افتخار محمد چوہدری کی ’جے ڈی پی ‘

یہ حقیقت ہے کہ اگر کسی جج کو بطور چیف جسٹس پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں چکا چوند شہرت حاصل ہوئی

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے25 دسمبر 2015 ء کو جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی ( جے ڈی پی)کے نام سے اپنی سیاسی پارٹی کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ یوں وہ باضابطہ طور پرسیاست دان بن گئے ہیں اور باقی سیاست دانوں کی طرح اب ان کے ماضی، حال اور مستقبل پر بھی کھل کے بات ہو سکتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اگر کسی جج کو بطور چیف جسٹس پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں چکا چوند شہرت حاصل ہوئی، تو وہ افتخار محمد چوہدری تھے۔ ان کے عدالتی ریمارکس ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز اور اخبارات میں شہ سرخی قرار پاتے تھے۔ وہ دوبار معزول کیے گئے لیکن دونوں بار بحال ہونے میں کام یاب ہو گئے۔ ان کی بحالی میں اگرچہ وکلا اور سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا اپنا کردار ادا کیا ، لیکن فیصلہ کن کردار بہرحال پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا ہی کا تھا ، جس کے وہ گویا 'ہیرو' بن گئے۔

لیکن ماضی کے اس' ہیرو' کی نئی پارٹی کے اعلان کی خبر بریکنگ نیوز اور شہ سرخی تو دور کی بات ،کسی نئی کتاب کی تقریب رونمائی یا کسی نئی پکچر کے پریمیئر شو جتنی کوریج بھی حاصل نہ کر سکی۔ چند سال پہلے پرویزمشرف کو جب اپنی پارٹی بنانے کا شوق چرایا تو شروع شروع میں انکو درجہ دوم کے سہی، لیکن دو ایک سیاست دان اور قانون دان مل ہی گئے تھے، افتحار محمد چوہدری کو مگر اپنی نوزائیدہ پارٹی کے لیے وہ بھی میسر نہیں آ سکے۔ حقیقتاً ان کی پارٹی پہلے دن ہی پٹ گئی۔

افتخار محمد چوہدری باقاعدہ طور پرسیاست میں تو اب آئے ہیں، لیکن جب وہ سیاست میں نہیں تھے، تب بھی ان کے لب ولہجہ میں سیاست کا رنگ موجود تھا۔ وہ سپریم کورٹ کے پہلے چیف جسٹس تھے، جنھوں نے اپنی تعیناتی سے پہلے ایوان صدر جا کر صدر پرویزمشرف سے ملاقات کی اور انکو یقین دہانی کرائی کہ وہ مشرف حکومت کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کریں گے۔

صرف صدر پرویزمشرف نہیں، بلکہ اس وقت کی حکمران جماعت ق لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی سے بھی برابر رابطے میں رہتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ افتخار محمد چوہدری اور مشرف حکومت کے درمیان تعلقات اتنے خوشگوار تھے کہ ذاتی سطح پر بھی ایک دوسرے سے ملنا جلنا تھا۔ بدقسمی یہ ہوئی کہ 31مارچ 2006 ء کو مشرف حکومت نے کراچی اسٹیل ملز ، جس کی مالیت125 ارب روپے سے کسی طور کم نہیں تھی، اس کے 75% شیئرز 21 ارب 67 کروڑ روپے میں بعجلت فروخت کر دیے۔

ظاہراً اس عجلت کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ 29 مئی 2006 ء کو نئی انتطامیہ کوٹیک اوور کرنا تھا ، لیکن اس سے پہلے 24 مئی کو افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی بنچ نے حکم امتناعی جاری کر دیا ۔ پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی اعتزاز احسن نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے۔

اس پر وزیراعظم شوکت عزیز بوکھلا گئے ۔ انھوں نے سوچا، بہتر یہی ہے کہ افتخار چوہدری سے ہی نجات حاصل کی جائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ صدر مشرف کو بھی وہ اس پر قائل کرنے میں کام یاب ہو گئے۔ آئینی قواعد وضوابط کو پورا کرنے کے لیے شوکت عزیز نے افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس تیار کیا اور صدر مشرف کو بھجوا دیا ۔ صدر مشرف نے جیسا کہ ان کا مزاج تھا، آئینی موشگافیوں کی پرواہ کیے بغیر دھماکا کر دیا ۔

یہ سمجھنے کی کوشش بھی نہ کی کہ آئین پاکستان کی رو سے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے کسی جج یا چیف جسٹس کو سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش کے بغیر برطرف یا غیر فعال نہیں کیا جا سکتا۔ افتخار چوہدری کے خلاف جو صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا،اس کے مندرجات کو جھٹلانا آسان نہیںتھا، لیکن جنرل پرویزمشرف تکنیکی طور پر مارکھا گئے۔ حکومت نے بجائے عقل کے ، طاقت استعمال کی۔ نتیجتاً افتخار چوہدری راتوں رات ہیرو بن گئے۔

یہ سمجھنا مگر مشکل نہ تھا کہ ان کی یہ مقبولیت محض حادثاتی ہے اور حقیقتاً ان سیاسی جماعتوں کی مرہون احسان ہے، جو جنرل مشرف کے مخالف کیمپ میں ہیں۔ پہلی بار جب وہ معزول کیے گئے تو مشرف حکومت کی مخالفت میں پیپلزپارٹی ان کی بحالی کے لیے سرگرم ہو گئی، اور دوسری بار جب وہ معزول کیے گئے، تو زرداری حکومت کی مخالفت میں ن لیگ انکو بحال کرانے کے لیے میدان میں آ گئی۔


