چادر واپس کردو

مظاہر قدرت کا مشاہدہ انسان کو اس کی ربوبیت کے بارے میں جاننے کے بہترین مواقعے فراہم کرتا ہے

ISLAMABAD:
مظاہر قدرت کا مشاہدہ انسان کو اس کی ربوبیت کے بارے میں جاننے کے بہترین مواقعے فراہم کرتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ انسان کو خدا نے جو آنکھیں اس کی تلاش اور شناخت کے لیے عطا کیں انھیں اس نے اپنی بربادی کے سامان پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اور کررہا ہے۔

ساری دنیا میں اب سڑکوں پر خون بہہ رہا ہے کون بہا رہا ہے کس کا خون ہے اس کا صرف ایک جواب ہے ''انسان''۔ کیونکہ پہلے ہم انسان ہیں، خدا نے بھی پہلے ہمیں اشرف المخلوقات کہا ہے اور ہمیں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، شیعہ یا اورکچھ نہیں کہا اور پھر کہا تو اہل ایمان کہا، ایمان کے سلسلے میں مختلف مذاہب کی فلاسفی الگ الگ ہے۔ میں کم تر ہوں اس میدان میں۔ میں مشاہدے کی بات کر رہا تھا۔ چیونٹی اکثر مشاہدے میں آتی ہے کیونکہ یہ خدا کی وہ مخلوق ہے جو انسان کے آس پاس رہتی ہے اور اپنی کارکردگی سے انسان کو متاثرکرتی ہے۔

میں ''چیونٹیالوجی'' کا ماہر بھی نہیں بس ان کو دیکھتا رہتا ہوں اور سمجھتا رہتا ہوں! ایک چیونٹی کسی کام کے لیے مقرر ہے، اب آپ اس کے راستے میں رکاوٹ پیدا کریں، یہ ہر طرح اسے عبورکرے گی، کوئی چیزکھڑی کردیں یہ اس کے اوپر چڑھ کر اسے عبور کرکے اپنے راستے پر روانہ ہو جائے گی، آپ اس کے راستے میں پانی ڈال دیں یہ لمبا چکرکاٹ کے، اور اگر ممکن ہوا تو اس میں سے گزر کر اپنا راستا بنا لے گی اور پھر اس طرف اس کام پر چل پڑے گی جو اسے کرنا ہے۔

آگ راستے میں رکھ دیں یہ اس سے دور ہٹ کر چاہے کہیں بھی جانا پڑے وہاں سے کراس کرکے پھر اس راستے پر چل پڑے گی جو اس نے شروع سے اختیار کر رکھا ہ،ے یہاں تک کہ میں نے اس کوشش میں چیونٹیوں کو جان دیتے دیکھا ہے مگر وہ اس راہ سے دستبردار نہیں ہوتی جو اس نے اختیارکی ہوئی ہے۔ان کا مرکز ہنگامی بنیادوں پر بلکہ ''فوجی بنیادوں'' پر کام کرتا ہے اور بیدار رہتا ہے۔ موسم کے اعتبار سے ان کے کام کی نوعیت بدلتی رہتی ہے۔

انھیں معلوم ہے کہ موسم سرما میں زمین کی ٹھنڈک انھیں، ان کے انڈوں اور ان کے ذخیرے کو غذا کے نقصان پہنچائے گی لہٰذا یہ موسم آنے سے پہلے محفوظ مقامات کی طرف روانہ ہوجاتی ہیں اور ان کے ساتھ اس تمام عرصے کے لیے جب انھیں باہر نہیں آنا یا کم سے کم آنا ہے کھانے پینے کا سارا سامان ہوتا ہے۔ یہ اپنے ایک سے زیادہ ٹھکانے محفوظ اور مخصوص رکھتی ہیں اور کسی بھی Emergency کی صورت میں ٹھکانہ بدل لیتی ہیں۔ یہ ایک بہت چھوٹی سی مخلوق ہے جس کی حرکات اور عمل کو Naked Eye سے دیکھنا بھی دشوار ہے اور اس کا کام کس قدر شاندار ہے۔

موبائل اور نہ جانے کیا کیا انسان نے ایجاد کر لیا ہے مگر کیا وہ چیونٹی کے Transmission کے نظام کا مقابلہ کرسکتا ہے، نہیں کرسکتا، انسان صرف نقل کرتا ہے قدرت کی اور اسے اپنا کارنامہ قرار دیتا ہے ایک دوسرے کو ایوارڈ دیتا ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ انسان نے اب تک ''اپنا'' کچھ بھی نہیں کیا، سب نقل ہے، بارود نہ ہو تو اسلحہ نہ ہو، بارود کہاں سے آیا، پانی نہ ہو تو فصل نہ ہو، پانی کہاں سے آیا، جانور نہ ہوں تو انسان کی غذا کہاں سے آئے، جانور کہاں سے آئے کون پیدا کرتا ہے، مٹی نہ ہو تو اینٹ نہیں بنتی پتھر نہ ہو تو سیمنٹ تیار نہیں ہوتا، مکان تیار نہیں ہوتے، راستے نہیں بنتے۔ تو انسان نے گندم سے لوہے تک کچھ بھی ''اپنا'' نہیں بنایا نہ بناسکتا ہے۔


