قائد اعظم کا فلسفہ

یورپ اور امریکا میں سیکولر ریاستوں کے قیام سے لو گ لامذہب نہیں ہوئے۔

آفتاب احمد خانزادہ

VEHARI:
سقراط جب زہر کا پیالہ پی چکا تو اس کے شاگرد کریٹو نے پوچھا کہ اے استاد بتاکہ ہم تیری تجہیز و تکفین کن رسموں کے مطابق کریں ۔

میری تجہیز و تکفین سقراط ہنسا اور پھر سنجیدہ ہوکر کہنے لگا کریٹو میں نے تم لوگوں کو تمام عمر سمجھایا کہ لفظوں کو ان کے صحیح معنی میں استعمال کیا کرو مگر معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے کریٹو یاد رکھوکہ لفظوں کا غلط استعمال سب سے بڑا گناہ ہے۔ ہمارے ملک میں آج کل سیکولر ازم کی اصطلاح کے ساتھ یہ ہی نارواسلوک ہو رہا ہے ملائوں کا تو ذکر ہی کیا اچھے خاصے پڑھے لکھے بعض سیاسی لیڈر،کالم نویس، اینکر حضرات بھی لوگوں کو سیکولرازم سے بد گمان کرنے کی عرض سے اس کے معنی ومفہوم کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور یہ تاثر دینا چاہتے ہیں گویا سیکولر ازم جیسے چھوت کی بیماری ہے جس سے ہرشخص کو بچنا چاہیے۔

ان کے خیال میں سیکولر ازم ایک عفریتی نظام ہے جس سے بے دینی، دہریت اور بداخلاقی پھیلتی ہے اور فتنہ وفساد کے دروازے کھلتے ہیں لہٰذا سیکولر ازم خیالات کا سدباب نہایت ضروری ہے ورنہ اسلام اور پاکستان دونوں خطرے میں پڑجائینگے ۔ سیکولر ازم اس معاشرتی اور تعلیمی نظام کو کہتے ہیں جس کی اساس مذہب کے بجائے سائنس پر ہو اور جس میں ریاستی امور کی حد تک مذہب کی مداخلت کی گنجائش نہ ہو۔ یورپ میں سیکولر ازم اداروں اور فکروں کی نشوونما تیرہویں صدی میں شروع ہوگئی تھی۔ یہ بڑی تاریخ ساز صدی تھی اسی صدی میں اٹلی میں ابھرتے ہوئے سرمایہ داری نظام نے طاقت پکڑی اور سیکولر افکار مسلم اسپین اور سسلی کی راہ سے یورپ میں داخل ہوئے مگر تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جس مذہب کے عظیم دانشوروں الکندی، ابوبکر رازی، بو علی سینا، ابن ہیثم، خوارزمی، البیرونی اور ابن رشد نے مغرب کو سیکولر ازم خیالات اور نظریات کی تعلیم دی اسی مذہب کے نام لیوا آج سیکولر ازم پر اسلام دشمنی کی تہمت لگارہے ہیں۔ یورپ میں سائنسی تجربوں کا دور عربی تصانیف کے لاطینی ترجموں کے بعد شروع ہوا۔


1334 میں سیکولر ریاستوں کا نظریہ مارسی لیو نے پیش کیا اس نے مذہبی قوانین اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ شہریوں کے حقوق ان کے عقائدسے متعین نہیں ہوتے لہٰذا کسی شخص کو اس کے مذہب کی بناء پر سزا نہیں ملنی چاہیے۔ کلیسا کی قائم کردہ مذہبی عدالتوں پر یہ کھلا حملہ تھا کلیساکا زوال اب دور نہیں تھا یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا ظہور مارٹن لوتھر،کالون اور زونیگلی کی پوپ کے خلاف بغاوتیں ، برطانیہ میں ہنری ہشتم کا رومن کلیسا سے تصادم، سائنسی ایجادوں میں اضافہ،امریکا اور ہندوستان کی دریافت برطانیہ میں خانہ جنگی اور جمہوریت پسندوں کے ہاتھوں بادشاہ چارلس اول کا قتل کلیساکے زوال کا سبب بنے۔ اٹھارویں صدی یورپ میں صنعتی انقلاب، سیاسی انقلاب اور روشن خیالی کے عروج کی صدی تھی، والٹیر، روسو، مان تس کیو، اولباخ، ایلواتیس، دیدرو، کانٹ جیسے بے شمار مفکر پیداہوئے جنھوں نے معاشرتی اقدار و افکار کا رخ بدل دیا اور جب عوام کی انقلابی جدوجہد امریکا اور فرانس میں شروع ہوئی تو سیکولر خیالات نے عملی پیراہن پہن لیا۔