افتخار محمد چوہدری کی مقبولیت اگرچہ حادثاتی تھی لیکن وہ اسکو مستحکم بنا سکتے تھے۔ ان کی بدقسمتی کہ ارسلان افتخارکیس نے ان کی ساکھ کو متاثر کیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرف حکومت نے ان کے خلاف جو ریفرنس دائر کیا تھا ، وہ بھی بنیادی طور پر ارسلان افتخار ہی سے متعلق تھا۔ اس طرح افتخار چوہدری کی پہلی بحالی میں پیپلزپارٹی کا کردار کلیدی تھا ، بلکہ اس کے کارکنوں نے جانی قربانی بھی دی تھی، لیکن بطور چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پیپلزپارٹی کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔

چوہدری اعتزازاحسن ، جنھوں نے ان کے لیے اپنی وکالت اور سیاست داو پر لگا دی تھی ، یوسف رضا گیلانی کیس میں ان کے روبرو پیش ہو کر اتنے بددل ہوئے کہ مستقلاً ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ عمران خان نے ان کی بحالی کے لیے2008 ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تھا ، لیکن بحال ہونے پرجب انکو بھی رگڑا لگادیا گیا تو وہ بھی پیچھے ہٹ گئے۔

یہ مسائل چل رہے تھے کہ2013 ء کے الیکشن آ گئے۔ جوڈیشل پالیسی2009 ، میں افتخار چوہدری کی تجویز پر ہی یہ اصول طے پایا تھا کہ آیندہ سے عدلیہ کو الیکشن میں ملوث نہیں ہونے دیا جائے گا ۔لیکن پھر وہی'نظریہ ضرورت' جسکے وہ سب سے بڑے ناقد تھے، اس کے نام پر انھوں نے الیکشن کمیشن کو سیشن ججز کی بطور ریٹرننگ افسر خدمات مہیا کیں۔

اب صورت یہ ہے کہ باوجود انکوائری کمیشن کے رپورٹ کے،2013 ء کے الیکشن پر چھائی ہوئی دھاندلی کی دھند آج تک صاف نہیں ہو سکی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی جو اس الیکشن کے نتیجہ میں پہلی بار سندھ میں بلا شرکت غیرے حکومت بنانے میں کام یاب ہوئی ہے، اس کے سربراہ آصف علی زرداری ، بطور صدر اسے آراوز کا الیکشن قرار دے چکے ہیں۔ اس سے متعلق ایک مقدمہ میں عمران خان اور افتخارچوہدری ایکدوسرے کے خلاف باقاعدہ فریق ہیں۔

افتخار محمد چوہدری نے اپنی سیاسی جماعت 'جے ڈی پی' کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے اور ایجنسیوں سے پیسے لے کر اپنے آپ کو کامیاب کرانے والوں سے قوم کو معذرت کرنا ہو گی۔ ظاہراً ، ان کا اشارہ آصف علی زرداری اور نوازشریف کی طرف ہے۔ لیکن سوال کیا جا سکتا ہے کہ اصغر خان دہائی دیتے رہے ، پہلے تو آپ آئی ایس آئی کیس کو ہاتھ لگانے کو تیار نہ تھے اور جب اسے چھیڑا تو یہ کہہ کے چھوڑ دیا کہ حکومت خود تحقیقات کرے ۔

یہ بھی انھوں نے کہا کہ ان کے پاس راستے تھے۔پہلا یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد آرام سے اپنی زندگی بسر کروں اور قوم کو لٹیروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دوں، دوسرا یہ کہ قوم کے لیے باہر نکلوں اور اپنا کردار ادا کروں ۔ میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ اتفاق یہ ہے کہ ان کے سابق حریف جنرل پرویزمشرف نے بھی اپنی پارٹی'آل پاکستان مسلم لیگ 'کا اعلان کرتے وقت یہی ڈائیلاگ بولا تھا، اور ان کی تقریباً ہم نام پارٹی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا تو یہ فیورٹ ڈائیلاگ ہے۔

کرپشن کو تمام خرابیوں کی جڑ قرار دیتے ہوئے افتخار چوہدری نے اس کے خلاف 'جہاد' کرنے کا اعلان کیا اورکہا کہ ان کی پارٹی میں کرپٹ لوگوں کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہو گی۔ یہ وہی نعرے ہیں، جو عمران خان بھی لگاتے ہیں، جے ڈی پی نے صدارتی نظام کی جو بات کی ہے، یہ بھی یہ بے وقت کی راگنی ہے اور پاکستان کے موجودہ حالات میں اس نعرے کی پذیرائی کا کوئی امکان نہیں ۔

جیسا کہ شروع میںکہا گیا کہ افتخار محمد چوہدری کی طرف سے اپنی سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان غیر متوقع نہیں تھا۔ وہ پہلے بھی کسی سیاست دان سے کم نہیں تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے وہ سیاست دانوں کے براہ راست حریف نہں تھے، جب کہ اب وہ ان کے براہ راست حریف ہیں۔ مستزاد یہ کہ ان کا اپنا طبقہ یعنی وکلا بھی ان سے سخت ناخوش ہیں ، جو کسی زمانے میں یہ نعرہ لگاتے تھکتے نہیں تھے کہ 'چیف تیرے جانثار ، بے شمار بے شمار'۔ گنتی کے چندکارکنوں کے ساتھ نئی سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان ان کی سیاسی تنہائی کا غماز تھا۔ اس تناظر میں افتخار محمد چوہدری کی 'جے ڈی پی' کا مستقبل پرویزمشرف کی 'اے پی ایم ایل' سے مختلف نظر نہیں آتا ۔ شاعر نے کہا تھا ؎

اس لیے تو قتل ِعاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسف ِ بے کارواں ہو کر
Load Next Story