں کرتے تھے۔
آج مجھے بچپن کا یہ زمانہ اس لیے یاد آیا کہ ہمارے ملک میں بھی مذہبی تہواروں پر ہندو مسلمان رواداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں ہندوؤں کی مذہبی تقریبات دیوالی، وسہرہ، ہولی وغیرہ پر مسلمانوں کی سیاسی قیادت اور حکومتی ارکان مندروں میں جاکر مذہبی یکجہتی کا مظاہرہ کررہے ہیں حتیٰ کہ مذہبی قیادت کی طرف سے بھی اسی رواداری اور یکجہتی کے مظاہرے دیکھے جاسکتے ہیں یہ روایات قابل تحسین ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
ہر مذہب میں جہاں مذہبی یکجہتی اور رواداری کے حامی بھاری تعداد میں ہوتے ہیں وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مذہب کے نام پر نفرتوں کا پرچارکرتے ہیں اور انسانوں کے درمیان نفرتیں پھیلانا ان کی زندگی کا اولین مقصد ہوتا ہے۔ آج ہم پاکستان سمیت کئی مسلم ملکوں میں جو مذہبی دیوانگی دیکھ رہے ہیں۔
عوام کی بھاری اکثریت اس کے خلاف ہے اور یہ مذہبی دیوانگی اب اس حد تک جا پہنچی ہے کہ ہندو مسلمان کی تفریق بھی ختم ہوگئی ہے، آج صورتحال یہ ہے کہ مذہبی تہوار ہوں یا قومی تہوار عبادت گاہوں پر بھاری تعداد میں پولیس اور رینجرز متعین کردی جاتی ہے مذہبی جلوسوں کی حفاظت کے لیے ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور رینجرز کے سپاہی سڑکوں پر موجود ہوتے ہیں کسی کو تلاشی کے بغیر جلسوں جلوسوں میں شریک نہیں ہونے دیا جاتا ہر جمعے کو شہرکی ہر مسجد کے باہر پولیس اور رینجرز متعین کی جاتی ہے ،کنٹینر لگا کر سڑکیں بند کردی جاتی ہیں ،اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی جاتی ہے اور ہر علاقے میں ایمبولینسیں مرنے اور زخمی ہونے والوں کو اسپتال لے جانے کے لیے تیار رہتی ہیں یہ صورتحال صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ تقریباً تمام مسلم ملکوں تک پھیلی ہوئی ہے۔
پاکستان کے قیام کا سب سے بڑا جواز یہ تھا کہ اگر مسلمان متحدہ ہندوستان میں رہتے تو ان کی جان مال غیر محفوظ ہوجاتیں، ان کے مذہب کو خطرہ لاحق ہوجاتا ان کی قدریں خطرے میں پڑ جاتیں یہ وہ خدشات تھے جن کی وجہ ہندوستان تقسیم ہوگیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندو کمیونٹیز میں بھی مذہبی انتہا پسند بھاری تعداد میں موجود تھے اور مذہب کے نام پر خون خرابا ان کا مشن تھا لیکن ان کی تعداد ہمیشہ آٹے میں نمک کے برابر رہی ہے، ہر مذہب میں امن پسند اور مذہبی رواداری کے حامی اکثریت میں رہے ہیں۔
1947 میں تقسیم کے وقت جو خونی فسادات ہوئے اور جس میں 22 لاکھ کے لگ بھگ بے گناہ لوگ جن میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی مارے گئے لیکن اس گندے کھیل میں صرف مذہبی انتہا پسند شامل تھے عوام کی بھاری اکثریت اس شیطانیت سے الگ تھی۔
بھارت میں جب سے نریندر مودی وزیر اعظم بنے ہیں اور ان کی جماعت بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے بھارت میں مذہبی انتہا پسندی بڑھتی جا رہی ہے مسلمان اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک میں اس حد تک اضافہ ہوگیا ہے کہ بھارت کے ادیب، شاعر، فنکار، دانشور، اہل قلم سب اس انتہا پسندی کے خلاف بلاتفریق مذہب و ملت احتجاج کر رہے ہیں سیکڑوں کی تعداد میں ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، دانشوروں نے وہ اعزازات واپس کر دیے ہیں جو کسی شخص کے لیے اعزاز اور فخر کا باعث ہوتے ہیں انتہا پسندی خواہ اس کا تعلق کسی مذہب کسی قوم کسی ملک سے ہو انسانوں اور انسانیت کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہوتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی پیدا کیسے ہوتی ہے کہاں پرورش پاتی ہے۔
مسجد،مندر،گرجا سب عبادت گاہیں ہیں جہاں لوگ عبادت کے لیے جاتے ہیں۔ عبادت کیا ہے انسانی ذہن کی تسکین کا ایک بڑا ذریعہ ۔ یہ تسکین مسلمان مسجد میں جاکر حاصل کرتا ہے، ہندو مندر میں عبادت کرکے حاصل کرتا ہے، عیسائی گرجا میں جاکر حاصل کرتا ہے، اسی طرح ہر مذہب کے ماننے والے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جاکر اپنی روح کو سکون پہنچاتے ہیں۔
عبادت گاہیں خدا کا گھر ہوتی ہیں جہاں خدا کی بڑائی کا ذکر ہوتا ہے اگر ان عبادت گاہوں پر متعصب اور انتہا پسندوں کا قبضہ ہو تو یہ عبادت گاہیں تعصب، نفرت پھیلانے کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔ مذہب کے نام پر کی جانے والی انتہا پسندی اپنی اصل میں خود مذہب دشمنی ہوتی ہے اور اس کا ہر صورت میں خاتمہ ضروری ہے دنیا کے تمام انسانوں کے جدامجد آدمؑ ہیں اس حوالے سے ہر انسان دوسرے سے خونی رشتے میں جڑا ہوا ہے خواہ اس کا تعلق کسی مذہب کسی قوم کسی ملک سے ہو سب بنیادی طور پر آدم کی اولاد ہیں اگر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر ایک دوسرے سے نفرت کا جواز ہی ختم ہوجاتا ہے آج دنیا کے 90 فیصد عوام جس غربت، بھوک، افلاس اور جہل کا شکار ہیں ان کی جڑیں بھی انسانوں کی تقسیم ہی میں پیوست ہیں۔