امریکا کی جنگ آزادی پر ان کے فکری نمایندوں جیمس میڈیسن ،تھامس جیفرسن، ٹام پین، بینجمن فرنیکلن اور برطانوی سیاسی مفکر جان لاک کا اثر تھا، انھوں نے امریکی ریپبلک کی بنیاد سیکولر اصولوں پر رکھی۔ امریکا کا نیا آئین جو1789ء میں منظور ہوا خالص سیکولر آئین تھا، یہ آئین آج بھی رائج ہے ۔ اس کے مطابق اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ ملک کے عوام ہیں آئین کی دفعہ6 کے مطابق ریاست کے کسی عہدے کے لیے مذہب کی کوئی شرط نہیں ۔ تاریخی اعتبار سے امریکا عہد جدید کی پہلی سیکولر ریاست ہے اس کے بعد یورپ کے قریب قریب ہر ملک میں معاشرے اور سیاست کی تشکیل سیکولر خطوط پر ہونے لگی۔

یورپ اور امریکا میں سیکولر ریاستوں کے قیام سے لو گ لامذہب نہیں ہوگئے نہ گرجا گھر ٹوٹے اور نہ پادریوں کی تبلیغی سرگرمیوں میں کوئی فرق آیا البتہ سیکولر ازم کے رواج پانے سے کلیسا کی قائم کی ہوئی خوف و دہشت کی فضا ختم ہوگئی اور پادری حضرات کو اپنا طرز عمل بدلنا پڑا۔ اب وہ لوگوں سے اخلاق و محبت سے پیش آنے پر مجبور ہوئے اور ڈرانے دھمکانے کے بجائے ان کو عقلی دلیلوں سے اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرنے لگے۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہب کو سیاسی اقتدار حاصل کرنے میں ایک ذریعہ بنا دیا گیا اس مقصد کے لیے مذہبی اور غیر سیاسی لوگ برابر کے شریک ہیں۔ اس سلسلے میں پہلے تو اس بات کو بار بار دہرایا جاتا ہے کہ پاکستان کا قیام مذہب کے نام پر عمل میں آیا اس لیے اسے ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے ۔ آزادی کے موقعے پر قائداعظم نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کیا ان کی 11 اگست 1947 کی تقریر ان بنیادی اصولوں کا بھرپور احاطہ کرتی ہے جو پاکستان کی تخلیق کا محرک بنی۔ اسے جدوجہد آزادی کا نچوڑ بھی قرار دیا جا سکتا ہے ۔

''آپ دیکھ ہی لیں گے کہ ایک وقت ایسا بھی آئیگا جب ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں ہوگا مذہبی حوالے سے نہیں کیونکہ یہ تو ہر فرد کے ذاتی اعتقادات کا معاملہ ہے بلکہ صرف سیاسی اعتبار سے اور وہ بھی بطور ایک ہی ریاست کے شہریوں کی حیثیت سے۔ '' آج جاہلیت پسندی کے اس ماحول میں یہ الفاظ کسی مغرب زدہ کے خیالات قرار دے کر مسترد کیے جاسکتے تھے لیکن یہ تو بانی پاکستان کے اپنے الفاظ ہیں ۔ قائد اعظم کے فلسفے کی سچائی کو بعض تنگ نظر قدامت پرست انتہا پسند اور رجعت پسندوں نے کہیں گم کردیا ہے اس لیے آج ہمارا حال برا ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستانی اسی راست گو، اصول پرست اور کھرے مسٹر جناح کے فکرو عمل کی طرف لوٹ جائیں اور پاکستان کو خوشحال ، آزاد ، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ ملک میں تبدیل کردیں ۔
Load Next Story