مرکز نے زیر ہدایت رکھا ہوا ہے، ہدایت ہم سنتے نہیں ہیں اور اس لیے ہم میں وہ جفاکشی اور محنت نہیں ہے جس قوم نے اس فلسفے کو سمجھا ہے وہ ترقی کے راستے پر آگے بڑھ گئی ہے چین کو میں ایک ایسی قوم سمجھتا ہوں جس نے اس فلاسفی کو سمجھا ہے اور اس پر عمل کیا ہے، دنیا میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک سب سے زیادہ خوشحال بھی ہے، دنیا کا سب سے بڑا اور قیمتی ہیرا یا موتی حال ہی میں ایک چینی تاجر نے خریدا ہے اور وہ بھی اپنے گھر بیٹھ کر اور وہاں اس کی جگہ ایک لڑکی بولی دے رہی تھی جو کروڑوں ڈالر تھی اور اس لڑکی کے ہاتھ سے بار بار موبائل فون گر جاتا تھا جس سے وہ اس شخص سے رابطے میں تھی ۔

جس پر اس شخص نے کہا کہ تم کیوں گھبرا رہی ہو رقم تو میں دوں گا! یہ اس قوم کا حال ہے جو پچاس سال پہلے یا ساٹھ سال پہلے ایک غیر ترقی یافتہ قوم تھی اور افیون کے نشے میں ڈوبی ہوئی تھی مگر جس قوم کو ماؤزے تنگ، مل جائے وہ پھر سوتی نہیں ہے جاگتی ہے اور دن رات جاگتی ہے اور پھر منزل کو حاصل کرلیتی ہے۔

مسلسل جدوجہد منزل کا یقین اور دیانت ہی وہ اصول ہیں جو قوموں کی زندگیاں بدل دیتے ہیں۔ ان کے بغیر نہ تو منزل کا تعین ہوسکتا ہے نہ حصول۔ پروردگار عالم نے ہمارے اطراف پرندوں، جانوروں، کیڑے مکوڑوں کی صورت زندگی کا پیغام پھیلایا ہوا ہے، شہد کی مکھی سے لے کر چیونٹی تک ہر ایک تعمیر کے عمل میں مصروف ہے اور انسان اس کے برعکس قدرت کے کارخانے کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ہمارے ملک میں غیر ملکی شاہزادے ہمارے خوبصورت پرندے ''تلور'' کے دشمن ہیں اور ہمارے حکمران اپنے تعلقات قائم رکھنے کے لیے ان معصوم پرندوں کی جان سے کھیل رہے ہیں۔

حیران کن بیان ہے کہ ''تلور کے شکار پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی، اس سے عرب ملکوں سے پاکستان کے تعلقات متاثر ہوں گے'' تو جب یہ پرندہ ختم ہوجائے گا تب تعلقات کیسے قائم رکھے جائیں گے۔ شاید کوئی اور پرندہ یا جانور ان شاہزادوں کو پیش کردیا جائے گا کہ اس کا شکار کر لیجیے۔ آخر میں شاید انسانوں کی باری بھی آجائے کہ اس پر نشانہ لگا لیجیے مگر خدا کے واسطے تعلقات قائم رکھیے ہمارے ذاتی مفادات کا خیال رکھیے گا۔ افسوس ہے ایسی پالیسی پر جو ملک کے جانوروں اور پرندوں کی دشمنی پر قائم ہو جب کہ ان کی حفاظت اور پرداخت حکمرانوں کی ذمے داری ہے، مگر دوسری چیزوں کی طرح انھوں نے ان کا بھی سودا کر رکھا ہے اور اپنی ذات کے فائدوں کو سب سے اول قرار دے رکھا ہے۔

چیونٹی اپنے انڈوں کی حفاظت اپنی جان سے زیادہ کرتی ہے، ان پر حملہ ہو تو باقاعدہ لڑتی ہے اور ہم اپنے ملک میں انسان دشمنوں، عزت کے سوداگروں اور دشمنوں کوسزا نہیں دے سکے چاہے وہ ماڈل ٹاؤن کے ہوں یا فیصل آباد کے، اقلیتوں کے تحفظ کے نام نہاد دعوے کرنے والے قاتلوں کی سرپرستی کرتے ہیں،کوئی بھی ہوں ذمے دار حکومت ہے۔

مرکز ذمے دار ہے ہر ایسی کارروائی کا جو کہیں بھی پاکستان میں ہو اور اس کا ذمے دار کوئی بھی مکتب فکر ہو، معاشرے میں ہم آہنگی اور برداشت اب صرف سزا سے قائم ہوسکتی ہے اور اس عمل کو تیز کرنا ہوگا اور جلد مکمل کرنا ہوگا۔ طویل عدالتی نظام کے بجائے فوری انصاف اور عملدرآمد کے ادارے قائم کرنے پڑیں گے۔

لڑنا پڑے گا قوم دشمن، وطن دشمنوں سے مل کر لڑنا پڑے گا، بحیثیت ایک قوم، چیونٹی سے بھی سبق لے سکتے ہیں کوئی ہرج نہیں ہے۔ مقصد کی لگن اور عزم چاہیے تو سارے مسئلے حل ہوجائینگے۔ طوفان سے پہلے بند باندھنے کی عادت اختیار کرنی پڑیگی۔ لوٹ کھسوٹ بہت ہو گئی، اب کچھ نہیں ہے اس قوم کے پاس، خدا کے لیے اس کی چادر اسے واپس کردو۔
Load Next Story